زرداری سے مفاہمت کی بے چینی

لاہور اور پشاور کے ضمنی انتخابات کے نتائج نے ملک بھر میں پیپلزپارٹی کے گرتے ہوئے گراف کا ثبوت دے دیا ہے


Muhammad Saeed Arain November 10, 2017

KARACHI: وزیرخارجہ خواجہ آصف نے اعتراف کرلیا ہے کہ وہ سابق صدر آصف علی زرداری اور سابق وزیراعظم نواز شریف کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ بحال کرانے میں ناکام رہے ہیں اور وہ اس سلسلے میں کی جانے والی اپنی کوشش کوکامیابی سے ہمکنار نہیں کرسکے کیونکہ سابق صدر سابق وزیراعظم سے ملاقات و رابطہ تو کیا ٹیلی فون پر رابطہ رکھنا نہیں چاہتے۔ آصف زرداری آج کل سب سے زیادہ پارسا بنے ہوئے ہیں اور عمران خان سے بھی زیادہ نواز شریف پر برہم ہیں اور انھوں نے اپنی بڑھتی ہوئی ناراضگی کو نواز شریف کی گرفتاری کے مطالبے تک بڑھادیا ہے۔

سیاسی حلقے حیران ہیں کہ میاں نواز شریف سابق صدر آصف زرداری سے مفاہمت کے لیے اتنے کیوں بے چین ہیں اور انھوں نے خواجہ آصف کو یہ ذمے داری سونپی جو ناکام رہے اور انھوں نے بعد میں ٹی وی پر انٹرویو میں اپنی اس ناکامی کا اعتراف کرنا کیوں ضروری سمجھا۔ آصف زرداری کی طرف سے تو نواز شریف سے کوئی تعلق نہ رکھنے کی باتیں کی جا رہی تھیں اور لوگ اس پر یقین نہیں کررہے تھے مگر اب خواجہ آصف نے اس سلسلے میں اپنی ناکامی کا برملا اعتراف کیا ہے جس سے نواز شریف پر سوالات اٹھنا شروع ہوگئے ہیں۔

لوگ حیران ہورہے ہیں کہ عمران خان کے خوف سے ملک بھر میں غروب ہونے والی پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین سے میاں نواز شریف پرانا تعلق استوارکرنا چاہتے ہیں۔ لاہور اور پشاور کے ضمنی انتخابات کے نتائج نے ملک بھر میں پیپلزپارٹی کے گرتے ہوئے گراف کا ثبوت دے دیا ہے جسے سنبھالنے کی پیپلزپارٹی کے دونوں چیئرمین کئی ماہ کی کوشش کے بعد کامیاب نہیں ہوئے۔

سینیٹ میں جہاں پیپلزپارٹی اور اس کے حلیفوں کی اکثریت ہے پیپلزپارٹی اپنا کام دکھاچکی ہے جہاں پہلے ن لیگ ایک ووٹ کی اکثریت سے کامیاب ہوئی تھی اسے سینیٹ میں اپنی حمایت میں صرف 18 ووٹ مل سکے اور سینیٹ نے بھاری اکثریت سے نا اہل شخص کو سیاسی پارٹی کا صدر نہ بنانے کی قرارداد منظور کرالی ہے جو قومی اسمبلی حمایت میں پہلے ہی منظور کرچکی ہے اور دوبارہ بھی کر لے گی۔

میاں نواز شریف کی وزارت عظمیٰ کے دوران ہی آصف زرداری نے اپنے خلاف تمام مقدمات میں خود کو بری کرا لیا تھا جس کے آخری فیصلے کے خلاف نیب نے سپریم کورٹ میں اپیل بھی کر رکھی ہے اور نیب میں بھی آصف زرداری کے خلاف متعدد معاملات ابھی موجود ہیں۔ نیب میں اب چوہدریوں اور پی ٹی آئی کے عبدالعلیم خان کے معاملات پر نوٹس جاری ہونے کے بعد آصف زرداری کو بھی نیب کی طرف سے نوٹس جاری ہونے کا امکان بڑھ گیا ہے کیونکہ ان کی منی ٹریل کھلنے کا بھی نمبر آرہاہے۔

نیب اور احتساب عدالتوں میں کسی وجہ سے آصف زرداری کامیاب تو ہوچکے ہیں مگر عمران خان اب نواز شریف کے بعد آصف زرداری کے پیچھے پڑگئے ہیں اور وہ نواز شریف کے بعد آصف زرداری کو بھی بڑا ڈاکو قرار دے رہے ہیں اور احتساب عدالتوں میں آصف زرداری کی کوئی کرپشن ثابت نہ ہونے کے باوجود انھیں پارسا ماننے کو تیار نہیں ہیں اور آصف زرداری پر سنگین الزامات کے ساتھ وہ فریال تالپور پر بھی کرپشن کے الزامات لگارہے ہیں۔

