غیریقینی

غیریقینی کی وجہ سے اشیا کی عالمی قیمتوں میں بڑے پیمانے پر اتارچڑھائو آ رہا ہے

Kamran.aziz@express.com.pk

غیریقینی کس قدر خطرناک ہوسکتی ہے اس بات کا اندازہ عالمی معاشی صورتحال سے لگایا جاسکتا ہے، امریکا میں سب پرائم قرضوں کا بحران پیدا ہونے کے بعد سے اب تک حالات کنٹرول میں آ رہے ہیں نہ ہی پالیسی سازوں کو ان حالات سے باہر آنے کا راستہ نظر آ رہا ہے۔

اب صورتحال ایسی ہے کہ جیسے کوئی انتہائی گہری تاریکی میں پھنس جائے اور کبھی ایک طرف اور کبھی دوسری طرف بھاگے مگر اسے راستہ نہ ملے، امریکا میں 1930کے بحران کے بعد سے یہ بدترین صورتحال ہے اور آزاد منڈیوں کے معاشی اصول توایک طرف رہے اس نظام کے چوکیدار خود اس کے گرنے کی باتیں کرنے لگے ہیں، اقتصادیات کا اصول ہے کہ حکومت جتنے زیادہ نوٹ چھاپے گی افراط زر کی شرح اسی حساب سے بڑھے گی مگر جاپان، امریکااور برطانیہ میں یہ اصول غلط ثابت ہوگیا۔

اقتصادی بحران کے 2007-08میں سراٹھانے کے بعد سے ان تینوں ملکوں نے نوٹ چھاپنے کے تمام ریکارڈ توڑدیے اور اپنے ہی بنائے اصولوں کے خلاف چل کر معاشی نظام کو بچانے کیلیے ایسٹ پرچیزپروگرام کے نام پر کئی نجی ادارے قومیالیے، امریکا نے ٹروبلڈ ایسٹ ریلیف پروگرام (ٹی اے آر پی) کے نام سے 700 ارب ڈالر کا پروگرام شروع کیا اور کئی اداروں کو خرید لیا، بری طرح نوٹ چھاپنے کے باوجود امریکا میں افراط زر کی شرح انتہائی کم سطح پرآگئی یعنی کاروبار کا منافع نہ ہونے کے برابر ہوگیا۔

2007 میں بحران کے آغاز سے قبل امریکا میں افراط زر کی شرح 4.10 فیصد تھی جو 2008میں صرف0.10 فیصد ہوگئی اور اب 1.7فیصد ہے، جاپان میں توصورتحال اس سے بھی زیادہ خراب ہوگئی، حکومت نوٹ چھاپتی گئی اور افراط زر کی شرح نیچے جاتی گئی بلکہ وہاں تفراط زر ہوگئی، یعنی قیمتیں اشیا کی لاگت سے نیچے چلی گئیں، کاروبار کو نقصان ہونے لگا، جاپان میں اس وقت افراط زر کی شرح منفی 0.2فیصد ہے، اب برطانیہ کو دیکھیں تو وہ بھی375ارب پائونڈ کا ایسٹ پرچیز پروگرام چلا رہا ہے، وہاں افراط زر کی شرح 2.1 فیصد ہے جو بہتر ہے مگر یہ بھاری سرکاری اخراجات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ڈیمانڈ کو ظاہر نہیں کر رہی۔

آزادمنڈیوں کا پرچار کرنے والے ان تینوں ملکوں کی یہ صورتحال صارفین، کاروبار، سرمایہ کاروں سب کی طرف سے اعتماد کے فقدان کی بدترین مثال اور غیریقینی کا نتیجہ ہے جس کا خمیازہ لاکھوں افراد کو ملازمتوں سے ہاتھ دھونے اور غربت کا شکار ہونے کی شکل میں بھگتنا پڑا، حکومتوں نے اس سے نمٹنے کیلیے سپورٹ اقدامات شروع کیے اور سود پر قائم معیشتوں نے سود کو ہی ختم کردیا مگر کوئی تاجر قرض لے کر کاروبار میں لگانے کیلیے تیار نہیں۔


