آخرت کی تیاری
موت کو یاد رکھنا مومنانہ زندگی کا لازمی تقاضا ہے۔
جب حضرت آدم علیہ السلام اور بی بی حوا کو جنّت سے دنیا میں بھیجا گیا تو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ زمین پر تمہارا قیام ہمیشہ نہیں ہوگا بل کہ دنیا میں ایک وقت مقررہ تک ٹھہرنا ہے۔
دنیا کی نعمتیں اور ان نعمتوں سے تمہارا مستفید ہونا دائمی نہیں عارضی ہے یعنی ابتدائے افزائش سے ہی موت کی یاد دلائی گئی ہے۔ آخرت منزل اور دنیا سفر ہے۔ آخرت قیام اور دنیا راستہ ہے۔ آخرت مقصد اور دنیا مقصد کے حصول کے لیے واسطہ اور وسیلہ ہے۔
حضرت زین الدین امام غزالیؒ نے فرمایا ہے : '' یہ دنیا عالم خواب ہے اور انبیائے علہیم السلام اس خواب کی تعبیر دینے والے ہیں اور اس تعبیر کا جھوٹ و سچ تم کو بیدار ہونے کے بعد معلوم ہوگا۔ اللہ رب العزت بادشاہ ہے۔ دنیا کی مثال روٹی ہے، شیطان کتّا ہے۔ کتّا تم سے روٹی پر لڑ رہا ہے، پس تم پر لازم ہے کہ روٹی کتّے کی طرف پھینک دو اور بادشاہ کی ملاقات کو ضروری سمجھو۔''
دوسری جگہ فرماتے ہیں : '' موت سب سے بڑی مصیبت اور سب سے بڑھ کر حادثہ ہے کیوں کہ اس سے زیادہ ہول ناک بات مخلوق نے نہیں دیکھی ہے۔''
موت کے وقوع اور طاری ہونے میں کسی کا اختلاف نہیں۔ لوگوں نے اللہ سے انکار کیا ہے لیکن موت سے نہیں کیوں کہ ہم روز اپنی آنکھوں سے موت کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ لوگوں کو مرتے دیکھتے ہیں اس لیے کوئی اس کا انکار نہیں کرسکتا۔ چاہے وہ بڑے سے بڑا کافر اور منکر خدا ہی کیوں نہ ہو۔
موت ایک اٹل حقیقت اور ہر نفس کا یقینی اور قطعی انجام ہے۔
سورۃ الحجر میں ارشاد خدا وندی ہے، مفہوم: ''اور بندگی کیے جا اپنے رب کی، جب تک آئے تیرے پاس یقین۔''
مفسرین نے یہاں یقین کو موت کے معنی میں لیا ہے۔ یعنی جب تک آئے تمہارے پاس موت۔ موت اتنی اٹل، بے شک و شبہ اور قرار واقعی حقیقت تھی کہ اس کی جگہ لفظ یقین لایا گیا۔ سورۃ المدثر آیت نمبر47 میں بھی موت کو یقین کے لفظ کے ساتھ یاد کیا گیا ہے۔
حدیث پاک میں ہے کہ حضور ﷺ نے ایک میّت کی نسبت فرمایا : '' اس کو یقین (موت) آئی مجھے اس کے لیے اچھے انجام کی امید ہے۔''
دو مرحلے ہر ذی روح کے لیے ہیں یعنی زندگی اور موت۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے، مفہوم: '' موت و حیات اللہ کی طرف سے ہے تاکہ تمہیں جانچے کہ تم میں سے بہ لحاظ عمل کون بہت اچھا ہے۔ ''
(سورۃ الملک)
