انتہا کی طرف سفر
سپریم کورٹ پر عابدی کے حملے سے دونوں پارٹیوں کیلیے لازمی ہوگیا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کی حمایت میں کھڑے ہو جائیں
سپریم کورٹ آف پاکستان کے تقدس کے حوالے سے ابھی ملک ریاض حسین کے خلاف مقدمہ منطقی انجام تک نہیں پہنچا تھا کہ پیپلز پارٹی کے سینیٹر فیصل رضا عابدی نے ٹی وی چینلوں پر آ کر توہین عدالت کی انتہا کر دی۔ فیصل رضا پارٹی کے عہدے چھوڑ چکے ہیں لیکن سینیٹ میں بدستورپارٹی کے رکن ہیں۔ وہ کبھی کبھی تھوڑ ا بہت ''کھسک''جاتے ہیں لیکن کل تو یوں لگا جیسے عدلیہ اور حکومت کی محاذ آرائی مرنے مارنے کے کسی کھیل میں تبدیل ہو رہی ہے۔
جاوید ہاشمی کا کہنا ہے کہ ملک کے ادارے عدلیہ کے سہارے کھڑے ہیں۔ حکومت نے سپریم کورٹ کو گرانے کا یک نکاتی پروگرام بنا لیا ہے۔ ہاشمی صاحب نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ عدلیہ کو نقصان پہنچا تو ملک تباہ ہو جائیگا۔اِس حوالے سے یہ معاملہ بہت ہی سنگین ہے۔
میں نے ابھی کچھ دیر پہلے ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں نامور اور غیر جانبدار تجزیہ نگار حسن عسکری کو یہ کہتے سنا ہے کہ دنیا میں آج تک ایسا نہیں ہوا کہ کسی ملک نے اپنے صدر کیخلاف کسی دوسرے ملک کو خط لکھا ہو۔ عسکری صاحب کو غالباً اس حقیقت کا ادارک نہیں ہوا کہ ہماری موجودہ آزاد عدلیہ ایک تاریخی عمل کے ذریعے وجود میں آئی تھی۔عدلیہ بحالی کی تحریک کے دوران پیپلز پارٹی کے درجن سے بھی زیادہ کارکن اور دوسری جماعتوں کے نصف درجن کے قریب کارکن شہید ہوئے۔عوام کی بہت بڑی تعداد اپنی سیاسی پارٹیوں کی ہدایت پر پوری پوری رات چیف جسٹس صاحب کے استقبال کیلیے سڑکوں پر کھڑی رہتی تھی۔
عام لوگوں اور صحافیوں نے پولیس سے ماریں کھائی۔ تاہم عدلیہ تحریک کی کامیابی کا سہرا وکلا صرف اپنی جدوجہد کے سر باندھتے ہیں۔ نومبر2007 میں جنرل مشرف نے ایمرجنسی پلس نافذ کرنے کے بعد بہت سے ججوں کو فارغ اور پھر گھروں میں نظر بند کر دیا تھا۔ وکلا نے معتوب ججوں کی حمایت میں الیکشن کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل کی لیکن عوام نے اسے رد کر دیا اور ووٹروں کا ٹرن آئوٹ کم ہونے کے بجائے بڑھ گیا۔ جنرل مشرف نے اسلام آباد میں ججز کالونی کے گرد باڑ لگا کرچیف جسٹس اور ان کے ساتھیوں کو قید رکھا۔
سیاسی جماعتیں الیکشن کی وجہ سے دور بیٹھی تھیں۔وکلا غائب تھے ۔ان کی جدوجہدپر کامیابی کا سہرا اس طرح بندھا کہ یوسف رضا گیلانی نے وزیراعظم منتخب ہوتے ہی چارج سنبھالنے سے بھی پہلے حکم جاری کیا کہ ججز کالونی کے گرد باڑہٹا دی جائے۔ تھوڑی دیر بعد عام لوگوں کی بہت بڑی تعداد ججز کالونی میں پہنچی اور باڑ کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ۔بعد میں گیلانی صاحب آئے روز سینے پر ہاتھ مار کر کہتے ر ہے کہ عدلیہ کو میں نے بحال کیا ،برطرفی کے بعد اب انھیں یہ یقین بھی آگیا ہوگا کہ عدلیہ آزاد ہے، انصاف کرتی ہے اور کسی رو رعایت کی قائل نہیں
