سیاست کا آئن اسٹائن
آصف زرداری نے میاں نواز شریف سے ملنے اور بات چیت کرنے کی اُن کی پیشکش ٹھکرادی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کو میاں نواز شریف سے گلہ ہے کہ وہ جب مصیبت میں ہوتے ہیں تو دوسروں کے پاؤں پڑجاتے ہیں لیکن جب چین اور آرام سے ہوتے ہیں توگریباں پکڑلیتے ہیں۔ حالیہ دنوں میںخواجہ آصف نے ایک ٹی وی انٹرویومیں یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ آصف زرداری نے میاں نواز شریف سے ملنے اور بات چیت کرنے کی اُن کی پیشکش ٹھکرادی ہے۔ بظاہر اس کے پیچھے زرداری صاحب کوشاید اُس بات کا غم وغصہ ہے جو آج سے تقریباً ٰڈیڑھ برس پہلے اُن کی اُسی طرح کی ایک کوشش کے جواب میں میاں صاحب نے اُن سے ملنے سے انکار کردیا تھا جب زرداری صاحب اور اُن کی پارٹی رینجرز کی کارروائیوں کے سبب مشکل حالات سے دوچار تھی۔
یہ اُنہی دنوں کی بات ہے جب جنرل راحیل شریف پاک آرمی کے سربراہ تھے اور نیشنل ایکشن پروگرام کے تحت کراچی اور سارے ملک میں دہشتگردوں اور اُن کے سہولت کاروں کے خلاف ہماری فورسز مصروف عمل تھیں اور اسی دوران اسلام آباد ایئر پورٹ سے ایان علی پانچ لاکھ ڈالرملک سے باہر لے جاتے ہوئے گرفتار ہوجاتی ہیں اور کراچی میں ڈاکٹر عاصم حسین اپنے خلاف دہشتگردوں کو سہولت دینے اور مبینہ مالی بدعنوانیوں کے سنگین الزامات کے تحت رینجرز کے ہاتھوں گرفتار ہوجاتے ہیں۔ سندھ لینڈ ڈپارٹمنٹ کے دفاتر میں چھاپے بھی پڑتے ہیں اور وہاں سے کئی فائلیں بھی اُٹھالی جاتی ہیں۔
سندھ حکومت کے اُس وقت کے وزیر اعلیٰ سخت پریشانی کے عالم میں رینجرزکے خلاف بیانات بھی دیتے ہیں اور انھیں صوبہ سندھ میں کارروائیوں کے اجازت دینے سے بھی انکار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور اُس کے سربراہ سب کچھ جانتے ہوئے کہ یہ سب کچھ کس کی ایماء پر ہورہاہے وہ اپناغم وغصہ وفاقی حکومت اور اُس کے وزیر داخلہ کے خلاف تند وتیز بیانات کے ذریعے اُتارتے ہیں۔ اِسی دوران آصف زرداری ایک بار جوش خطابت میں حکومت کے ساتھ ساتھ ملک کے سیکیورٹی فورسز کو بھی لپیٹ لیتے ہیںاور اُن کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کی دھمکیاں بھی دے ڈالتے ہیں۔
زرداری صاحب کو معلوم تھا کہ ایسی دھمکیاں دے کر وہ پاکستان میں آزادنہ گھوم پھر نہیں سکیں گے اور انھیں یقیناً جلاوطنی اختیار کرنی پڑے گی، لیکن اس سے پہلے وہ وزیراعظم محمد نوا ز شریف سے ملنے کی خواہش کرتے ہیں جو میاں صاحب کی طرف سے حفظ ماتقدم کے طور پر مستر کردی جاتی ہے۔کچھ تجزیہ نگاروں کو خیال ہے کہ میاں صاحب اگر اُس وقت زرداری صاحب سے مل کر انھیں کسی کے عتاب سے بچا لینے کے لیے کچھ عہدوپیمان کرلیتے تو جو مصیبت آج اُن کے سرپر آئی ہوئی ہے وہ شاید دوسال پہلے ہی آجاتی۔ پھر کیا ہوا آصف زرداری اپنا بوریابستر لپیٹ کر جلاوطنی کے دنوں کے لیے پہلے سے بنائے گئے دبئی میں اپنے محل میں چلے جاتے ہیں اور پھر اُس وقت تک نہیں آتے جب تک راحیل شریف اپنے عہدے سے سبکدوش نہیں ہوجاتے۔
