فلم سے حقیقت تک

جیل کے حکام اس بات کاخیال رکھتے ہیں کہ کسی بھارتی قیدی کوقید کے دوران کوئی تکلیف نہ پہنچے


توقیر چغتائی November 09, 2017

ISLAMABAD: ہر فلم کسی نہ کسی کہانی سے ماخوذ ہوتی ہے مگر بعض فلمیں ایسی ہوتی ہیں جو حقیقت کا روپ بھی دھارلیتی ہیں۔ پاکستان اور بھارت کی دوستی اور دشمنی پر بھی کئی فلمیں بن چکی ہیں لیکن پسندیدگی کی سند صرف ان ہی فلموں کے حصے میں آئی جو دونوں ممالک میں بسنے والوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے لیے بنائی گئی تھیں۔ تقسیم کے بعد اردو اور پنجابی کے معروف شاعرو ادیب سیف الدین سیف نے ''کرتار سنگھ'' کے نام سے ایک فلم بنائی تو اسے سرحد کی دونوں طرف توقع سے بڑھ کر پذیرائی نصیب ہوئی۔

اس فلم کی کہانی تقسیم کے دوران ہونے والے خونی واقعات پر مبنی تھی جس کا مرکزی کردارکرتار سنگھ تھا۔ فلم کے ہدایت کار اور نغمہ نگار بھی سیف الدین سیف ہی تھے مگر اس کے لیے لکھے گئے وارث لدھیانوی کے گیت ''دیساں دا راجا میرے بابل دا پیارا'' کوجو شہرت نصیب ہوئی وہ شاید ہی کسی دوسرے گیت کے حصے میں آئی ہو۔ لگ بھگ آدھی صدی قبل نسیم بیگم کی آواز میں گائے گئے اس گیت کی دھن آج بھی ملک بھر میں ہونے والی تقریباً ہر شادی کے موقعے پر ہمیں اکثر سنائی دیتی ہے۔ دونوں ممالک کے نرم وگرم تعلقات کو سامنے رکھ کر یوں توکئی فلمیں بنائی گئیں مگر ''کرتار سنگھ''کے بعد رندھیرکپور کی ہدایتکاری میں بننے والی فلم ''حنا'' اور یش چوپڑہ کی فلم '' ویر زارا'' کوجو مقبولیت ملی اس سے فلمی شائقین خوب واقف ہیں۔

تقسیم کے بعد دونوں ممالک کی سرحد وں پرکئی کہانیوں نے جنم لیا تھا اور اب بھی وقفے وقفے سے کوئی نہ کوئی ایسی کہانی سامنے آہی جاتی ہے جو فلمی کہانیوں میں چھپے درد ناک مناظر کی طرح دیکھنے اور سننے والوں کو رونے پر مجبورکر دیتی ہے۔ سرحد کے آر پار چلنے والی گولیوں سے بے گناہ شہریوں کے مرنے کی کہانیاں، پرچم اتارنے کی تقریب کے دوران کڑیل نوجوانوں کی زور آزمائی کے نظارے اور دوسرے ہی دن ایک دوسرے کو انتہائی احترام اور محبت سے مٹھائی کے ڈبے پیش کرنے کے واقعات کو بھی اگر پرانی اور خاموش فلموں کے مناظر یا کہانیاں کہا جائے توکچھ غلط نہ ہو گا جنھیں پچھلے ستر سال سے سرحد کی دونوں جانب بیٹھے کروڑوں عوام ہزاروں بار دیکھ دیکھ کر اکتا چکے ہیںلیکن پھر بھی بار باردیکھنے پر مجبور ہیں۔

دونوں ممالک کی سرحدوں پر گیارہ سال قبل ایک ایسی ہی دکھ بھری کہانی نے اس وقت جنم لیا جب گجرانوالہ کی دو بہنیں کسی رشتے دارکی شادی میں شمولیت کے لیے بھارت جاتے ہوئے منشیات کی اسمگلنگ کے الزام میں گرفتار کر لی گئیں اور انھیں جیل بھیج دیا گیا۔ جیل چاہے اپنے ملک کی ہی کیوں نہ ہو اس میں گزارے ہوئے دن انتہائی تکلیف دہ اور ناقابل بیان ہوتے ہیں اور اگر کسی دوسرے ملک میں قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں تو یہ دہرے عذاب سے کم نہیں ہوتا۔امرتسر کی جیل میں قید ہونے والی ان دو خواتین بہنوں میں ایک حاملہ خاتون بھی تھی جس نے چند ماہ بعد جیل میں ایک بچی کو جنم دیا تو پاکستان اور بھارت کے نوجوان جوڑے کی محبت پر مبنی فلم ''حنا'' کو یاد کرتے ہوئے جیل کے حکام اور قیدیوں نے اس کا نام بھی ''حنا '' رکھ دیا۔