پہلے آزاد عدلیہ کی بحالی کا کریڈٹ وکلا نے خود سمیٹ لیا، پھر کالے کاٹوں والی فورس بن کر عدلیہ کے محافظ بن بیٹھے ۔ اِسی بنیاد پر انھوں نے اپنے کریڈٹ کارڈ کی لمٹ میں(LIMIT) )اور بہت کچھ کے علاوہ یہ بھی شامل کروالیا کہ مجسٹریٹوں سے سول ججوں تک کی عدالتوں سے اپنی مرضی کے فیصلے کروائیں اور ماتحت ججوں کی اصلاح کیلیے مار پیٹ کرنے کے بھی مجاز ہوں۔
وکلا سپریم کورٹ کے بازوئے شمشیرزن ہیں اور کسی خطرے کا شائبہ ہوتے ہی ایجی ٹیشن کے لیے سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ تاہم سپریم کورٹ کے بارے میںیہ پروپیگنڈا گمراہ کن ہے کہ وہ حکومت کی اپوزیشن پارٹی ہے ،اپوزیشن کے حوالے سے کسی کو کوئی شبہ نہیں ۔ قومی اسمبلی میں چوہدری نثارعلی قائد حزب اختلاف ہیں اور پنجاب میں میاں شہباز شریف وزارت اعلیٰ کے معاملات سنبھالنے کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کے بھی سربراہ ہیں۔
میں نے سینیٹر فیصل رضا عابد ی کی پریس کانفرنس کے کچھ حصے ٹی وی اسکرین پر دیکھے ہیں اور مجھے یہ کہنے میں کوئی قباحت نہیں کہ انھوں نے سچ مچ انتہا کر دی ہے اور امید ہے انھیں اِس انتباہ کے جواب میں سزا بھی اتنی ہی انتہائی ملے گی کہ باقی لوگوں کو ہمیشہ کیلیے عبرت ہو جائے گی۔
کل چوہدری نثار اور عمران خان نے ایک دوسرے کی کرپشن گنوا کر اُس سیاسی طبقے کو تشویش میں مبتلا کر دیا جس کی رائے ہے کہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کو مل کر پیپلزپارٹی کا قلع قمع کرنا چاہیے۔ سپریم کورٹ پر آج کے حملے نے تشویش بڑھا دی ہے ۔پیپلزپارٹی اپنے خلاف مقدموں کے ڈھیر کی وجہ سے بدنام ہے جبکہ ن اور تحریک انصاف اس لیے نیک نام ہیں کہ اُن کے خلاف جھوٹے الزامات کی حوصلہ افزائی نہیں ہوئی۔ میرا خیال ہے سپریم کورٹ پر عابدی کے حملے سے دونوں پارٹیوں کیلیے لازمی ہوگیا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کی حمایت میں کھڑے ہو جائیں اور ایک دوسرے کے خلاف اپنے اپنے الزامات اُسی طرح واپس لے لیں جیسے غصے کی طلاق منسوخ ہو جاتی ہے۔ گالیوں اور بہتان تراشی کا موجود ہ مقابلہ جاری رہا تو دونوں جماعتیں گھاٹے میں رہیں گی ۔ تاہم میرا خیال ہے کہ زیادہ نقصان تحریک انصاف کو ہوگا۔ جو ''ن لیگ'' کے مقابلے میں اناڑی ہے۔
الزام سازی اور بہتان تراشی کا کلچر 1988 میں (ن) لیگ کے '' جماعت اسلامی ونگ'' نے متعارف کرایا تھا۔ اب تحریک انصاف کا '' جماعت اسلامی ونگ '' کافی ٹرینڈ ہوچکا ہے ۔ اِس لیے خدشہ ہے کہ کچھ نئی '' روایات'' جنم لیں گی۔
میاں نوازشریف دوباروزیراعظم رہ چکے ہیں جبکہ عمران خان نے 1996 میں وزارت عظمیٰ کا شوق پالا تھا۔ مسلم لیگ (ن) کے ماہرین کردار کشی نے انھیں سیتا وائٹ اور ٹیریان خان کے گرد اتنا ناچ نچایا کہ عمران کے امیدواروں کی ہر حلقے میں ضمانتیں ضبط ہوگئیں۔
پھر جنرل پرویز مشرف نے اُن کے شوق اقتدار سے ناجائز فائدہ اُٹھا کر لالچ دیا کہ وہ ایک سیٹ جیت کر آئیں اور وزیراعظم بن جائیں۔ الیکشن کے بعد عمران کھل کر مشرف کے سامنے آگئے۔ لندن کی اے پی سی میں خان صاحب مسلسل، نوازشریف کے دائیں بائیں دیکھے گئے۔ ایم کیو ایم کے سیاسی بائیکاٹ کا فیصلہ کروایا ۔ پیپلزپارٹی کے خلاف اے پی ڈی ایم نامی اتحاد بنوانے میں سرگرمی سے حصہ لیا۔