گنجے کے ہاتھ میں کنگھی
بڑا ہونے سے ایک ہی کام کی چیز پلے پڑتی ہے اور وہ ہے تجربہ۔
آج پھر مجھے اپنے ایک اسکول ٹیچر، مسٹر خان محمد سانگی بہت یاد آئے جو اپنی تعریف سن کر پیٹھ تھپکنے کے انداز میں کاندھے پر ہاتھ مار کر کہا کرتے تھے '' واہ ڑے آؤں واہ '' یعنی میری کیا بات ہے۔ گزشتہ 24 اکتوبر کو اقوام متحدہ کی 72 ویں سالگرہ تھی، جس کا قیام 1945 میں عمل میں آیا تھا جب کہ وطن عزیز پاکستان اس کے 2 سال بعد 1947 کو معرض وجود میں آیا، جس کی 70 ویں سالگرہ ہم پچھلی 14 اگست کو مناچکے ہیں ۔
میری تاریخ پیدائش 12 اپریل 1944 ہے، گویا میں 73 برس کا ہونے والا ہوں۔ اس حساب سے میں اقوام متحدہ، خواہ پاکستان دونوں سے بڑا ہوں، یہ الگ بات کہ ہمارا نام ''وٹے'' پر بھی نہیں ہے۔ وٹا سندھی میں پیالے کو کہتے ہیں، کسی زمانے (ہمارے بچپن) میں گھرکے برتنوں پر اپنا نام کندہ کرانے کا رواج ہوتا تھا اور ان برتنوں ہی سے کسی کی حیثیت کا اندازہ لگایا جاتا تھا۔ تبھی ہم جیسوں کے لیے کہا جاتا تھا کہ اس کا نام تو وٹے پر بھی نہیں ہے، یعنی یہ کسی شمار ہی میں نہیں ہے۔ اپنی پیدائش کے سال 1944 کے ذکر سے یاد آیا کہ وہ جنگ عظیم دوئم کا زمانہ تھا، میرے بچپن کے دوست اقبال آرائیں کا سال پیدائش بھی وہی تھا، سال ہی نہیں ہم دونوں کی جائے پیدائش بھی ایک ہی (ٹنڈو غلام علی) ہے۔
میرے بھائیوں جیسے اس پیارے دوست کے انتقال کی خبر مجھے کراچی میں ملی اور ہم دونوں میاں بیوی فوراً ہی ٹنڈو کے لیے روانہ ہوگئے۔ میں کچھ دوسرے لوگوں کے ساتھ اس کے گھر کے باہر کھڑا جنازہ اٹھنے کا انتظار کر رہا تھا، 15-12 سال کی عمر کے کچھ لڑکے بھی میرے برابر کھڑے باتیں کر رہے تھے، میں نے ان میں سے ایک کو اپنے دوستوں سے کہتے ہوئے سنا کہ تایا جی اتنے بڑے لگتے نہیں تھے، باقی او 1944 میں پیدا ہوئے تھے۔ اس بچے نے سال بتانے سے پہلا ''او'' کو اتنا لمبا کھینچا جیسے کئی صدیاں پہلے کے زمانے کا ذکر کر رہا ہو۔
اگرچہ طنزومزاح کا موقع نہیں تھا لیکن مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے اس بچے سے کہا ہاں بیٹا، تب یہاں ڈائناسور بھی ہوا کرتے تھے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر اقبال کی جگہ میں مرگیا ہوتا اور وہ میرے جنازے میں شرکت کے لیے آکر ایسی بات سنتا تو وہ بھی یہی کہتا۔ اس کے بعد آخری بار میں اقبال کی صاحبزادی کی شادی میں شریک ہونے اپنی دو بیٹیوں کے ہمراہ وہاں گیا تھا، اب تو ماشاء اللہ اس کے بچے بھی جوان ہوچکے، ایک حساب سے اب وہ میری ہی بیٹی ہے کہ کراچی میں رہتی ہے، وہ بھی اس علاقے میں جہاں میں رہتا ہوں۔
اصل میں وہ اور میری بڑی بیٹی آپس میں سہیلیاں ہیں، کئی سال پہلے میری اس سے فون پر بات ہوئی تھی۔ شاید گھر کا کام کاج کرکے تھک گئی تھی، اس لیے میرا مذاق کرنا اسے اچھا نہیں لگا، ناراض ہوکر بولی سمیرا (میری بڑی بیٹی) سے بات کراتے ہیں یا میں فون بند کردوں۔ تب مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ مجھے اس سے اس طرح بات نہیں کرنی چاہیے تھی حالانکہ میں صرف ان دنوں ہی نہیں آج بھی اپنی چاروں بیٹیوں سے (جن میں سے تین بیاہ کر اپنے گھروں کی ہو چکی ہیں) اسی طرح بے تکلفانہ بات کیا کرتا ہوں۔
اس کا (نام اس لیے نہیں لکھ رہا کہ کہیں بٹیا پھر ناراض نہ ہوجائے) فون نمبر بھی میری بیٹی ہی کے پاس تھا جواس سے کہیں کھو گیا اور ان کا باہم کوئی رابطہ نہ رہا۔ کچھ عرصہ پہلے جب اس نے مجھے پھر یاد دلایا کہ میں نے اس کی سہیلی کا نمبر معلوم کرنا ہے، تو میرا ٹنڈو فون پر اپنے بھتیجے (اقبال کے بڑے بیٹے فیصل) سے رابطہ ہوا جس نے بہن کا نمبر دے کر ہمارا مسئلہ حل کیا۔ بیٹی کے دریافت کرنے پر کہ اس کا نمبر کیسے ملا جب میں نے اسے بتایا تو اس نے پھر پوچھا کہ مجھے اس کا خیال پہلے کیوں نہ آیا، تب مجھے ماننا پڑا کہ بوڑھا ہوگیا ہوں یاد نہیں رہتا۔ میرے پاس اقبال کے گھر کا جو لینڈ لائن نمبر ہوا کرتا تھا وہ اب ان کے استعمال میں نہیں تھا، بیٹوں کے سیل نمبر مجھے معلوم نہیں تھے، اللہ بھلا کرے میرے دوست حبیب الرحمٰن قریشی کا جن کے ذریعے میرا ان سے رابطہ ہوا اور فیصل نے خود مجھے فون کیا۔
نمبر ملا تو میری بیٹی نے فوراً اپنی سہیلی سے رابطہ کیا اور مجھے بتایا کہ وہ جلد مجھ سے ملنے گھر آئے گی، دیکھیں وہ دن کب آتا ہے، کچھ روز پہلے جب اقبال سے خواب میں ملاقات ہوئی تو میں نے اس کو بھی یہ بات بتائی۔ اصل میں ہم ڈائناسور کے زمانے کے لوگوں کا مسئلہ یہ ہے کہ بچپن کی دوستی اور 60-50 سال کی عمر تک کا ساتھ طے کیا ہوا سفر ہمارے لیے بڑی اہمیت رکھتا ہے، جس کی یادیں ہماری زندگی کا سرمایہ ہوتی ہیں جنھیں ہم اپنے بچوں کے ساتھ بھی شیئر کرنا چاہتے ہیں، یہی دیکھ لیجیے کہ میرے دوست اقبال کے بچوں کا ذکر نکلا تو بات کہاں سے کہاں جا پہنچی۔
خیر، تو میں آپ کو یہ بتا رہا تھا کہ میں پاکستان اور اقوام متحدہ دونوں سے عمر میں بڑا ہوں لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، ہم جس طرح آج امریکا کی غلامی کرتے اور ہر معاملے میں اس کا حکم بجا لاتے ہیں، پہلے بھی اسی طرح اپنے انگریز آقاؤں کے گن گاتے تھے، گویا غلامی ہمیں ورثے میں ملی ہے۔ آپ شاید یقین نہ کریں کہ جس طرح آج کل ہمارے بچے قائداعظم کی تصویر سے مانوس ہیں، ہم بچپن میں اسی طرح سر ونسٹن چرچل کی تصویر سے مانوس ہوا کرتے تھے جس کا ایک بڑے سائزکا پوسٹر نما پورٹریٹ ابا کی مشین والے کمرے میں بھی آویزاں تھا۔ وہ انگلستان کا وزیر اعظم ہی نہیں، جنگ عظیم دوئم کا ہیرو بھی تھا۔
اور تو اور پاکستان بننے کے کئی سال بعد تک بھی ہم ہر روز صبح اسکول کی اسمبلی میں قومی ترانے کی جگہ جودعا پڑھا کرتے تھے اس کے بول کچھ اس طرح کے ہوتے تھے کہ ''خدا وندا ہمارے بادشاہ کو سلامت رکھ۔'' ایسے ماحول میں آنکھ کھولنے والوں کی زندگی ظاہر ہے بیکار ہی گزرنی تھی، سو ہم نے بھی دھکے کھاکھاکر دھوپ میں بال سفید کر لیے، پلے کچھ نہ پڑا۔ پیچھے مڑکر دیکھتے ہیں تو بے آب و گیاہ صحرا کے سوا کچھ نظر نہیں آتا، ساری عمر جھک مراتے گزار دی،جب کیا ہی کچھ نہیں توکچھ پانے کی امید کیسی۔ مایوسی کی ایسی کیفیت میں دل کو لگنے والی بات بڑا حوصلہ دیتی ہے جیسے میرے دوست عباس جلبانی نے کہلا بھیجا ہے کہ انسان اکڑ کرکسی ٹیلے پر بھی نہیں چڑھ سکتا، جب کہ جھک کر وہ ہمالیہ کی چوٹی سرکرلیتا ہے، لہذا اکڑفوں چھوڑ کر عاجزی سیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ بلندی نصیب ہو۔
بڑا ہونے سے ایک ہی کام کی چیز پلے پڑتی ہے اور وہ ہے تجربہ، مگر کسی سیانے نے کہا ہے کہ تجربہ ایسی کنگھی ہے جو زندگی میں اس وقت ہاتھ آتی ہے جب سرکے بال جھڑ چکے ہوتے ہیں، گویا اس کنگھی کے ہاتھ آنے کا کوئی فائدہ نہیں، لوگ جانے کیوں کہتے ہیں کہ تجربے کا کوئی مول نہیں۔