
کہاں سے تو نے اے اقبال سیکھی ہے یہ درویشی
کہ چرچا پادشاہوں میں ہے تیری بے نیازی کا
علامہ اقبال 9 نومبر 1877 کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے، آپ کا گھرانہ ایک مذہبی گھرانہ تھا، والد صوفی منش انسان تھے۔ آپ نے عصری اور دینی دونوں طرح کی تعلیم حاصل کی۔ آپ 1905 سے 1908تک یورپ میں مقیم رہے جہاں آپ نے اپنی تعلیم مکمل کی۔ ان برسوں میں بقول آپ کے، آپ شدید ذہنی انقلاب سے گزرے۔ آپ کی پہلی شادی میٹرک کے بعد ہی کرادی گئی۔ آپ کو ازدواجی زندگی میں خاصی مشکلات دیکھنی پڑیں۔ آپ کی ازواج کی تعداد تین تھی۔
آپ پیشے ایک اعتبار سے اگرچہ وکیل تھے مگر آپ نے معلم کے فرائض بھی انجام دیئے اور امتحانی پرچے بھی مرتب کیے۔ آپ کو ازدواجی زندگی کی طرح مالی معاملات میں بھی خاصی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔
عملی زندگی
آپ کے دل میں امت مسلمہ کا حقیقی درد موجود تھا چنانچہ آپ نے عملی طور پر بھی قوم و ملت کی تعمیر میں حصہ لیا اور اپنی شاعری اور نثر کو بھی امت کی اصلاح کا ذریعہ بنایا۔ آپ کی شاعری، نثر اور تمام تر علمی و تخلیقی سرگرمیوں کا مقصد امت مسلمہ کی بہتری اور اصلاح تھا۔ علامہ اقبالؒ نے عملی طور پر بھی سیاست میں حصہ لیا اور صوبائی کونسل کے رکن منتخب ہوئے۔ آپ برصغیر کے وہ پہلے مسلم قائد تھے جنہوں نے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں کروڑوں مسلمانوں کی منزل پاکستان کا تعین کیا۔ آپ نے مسلم لیگ کے ساتھ کام کیا اور صوبائی صدر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ اس کے علاوہ آپ نے دیگر مقامی جماعتوں اور تنظیموں کے پلیٹ فارم سے بھی مسلمانوں کے انفرادی اور اجتماعی مسائل کے حل کی حتی المقدور کوششیں کیں۔ آپ کی ہی وہ پہلے مسلم رہنما تھے جنہوں نے قادیانیوں کو قانونی طور پر غیرمسلم اقلیت قرار دینے کا مطالبہ کیا تھا۔
آپ نے اپنی زندگی میں مختلف موضوعات پر لیکچرز دیئے جو آپ کے افکار و نظریات کے متعلق جاننے کے اہم ذرائع کی حیثیت رکھتے ہیں۔
افکارِ اقبال
آپ بین الملی اخوت کے داعی تھے اور تمام اسلامی ریاستوں کے مابین ایک نہ ٹوٹنے والا رشتہ قائم کرنا چاہتے تھے۔ آپ چاہتے تھے کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کو یکجا کیا جائے۔ آپ جمال الدین افغانی کو مجدد سمجھتے تھے۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کےلیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر
قومیں اوطان سے بنتی ہیں یا مذہب سے؟ آپ کا واضح جواب مذہب تھا کہ قوم مذہب سے بنتی ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
انکی جمیعت کا ہے ملک و نسب پہ انحصار
قوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تیری
اور فرمایا:
قوم مذہب سے ہے، مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذب باہم جو نہیں محفلِ انجم بھی نہیں
آپ امت میں تفرقہ بازی کو کسی صورت برداشت نہ کرتے تھے اور آپ کو مسلمانوں میں فرقہ بندی کا شدید احساس تھا۔ چنانچہ آپ نے زندگی ساری اتفاق و اتحاد کا سبق دیا۔ آپ خود بھی فرقہ بندی سے پاک تھے، اپنا تعلق کبھی کسی ایک فرقے یا مسلک سے نہیں جوڑا اور قوم کو بھی اس مرض سے پاک کرنا چاہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی مشہور نظم ''جوابِ شکوہ'' میں فرماتے ہیں:
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟
آپ اجتہاد کو آج بھی جائز سمجھتے تھے اور آپ کے نزدیک آج بھی اجتہاد کے ذریعے امت مسلمہ کے مسائل حل کیے جاسکتے ہیں۔
شاعری
اس میں شبہ نہیں کہ اقبالؒ نے شروع میں روایتی اشعار بھی کہے اور قومی و ملی موضوعات کو بھی شاعری کا رنگ دیا لیکن یہ دور انتہائی مختصر تھا اور جلد ہی اقبالؒ نے اپنی شاعری کو ایک نیا موڑ دیا۔ انہوں نے شاعری میں نہ صرف یہ کہ جداگانہ انداز بیان اپنایا بلکہ شاعری کے موضوعات کو وہ عالمگیر وسعت دی جس کا تصور دوسرے شعراء کے ہاں اول تو ملتا ہی نہیں، اور اگر ملتا بھی ہے تو انتہائی محدود ہے۔ یہ اقبالؒ ہی کا کمال ہے کہ انہوں نے انسان مذہب، سیاست، معاشرت، اقتصادیات، تہذیب، تمدن، تاریخ، فلسفہ، حکمت کو شاعری کا موضوع بنایا۔
آپ جوانوں کو قوم و ملت کا ایک عظیم سرمایہ تصور کرتے تھے۔ آپ نے اپنی شاعری میں اکثر جوانوں ہی کو مخاطب کیا۔ آپ نے انسان کی انفرادی زندگی کو بھی اپنا موضوع بنایا اور خودی کا درس دیا:
شاہیں کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا
پُر دم ہے اگر تُو تو نہیں خطرہٴ افتاد!
