دیہی آبادی کا سیاسی کردار
پاکستان کی دیہی آبادی 70 سال سے وڈیروں اور جاگیرداروں کی غلام بنی ہوئی ہے
ہماری آبادی کا تقریباً 60 فیصد حصہ دیہات میں رہتا ہے، ہماری زرعی معیشت چونکہ دیہی علاقوں سے جڑی ہوئی ہے، لہٰذا کسان اور ہاری دیہات کا حصہ ہیں، نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کے بعد نوآزاد ملکوں نے فرسودہ جاگیرداری نظام کو ختم کر دیا، جاگیرداروں سے لاکھوں ایکڑ اراضی لے کر بے زمین کسانوں اور ہاریوں میں بانٹ دی۔ سیکڑوں سال سے جاگیرداروں کے غلام بنے رہنے والے کسان اور ہاری آزاد ہوگئے اور انتخابات میں اپنی مرضی اور پسند کے امیدوار کے حق میں اپنے ووٹ کا استعمال کرنے لگے۔
ہمارے پڑوسی ملکوں بھارت اور بنگلہ دیش میں آزادی کے ساتھ ہی جاگیردارانہ نظام ختم کردیا گیا تھا، لہٰذا بھارت کا جاگیردار سیاست پر قابض نہ ہو سکا، بھارت کی سیاست جاگیردار طبقے کی سپرمیسی سے آزاد ہو گئی اور دیہی علاقوں میں رہنے والے کسان اور ہاری، جاگیرداروں کی گرفت سے آزاد ہو گئے۔ اب ان کا کام انتخابات میں جاگیرداروں کو ووٹ دینا نہیں رہا بلکہ وہ آزادی کے ساتھ جس امیدوارکو چاہیں اپنا ووٹ دے سکتے ہیں، یہی نہیں بلکہ کسانوں اور ہاریوں کے تعلیم یافتہ بچے انتخابات میں حصہ بھی لیتے ہیں۔
اس آزادی کی وجہ ایک طرف تو جاگیرداروں سے آزادی مل گئی، دوسری طرف کسانوں اور ہاریوں کی نئی نسل انتخابات لڑ کر قانون ساز اداروں میں پہنچنے لگی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ قانون ساز اداروں سے زرعی اشرافیہ کی بالادستی ختم ہوگئی۔ بنگلہ دیش میں بہت پہلے ہی زرعی اصلاحات نافذکرکے جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ کردیا گیا تھا۔ ان اقدامات کی وجہ سے بنگلہ دیش میں کسانوں کو آگے آنے کا موقع ملا اور کسانوں کی نئی نسلیں نہ صرف سیاست میں حصہ لے رہی ہیں بلکہ قانون ساز اداروں میں بھی پہنچ رہی ہیں۔
پاکستان کی دیہی آبادی 70 سال سے وڈیروں اور جاگیرداروں کی غلام بنی ہوئی ہے، کیونکہ ملک میں خاص طور پر سندھ اور جنوبی پنجاب میں جاگیردارانہ نظام اپنی پوری آب و تاب سے موجود ہے، اب بھی جاگیردار اور وڈیرے لاکھوں ایکڑ زمین کے مالک ہیں ۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ آصف علی زرداری آج بھی ایک لاکھ ایکڑ زمین کے مالک ہیں۔ سندھ کی ایک رہنما نے اسمبلی میں یہ فاخرانہ بیان دیا تھا کہ ان کی زمین اتنی بڑی ہے کہ اس میں دو ریلوے اسٹیشن موجود ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سندھ اور جنوبی پنجاب میں جاگیردار اور وڈیرے لاکھوں ایکڑ زمین کے مالک ہیں اورکسان اور ہاری ان کی رعیت بنے ہوئے ہیں۔ سیاست میں ان کا کردار صرف اتنا ہے کہ وہ انتخابات میں وڈیروں، جاگیرداروں اور ان کی اولاد کو اپنے ووٹ دے کر قانون ساز اداروں اور کابیناؤں میں پہنچائیں۔
1947ء میں تقسیم کے نتیجے میں جو علاقے پاکستان کے حصے میں آئے، بدقسمتی سے وہ قبائلی اور جاگیردارانہ تھے، جب کہ بھارت کے حصے میں آنے والے کافی علاقے صنعتی کلچرکے حامل تھے، دونوں ملکوں کی سیاست میں جو فرق ہے، اس کی ایک بڑی وجہ کلچرکا تفاوت ہے۔ تحریک پاکستان کے دوران جب پاکستان کے وڈیروں اور جاگیرداروں کو یقین ہوگیا کہ اب ہندوستان تقسیم ہو رہا ہے تو پاکستان کے وڈیرے اور جاگیردار مسلم لیگ میں نہ صرف شامل ہوگئے، بلکہ صف اول میں پہنچ گئے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کی سیاست پر اس طبقے کی بالادستی قائم ہوگئی اور یہ بالادستی اب بھی قائم ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان نہ صنعتی ترقی کی طرف پیشرفت کرسکا نہ جاگیردارانہ کلچر سے نجات حاصل کر سکا۔
