روداد ریل کی
فضل الرحمٰن قاضی نے اپنی کتاب میں ریلوے کے محکمے کے اچھے اور برے نظام پر روشنی ڈالی ہے
فضل الرحمٰن قاضی کا ریلوے سے تعلق ان کے سن شعور سے رہا ہے۔ ان کے والد قاضی فضل حق 1920ء میں پٹیالہ سے تلاش روزگار کے سلسلے میں کوئٹہ آئے جہاں ان کے کچھ عزیزواقارب مقیم تھے۔ یہاں انھوں نے ریلوے میں ملازمت اختیار کی اور ریٹائر ہونے تک یہیں رہے۔ فضل الرحمٰن بڑے ہوئے تو انھیں بھی اسی محکمے میں ملازمت مل گئی۔ انھوں نے چوبیس سال یہاں گزارے پھر ریلوے کو خیرآباد کہہ دیا۔ اس طویل عرصے کی وابستگی اور پھر اپنے والد کی رفاقت کی وجہ سے انھیں ریلوے کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا۔ پھرجوکچھ انھوں نے دیکھا اور سنا وہ ''روداد ریل کی'' کے عنوان سے ایک کتاب میں لکھ دیا۔
یہ کتاب ''ریلوے کے آغاز، حائل مشکلات، ارتقائی منازل اور برصغیر میں ریلوے کے نظام کے اجرا اور پھر وطن عزیز میں اس کے حشر ونشر کے بارے میں دلچسپ، مضحکہ خیز اور حیرت انگیز حالات اور واقعات پر مبنی ہے۔''
ریلوے کی ابتدا انگلستان سے ہوئی جہاں بھاپ سے چلنے والا انجن ایجاد ہوا اور لوہے کی پٹریاں بنائی گئیں اور بھاپ کی قوت سے ریلوے کا نظام قائم کیا گیا۔ ''ہندوستان میں ریل کے پہیے کو حرکت میں لانے کی ابتدا 1853ء میں بمبئی سے ہوئی جس کے بعد برصغیر میں ریلوے کے نظام کی ایک وسیع و عریض عمارت استوار ہوئی اور پھر بے شمار مشکلات، جن میں دریاؤں کے چوڑے پاٹ پارکرنا، پہاڑوں میں سرنگیں کھودنا، سطح مرتفع عبورکرنا، بار برداری کے اونٹ، خچر،گدھوں اورگھوڑوں کے مشقت طلب کام کے بعد 1870ء تک سات ہزار چھ سو اسی کلومیٹر لائن بچھا لی گئی اور ہندوستان کے تقریباً تمام بڑے چھوٹے شہروں کو ریل کے ذریعے ملادیا گیا۔''
قاضی صاحب بتاتے ہیں کہ مئی 1861ء کا ایک یادگار دن وہ تھا جب کراچی اورکوٹری کے درمیان 105 میل کا راستہ طے کرتے ہوئے پہلی مسافر ریل گاڑی نے سفر مکمل کیا۔ اس کے بعد اپریل 1865ء میں لاہور سے ملتان ریلوے لائن کھول دی گئی۔ لکھتے ہیں ''دراصل ہندوستان میں ریلوے لائنوں کے بچھانے سے انگریزوں کا مقصد ہندوستان کے لیے سفری سہولتیں فراہم کرنا نہ تھا۔ ایک طرف ریلوے استعماری طاقت کا مظہر تھی تو دوسری جانب خام مال بذریعہ ریل بندرگاہوں تک پہنچا کر انگلستان کے صنعتی اداروں کی مانگ پوری کرنا تھا ۔بلوچستان اور صوبہ سرحد میں انگریزوں نے دفاعی مقاصد کے لیے ریلوے لائنوں کا جال بچھایا۔''
