نائجر میں امریکی موجودگی کا راز فاش
پینٹاگون نہایت تیزی سے افریقا میں اپنی موجودگی کی توسیع کررہا ہے
پردہ اٹھتا ہے، اسٹیج پر چار قیمتی تابوت نظر آرہے ہیں۔ دیکھنے والے اس کوکسی فلم کا ایک دلچسپ منظر سمجھتے ہوئے محظوظ ہورہے ہیں۔ اچانک شور مچتا ہے کہ یہ تابوت خالی نہیں، ان میں امریکی فوجیوں کی جنازے رکھے ہوئے ہیں یہ سننا تھا کہ لوگ سیدھے ہو کر بیٹھ گئے،کان کھڑے ہو گئے،کن انکھیوں سے ایک دوسرے کی جانب دیکھنے لگے، چہ مگوئیاں شروع ہوگئیں، سوال اٹھائے جانے لگے، ان سوالوں کے جواب میں آنیوالی خاموشی نے اور سراسیمگی پھیلا دی،جب سوالوں کے زور سے برداشت کے بند ٹوٹے تو جواب ملا کہ یہ امریکی فوجی، مظلوم براعظم افریقا کے سب سے غریب ملک نائجر میں تعینات تھے۔ یہ سننا تھا کہ لوگ فلمی دنیا سے حقیقت کے جہنم میں آگئے۔
میڈیا میں شور مچا، امریکی عوام نے حکومتی اقدامات کی طرف سے مزید بیزاری کا اظہار کیا۔ یہاں تک کہ خود امریکی سینیٹرز میڈیا کے سامنے کہنے لگے کہ وہ نائجر میں امریکی فوج کی موجودگی سے یکسر لا علم ہیں اور نہ صرف نائجر بلکہ ان کو تو یہ تک نہیں پتہ کہ امریکی فوج دنیا کے کن کن خطوں میں کب سے موجود ہے۔ اس کے لیے کتنا بجٹ مختص کیا جاتا ہے اور ان لاتعداد فوجی مشنوں کے پس پردہ کیا مقاصد ہیں؟ پردہ ابھی گرا نہیں، فلم مکمل کیے بغیرگر بھی کیسے سکتا ہے۔ فلم کا دورانیہ کتنا ہے یہ بھی نہیں پتہ۔ البتہ امریکی حکومتی عہدیداران کے ان بیانات سے کلائمکس ضرورآگیا ہے۔ پینٹاگون نہایت تیزی سے افریقا میں اپنی موجودگی کی توسیع کررہا ہے۔ نصف درجن سے زیادہ افریقی ممالک میں آج بھی امریکی فوجی دستے موجود ہیں۔
جارج ڈبلیو بش جونیئرکے دورِ حکومت سے ہی مغربی افریقا کے ممالک میں اسلامی شدت پسند گروہوں سے مقابلے کے نام پر امریکا افریقی وسائل کو بے دریغ لوٹنے کے لیے سرمایہ کاری کررہا ہے۔ اوباما حکومت نے بھی القاعدہ اورآئی ایس آئی ایس کے جنگجوؤں سے مقابلے کے نام پر مزید فوجی دستے روانہ کیے جن کا مقصد مقامی فوج کی جنگی تربیت کرنا قرار دیا گیا لیکن اہم سوال تو یہ ہے کہ افریقی سرزمین سے وہ کون سے مذموم امریکی مفادات وابستہ ہیں جن کی تکمیل کے لیے اپنے حکومتی ارکان تک کو اعتماد میں لینے سے احتراز برتا جا رہا ہے۔ نائجر میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کا اب بھی علم نہ ہوتا اگر چار فوجیوں کی لاشیں امریکا میں وصول نہ کی جاتیں۔ چارو ناچار اب امریکی حکومت کو اعتراف کرنا پڑا کہ 2013ء سے نائجر میں امریکی فوج موجود ہے۔ مالی کی سرحد سے منسلک نائجرکا پسماندہ خطہ القاعدہ اور داعش کا مشترکہ گڑھ سمجھا جاتا ہے۔