زندگی عمل کے لیے ہے اور ہمارا امتحان اس عمل میں ہے۔ اگر زندگی نہ ہوتی تو عمل کا موقع نہ ملتا اور اگر آخرت نہ ہوتی تو محاسبہ نہ ہوتا۔ لہٰذا امتحان کے بعد اس کا نتیجہ یا تو اس آزمائش میں کام یاب ہونا ہے یا ناکامی کا منہ دیکھنا ہے۔
دنیا دارالعمل یعنی عمل کا گھر ہے اور آخرت دارالبدل ہے۔ دنیا دارالفنا اور خاتمے کا گھر ہے اور آخرت دارالبقا ہے۔ دنیا دھوکے کا گھر ہے اور آخرت دار سُرور یعنی خوشی کا گھر ہے۔
موت کی ایک ظاہری صورت ہے اور ایک باطنی احساس۔ ہم جب موت کو دیکھتے ہیں تو ہمیں یہ ایک فراق نظر آتی ہے، بہ ظاہر ایک جدائی اہل و عیال، عزیز و اقارب، مال و متاع سے، لیکن یہ موت کا ایک رخ ہے۔ دوسرا رخ اس کا یہ ہے کہ یہ ذریعہ ہے وصال اور ملاقات کا اپنے رب اور خالق سے۔ بہ ظاہر موت ایک فنا ہے لیکن درحقیقت یہ ایک انتقال ہے، ختم ہونا نہیں ہے۔ مردے کو کپڑا پہنایا جائے تو اسے کفن کہتے ہیں لیکن اگر یہ کپڑا ایک زندہ انسان پہنے تو اس کو لباس کہتے ہیں۔
موت کے بارے میں ایک ہمارا نظریہ ہے اور ایک فرشتوں کا تبصرہ ہے۔
رسول الثقلین ﷺ نے فرمایا ہے، مفہوم: جب مرنے والا مر جاتا ہے تو فرشتے پوچھتے ہیں کہ اس نے آگے کیا بھیجا ہے۔ اور لوگ پوچھتے ہیں کہ اس نے پیچھے کیا چھوڑا ہے؟
موت ایک دروازہ ہے جس میں ہر نفس نے داخل ہونا ہے، یہ ایک پیالا ہے جس کو ہر نفس نے پینا ہے اور یہ ایک ذائقہ ہے جسے ہر نفس نے چکھنا ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ تعالیٰ نے قرآنی علوم کو جن پانچ بنیادی ابواب میں تقسیم کیا ہے، ان میں ایک موت اور موت کے بعد کے واقعات کی یاد دہانی قرآن پاک کے پانچ بنیادی مضامین میں سے ایک اہم موضوع ہے۔ یا یہ کہ یہ قرآنی علوم کا پانچواں حصہ ہے۔ اس لیے موت کی یاد مومنانہ زندگی کا لازمی تقاضا ہے۔ مرنے سے پہلے موت کی کیفیت کا تصوّر اور حساب سے پہلے حساب کی باریکی کا تصوّر دراصل ''موت کی تیاری موت سے پہلے'' ہے جس کو مراقبۂ موت کہتے ہیں۔
قرآن پاک کے ساتھ احادیث کثیرہ میں لذتوں کو توڑنے والی چیز یعنی موت کی یاد دہانی کرائی گئی ہے۔ صحابہ کرامؓ کو ہر وقت موت کا تصوّر رہتا تھا۔ وہ حضرات اپنے آپ کو اور ایک دوسرے کو ہر وقت اس کی یاد دلاتے تھے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جو عشرہ مبشرہ صحابی اور خلیفۂ دوم تھے لیکن اپنی انگوٹھی مبارک میں یہ نقش کندہ تھا '' موت بہ ذات خود ایک نصیحت کرنے والی چیز ہے۔'' اور اپنے لیے ایک ملازم رکھا ہوا تھا اور اسے ہدایت کی تھی کہ مجھے روز موت کی یاد دلایا کرو اور مجھے آواز لگایا کرو۔ '' اے عمرؓ اپنی موت کو نہ بھولو۔''
ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم موت کو یاد رکھیں کیوں کہ اگر موت ایک حقیقت ہے تو عمل اور تیاری کے ساتھ اس تلخ حقیقت کو خوش گوار بھی بنایا جاسکتا ہے۔
مولانا حافظ اسداللہ کلیم
دنیا کی نعمتیں اور ان نعمتوں سے تمہارا مستفید ہونا دائمی نہیں عارضی ہے یعنی ابتدائے افزائش سے ہی موت کی یاد دلائی گئی ہے۔ آخرت منزل اور دنیا سفر ہے۔ آخرت قیام اور دنیا راستہ ہے۔ آخرت مقصد اور دنیا مقصد کے حصول کے لیے واسطہ اور وسیلہ ہے۔
حضرت زین الدین امام غزالیؒ نے فرمایا ہے : '' یہ دنیا عالم خواب ہے اور انبیائے علہیم السلام اس خواب کی تعبیر دینے والے ہیں اور اس تعبیر کا جھوٹ و سچ تم کو بیدار ہونے کے بعد معلوم ہوگا۔ اللہ رب العزت بادشاہ ہے۔ دنیا کی مثال روٹی ہے، شیطان کتّا ہے۔ کتّا تم سے روٹی پر لڑ رہا ہے، پس تم پر لازم ہے کہ روٹی کتّے کی طرف پھینک دو اور بادشاہ کی ملاقات کو ضروری سمجھو۔''
دوسری جگہ فرماتے ہیں : '' موت سب سے بڑی مصیبت اور سب سے بڑھ کر حادثہ ہے کیوں کہ اس سے زیادہ ہول ناک بات مخلوق نے نہیں دیکھی ہے۔''
موت کے وقوع اور طاری ہونے میں کسی کا اختلاف نہیں۔ لوگوں نے اللہ سے انکار کیا ہے لیکن موت سے نہیں کیوں کہ ہم روز اپنی آنکھوں سے موت کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ لوگوں کو مرتے دیکھتے ہیں اس لیے کوئی اس کا انکار نہیں کرسکتا۔ چاہے وہ بڑے سے بڑا کافر اور منکر خدا ہی کیوں نہ ہو۔
موت ایک اٹل حقیقت اور ہر نفس کا یقینی اور قطعی انجام ہے۔
سورۃ الحجر میں ارشاد خدا وندی ہے، مفہوم: ''اور بندگی کیے جا اپنے رب کی، جب تک آئے تیرے پاس یقین۔''
مفسرین نے یہاں یقین کو موت کے معنی میں لیا ہے۔ یعنی جب تک آئے تمہارے پاس موت۔ موت اتنی اٹل، بے شک و شبہ اور قرار واقعی حقیقت تھی کہ اس کی جگہ لفظ یقین لایا گیا۔ سورۃ المدثر آیت نمبر47 میں بھی موت کو یقین کے لفظ کے ساتھ یاد کیا گیا ہے۔
حدیث پاک میں ہے کہ حضور ﷺ نے ایک میّت کی نسبت فرمایا : '' اس کو یقین (موت) آئی مجھے اس کے لیے اچھے انجام کی امید ہے۔''
دو مرحلے ہر ذی روح کے لیے ہیں یعنی زندگی اور موت۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے، مفہوم: '' موت و حیات اللہ کی طرف سے ہے تاکہ تمہیں جانچے کہ تم میں سے بہ لحاظ عمل کون بہت اچھا ہے۔ ''
(سورۃ الملک)
زندگی عمل کے لیے ہے اور ہمارا امتحان اس عمل میں ہے۔ اگر زندگی نہ ہوتی تو عمل کا موقع نہ ملتا اور اگر آخرت نہ ہوتی تو محاسبہ نہ ہوتا۔ لہٰذا امتحان کے بعد اس کا نتیجہ یا تو اس آزمائش میں کام یاب ہونا ہے یا ناکامی کا منہ دیکھنا ہے۔
دنیا دارالعمل یعنی عمل کا گھر ہے اور آخرت دارالبدل ہے۔ دنیا دارالفنا اور خاتمے کا گھر ہے اور آخرت دارالبقا ہے۔ دنیا دھوکے کا گھر ہے اور آخرت دار سُرور یعنی خوشی کا گھر ہے۔
موت کی ایک ظاہری صورت ہے اور ایک باطنی احساس۔ ہم جب موت کو دیکھتے ہیں تو ہمیں یہ ایک فراق نظر آتی ہے، بہ ظاہر ایک جدائی اہل و عیال، عزیز و اقارب، مال و متاع سے، لیکن یہ موت کا ایک رخ ہے۔ دوسرا رخ اس کا یہ ہے کہ یہ ذریعہ ہے وصال اور ملاقات کا اپنے رب اور خالق سے۔ بہ ظاہر موت ایک فنا ہے لیکن درحقیقت یہ ایک انتقال ہے، ختم ہونا نہیں ہے۔ مردے کو کپڑا پہنایا جائے تو اسے کفن کہتے ہیں لیکن اگر یہ کپڑا ایک زندہ انسان پہنے تو اس کو لباس کہتے ہیں۔
موت کے بارے میں ایک ہمارا نظریہ ہے اور ایک فرشتوں کا تبصرہ ہے۔
رسول الثقلین ﷺ نے فرمایا ہے، مفہوم: جب مرنے والا مر جاتا ہے تو فرشتے پوچھتے ہیں کہ اس نے آگے کیا بھیجا ہے۔ اور لوگ پوچھتے ہیں کہ اس نے پیچھے کیا چھوڑا ہے؟
موت ایک دروازہ ہے جس میں ہر نفس نے داخل ہونا ہے، یہ ایک پیالا ہے جس کو ہر نفس نے پینا ہے اور یہ ایک ذائقہ ہے جسے ہر نفس نے چکھنا ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ تعالیٰ نے قرآنی علوم کو جن پانچ بنیادی ابواب میں تقسیم کیا ہے، ان میں ایک موت اور موت کے بعد کے واقعات کی یاد دہانی قرآن پاک کے پانچ بنیادی مضامین میں سے ایک اہم موضوع ہے۔ یا یہ کہ یہ قرآنی علوم کا پانچواں حصہ ہے۔ اس لیے موت کی یاد مومنانہ زندگی کا لازمی تقاضا ہے۔ مرنے سے پہلے موت کی کیفیت کا تصوّر اور حساب سے پہلے حساب کی باریکی کا تصوّر دراصل ''موت کی تیاری موت سے پہلے'' ہے جس کو مراقبۂ موت کہتے ہیں۔
قرآن پاک کے ساتھ احادیث کثیرہ میں لذتوں کو توڑنے والی چیز یعنی موت کی یاد دہانی کرائی گئی ہے۔ صحابہ کرامؓ کو ہر وقت موت کا تصوّر رہتا تھا۔ وہ حضرات اپنے آپ کو اور ایک دوسرے کو ہر وقت اس کی یاد دلاتے تھے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جو عشرہ مبشرہ صحابی اور خلیفۂ دوم تھے لیکن اپنی انگوٹھی مبارک میں یہ نقش کندہ تھا '' موت بہ ذات خود ایک نصیحت کرنے والی چیز ہے۔'' اور اپنے لیے ایک ملازم رکھا ہوا تھا اور اسے ہدایت کی تھی کہ مجھے روز موت کی یاد دلایا کرو اور مجھے آواز لگایا کرو۔ '' اے عمرؓ اپنی موت کو نہ بھولو۔''
ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم موت کو یاد رکھیں کیوں کہ اگر موت ایک حقیقت ہے تو عمل اور تیاری کے ساتھ اس تلخ حقیقت کو خوش گوار بھی بنایا جاسکتا ہے۔
مولانا حافظ اسداللہ کلیم