آپ نے جہاں افراد کی انفرادی زندگی کو اپنا موضوع بنایا وہیں آپ نے قوم کی اجتماعی زندگی کو بھی موضوع سخن بنایا ہے۔ فرماتے ہیں:
میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیرِ اُمم کیا ہے
شمشیر و سناں اول، طاؤس و رُباب آخر
اور
وہ قوم نہیں لائق ہنگامہٴ فردا
جس قوم کی تقدیر میں امروز نہیں ہے
اردو کتب میں بانگِ درا، بالِ جبرئیل، ضربِ کلیم اور ارمغانِ حجاز (اردو) جبکہ فارسی کتب میں اسرارِ خودی، رموزِ بے خودی، پیامِ مشرق، زبورِ عجم، جاوید نامہ، پس چہ باید کرد اور ارمغان حجاز (فارسی) شامل ہیں۔
آپ کی شاعری نہ صرف پاکستانی مسلمانوں کےلیے ایک قیمتی خزانہ ہے بلکہ برصغیر سے باہر کی دنیا میں بھی آپ کی شاعری پڑھی جاتی ہے۔ آپ کی اردو و فارسی شاعری کو دنیا میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔
تدبرِ قرآن اور عشقِ مصطفیٰ (ﷺ)
علامہ کو قرآنِ پاک سے خاص عشق تھا اور آپ قرآن پاک سے ہی رہنمائی لیتے تھے۔ آپ نے قرآن پاک کا پورے غور و فکر کے ساتھ مطالعہ کیا تھا، آپ خود فرماتے ہیں کہ میں نے 15 سال تک قرآن پاک میں غور کیا اور بعض آیات اور سورتوں پر ایک ایک سال تک غور کیا۔ آپ کو اس بات کا شدید احساس تھا کہ مسلمانوں کا قرآن حکیم کے ساتھ رابطہ ٹوٹ رہا تھا چنانچہ آپ نے اپنی شاعری کے ذریعے مسلمانوں کو قرآن حکیم کے ساتھ پھر سے رابطہ استوار کرنے کی تلقین کی:
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قران ہو کر
اور
قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں
اللہ کرے عطا تجھ کو جدت کردار
آپ کو نبی محمدﷺ کی ذات مقدس سے بھی خاص عشق تھا۔ جب کبھی نبی پاکﷺ کا نام لیتے یا نام سنتے تو آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہنے لگتے۔ آپ کے بیٹے ڈاکٹر جاوید اقبال مرحوم فرماتے ہیں کہ آپ اپنی زوجہ کی وفات پر تو نہ روئے تھے لیکن جب کبھی نبی پاکﷺ کا نام آتا تو آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے۔ آپ خوش الحان قاری سے قرآن سنتے اور کبھی اپنے اشعار بھی سنتے تو آپ کی آنکھیں بھر جاتیں۔
کی محمد(ﷺ) سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں
آپ کو اولیاء اللہ سے بھی خاص لگاؤ اور عشق تھا۔ آپ نے اپنے دورہ عرب میں جہاں اہم ملاقاتیں کیں اور تاریخی مقامات کا دورہ کیا وہیں اولیاء اور اسلاف کی قبور کی بھی زیارت کی۔ یہ شرف عظیم بھی اسی مردِ قلندر کو حاصل ہے کہ قرطبہ کی صدیوں سے بند اور ویران مسجد کو اپنی اذان سے آباد کیا۔
ادھوری خواہشات
آپ تصوف پر ایک تاریخی اور تفصیلی کتاب لکھنا چاہتے تھے۔ آپ کی شدید خواہش تھی کہ فقہ کی دور جدید کے تقاضوں کی مطابق جامع تشریح کی جائے۔ آپ ایک ایساادارہ بنانا چاہتے تھے جس میں جوانوں کو دین کے ساتھ دور جدید کی تعلیم بھی دی جائے۔ آپ نے اس سلسلے میں جامع الازہر یونیورسٹی سے رابطہ کیا اور وہاں سے ایسے اساتذہ کو برصغیر بلانا چاہتے تھے جو ان دونوں میدانوں کے ماہر ہوں۔ آپ نے اس سلسلے میں جناب سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ سے بھی رابطہ کیا لیکن بدقسمتی سے آپ کی یہ تمام خواہشات اور خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے۔
آپ کو بڑی شدت سے اس دن کا انتظار تھا کہ آپ بیت اللہ کی زیارت کریں اور جناب سرور کائناتﷺ کی بارگاہ اقدس میں حاضری دیں۔ آپ نے آخری برسوں میں حج کا پورا ارادہ کرلیا تھا لیکن بوجہ شدید علالت کے آپ کی یہ دیرینہ خوہش پوری نہ ہوسکی۔ آپ کی کتاب ارمغان حجاز اسی اشتیاق کا ایک معجزہ ہے۔
اس کے باوجود آپ نے امت اور قوم کےلیے جو کچھ بھی کیا اور جتنا بھی کیا، وہ نہ صرف بہت زیادہ ہے بلکہ آبِ زر سے لکھنے کے قابل بھی ہے۔
وفات
آپ زندگی کے آخری برسوں میں مختلف عوارض میں مبتلا ہوگئے۔ علاج بھی مسلسل کرواتے رہے مگر ہونی کو نہ کوئی حکیم اور نہ کوئی ڈاکٹر ٹال سکتا تھا۔ چنانچہ 21 اپریل کی صبح 5 بج کر 14 منٹ پر جب اذان کی آواز فضا میں گونج رہی تھی، جب مؤذن لوگوں کو گہری اور میٹھی نیند سے جگا رہا تھا، ٹھیک اسی لمحے یہ چراغ سحری بجھا جارہا تھا۔ اُدھر مؤذن لوگوں کو خدا کی طرف بلارہا تھا، اِدھر یہ مردِ قلندر جسم و روح کے ساتھ اللہ کی بارگاہ میں حاضری دے رہا تھا۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔
کہیں ذکر رہتا ہے اقبال تیرا
فسوں تھا کوئی، تیری گفتار کیا تھی؟
حکیم الامت، ترجمان القران، مفکر اسلام، شاعر مشرق، مرد قلندر، مرد مومن، مصور پاکستان اور مفکر پاکستان، یہ وہ القابات ہیں جن سے آج دنیا آپ کو جانتی ہے۔
متفرقات
- آپ کے آباء اصلاً کشمیری تھے۔
- علامہ زیادہ تر گھر میں رہتے اور گھر سے باہر جانے سے آپ اکثر گھبراتے تھے۔
- آپ کو کبوتر پالنے کا شوق تھا۔
- آپ رات کا کھانا کم ہی کھاتے تھے، ہاں سبز چائے (کشمیری چائے) پیتے تھے۔
- آپ گھر کے زنان خانے میں بھی کم ہی جاتے تھے۔
- آپ اپنی بیٹی منیرہ کو جرمن زبان سیکھنے کو کہتے تھے کیونکہ آپ کا کہنا تھا کہ جرمن عورتیں بہادر ہوتی ہیں۔
- آپ کی ایک آنکھ بچپن سے ہی خراب تھی۔
- آپ کو 1923 میں ''سر'' کا خطاب دیا گیا۔
- جب آپ نے اللہ کی بارگاہ میں جان دی تو آپ کا سر آپ کے دیرینہ ملازم علی بخش کی گود میں تھا۔
آج یہ قوم جن اسلاف کو بھول چکی ہے ان میں اقبالؒ کا نام سرفہرست ہے۔ آج ہمارے ہاں اسلاف کی یاد کو فقط ایام پیدائش اور وفات تک محدود کر دیا گیا ہے جو اسلاف کے ساتھ نہ صرف بے وفائی ہے بلکہ احسان فراموشی کے زمرے میں آتا ہے۔ اقبالؒ محض ایک شاعر ہی نہ تھے بلکہ عظیم مفکر اور فلسفی بھی تھے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اقبال کے افکار و تعلیمات کو عام کیا جائے اور بالخصوص نوجوان نسل کو اقبال سے متعارف کرایا جائے جو اقبال کی شاعری کے براہِ راست مخاطب ہیں اور قومی سطح پر بھی مختلف ذرائع ابلاغ کے ذریعے سے اقبال کی تعلیمات و افکار کو عام کیا جائے۔
خدایا آرزو میری یہی ہے
مرا نورِ بصیرت عام کردے
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