ورلڈ بینک نے پاکستان کی برآمدی کارکردگی مایوس کن قرار دیدیا

11سال میں برآمدصرف27فیصدبڑھی،بیرونی تجارت برائے جی ڈی پی تناسب 17 برس سے 28فیصد پربرقرار،تجارتی روابط58.5 فیصدگھٹ گئے

مسابقتی صلاحیت کم، جدیدٹیکنالوجی وقدرافزائی نظرانداز، کئی دہائیوں سے ٹیکسٹائل،چمڑے وچاول‘5منڈیوں پرانحصار۔ فوٹو: فائل

ورلڈ بینک نے سال 2000 کے بعد سے اب تک پاکستان کی برآمدات کے شعبے میں کارکردگی کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے تجارتی پالیسی، لاجسٹکس، انفرااسٹرکچر اور تجارتی سہولتوں سمیت سرمایہ کاری کے ماحول کو بہتر بنانے کے لیے ٹھوس اور تاریخی اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

ورلڈ بینک کی جانب سے گزشتہ روز کراچی میں جاری کردہ پاکستان ڈیولپمنٹ اپ ڈیٹ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی برآمدات میں 2005سے 2016کے عرصے کے دوران صرف 27.3 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ اسی عرصے کے دوران بنگلادیش کی ایکسپورٹ 276 فیصد، ویتنام کی ایکسپورٹ 445 فیصد اور بھارت کی ایکسپورت میں 165فیصد تک اضافہ ہوا، سال 2000تک پاکستان کی بیرونی تجارت کا جی ڈی پی سے تناسب (ٹریڈ ٹو جی ڈی پی ریشو) بنگلادیش کی 28.1فیصد کے آس پاس تھا تاہم گزشتہ دہائی کے دوران بنگلہ دیش کا تناسب 42.1 تک پہنچ گیا ہے جبکہ پاکستان کا تناسب 28فیصد کی سطح پر ہی برقرار ہے۔

ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان برآمدی شعبے میں مسابقت کی صلاحیت کھو رہا ہے، عالمی ایکسپورٹ میں پاکستان کا مارکیٹ شیئر کم ہورہا ہے جبکہ ملائیشیا، میکسیکو اور تھائی لینڈ کا مارکیٹ شیئر دگنا ہوچکا ہے، برآمدی مسابقت میں کمی پاکستان کے برآمدی شعبے میں انٹرپرینیورشپ اور جدید رجحانات کے فروغ کی راہ میں بھی بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔

پاکستان کی ایکسپورٹ میں مصنوعات اور مارکیٹ کے لحاظ سے تنوع بھی نہ ہونے کے برابر ہے، پاکستان کی برآمدی مصنوعات میں کاٹن سے تیار کردہ مصنوعات کا حصہ کئی دہائیوں سے 55 فیصد ہے جبکہ کاٹن مصنوعات، لیدر اور چاول کا برآمدی باسکٹ میں حصہ 70فیصد سے زائد ہے اور یہ رجحان کئی دہائیوں سے برقرار ہے، مصنوعات کی طرح پاکستانی برآمدی منڈیاں بھی روایتی اور جوں کی توں برقرار ہیں، پاکستان کی برآمدات کا 60 فیصد حصہ 5 روایتی مارکیٹس پر منحصر ہے جبکہ امریکا اور یورپی یونین پاکستانی مصنوعات کی سب سے بڑی منڈیاں بنی ہوئی ہیں، پاکستان کی 22 فیصد برآمدات یورپی یونین جبکہ 17فیصد امریکا کو کی جاتی ہیں۔


پاکستانی ایکسپورٹرز کے عالمی مارکیٹ میں تجارتی روابط غیرمستحکم ہونا بھی برآمدات میں کمی کی اہم وجہ قرار دی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2010 تک پاکستانی ایکسپورٹرز کے دنیا میں 400سے زائد تجارتی روابط قائم تھے جس میں سے 58.5 فیصد روابط 2015 تک برقرار نہ رہ سکے اور 2015 تک صرف 166 تجارتی روابط باقی رہے، اس کے برعکس ویتنام اور بھارت کی کارکردگی بہت بہتر ہے جنہوں نے اسی عرصے میں بالترتیب 66.4 فیصد اور 54.7 فیصد تجارتی روابط برقرار رکھے ہیں۔

پاکستان کے حریف تجارتی ملکوں نے برآمدات بڑھانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور اعلیٰ سطح کی ویلیو ایڈیشن کا سہارا لیا، سال 2010 سے 2015 کے دوران پاکستانی برآمدات میں ہائی ٹیک مصنوعات کا شیئر 1 فیصد سے بھی کم رہا جبکہ پست ٹیکنالوجی کی مصنوعات کا شیئر 60 فیصد رہا، پاکستانی برآمدات میں یہ رجحان 25سال سے برقرار ہے، پاکستان کی برآمدات کے اہم شعبے ٹیکسٹائل میں بھی ٹیکنالوجی اور ہائی ٹیک مصنوعات کے فقدان کا رجحان پایا جاتا ہے۔

ورلڈ بینک نے پاکستان کی بین الاقوامی تجارت کو بہتر بنانے کے لیے ٹیرف کو متوازن بنانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان میں انفرااسٹرکچر کے شعبے میں سرمایہ کاری اور لاگت کو کم کرتے ہوئے کنیکٹیوٹی کو بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے۔

رپورٹ کے مطابق بارڈر اور دستاویزی قواعد وضوابط کو پورا کرتے ہوئے کراچی سے برآمدات کے عمل کو پورا کرنے میں 141گھنٹے لگتے ہیں جبکہ او ای سی ڈی ممالک میں یہ عمل صرف 20گھنٹوں میں پورا کیا جاتا ہے جب کہ عالمی بینک نے ملک میں سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول کی فراہمی کو بھی برآمدات میں اضافے کے لیے ناگزیر قرار دیا ہے۔
Load Next Story