ساتھ ہی بوکو حرام کی موجودگی نے اس علاقے کو دیگر افریقی ممالک سے کے مقابلے میں زیادہ حساس بنا دیا ہے۔ عرصہ دراز سے یہ خطہ انسانوں، ہتھیاروں اور منشیات کے اسمگلروں کی گزرگاہ بھی بنا ہوا ہے۔ مقامی حکومت کے ساتھ مل کر ان تمام عناصر پر قابو پانے کی غرض سے امریکا نے آٹھ سو فوجی یہاں اتارے ہیں جن کا مقامی حکومت نے کھلے دل سے خیر مقدم کیا ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ چار امریکی فوجیوں کی ہلاکت پر خود نائجر حکومت امریکا سے باغیوں کو سبق سکھانے کے لیے ان پر ڈرون حملے کرنے کی گزارش کررہی ہے اس سے بڑا المیہ یہ کہ جو سوال نائجر میں اٹھنے چاہیے تھے وہ امریکی معاشرے میں بلند کیے جارہے ہیں کہ نائجر میں امریکا کی موجودگی کا کیا جواز ہے اور ان اہم معاملات پر قوم کو اعتماد میں کیوں نہیں لیا جاتا؟ پورے افریقا میں اس وقت چھ سے آٹھ ہزار امریکی فوجی موجود ہیں جن کا ایک تہائی اسپیشل فورسز پر مشتمل ہے۔
سب سے زیادہ فوجی جبوتی میں تعینات ہیں نائجر کے دارالحکومت نیامی میں ڈرون بیس پر تین سو امریکی فوجی موجود ہیں اور دو سو فوجی آگادیز میں پچاس ملین ڈالرکی لاگت سے تعمیر کیے جانے والے ایک اور امریکی ڈرون بیس کی خدمت پر مامور ہیں۔ یوں امریکی فوج کی افریقا میں طویل عرصے سے موجودگی کی ایک پوری تاریخ رقم ہو رہی ہے۔ نائجر جیسا غریب ترین ملک جو بلند ترین شرح پیدائش کا بھی حامل ہے، یہاں حکومت اور باغیوں کے درمیان عرصہ دراز سے تنازعات موجود ہیں۔ دیہی علاقوں میں حکومت کی عدم توجہی ان بہت سارے عوامل میں سے ایک ہے جن کی وجہ سے آئے دن مسلح شورشیں برپا ہوتی ہیں اور عسکریت پسند گروہوں میں عوام کی شمولیت کے راستے کھلتے ہیں۔ یہ گروہ صرف حکومت کے خلاف نہیں بلکہ یہاں تعینات امریکی فوجیوں کی بھی جان کے درپے ہیں جس پر اب دنیا کی حیرت بلاجواز ہے۔
بھوک، پیاس، افلاس اور جبر کے ستائے عوام کو بنیادی ضروریات فراہم کرنے کے بجائے ان پر اسلحہ تان کرکھڑا ہوا جائے گا تو ایسا ہی وحشی معاشرہ وجود میں آئیگا جس میں ہر کوئی دوسرے کے خون کا پیاسا ہوگا۔ دنیا کی پریشانی کی وجہ پسلیاں پیٹ سے لگائے اچھے دنوں کی آس لُٹائے، مظلوم افریقی اب بھی نہیں بلکہ وہ چار تابوت ہیں جن میں لیٹے امریکی فوجیوں کو اس وقت مظلوم ترین بناکر پیش کیا جارہا ہے اور اندھے بہرے لوگ اس پکار پر آمنا وصدقنا کہہ رہے ہیں۔ امریکا نے اسلامی دنیا کو اپنے شکنجے میں جکڑنے کے لیے بیشک اپنے فوجیوں کی جانوں کو بھی داؤ پر لگایا ہے۔ امریکی معاشرہ تو اس بات پر چیخ رہا ہے کہ سپر پاورکے حکمراں ڈونلڈ ٹرمپ کو ان فوجیوں کا نام بھی یاد نہیں جنہوں نے امریکی سرحدوں کی وسعت کے خواب کی تعبیر پانے کے لیے اپنی جان قربان کردی۔کچھ پانے کے لیے اب کچھ توکھونا ہی پڑتا ہے، لیکن یہ بات امریکی سمجھنے کو تیار ہی نہیں۔ ان سے صرف یہی ہضم نہیں ہورہا کہ نائجر میں مارے جانے والے چار میں سے ایک فوجی کی بیوہ سے تعزیت کرنیوالے ٹرمپ کا لہجہ سپاٹ کیوں تھا اور وہ کیسے مارے جانے والے فوجیوں کا نام تک بھول گئے۔
اب اس احتجاج پر ہنسی ہی آسکتی ہے! امریکیوں کو یہ بات کیوں سمجھ نہیں آتی کہ بڑے مقاصد پر جن کی نگاہیں جمی ہوں وہ چھوٹے موٹے نقصانات کو خاطر میں نہیں لاتے۔ یہ تو اب دنیا تسلیم کر رہی ہے کہ افریقی ممالک میں فوجی مشن بھیج کر امریکا نے اپنے دوست نہیں بنائے بلکہ دشمن بڑھائے ہیں۔ افریقیوں کے احساس محرومی میں مزید اضافہ ہوا ہے، ان کو دورغلامی کی یاد تازہ کروائی گئی ہے اور یہ سب بھلائی کے نام پر کیا جارہا ہے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اس بھلائی کے کام کو امریکا حتی الامکان خفیہ بھی رکھنا چاہتا ہے لیکن بُرا ہو وقت کا جو سب کا پول کھول دیتا ہے۔
نائجر میں امریکی فوجیوں کی ہلاکت سے ہفتہ بھر پہلے تک امریکی فوج کے ڈائریکٹر جوائنٹ اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل کینتھ مکنزی نے واشگاف الفاظ میں انکارکیا تھا کہ نائجر میں ان کا کوئی فوجی مشن کام نہیں کر رہا۔ اب جب کہ حقائق روزِروشن کی طرح عیاں ہو ہی گئے ہیں تو انکو بھی اعتراف کرنا پڑا کہ افریقا میں نام نہاد امن کے قیام کے لیے ان کا سب سے بڑا مرکز تو نائجر ہی ہے گویا امریکا نے وقت اور جغرافیے کی حدوں سے بالا ایک لامتناہی جنگ افریقا میں چھیڑی ہوئی ہے۔ چاڈ، کیمرون، یوگنڈا، صومالیہ، نائجر اورکئی افریقی ملکوں میں امریکی چھاپا مار ٹیمیں آئے دن کارہائے نمایاں انجام دے رہی ہیں۔
ان تمام فوجی مشنوں کی اسٹرٹیجک اہمیت اور مقصد کے لیے وقت کے دامن میں بھاری سوالات موجود ہیں۔ ان سوالوں کا جواب جدید دنیا دیتی تو ہے لیکن اس تناظر میں کہ2001ء سے اب تک کی کارروائیوں کے نتیجے میں کتنے امریکی فوجی ہلاک ہوئے اور امریکا نے کتنے وسائل اس جنگ میں جھونک دیے، یہ کب سوچا جائے گا کہ اس براعظم میں اپنی رفتار بڑھانے کے امریکی عزم کا شکار کتنے افریقی ہوئے، کتنے گاؤں ویران ہوئے، ڈرون حملوں میں کتنے بچے ماؤں کی گودوں ہی میں دفن ہوگئے، شورش سے بچ کر ہجرت کرنیوالے، کتنے تارکین وطن صحرائے صحارا میں پیاس کی شدت سے ہلاک ہوگئے! ان کے درد کا مداوا کسی کے پاس نہیں لیکن کیا امریکی حکومت کے پاس اس کا جواب ہے کہ ان افریقیوں کو کب انسانیت کے زمرے میں شمار کیا جائے گا؟ کب ان کے معاملات میں مداخلت بند کرکے انکو اپنے فیصلے خود کرنے کے لیے آزاد چھوڑینگے؟ کب اپنے پنجے کھول کر افریقیوں کو خود اڑان بھرنے کا موقع دینگے؟ دنیا کے وسائل لوٹ لوٹ کر انکا دل اور پیٹ کب بھریگا؟کب یہ فلم ختم ہوگی اورکب پردہ گریگا؟
میڈیا میں شور مچا، امریکی عوام نے حکومتی اقدامات کی طرف سے مزید بیزاری کا اظہار کیا۔ یہاں تک کہ خود امریکی سینیٹرز میڈیا کے سامنے کہنے لگے کہ وہ نائجر میں امریکی فوج کی موجودگی سے یکسر لا علم ہیں اور نہ صرف نائجر بلکہ ان کو تو یہ تک نہیں پتہ کہ امریکی فوج دنیا کے کن کن خطوں میں کب سے موجود ہے۔ اس کے لیے کتنا بجٹ مختص کیا جاتا ہے اور ان لاتعداد فوجی مشنوں کے پس پردہ کیا مقاصد ہیں؟ پردہ ابھی گرا نہیں، فلم مکمل کیے بغیرگر بھی کیسے سکتا ہے۔ فلم کا دورانیہ کتنا ہے یہ بھی نہیں پتہ۔ البتہ امریکی حکومتی عہدیداران کے ان بیانات سے کلائمکس ضرورآگیا ہے۔ پینٹاگون نہایت تیزی سے افریقا میں اپنی موجودگی کی توسیع کررہا ہے۔ نصف درجن سے زیادہ افریقی ممالک میں آج بھی امریکی فوجی دستے موجود ہیں۔
جارج ڈبلیو بش جونیئرکے دورِ حکومت سے ہی مغربی افریقا کے ممالک میں اسلامی شدت پسند گروہوں سے مقابلے کے نام پر امریکا افریقی وسائل کو بے دریغ لوٹنے کے لیے سرمایہ کاری کررہا ہے۔ اوباما حکومت نے بھی القاعدہ اورآئی ایس آئی ایس کے جنگجوؤں سے مقابلے کے نام پر مزید فوجی دستے روانہ کیے جن کا مقصد مقامی فوج کی جنگی تربیت کرنا قرار دیا گیا لیکن اہم سوال تو یہ ہے کہ افریقی سرزمین سے وہ کون سے مذموم امریکی مفادات وابستہ ہیں جن کی تکمیل کے لیے اپنے حکومتی ارکان تک کو اعتماد میں لینے سے احتراز برتا جا رہا ہے۔ نائجر میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کا اب بھی علم نہ ہوتا اگر چار فوجیوں کی لاشیں امریکا میں وصول نہ کی جاتیں۔ چارو ناچار اب امریکی حکومت کو اعتراف کرنا پڑا کہ 2013ء سے نائجر میں امریکی فوج موجود ہے۔ مالی کی سرحد سے منسلک نائجرکا پسماندہ خطہ القاعدہ اور داعش کا مشترکہ گڑھ سمجھا جاتا ہے۔
ساتھ ہی بوکو حرام کی موجودگی نے اس علاقے کو دیگر افریقی ممالک سے کے مقابلے میں زیادہ حساس بنا دیا ہے۔ عرصہ دراز سے یہ خطہ انسانوں، ہتھیاروں اور منشیات کے اسمگلروں کی گزرگاہ بھی بنا ہوا ہے۔ مقامی حکومت کے ساتھ مل کر ان تمام عناصر پر قابو پانے کی غرض سے امریکا نے آٹھ سو فوجی یہاں اتارے ہیں جن کا مقامی حکومت نے کھلے دل سے خیر مقدم کیا ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ چار امریکی فوجیوں کی ہلاکت پر خود نائجر حکومت امریکا سے باغیوں کو سبق سکھانے کے لیے ان پر ڈرون حملے کرنے کی گزارش کررہی ہے اس سے بڑا المیہ یہ کہ جو سوال نائجر میں اٹھنے چاہیے تھے وہ امریکی معاشرے میں بلند کیے جارہے ہیں کہ نائجر میں امریکا کی موجودگی کا کیا جواز ہے اور ان اہم معاملات پر قوم کو اعتماد میں کیوں نہیں لیا جاتا؟ پورے افریقا میں اس وقت چھ سے آٹھ ہزار امریکی فوجی موجود ہیں جن کا ایک تہائی اسپیشل فورسز پر مشتمل ہے۔
سب سے زیادہ فوجی جبوتی میں تعینات ہیں نائجر کے دارالحکومت نیامی میں ڈرون بیس پر تین سو امریکی فوجی موجود ہیں اور دو سو فوجی آگادیز میں پچاس ملین ڈالرکی لاگت سے تعمیر کیے جانے والے ایک اور امریکی ڈرون بیس کی خدمت پر مامور ہیں۔ یوں امریکی فوج کی افریقا میں طویل عرصے سے موجودگی کی ایک پوری تاریخ رقم ہو رہی ہے۔ نائجر جیسا غریب ترین ملک جو بلند ترین شرح پیدائش کا بھی حامل ہے، یہاں حکومت اور باغیوں کے درمیان عرصہ دراز سے تنازعات موجود ہیں۔ دیہی علاقوں میں حکومت کی عدم توجہی ان بہت سارے عوامل میں سے ایک ہے جن کی وجہ سے آئے دن مسلح شورشیں برپا ہوتی ہیں اور عسکریت پسند گروہوں میں عوام کی شمولیت کے راستے کھلتے ہیں۔ یہ گروہ صرف حکومت کے خلاف نہیں بلکہ یہاں تعینات امریکی فوجیوں کی بھی جان کے درپے ہیں جس پر اب دنیا کی حیرت بلاجواز ہے۔
بھوک، پیاس، افلاس اور جبر کے ستائے عوام کو بنیادی ضروریات فراہم کرنے کے بجائے ان پر اسلحہ تان کرکھڑا ہوا جائے گا تو ایسا ہی وحشی معاشرہ وجود میں آئیگا جس میں ہر کوئی دوسرے کے خون کا پیاسا ہوگا۔ دنیا کی پریشانی کی وجہ پسلیاں پیٹ سے لگائے اچھے دنوں کی آس لُٹائے، مظلوم افریقی اب بھی نہیں بلکہ وہ چار تابوت ہیں جن میں لیٹے امریکی فوجیوں کو اس وقت مظلوم ترین بناکر پیش کیا جارہا ہے اور اندھے بہرے لوگ اس پکار پر آمنا وصدقنا کہہ رہے ہیں۔ امریکا نے اسلامی دنیا کو اپنے شکنجے میں جکڑنے کے لیے بیشک اپنے فوجیوں کی جانوں کو بھی داؤ پر لگایا ہے۔ امریکی معاشرہ تو اس بات پر چیخ رہا ہے کہ سپر پاورکے حکمراں ڈونلڈ ٹرمپ کو ان فوجیوں کا نام بھی یاد نہیں جنہوں نے امریکی سرحدوں کی وسعت کے خواب کی تعبیر پانے کے لیے اپنی جان قربان کردی۔کچھ پانے کے لیے اب کچھ توکھونا ہی پڑتا ہے، لیکن یہ بات امریکی سمجھنے کو تیار ہی نہیں۔ ان سے صرف یہی ہضم نہیں ہورہا کہ نائجر میں مارے جانے والے چار میں سے ایک فوجی کی بیوہ سے تعزیت کرنیوالے ٹرمپ کا لہجہ سپاٹ کیوں تھا اور وہ کیسے مارے جانے والے فوجیوں کا نام تک بھول گئے۔
اب اس احتجاج پر ہنسی ہی آسکتی ہے! امریکیوں کو یہ بات کیوں سمجھ نہیں آتی کہ بڑے مقاصد پر جن کی نگاہیں جمی ہوں وہ چھوٹے موٹے نقصانات کو خاطر میں نہیں لاتے۔ یہ تو اب دنیا تسلیم کر رہی ہے کہ افریقی ممالک میں فوجی مشن بھیج کر امریکا نے اپنے دوست نہیں بنائے بلکہ دشمن بڑھائے ہیں۔ افریقیوں کے احساس محرومی میں مزید اضافہ ہوا ہے، ان کو دورغلامی کی یاد تازہ کروائی گئی ہے اور یہ سب بھلائی کے نام پر کیا جارہا ہے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اس بھلائی کے کام کو امریکا حتی الامکان خفیہ بھی رکھنا چاہتا ہے لیکن بُرا ہو وقت کا جو سب کا پول کھول دیتا ہے۔
نائجر میں امریکی فوجیوں کی ہلاکت سے ہفتہ بھر پہلے تک امریکی فوج کے ڈائریکٹر جوائنٹ اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل کینتھ مکنزی نے واشگاف الفاظ میں انکارکیا تھا کہ نائجر میں ان کا کوئی فوجی مشن کام نہیں کر رہا۔ اب جب کہ حقائق روزِروشن کی طرح عیاں ہو ہی گئے ہیں تو انکو بھی اعتراف کرنا پڑا کہ افریقا میں نام نہاد امن کے قیام کے لیے ان کا سب سے بڑا مرکز تو نائجر ہی ہے گویا امریکا نے وقت اور جغرافیے کی حدوں سے بالا ایک لامتناہی جنگ افریقا میں چھیڑی ہوئی ہے۔ چاڈ، کیمرون، یوگنڈا، صومالیہ، نائجر اورکئی افریقی ملکوں میں امریکی چھاپا مار ٹیمیں آئے دن کارہائے نمایاں انجام دے رہی ہیں۔
ان تمام فوجی مشنوں کی اسٹرٹیجک اہمیت اور مقصد کے لیے وقت کے دامن میں بھاری سوالات موجود ہیں۔ ان سوالوں کا جواب جدید دنیا دیتی تو ہے لیکن اس تناظر میں کہ2001ء سے اب تک کی کارروائیوں کے نتیجے میں کتنے امریکی فوجی ہلاک ہوئے اور امریکا نے کتنے وسائل اس جنگ میں جھونک دیے، یہ کب سوچا جائے گا کہ اس براعظم میں اپنی رفتار بڑھانے کے امریکی عزم کا شکار کتنے افریقی ہوئے، کتنے گاؤں ویران ہوئے، ڈرون حملوں میں کتنے بچے ماؤں کی گودوں ہی میں دفن ہوگئے، شورش سے بچ کر ہجرت کرنیوالے، کتنے تارکین وطن صحرائے صحارا میں پیاس کی شدت سے ہلاک ہوگئے! ان کے درد کا مداوا کسی کے پاس نہیں لیکن کیا امریکی حکومت کے پاس اس کا جواب ہے کہ ان افریقیوں کو کب انسانیت کے زمرے میں شمار کیا جائے گا؟ کب ان کے معاملات میں مداخلت بند کرکے انکو اپنے فیصلے خود کرنے کے لیے آزاد چھوڑینگے؟ کب اپنے پنجے کھول کر افریقیوں کو خود اڑان بھرنے کا موقع دینگے؟ دنیا کے وسائل لوٹ لوٹ کر انکا دل اور پیٹ کب بھریگا؟کب یہ فلم ختم ہوگی اورکب پردہ گریگا؟