آج میاں صاحب کو بھی کچھ ایسے ہی حالات اور گردش ایام کاسامنا ہے اوروہ وقت کی بے اعتنائی اور بے مروتی سے نبرد آزما ہیں۔ ایسے میں آصف زرداری کا رد عمل خلاف توقع بھی نہیں ہے۔ اُن کی جگہ کوئی اور سیاستدان بھی ہوتا تو یہی کچھ کرتا۔آج ہم سب کو معلوم ہے کہ میاں صاحب اپنے کچھ کردہ اور ناکردہ گناہوں کے سبب پاکستان میں اقتدارواختیار کی حامل اصل قوتوںکے ہتھے چڑھ گئے ہیں اور اب انھیں سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی اور بچا نہیںسکتا۔ اس سلسلے جو بھی شخص اُن کی مدد اور حمایت کے لیے آگے بڑھے گا وہ بے چارہ خود بھی لپیٹ میں آ جائے گا۔لہذا زرداری آج جو کچھ کررہے ہیں وہ سیاست کے ساتھ ساتھ اپنے بچاؤ کے حربے کے طور پر بھی کررہے ہیں۔وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ میاں صاحب آج جن مبینہ گناہوں کی پاداش میں عدالتوں کاسامنا کررہے ہیں اُن سے بڑے بڑے گناہوں کا ارتکاب تو وہ خود کرچکے ہیں۔
ماضی قریب میں خود اُن پر کیاکیا الزامات نہیں لگائے گئے اور کیاکیا سزائیں انھیں نہیں دی گئیں۔ وہ گیارہ سال قید بھی گزار چکے ہیں اور اِس ملک ِکے صدر مملکت کے عہدے کی مراعات اور لوازمات سے لطف اندوز بھی ہوچکے ہیں۔ وہ اقتدار سے سیدھے جیل اور جیل سے سیدھے وزارت کے مزے بھی چکھ چکے ہیں۔ سیاست کے ایسے ہی پیچ و خم نے انھیں اِس ملک کا سب سے ذہین اورچالاک سیاستداں بنادیا ہے۔ وہ پاکستان کے سیاستدانوں پر مشتمل موجودہ سیاسی کھیپ میں سب سے زیادہ ہشیار اور عقل مند سیاستدان کے طور پر سمجھے جانے لگے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ لوگ انھیں اب سیاست کا آئن اسٹائن بھی کہنے لگے ہیں۔
میاں صاحب سے نہ ملنے کا عندیہ دیکر وہ دراصل خود کو بھی آنے والے دنوں کے خطرات سے بچانے کی کوشش کررہے ہیں۔انھیں معلوم ہے کہ آج اگر احتساب کا شکنجہ اُن کے اور اُن کے ساتھوں کے لیے کچھ ڈھیلا کردیا گیا ہے تو اس میں بھی ایسا کرنے والوں کی کچھ حکمت عملی پنہاں ہے۔ جنگ اور لڑائی کا اُصول بھی یہی ہے کہ سارے محاذ ایک ساتھ کھولے نہیں جاتے۔زرداری صاحب کے سر سے ابھی تک خطرہ مکمل نہیں ٹلا ہے۔وہ کوئی ایسی حرکت نہیں کرنا چاہتے کہ نظریں اوجھل کرنے والوں کو ایک بار پھراپنی طرف بلاوجہ مبذول کروا دیں۔ جمہوریت بچانے اور جمہوریت کے لیے قربانیاں دینے کے جذبے کے پیچھے بھی کچھ ایسی ہی بصیرت اوردانشمندی کارفرما ہے۔
جمہوریت چلتی رہے تو اُن کا کاروبار بھی چلتا رہے گااور وہ احتساب کے آہنی شکنجے سے بچتے رہیں گے۔ یہ جمہوریت ہی کی کرامت تھی کہ وہ کراچی میں اپنی ایک چھوٹی سی جائیداد سے باہر نکل کر دبئی، انگلینڈ اور سوئٹزرلینڈ میںاربوں اورکھربوں کی جائیداد کے مالک بن گئے۔ یہ جمہوریت کا حسن ہی تھا جس کی بدولت زرداری صاحب محترمہ کی ناگہانی شہادت کے فوراً بعد پارٹی کے چیئرمین بن جاتے ہیں اور پھر چند مہنیوں میں استثنیٰ سے مزین اِس ملک کے سب سے بڑے عہدے یعنی صدر مملکت کے عہدے پر براجمان بھی ہوجاتے ہیں۔
وہ آج میاں صاحب کو سیاست سے نابلد شخص اگرکہتے ہیں تو کچھ غلط بھی نہیں کہتے۔ میاں صاحب کو حقیقتاً سیاست نہیں آتی۔یہ میاں صاحب کی نادانی اورناسمجھی ہی تھی کہ وہ 2008ء میں زرداری صاحب کی باتوں میں آگئے اور ججوں کی بحالی کے وعدے پر پرویز مشرف کے مواخذے پر راضی اور رضامند ہوگئے۔جس کے نتیجے میں پرویزمشرف تو ہٹا دیے گئے اور آصف علی زرداری خود اُس مسند پر فائز بھی ہوگئے لیکن جج بحال نہیں ہوئے۔میاں صاحب کو اِس سمجھوتے کے عوض کیا ملا۔ یہی کہ یہ وعدہ کوئی آسمانی صحیفہ تو نہیں تھا کہ جو ہر حال میں پورا ہو۔
میثاق جمہوریت پر عمل نہ کرنے کا الزام بھی ویسے تو میاں صاحب پر ہی لگایا جاتا ہے حالانکہ دیکھا جائے تو یہ کام فریقین نے اپنے اپنے سیاسی مفادات کے تحت ہی کیا ہے۔ جس کا جب دل چاہا اُس نے اُس پرعمل کیا اور جس کاجب موقعہ لگا مخالف فریق پر وارکردیا۔ زرداری صاحب کوگلہ ہے کہ میموگیٹ اسکینڈل میں میاں صاحب کالا کوٹ پہن کر اُن کی حکومت کے خلاف سپریم کورٹ چلے گئے تھے جب کہ دیکھاجائے کہ 2009ء میں سب سے پہلے مسلم لیگ (ن) کی صوبائی حکومت کومعزول کرکے گورنر راج نافذ کرنے والے بھی خود آصف زرداری ہی تھے۔
اِسی طرح آج گرچہ اُن کی بھر پور کوشش یہی ہے کہ میاں صاحب کسی طرح بھی موجودہ بحران سے نکل نہ پائیں۔اِس کے لیے وہ آخری حد تک بھی جانے سے یقینا گریز نہیں کریں گے، ہاں لیکن انھیں جمہوریت بچانے کا خیال اُس وقت ضرور ستانے لگے گا جب وہ احتسابی شکنجے کو اپنی جانب بڑھتا ہوا دیکھیںگے، پھروہ میاں صاحب کی تمام طوطا چشمیاں بھول کربظاہر کھلے دل سے مذاکرات کے لیے آمادہ دکھائی دیں گے کہ یہی جمہوریت کا حسن ہے اور سیاست کی اصل سوجھ بوجھ۔
یہ اُنہی دنوں کی بات ہے جب جنرل راحیل شریف پاک آرمی کے سربراہ تھے اور نیشنل ایکشن پروگرام کے تحت کراچی اور سارے ملک میں دہشتگردوں اور اُن کے سہولت کاروں کے خلاف ہماری فورسز مصروف عمل تھیں اور اسی دوران اسلام آباد ایئر پورٹ سے ایان علی پانچ لاکھ ڈالرملک سے باہر لے جاتے ہوئے گرفتار ہوجاتی ہیں اور کراچی میں ڈاکٹر عاصم حسین اپنے خلاف دہشتگردوں کو سہولت دینے اور مبینہ مالی بدعنوانیوں کے سنگین الزامات کے تحت رینجرز کے ہاتھوں گرفتار ہوجاتے ہیں۔ سندھ لینڈ ڈپارٹمنٹ کے دفاتر میں چھاپے بھی پڑتے ہیں اور وہاں سے کئی فائلیں بھی اُٹھالی جاتی ہیں۔
سندھ حکومت کے اُس وقت کے وزیر اعلیٰ سخت پریشانی کے عالم میں رینجرزکے خلاف بیانات بھی دیتے ہیں اور انھیں صوبہ سندھ میں کارروائیوں کے اجازت دینے سے بھی انکار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور اُس کے سربراہ سب کچھ جانتے ہوئے کہ یہ سب کچھ کس کی ایماء پر ہورہاہے وہ اپناغم وغصہ وفاقی حکومت اور اُس کے وزیر داخلہ کے خلاف تند وتیز بیانات کے ذریعے اُتارتے ہیں۔ اِسی دوران آصف زرداری ایک بار جوش خطابت میں حکومت کے ساتھ ساتھ ملک کے سیکیورٹی فورسز کو بھی لپیٹ لیتے ہیںاور اُن کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کی دھمکیاں بھی دے ڈالتے ہیں۔
زرداری صاحب کو معلوم تھا کہ ایسی دھمکیاں دے کر وہ پاکستان میں آزادنہ گھوم پھر نہیں سکیں گے اور انھیں یقیناً جلاوطنی اختیار کرنی پڑے گی، لیکن اس سے پہلے وہ وزیراعظم محمد نوا ز شریف سے ملنے کی خواہش کرتے ہیں جو میاں صاحب کی طرف سے حفظ ماتقدم کے طور پر مستر کردی جاتی ہے۔کچھ تجزیہ نگاروں کو خیال ہے کہ میاں صاحب اگر اُس وقت زرداری صاحب سے مل کر انھیں کسی کے عتاب سے بچا لینے کے لیے کچھ عہدوپیمان کرلیتے تو جو مصیبت آج اُن کے سرپر آئی ہوئی ہے وہ شاید دوسال پہلے ہی آجاتی۔ پھر کیا ہوا آصف زرداری اپنا بوریابستر لپیٹ کر جلاوطنی کے دنوں کے لیے پہلے سے بنائے گئے دبئی میں اپنے محل میں چلے جاتے ہیں اور پھر اُس وقت تک نہیں آتے جب تک راحیل شریف اپنے عہدے سے سبکدوش نہیں ہوجاتے۔
آج میاں صاحب کو بھی کچھ ایسے ہی حالات اور گردش ایام کاسامنا ہے اوروہ وقت کی بے اعتنائی اور بے مروتی سے نبرد آزما ہیں۔ ایسے میں آصف زرداری کا رد عمل خلاف توقع بھی نہیں ہے۔ اُن کی جگہ کوئی اور سیاستدان بھی ہوتا تو یہی کچھ کرتا۔آج ہم سب کو معلوم ہے کہ میاں صاحب اپنے کچھ کردہ اور ناکردہ گناہوں کے سبب پاکستان میں اقتدارواختیار کی حامل اصل قوتوںکے ہتھے چڑھ گئے ہیں اور اب انھیں سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی اور بچا نہیںسکتا۔ اس سلسلے جو بھی شخص اُن کی مدد اور حمایت کے لیے آگے بڑھے گا وہ بے چارہ خود بھی لپیٹ میں آ جائے گا۔لہذا زرداری آج جو کچھ کررہے ہیں وہ سیاست کے ساتھ ساتھ اپنے بچاؤ کے حربے کے طور پر بھی کررہے ہیں۔وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ میاں صاحب آج جن مبینہ گناہوں کی پاداش میں عدالتوں کاسامنا کررہے ہیں اُن سے بڑے بڑے گناہوں کا ارتکاب تو وہ خود کرچکے ہیں۔
ماضی قریب میں خود اُن پر کیاکیا الزامات نہیں لگائے گئے اور کیاکیا سزائیں انھیں نہیں دی گئیں۔ وہ گیارہ سال قید بھی گزار چکے ہیں اور اِس ملک ِکے صدر مملکت کے عہدے کی مراعات اور لوازمات سے لطف اندوز بھی ہوچکے ہیں۔ وہ اقتدار سے سیدھے جیل اور جیل سے سیدھے وزارت کے مزے بھی چکھ چکے ہیں۔ سیاست کے ایسے ہی پیچ و خم نے انھیں اِس ملک کا سب سے ذہین اورچالاک سیاستداں بنادیا ہے۔ وہ پاکستان کے سیاستدانوں پر مشتمل موجودہ سیاسی کھیپ میں سب سے زیادہ ہشیار اور عقل مند سیاستدان کے طور پر سمجھے جانے لگے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ لوگ انھیں اب سیاست کا آئن اسٹائن بھی کہنے لگے ہیں۔
میاں صاحب سے نہ ملنے کا عندیہ دیکر وہ دراصل خود کو بھی آنے والے دنوں کے خطرات سے بچانے کی کوشش کررہے ہیں۔انھیں معلوم ہے کہ آج اگر احتساب کا شکنجہ اُن کے اور اُن کے ساتھوں کے لیے کچھ ڈھیلا کردیا گیا ہے تو اس میں بھی ایسا کرنے والوں کی کچھ حکمت عملی پنہاں ہے۔ جنگ اور لڑائی کا اُصول بھی یہی ہے کہ سارے محاذ ایک ساتھ کھولے نہیں جاتے۔زرداری صاحب کے سر سے ابھی تک خطرہ مکمل نہیں ٹلا ہے۔وہ کوئی ایسی حرکت نہیں کرنا چاہتے کہ نظریں اوجھل کرنے والوں کو ایک بار پھراپنی طرف بلاوجہ مبذول کروا دیں۔ جمہوریت بچانے اور جمہوریت کے لیے قربانیاں دینے کے جذبے کے پیچھے بھی کچھ ایسی ہی بصیرت اوردانشمندی کارفرما ہے۔
جمہوریت چلتی رہے تو اُن کا کاروبار بھی چلتا رہے گااور وہ احتساب کے آہنی شکنجے سے بچتے رہیں گے۔ یہ جمہوریت ہی کی کرامت تھی کہ وہ کراچی میں اپنی ایک چھوٹی سی جائیداد سے باہر نکل کر دبئی، انگلینڈ اور سوئٹزرلینڈ میںاربوں اورکھربوں کی جائیداد کے مالک بن گئے۔ یہ جمہوریت کا حسن ہی تھا جس کی بدولت زرداری صاحب محترمہ کی ناگہانی شہادت کے فوراً بعد پارٹی کے چیئرمین بن جاتے ہیں اور پھر چند مہنیوں میں استثنیٰ سے مزین اِس ملک کے سب سے بڑے عہدے یعنی صدر مملکت کے عہدے پر براجمان بھی ہوجاتے ہیں۔
وہ آج میاں صاحب کو سیاست سے نابلد شخص اگرکہتے ہیں تو کچھ غلط بھی نہیں کہتے۔ میاں صاحب کو حقیقتاً سیاست نہیں آتی۔یہ میاں صاحب کی نادانی اورناسمجھی ہی تھی کہ وہ 2008ء میں زرداری صاحب کی باتوں میں آگئے اور ججوں کی بحالی کے وعدے پر پرویز مشرف کے مواخذے پر راضی اور رضامند ہوگئے۔جس کے نتیجے میں پرویزمشرف تو ہٹا دیے گئے اور آصف علی زرداری خود اُس مسند پر فائز بھی ہوگئے لیکن جج بحال نہیں ہوئے۔میاں صاحب کو اِس سمجھوتے کے عوض کیا ملا۔ یہی کہ یہ وعدہ کوئی آسمانی صحیفہ تو نہیں تھا کہ جو ہر حال میں پورا ہو۔
میثاق جمہوریت پر عمل نہ کرنے کا الزام بھی ویسے تو میاں صاحب پر ہی لگایا جاتا ہے حالانکہ دیکھا جائے تو یہ کام فریقین نے اپنے اپنے سیاسی مفادات کے تحت ہی کیا ہے۔ جس کا جب دل چاہا اُس نے اُس پرعمل کیا اور جس کاجب موقعہ لگا مخالف فریق پر وارکردیا۔ زرداری صاحب کوگلہ ہے کہ میموگیٹ اسکینڈل میں میاں صاحب کالا کوٹ پہن کر اُن کی حکومت کے خلاف سپریم کورٹ چلے گئے تھے جب کہ دیکھاجائے کہ 2009ء میں سب سے پہلے مسلم لیگ (ن) کی صوبائی حکومت کومعزول کرکے گورنر راج نافذ کرنے والے بھی خود آصف زرداری ہی تھے۔
اِسی طرح آج گرچہ اُن کی بھر پور کوشش یہی ہے کہ میاں صاحب کسی طرح بھی موجودہ بحران سے نکل نہ پائیں۔اِس کے لیے وہ آخری حد تک بھی جانے سے یقینا گریز نہیں کریں گے، ہاں لیکن انھیں جمہوریت بچانے کا خیال اُس وقت ضرور ستانے لگے گا جب وہ احتسابی شکنجے کو اپنی جانب بڑھتا ہوا دیکھیںگے، پھروہ میاں صاحب کی تمام طوطا چشمیاں بھول کربظاہر کھلے دل سے مذاکرات کے لیے آمادہ دکھائی دیں گے کہ یہی جمہوریت کا حسن ہے اور سیاست کی اصل سوجھ بوجھ۔