سندھ اسمبلی میں کرپشن میں گرفتار سابق وزیر شرجیل میمن کا والہانہ استقبال دیکھ کر عمران خان نے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو بھی کرپٹ قرار دے دیا ہے کیونکہ آصف زرداری بھی عمران خان کے قابل اعتماد وزیراعلیٰ پرویز خٹک پرکرپشن سمیت متعدد الزامات عائد کرچکے ہیں۔

نیب کی خصوصی شفقت اور واضح ثبوت نہ ملنے پر متعدد احتساب عدالتیں آصف زرداری کو رہا تو کرچکی ہیں مگر آصف زرداری کو پیپلزپارٹی کے سوا کوئی بھی مسٹر کلین اور صادق و امین تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہے۔ آصف زرداری بھی آنے والے دنوں سے خوفزدہ نظر نہیں آرہے نہ انھیں عزیر بلوچ کی طرف سے لگائے جانے والے مبینہ الزامات کی فکر ہے۔ اسی لیے وہ نواز شریف سے پرانے رابطے بحال نہیں کرنا چاہتے جس کے لیے نواز شریف نہ جانے کیوں بے قرار ہیں۔ نواز شریف نے اپنے دور میں آصف زرداری کی خوشنودی کے لیے سندھ حکومت سے آنکھیں بند رکھیں۔

سندھ میں مسلم لیگ ن کا بیڑا غرق کرا لیا مگر پیپلزپارٹی سے کبھی انھوں نے شکوہ نہیں کیا۔ ن لیگ کے اہم رہنما نواز شریف کی غلط پالیسی اور سندھ میں حکومتی کرپشن پر خاموش رہنے پر ن لیگ چھوڑ کر پیپلزپارٹی میں شامل ہوگئے اور نواز شریف کو سندھ میں پیپلزپارٹی کی ناقص کارکردگی اپنی نا اہلی سے قبل نظر آگئی تھی مگر انھیں پیپلزپارٹی کی کرپشن اب تک نظر نہیں آئی اور وہ بھی آصف زرداری کی طرح خود کو کرپشن سے پاک تصور کررہے ہیں۔ پیپلزپارٹی ملک بھر میں کرپشن میں بدنام ہوکر اپنی ساکھ کھوچکی ہے تو نواز شریف بھی آصف زرداری کی طرح معصوم بننے کی کوشش کررہے ہیں۔

نواز شریف اور آصف زرداری پر متعدد الزامات ہیں مگر تسلیم کوئی نہیں کرتا۔ آصف زرداری کو عدالتوں سے سرٹیفکیٹ مل چکا ہے اور شاید نواز شریف اسی لیے آصف زرداری سے مل کر احتساب سے بچنے کا طریقہ معلوم کرنا چاہ رہے ہیں جو آصف زرداری انھیں بتانا نہیں چاہتے اور اپنی طرح نواز شریف کو بھی سالوں جیلوں میں دیکھنا چاہتے ہیں۔

نواز شریف نے وزیراعظم ہوتے ہوئے اپنی طے شدہ ملاقات کسی وجہ سے منسوخ کردی تھی جس کی ناراضگی کے باعث آصف زرداری اب نواز شریف کی آواز سننا بھی نہیں چاہ رہے۔ اپنی صدارت میں آصف زرداری نہ صرف نواز شریف بلکہ دونوں اپنی اولادوں میں بھی اچھا تعلق برقرار رکھنے کے خواہش مند تھے۔

دونوں کے بیانات شاید سیاسی مفاد پرستی کے لیے تھے اور اب آصف زرداری کو مفاد کہیں اور سے ملتا نظر آرہاہے تو نواز شریف آصف زرداری سے مل کر ویسا ہی مفاد لینے کے خواہش مند ہیں جوانھیں آصف زرداری دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ پی پی رہنما نواز شریف پر دھوکا دہی کے الزامات لگارہے ہیں اور سابق صدر سابق وزیراعظم کو معاف کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ آصف زرداری کی کرپشن کے ثبوت نہیں ملے ۔ نواز شریف سزا سے بچنا چاہتے ہیں اور آصف زرداری انھیں سزا دلانا چاہتے ہیں۔ اسی لیے دشمن کو بھی دوست بنانے میں مشہور آصف زرداری اپنے سابق بڑے بھائی نواز شریف سے مفاہمت نہیں چاہ رہے اور بدلہ لینا چاہ رہے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں