دستور کا تحفظ ہی ملک کا تحفظ ہے
دستور کا تخفظ ہی ہمیں اس بے یقینی سے نکال سکتا ہے اور دستور پر عمل ہی منزل سے ہمکنار کرسکتا ہے۔
نوجوان صحافی احمد نورانی کے بارے میں مختلف ذرایع سے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ صرف اور صرف رزقِ حلال کھانے والا انتہائی دیانتدار، باضمیر، دلیر اور بے وسیلہ آدمی ہے،گھریلوذمّے داریاں بے شمار ہیں اور مالی وسائل محدود ، مگر چادر سے بڑھ کر پاؤں پھیلانے کا عادی نہیں۔ خوش بخت ہے کہ کائناتوں کے خالق و مالک نے اسے لقمۂ تر کی ہوس سے محفوظ رکھّا ہے، اسی لیے تحریر موثربھی ہے جاندار بھی اور مقبول بھی۔
احمد کی عیادت کے لیے گیا تو اسے دیکھکر دل بہت مغموم ہوا، چوٹوں کے باعث بولنے سے قاصر تھا۔ مجروح قلمکار کے سر پر بندھی ہوئی پٹیاں دیکھ کر یوں لگا کہ یہ احمد نورانی نہیں اس ملک کی صحافت زخمی پڑی ہے جس پر چاقوؤں اور لوہے کی سلاخوں کے وار کیے گئے ہیں۔ یوں محسوس ہوا کہ بستر پر احمد نہیں ملک کا دستور مجروح حالت میں پڑا ہواہے۔
مجھے اندورن اور بیرونِ ملک سے بہت سی میلز آئیں کہ آپ نے ابوظہبی میں ورلڈ اسکلز کی جنرل اسمبلی میں ستّر ملکوں کے نمایندوں کے سامنے ملک کا تعارف کراتے ہوئے کہا تھا کہ''پاکستان ایک جمہوری ملک ہے جہاں میڈیا آزاد ہے'' کہاں ہے میڈیا کی آزادی؟ پاکستان میں توضمیر کے مطابق لکھنا اور بولنا ناممکن بنادیا گیا ہے۔ جو ضمیر کی آوازبلند کرے اسے چاقوؤں اور لوہے کی راڈوں کے وار سہنا پڑتے ہیں اور بعض اوقات جان دیکر آزادی کی قیمت چکانا پڑتی ہے۔کہاں ہے میڈیا کی وہ آزادی جس کا آپ نے دعویٰ کیاتھا! میں کسی کو بھی جواب نہ دے سکا کہ میرے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا، شرمندگی نے قوتِ گویائی چھین لی تھی۔
حال ہی میں کچھ سینئر ایڈیٹرز نے بتایا ہے کہ جو اینکر یا صحافی ٹی وی پر معتوب خاندان یعنی سابق وزیرِاعظم اور ان کے بچّوں کو گالی نہ دے یا ان کے بارے میں نرم رویہ رکھے اس چینل کے مالکان کو پیغام پہنچ جاتا ہے کہ اسے فارغ کریں یا مجبور کریں کہ وہ چال چلن بدلے۔
سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ ایسا شاید پہلی بار ہوا ہے کہ ایک ساتھی قلمکار پر حملہ ہوا ہے مگر بہت سے اخبارات اور چینلوں نے اس کا ذکر تک نہیں کیا۔ بہت سے چینلوں اور صحافیوں نے خوف کے باعث حملے کی مذّمت تک نہیں کی اور اپنے ساتھی کے ساتھ اظہارِ ہمدردی سے گریز کیا ہے، زیادہ تر ساتھی لاتعلّق ہوگئے ہیں یعنی ؎حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا۔
لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر ۔ تو کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ کاروانِ صحافت کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا ہے؟ ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔ احمد نورانی جیسے ایماندار اور محبِ وطن صحافی اس ملک کا سرمایہ ہیں، اس سرمائے کی حفاظت ریاست کی ذمّے داری ہے، جن بدبختوں نے اس سرمائے پروار کرکے زخم لگائے ہیں انھوں نے ریاستِ پاکستان کو مجروح کرنے کی کوشش کی ہے، احمد پر حملہ کرنے والے اس ملک کے دشمن ہیں انھیں بے نقاب کرکے نشانِ عبرت بنایا جانا چاہیے۔
ہر درد مند پاکستانی کا چہرہ سوالیہ نشان بنا ہوا ہے،ہر باشعور شہری پوچھ رہا ہے کہ یہ کس کی نحوست کا سایہ ہے یہ میرے گھر کو کس کی نظر لگی ہے کہ گل و گلزار پر آلودگی چھاگئی ہے۔ فضاء پر سموگ طاری ہے اور ملک کے سیاسی منظرنامے پر اس سے بھی زیادہ خطرناک اور خوفناک''بے یقینی کا سموگ'' ہے جو کسی بھی قوم کی تباہی کے لیے سب سے خطرناک ہے۔
اقبالؒ نے درست کہا ہے ؎ غلامی سے ہے بدتر بے یقینی۔ چند ماہ پہلے تک ہر چیز واضح تھی ، سیاسی ٹائم فریم عوام کی نظروں کے سامنے تھا کہ 2018 میں منتخب حکومت کی معیاد ختم ہوگی اور اس کے بعد فیصلہ عوام کی عدالت میں ہوگا۔ اگر عوام سمجھتے کہ موجودہ حکومت کی کارکردگی خراب ہے اور توقعات کے مطابق نہیں تو وہ اس پارٹی کو مسترد کرکے اعتماد کا ہار کسی اور پارٹی کے گلے میں ڈال دیتے۔ امن و امان بہتر ہورہا تھا، معیشت صحیح ڈگر پر چل نکلی تھی، بیرونی سرمایہ کار کا اعتماد بحال ہونے سے سرمایہ آرہا تھا، CPECکے منصوبوں پر عملدرآمد شروع ہوچکا تھا، اسٹاک ایکسچینج بلندیوں پر تھا۔ سہانے منظر کچھ کچھ دکھائی دینے لگے تھے، گھر کے آنگن میں بہاروں کی چاپ سنائی دینے لگی تھی،خوشی اور خوشحالی کے خواب عملی تعبیر میں ڈھلتے ہوئے نظر آنے لگے تھے۔
کبھی کوئی بہت باخبر شخص ملتا تو سرگوشی ضرور کرتا کہ غیروں کو امن اور خوشحالی کی جانب بڑھتا ہوا پاکستان ایک آنکھ نہیں بھاتا میں پوچھتا ''وہ کیا کرسکتے ہیں ؟''جواب ملتا ''وہ معاشی ترقّی کی تمام حرکیات سے بخوبی آگاہ ہیں، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ معاشی ترقّی کے لیے سیاسی استحکام شرطِ اوّل ہے اس لیے وہ سب سے پہلے سیاسی استحکام پر وار کریں گے اور پھر ان کا نشانہ CPEC ہوگا''۔ ناچیز پریشان تو ہوتا مگر پھر کہتا کہ ''سیاسی عدمِ استحکام کی کوئی علامت نظر نہیں آتی، یہ کس طرح پیدا کیا جائیگا۔
مختلف صوبوں اور مرکز میں حکومتی پارٹیوں کو بڑی واضح اکثریت حاصل ہے، عدمِ اعتماد کا کوئی امکان نہیں، فوجی قیادت میں آئین توڑنے کی کوئی خواہش نظر نہیں آتی، پھر اس سیاسی استحکام کو کیسے ختم کیا جاسکتا ہے؟''۔ باخبر حضرات بتاتے کہ ''پہلے استحکام کے قلعے کا سب سے اہم ستون گرادیا جائیگا جسکے نتیجے میں قلعہ ایک لرزتے ہوئے ڈھانچے میں تبدیل ہوجائیگا اور ملک بے یقینی کی تاریکیوں میں گھِر جائیگا، پھر فوج اور عوام کا تصادم کرایا جائیگا اور آخر میں اس کے ایٹمی اثاثوں کو نشانہ بنایا جائیگا''۔ میںپریشان ہوکر پوچھتا کہ''میرے ملک کے بارے میں، میری مادرِ وطن کے بارے میںایسے مکروہ عزائم کس کے ہیں؟''
''بیرونی دشمن بھی ہیں اور ان کے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے ملک کے اندر سے بھی کچھ لوگ میسر آسکتے ہیں کچھ ناسمجھی میں استعمال ہوجاتے ہیںاور کچھ سب کچھ جانتے ہوئے آلۂ کار بنتے ہیں''۔
دنیا کے کونے کونے سے فون آتے ہیں اور ای میلز بھی مختلف ممالک میںرہنے والے پڑھے لکھے پاکستانی پریشانی، دکھ اور تشویش میں مبتلا ہوکر پوچھتے ہیں کہ ''ہمارے وطن کے ساتھ یہ کھلواڑ کون کرررہا ہے؟ اسے رولز کے مطابق کیوں نہیں چلنے دیا جاتا؟ دستور کا احترام کیوں نہیں کیا جاتا؟'' اور جب وہ یہ پوچھتے ہیںکہ چند مہینوں میں ہی وطنِ عزیزکو عدمِ استحکام اور بے یقینی کی دلدل میں دھکیل دیا گیا ہے ، یہ کون کررہا ہے؟ تو میں خاموش ہوجاتا ہوں۔ میرے پاس اس کا کوئی واضح جواب نہیں ہے ۔ اس طرح کے بھی فون اور خط آتے ہیں کہ اگر کچھ لوگوں کو ایک چہرہ ناپسند تھا تو اسے ہٹا دیا گیا ہے۔