صارفین اخراجات کرنے کو تیار نہیں اور بیرونی منڈیوں کی ڈیمانڈ بھی گر رہی ہے تو پھر صنعتی پیداوار کیسے بڑھے اور معیشت کیسے ترقی کرے، نتیجہ پھر وہی یعنی معیشت کسادبازاری کا شکار اور بیروزگاری کی شرح بلند سطح پر، حکومت اور عوام قرضوں میں جکڑے ہوئے ہیں، یہ لوگ غیریقینی کے چکر میں پھنس گئے ہیں اور ذرا سی آہٹ بھی ہوتی ہے تو ان ملکوں کی مالیاتی منڈیاں ہل کر رہ جاتی ہیں، حصص کی فروخت میں تیزی آجاتی ہے، کرنسیوں کی قدریں زمین پرآجاتی ہیں اور کموڈیٹی مارکیٹس میں قیمتیں بڑھنے لگتی ہیں، کموڈیٹی مارکیٹس میں مہنگائی کا اثر ترقی پذیر اور غریب ممالک پر زیادہ ہو رہا ہے۔

غیریقینی کی وجہ سے اشیا کی عالمی قیمتوں میں بڑے پیمانے پر اتارچڑھائو آ رہا ہے، خاص طور پر قیمتی دھاتوں اور خام تیل کی قیمتیں سخت متاثر ہوئی ہیں، بعض ملکوں نے ان حالات سے خوب فائدہ اٹھایا اور اپنے بجٹ میں آمدنی کے تخمینے چھ آٹھ ماہ میں ہی پورے کرلیے اور پاکستان و بھارت جیسے کئی ملک بڑے تجارتی خسارے کے نیچے دب گئے اور انھیں ادائیگیوں کے عدم توازن کے بحران کا سامنا ہے، یہ عدم توازن ان ملکوں کی کرنسیوں پر اثرڈال رہا ہے اور اس کا نتیجہ بھی عام صارف مہنگائی کی صورت میں بھگت رہا ہے۔

اس غیریقینی کے بھیانک نتائج سے کوئی ملک بچا ہوا نہیں ہے، چین بھی سخت دبائو میں آچکا ہے اور وہاں بھی سرمایہ کار محتاط ہو گئے ہیں، بیرونی طلب میں کمی صنعتی پیداوار میں کمی کاباعث بن رہی ہے، صنعتی پیداوار میں کمی سرمایہ کاروں کیلیے حوصلہ شکن ہے، سرمایہ کار مزید سرمایہ کاری نہیں کر رہے، اس سے چین میں طلب ورسد میں توازن خراب ہو رہا ہے اور حکومت پر دبائو بڑھ رہا ہے جو اب اصلاحاتی اقدامات کر رہی ہے، پاکستان کیلیے یہ غیریقینی دہری پریشانی کا باعث ہے، نہ ملک میں سیاسی صورتحال بہتر ہے نہ بیرونی حالات موافق ہیں۔

کمزور گورننس ادارہ جاتی خامیوں کی صورتحال دبائو بڑھا رہی ہے، بدامنی پر قابو پانے میں سیکیورٹی ادارے ناکام ہیں، مہنگائی کی صورتحال کا انحصار قدرت پر ہے، حالات سازگار اور موسم موافق ہو تو زرعی پیداوار اچھی اور پھر اشیائے خوراک سستی ہوجاتی ہیں، خام تیل اور پٹرولیم مصنوعات کی عالمی قیمتیں کم ہوں تو حکومت اس کا اثر عوام پر منتقل کرکے کریڈٹ لے لیتی ہے اور بڑھ جائیں توخاموش، بجلی کا بحران حکومت کے لیے وبال جان بن گیا جو گزشتہ ساڑھے چار میں کم ہونے کے بجائے مزید سنگین ہو گیا ہے، ملک میں سرمایہ کاری نہیں آ رہی، حد تو یہ ہے کہ اب حکومتی اخراجات اور بیرونی ادائیگیوں کے توازن کا انحصار امریکی امداد پر ہے۔

امریکا امداد دے تو ادائیگیوں کا توازن قائم ہوگا ورنہ عدم توازن سے کرنسی پر اثر پڑنے کے نتیجے میں مہنگائی بڑھے گی، معاشی محاذ پر کوئی پالیسی، کوئی سمت، کوئی حکمت عملی نظر نہیں آ رہی، صرف ایڈہاک ازم ہے، مربوط پالیسی اور اقدامات کے فقدان کی وجہ سے کبھی سی این جی اسیٹشنز کی بندش، کبھی بازاروں کی بندش، کبھی صنعتیں بند تو کبھی گھڑیاں آگے پیچھے، اگر مسائل سے نمٹنے کیلیے یہی ہیرپھیر کیا جاتا رہا تو حالات بہتر ہونے کا دور دور تک امکان نہیں۔
Load Next Story