اس حوالے سے سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ستر سال گزرنے کے باوجود ہمارے ملک کی کسی سیاسی جماعت کی طرف سے نہ زرعی اصلاحات کا مطالبہ کیا جاتا ہے، نہ جاگیردارانہ نظام کے خاتمے کی بات کی جاتی ہے۔ سیاسی اشرافیہ کی جانب سے اگر زرعی اصلاحات کا مطالبہ نہیں کیا جاتا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اشرافیہ کے مفادات مشترک ہیں اور جاگیردارانہ نظام اشرافیہ کی طاقت بنا ہوا ہے پھر اشرافیہ کی سول و ملٹری بیوروکریسی میں رشتے داریاں ہیں، جن کے مفادات کا تقاضا ہے کہ ملک میں جاگیردارانہ نظام باقی رہے۔ البتہ حیرت یہ ہے کہ ملک کی مڈل کلاس پر مشتمل سیاسی اور مذہبی جماعتیں اس حوالے سے منہ بند کیے بیٹھی ہیں، اب عمائدین کی طرف سے کبھی کبھی زرعی اصلاحات کا مطالبہ آتا ہے لیکن اس مطالبے کے پیچھے ایک پختہ عزم نہیں ہوتا بلکہ ذاتی اور جماعتی مفادات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہوتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قانون ساز اداروں میں مڈل کلاس کی حیثیت ایک اچھوت کی کیوں بنی ہوئی ہے؟ اور مڈل کلاس اشرافیائی سیاست کا دم چھلا کیوں بنا ہوا ہے؟ کیا مڈل کلاس کی جماعتوں کو یہ احساس نہیں کہ وہ ملکی سیاست اور قانون ساز اداروں میں بارہویں کھلاڑی بنے ہوئے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر مڈل کلاس پر مشتمل سیاسی جماعتیں اپنے غیر منطقی رویوں اور اصلاحات کو بھلا کر متحد ہوجائیں تو اشرافیہ کا باجا بجا سکتے ہیں لیکن ذاتی اور جماعتی مفادات انھیں ایک دوسرے کے قریب آنے نہیں دیتے اور اقتداری اشرافیہ انھیں تقسیم کرکے ان کی اجتماعی طاقت کا حشر نشر کرتی آرہی ہے۔
اب کرپٹ اشرافیہ کا احتساب ہونے جا رہا ہے سیاسی اشرافیہ نے جمہوریت پر حملے کا بہانہ بناکر ایک طوفان اٹھا رکھا ہے کیونکہ اگر کرپٹ اشرافیہ کے خلاف کارروائی جاری رہی تو سیاست اور اقتدار پر سے اس کی نہ صرف بالادستی ختم ہوکر رہ جائے گی بلکہ مڈل کلاس کی اہل قیادت کو آگے آنے کے مواقعے حاصل ہو جائیں گے اور سیاسی اشرافیہ کسی قیمت پر اس قسم کی تبدیلی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور احتساب کو انتقام کا نام دے کر براہ راست اعلیٰ عدلیہ کو چیلنج کر رہی ہے۔ پاکستان میں کبھی جمہوریت رہی ہی نہیں بلکہ جمہوریت کے نام پر اشرافیہ لوٹ مارکا بازار گرم کیے رکھتی ہے۔
ان سارے تلخ حقائق کے باوجود اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ 2018ء میں امکانی طور پر الیکشن ہوں، اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر اس بار ملک کی 60 فیصد دیہی آبادی کو اپنا روایتی کردار یعنی وڈیروں اور جاگیرداروں، شہزادوں اور شہزادیوں کو اپنا ووٹ دے کر انھیں قانون ساز اداروں میں بھیجنے کے روایتی کردار کے بجائے اپنی بستیوں اپنے طبقات میں سے ہی قیادت نکال کر انھیں قانون ساز اداروں میں بھیجنے کا ٹاسک پورا کرنا چاہیے۔
اس حوالے سے ایک نفسیاتی مسئلہ یہ پیدا کر دیا گیا ہے کہ غریب عوام مزدور اورکسان اقتدار میں آنے کے اہل نہیں ہوتے۔ یہ عوام کو احساس کمتری میں مبتلا کرنے کا ایک نفسیاتی حربہ ہے حالانکہ مزدوروں کسانوں کی نوجوان نسل میں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بھی ہیں اور ان میں ملک چلانے کی اہلیت ایلیٹ کے شہزادے، شہزادیوں سے زیادہ ہے، یہ مخلص بھی ہیں، اہل بھی ہیں اور ایماندار بھی۔ کیا 60 فیصد دیہی آبادی نیند سے بیدار ہو گی؟