فضل الرحمٰن قاضی نے اپنی کتاب میں ریلوے کے محکمے کے اچھے اور برے نظام پر روشنی ڈالی ہے اور عام دلچسپی کی حامل معلومات بہم پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس محکمے کے بارے میں تفصیلی بیان کے لیے کئی جلدوں پر مشتمل کتابوں کا ایک ضخیم مجموعہ درکار ہے۔
وہ لکھتے ہیں ''ریلوے کے چھوٹے بڑے تمام شعبوں میں کلرک براجمان نظر آتا ہے کہ لکھت پڑھت کے حوالے سے یہ ہر شعبے کا اٹوٹ انگ ہے۔ ریلوے ملازمین کے چار گریڈ تھے۔ میرا شمار گریڈ تین میں تھا۔ اس سفید پوش طبقے کو درجہ چہارم کے ملازمین کی طرف سے تو تکریم حاصل تھی مگر عموماً یہ طبقہ ہیڈکلرک، آفس سپرنٹنڈنٹ اور افسران بالا کے عتاب میں رہتا تھا۔
یہی صورتحال یقینا اب بھی ہوگی۔ ہم لوگ ابھی تک طبقاتی افراط و تفریط کی حدود سے نکل نہیں پائے ہیں۔ ڈویژنل آفس میں تمام شعبوں میں ہیڈ کلرک اپنی اور اپنے ماتحت عملے کی کارکردگی کے لیے اپنے افسروں کو جواب دہ تھے۔ تھوڑی سی بھی غلطی ہوتی تو افسر ہیڈ کلرک پر اپنا غصہ اتارتا۔ ہیڈکلرک اپنی خفت کا بوجھ بے چارے کلرک پر ڈال دیتا، کلرک اپنی بے عزتی کی امانت چپراسی کے سپرد کرتا اور چپراسی اسی ایمانداری سے یہ امانت گالم گلوچ اور مارپیٹ کی صورت میں اپنی جورو کے سپرد کرتا اور آخر میں بلا وجہ غریب بچے کی شامت آجاتی۔ ہمارا ہیڈ کلرک بے چارہ نالائق ہونے کے سبب اکثر و بیشتر اپنے افسر کی گھرکیوں کا نشانہ بنتا رہتا تھا۔ ایک دن افسر نے بھنا کر اس سے کہا، ''تم کو کس الو کے پٹھے نے بھرتی کیا تھا؟'' ہیڈ کلرک نے بڑی عاجزی سے سر جھکا کر عرض کیا، ''سر! آپ نے۔''
فضل الرحمٰن کے ابا جی کے ہیڈ کلرک لالہ امرناتھ ایک سیدھے سادے انسان تھے۔ ایک دن ان کے ڈائریکٹر نے ان سے ڈائریکٹری لانے کو کہا۔ لالہ جی بھاگم بھاگ صاحب کے بنگلے پر پہنچے اور ان کی بیگم کو یہ کہہ کر ساتھ لے آئے کہ آپ کو صاحب نے یاد کیا ہے۔ صاحب نے جب بیگم کو دیکھا تو لالہ امرناتھ پر برس پڑے ''یو فول! ڈائریکٹری ٹیلی فون کی کتاب مانگتا ہے۔ بیگم صاحب کا ہونا نہیں مانگتا۔''
قاضی صاحب ایک اور ہیڈ کلرک کا ذکرکرتے ہیں۔ یہ باریش، ہر وقت باوضو رہنے والے حاجی صاحب رشوت کی کمائی کو ہاتھ نہیں لگاتے تھے۔ مرتشی سے کہتے، میزکی دراز میں ڈال دو۔ قاضی صاحب لکھتے ہیں ''میرے ایک شناسا ایک مرتبہ آگ بجھانے والی گاڑی کا ٹینڈر ڈالنے ان کے پاس گئے۔ یہ افسر مجاز تھے۔ ان سے ملے اور تفصیل سے اپنی گاڑی کی خوبیاں بیان کرتے رہے۔ حاجی صاحب کرسی پر بیٹھے کروٹیں بدلتے رہے، بار بار گھڑی دیکھتے، تسبیح گھماتے۔ بالآخر انھوں نے گفتگو کا سلسلہ ختم کرتے ہوئے فیصلہ کن انداز میں کہا، ''میاں! ایک گھنٹے سے آپ میرا اور اپنا وقت ضایع کررہے ہیں۔
میری نماز کا وقت جا رہا ہے۔ سیدھے سیدھے بتائیں، اس سودے میں میرا کمیشن کیا ہوگا؟'' میرے دوست کو تعجب ہوا۔ حاجی صاحب کے ماتھے پر محراب اور چہرے پر ناف کو چھوتی ہوئی ریش دراز پر نگاہ ڈالتے ہوئے اس نے کہا، حاجی صاحب! یہ بات میں شروع ہی میں بتا دیتا لیکن میں جھجک رہا تھا، جرأت نہیں ہو رہی تھی۔ حاجی صاحب نے اپنی توند پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ میاں! شاید آپ کو میری لمبی داڑھی کے نیچے یہ پاپی پیٹ نظر نہیں آیا۔ پھر دس منٹ میں سودا پکا ہوگیا۔ راشی اور مرتشی نے اکٹھے ظہرکی نماز ادا کی۔''
فضل الرحمٰن قاضی نے ریلوے کے محکمے میں ماضی کے اچھے اقدام کا بھی ذکرکیا ہے اور اس پر افسوس کا بھی اظہار کیا ہے کہ اب ان کا فقدان ہے۔ وہ لکھتے ہیں ''یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب ریلوے ایک نفع بخش ادارہ تھا۔ ریلوے ملازمین کی فلاح و بہبود کا بہت خیال رکھا جاتا تھا۔ چنانچہ ملازمین بھی نہایت دل جمعی اور احسان مندی کے احساس سے اپنے فرائض ادا کرتے تھے۔ ریلوے کے ہر ڈویژن میں ویلفیئر انسپکٹر ہوتے تھے۔ یہ انسپکٹر اسٹیشنوں کا دورہ کرتے تھے اور ملازمین سے مل کر ان کی شکایات نوٹ کرتے اور متعلقہ افسر کو مطلع کرکے شکایت کا ازالہ کرواتے تھے۔ ریلوے ملازمین، ان کے بچوں اور زیر کفالت اعزہ و اقربا کی بیماری کے علاج کے لیے ہر ڈویژن میں اسپتال ہوا کرتے تھے۔
انھیں اسپتال کی ڈسپنسری سے دوائیں مل جاتی تھیں۔ اس کے علاوہ زچہ بچہ اورکمیونٹی صحت اور بہبود کے سینٹر اور لیڈی ہیلتھ وزیٹرز بھی تھیں۔ کوئٹہ میں ٹی بی کے علاج کے لیے ایک بڑا سینی ٹوریم تھا جو اب ختم کردیا گیا ہے۔ سال میں ایک دفعہ ہفتہ صحت و صفائی منایا جاتا تھا جس میں ریلوے ملازمین پر صحت و صفائی کی اہمیت اجاگر کی جاتی تھی۔'' اس کے ساتھ ساتھ ریلوے میں کھیلوں کے فروغ کے لیے خاطر خواہ قدم اٹھائے جاتے تھے۔ کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی۔ انھیں ان کی تعلیمی قابلیت کے مطابق ریلوے میں ملازمت پر رکھ لیا جاتا تھا ۔
ان پڑھ کھلاڑیوں کا نام چپراسی اور گینگ مین (ریلوے مزدور جو پٹری کی دیکھ بلا کرتے تھے) میں لکھ دیا جاتا تھا۔ قاضی صاحب بتاتے ہیں کہ 100میٹر دوڑکے مشہور قومی چیمپئن افضل اعوان کا نام، جو بلوچستان کے معروف تاجر ہیں، گینگ مین کی فہرست میں لکھا ہوا تھا اور وہ ہر ماہ اپنی ساٹھ روپیہ تنخواہ وصول کرنے کے لیے ریلوے کے دفتر خزانہ اپنی شاندار کیڈلک کار میں بیٹھ کر جایا کرتے تھے، پھر آکر گداگروں میں بانٹ دیا کرتے تھے۔ ریلوے کی اسکاؤٹنگ، ریڈ کراس اور شہری دفاع کی تنظیمیں پوری طرح فعال تھیں۔