نیا وزیرِاعظم بن گیا ہے جو انتہائی محنتی، ایماندار، سادہ اور ملک سے محبت کرنے والا ہے، اُسے تو چلنے دیا جائے اور آئین کے مطابق اگلے سال الیکشن کرادیے جائیں، حکومت بنانے کا اختیار عوام سے مت چھینا جائے۔ بیرونِ ملک سے بہت سے پاکستانیوں نے روتے ہوئے کہا کہ ''ہمارے ملک کے طاقتور ادارے آخر کیا چاہتے ہیں ،وہ آئین کی خلاف ورزی کرکے پھر پرانے ناکام اور گھسے پٹے تجربے کیوں کرنا چاہتے ہیں؟ جہاں ہم رہتے ہیں اِن ملکوں میں توایسا نہیںہوتا۔ حکومتیں معیاد پوری کرتی ہیں، پالیسیوں میں تسلسل ہے اور اسی لیے ترقی اور خوشحالی ہے۔
ملک کے تمام صاحبانِ دانش اور اہلِ قلم کا فرض ہے کہ ہر ادارے کو آئین شکنی سے روکیں اور قلم سے حقائق کی نشاندہی کریں''۔ ملک سے محبت کرنے والے یہ پاکستانی ٹھیک کہتے ہیں 1971 کیطرح بعد میں نوحے لکھنے سے بہترہے کہ دانشور ، اہلِ قلم اور صاحبانِ فکر اِسوقت اپنا کردار ادا کریں، طریقہ ایک ہی ہے کہ دستور کے تحفظ کے لیے سب متحد ہوجائیں ۔
اس سے بڑی احمقانہ بات کوئی نہیں ہوسکتی کہ بلوچستان یا دوسرے صوبوں کو پاکستان کے ساتھ آئین نے نہیں بندوق اور توپ نے جوڑا ہوا ہے، یہ غلط اورحقائق کے منافی ہے ۔ تمام اکائیوں کو صرف اور صرف دستور نے جوڑا ہوا ہے، دستور ہی ملک کے اتحّاد کی ضمانت ہے۔ لہٰذا ہر پاکستانی کو دستور کے تحفظ کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے۔ دستور کا تخفظ ہی ہمیں اس بے یقینی سے نکال سکتا ہے اور دستور پر عمل ہی منزل سے ہمکنار کرسکتا ہے۔ آخر کچھ تو ہے جو قومی اسمبلی کے اسپیکر کو یہ کہنا پڑا کہ کچھ لوگوں نے شیروانیاں اور سُوٹ سلوا رکھّے ہیں، سینیٹ کے چیئرمین کئی بار کہہ چکے ہیں کہ ادارے اپنی آئینی حدود پارنہ کریں، وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی کو باربار کہنا پڑرہا ہے کہ آئین میں ٹیکنوکریٹ حکومت کی کوئی گنجائش نہیں۔
اس کا واضح مطلب ہے کہ کہیں ایسا کرنے کی تیاری یا ارادہ ہے تو ایسی تیاری یا ارادہ کیوں ہے جس کی آئین میں اجازت نہیں؟ آئین کی خلاف ورزی ہمارے ہاں اتنی سہل کیوں ہے؟ آئین کی پاسداری کرنے کی ذمّے دار عدالتیں کیوں خاموش ہیں؟۔ ملک کے مسائل اور دشمنوں کے مکروہ عزائم کی طرف دیکھیں تو دل دہل جاتا ہے اور دوسری طرف میڈیا کے لگائے ہوئے تماشے پر نظر پڑتی ہے تو انتہائی دکھ ہوتاہے کہ قوم کو اصل مسائل کے بارے میں Educateاور Sensitiseکر نے کے بجائے میڈیا نے کیا ترجیحات بنارکھّی ہیں۔ اب بھی قوم کو اس بے یقینی کے گرداب سے نکالا جاسکتا ہے۔
اس سلسلے میں افواج کے سپریم کمانڈر اور ریاستِ پاکستان کے سربراہ کی حیثیّت سے صدرِ مملکت اجلاس بلائیں ایک طرف تینوں افواج کے کمانڈرز اور آئی ایس آئی کے سربراہ ہوں اور دوسرے طرف قومی اسمبلی کے قائد (وزیرِاعظم) ، سینیٹ کے چیئرمین ، قومی اسمبلی کے اسپیکر اور وزیرِداخلہ ہوں، اداروں سے متعلق اپنی شکایات اور تحفظّات کا کھل کر اظہار کریں مگرنیک نیّتی سے اس کا ازالہ کرنے کا عہد کرکے اٹھیں، سیاسی قیادت کرپٹ اور بدکردار افراد کا پارلیمنٹ میں داخلہ روکے اور عسکری قیادت منتخب حکومت کو سپورٹ کرے۔ عسکری، عدالتی اور سیاسی قیادت سے پھر التماس ہے کہ خدا کے لیے ، ملک کی خاطر آئین کے احترام کا صدقِ دل سے عہد کریںاور اس کی روح کیمطابق اس پر عملدرآمد کریں۔ یاد رکھیں!قائدؒ کے پاکستان کی بقاء آپکی اناؤں کی آبیاری میں نہیں آئین کی پاسداری میں ہے۔
نوٹ:مفکّرِ پاکستان حضرت علامہ اقبالؒ کے یومِ ولادت کی چھٹی ختم کرنا مسلم لیگی حکومت کے دامن پر سیاہ دھبہ تھا۔ وزیرِاعظم صاحب سے گزارش ہے کہ وہ یہ دھبہ دھو دیں اور چھٹی بحال کردیں۔