جیل سے ہندی، پنجابی اور انگریزی کی تعلیم حاصل کرنے والی حنا جوں جوں بڑی ہوئی اس کی ماں اور خالہ کی آزادی کی خواہش توں توں مایوسی اور نا امیدی میں تبدیلی ہوتی چلی گئی مگر ایک سماجی ادارے میں کام کرنے والی وکیل خاتون نوجوت کور نے ان خواتین کے لیے نہ صرف چار لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنے کا بندوبست کیا بلکہ اس جھوٹے مقدمے اور قید کے خلاف عدالت سے بھی رجوع کر لیا۔نوجوت کورکی کوشش رنگ لائی اور تمام نا امیدیوں کو شکست دینے کے بعد حنا کی والدہ، فاطمہ اورخالہ ممتاز خوشی خوشی اپنے وطن واپس پہنچ گئیں۔

حیرت کی بات یہ نہیں کہ گیارہ سال سے امرتسر کی جیل میں قید دو بے گناہ خواتین اور ایک دس سالہ بچی کی آزادی کے لیے وہاں کے ایک سماجی ادارے نے مسلسل جدو جہد کی اور جس جج کے سامنے یہ مقدمہ پیش ہوا اس نے بھی یہ تسلیم کیا کہ ان خواتین پر لگایا جانے والا الزام بالکل جھوٹا تھا، بلکہ حیرت کی بات یہ ہے کہ جسے دشمن ملک کہا جاتا ہے اس کی جیل میں کھیل کود کر بڑی ہونے والی حنا جب وطن واپس آنے لگی تو بہت سارے لوگ اسے رخصت کرنے کے لیے تحفے تحائف لیے واہگہ تک اس کے ساتھ آئے۔اپنی ہم شکل لڑکی کے دادا کوحنا بھی دادا ہی کہتی تھی ۔

جس نے رخصت ہوتے ہوئے اسے چاندی کی ایک پازیب تحفے میں دی اور ایک نوجوان سکھ سماجی کارکن نے بھی حنا کو سونے کا ایک ایسا لاکٹ دیا جس پر پاکستان اور بھارت کے جھنڈے بنے ہوئے تھے۔ گیارہ سال کی طویل مدت کے بعد رہا ہونے والی خواتین کا کہنا ہے کہ امرتسر کی جیل میں قیدیوں کے لیے اگر کھانے پینے یا استعمال کرنے کا کوئی سامان بھیجا جاتا تو سب سے پہلے پاکستان کے قیدیوں اس کے بعد بنگلہ دیش اور آخر میں بھارتی قیدیوں میں وہ سامان تقسیم کیا جاتا۔ قید کے دوران ان پر نہ کبھی سختی کی گئی اور نہ ہی عبادت سے روکا گیا بلکہ رمضان کے دنوں میں ان کی سحر و افطار کا بھی خاص خیال رکھا جاتا۔

دونوں ممالک کی سرحدوں کو غلطی سے عبور کرنے والے قیدیوں کی خبریں آئے دن ہمارے سامنے آتی ہی رہتی ہیںجن میں زیادہ تعداد ان مچھیروں کی ہوتی ہے جو اپنی کشتیوں پر سمندری حدود کی پرواہ کیے بغیر غلطی سے دوسرے ملک کی سمندری حدود میں داخل ہونے کے بعد گرفتار کر لیے جاتے ہیں۔ بھارتی قید سے رہا ہو کر پاکستان پہنچنے والی حنا کی ماں فاطمہ کی جیل کے بارے میں بتائی گئی باتیں سننے کے بعد جہاں ہمیں خوشی ہوئی وہاں یہ فکر بھی لاحق ہوئی کہ نہ جانے پاکستانی جیلوں میں بھارتی قیدیوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہو گا اور اس سے متعلق حقائق کی تلاش میں ہم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کراچی چیپٹر کے سربراہ اسد اقبال بٹ کے پاس پہنچ گئے۔

بٹ صاحب کا کہنا تھا کہ پاکستان کی جیل میں قید بھارتی قیدیوں کے ساتھ نہ صرف اچھا سلوک کیا جاتا ہے بلکہ انھیں عبادت کی مکمل آزادی کے ساتھ جیل میں کام کرنے کی سہولیات بھی میسر ہیں جس کی انھیں باقاعدہ اجرت دی جاتی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ دیگر سہولتوں کے علاوہ جیل میں وہ اپنے ہاتھوں سے اپنی پسند کاکھانا بھی بنا سکتے ہیں۔ وہ بتا رہے تھے کہ کراچی کی جیلوں میں قید بھارتی ماہی گیروں کی رہائی اور سہولت کے لیے جہاں سماجی ادارے قانونی اور سماجی سہولیات فراہم کرنے میں پیش پیش ہیں وہاں جیل کے حکام بھی اس بات کا خاص خیال رکھتے ہیں کہ کسی بھارتی قیدی کوقید کے دوران کوئی تکلیف نہ پہنچے۔

بٹ صاحب کی باتیں سن کر جہاں خوشی ہوئی وہاںہم یہ بھی سوچ رہے تھے کہ آزادی کے بعد سے دونوں ممالک کی سرحدوں پر چلنے والی لڑائی جھگڑے اور دوستی کی فلمیں چاہے کتنی ہی فرسودہ اور اکتاہٹ سے بھر پورکیوں نہ ہوں ان میں بعض دفعہ کچھ ایسی فلمیں اور کہانیاں بھی مل جاتی ہیں جن میں محبت ، انسانیت اور سچ کے علاوہ اورکچھ نہیں ہوتا ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں