تو کیا ہے
کون جانتا ہے کہ موت زحمت کی بجائے رحمت ثابت ہو۔
سقراط کے خلاف وکیل نے زور سے کہا کہ اگر سقراط کو سزا نہ دی گئی تو یہاں کا ہر نوجوان سقراط کا پیروکار بن جائے گا ۔سقراط نے اپنے دلائل میں اس بات کا جواب دیتے ہوئے تاریخی جملہ کہا کہ موت سے خوف کھانا ایسا ہی جرم ہے جیسا اپنے علم کو مکمل سمجھ بیٹھنا ۔ کون جانتا ہے کہ موت زحمت کی بجائے رحمت ثابت ہو۔ اس کے بعد 500 ججوں کی عدالت نے فیصلہ دیا کہ نوجوانوں کو بچانے کے لیے سقراط کو زہرکا پیالہ دے کر مار دیا جائے۔ سقراط نے زہر کا پیالہ پی لیا ، لیکن کیا سقراط مرگیا اور ڈھائی ہزار سال گزرنے کے بعد بھی کیا سقراط کے پیروکار نہیں بن رہے ۔ جب طاقت سے کسی شخص اور نظریے کو مارنے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اُسے ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی دی جارہی ہے۔
اس دنیا میں رہنے والا کوئی شخص اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ آج سے ہزاروں سال پہلے یونان کی گلیوں میں علم و حکمت ، فلسفہ اور جمہوریت جیسے موضوع ہر جگہ عام تھے ۔ انسانیت کا چلن عام تھا لیکن ان ہی کی گلیوں اور دانشوروں کی درس گاہوں سے لشکر نکل کر قتل عام کو فخر کا باعث سمجھتے تھے ۔ اُسی لمحے جب سقراط اور افلاطون جیسے مفکر وہاں جمہوریت کے خدوخال واضح کر رہے تھے تو یونان چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹا ہوا تھا ۔ اقتدارکی کشمکش اتنی تھی کہ ایک جنگ میں 30 کے ٹولے نے یونان کی 5 فیصد سے زیادہ آبادی کو قتل کردیا۔
اسی بکھرے ہوئے یونان میں جہاں ایتھنز کی ریاست جہاں بڑے بڑے فلسفی موجود تھے دیگر ریاستوں کے مقابلے میں زیادہ جمہوری تھی ، لیکن دیکھا یہ جارہا تھا کہ وہ ریاستیں جہاں پر آمرانہ حکومتیں تھیں وہ زیادہ مضبوط تھی ۔ اقتدار کی کشمکش ایتھینز میں زیادہ تھی اور اسی کا نتیجہ تھا کہ سقراط جو جمہوریہ اور آزادی اظہارکا سب سے بڑا علمبردار تھا اُسی کے شاگردوں نے امن کے قیام کے لیے اقتدار پر قبضہ کر لیا ۔ جسے 30 کا گروپ کہا گیا ۔
یہ 401 قبل مسیح کی بات ہے ۔ ایتھینز میں ایک نیم جمہوری حکومت قائم تھی ، لیکن آس پڑوس کی ریاستوں سے خطرات اور اندرونی اقتدار کی کشمکش کی وجہ سے ریاستی امور ٹھپ پڑے ہوئے تھے ۔ سقراط کی محفلوں کی رونقیں عروج پر تھیں ۔ سقراط اپنے سوالات کی بنیاد پر حکومت ، خداؤں کے تصورات اور دیگر امور پر سوالات اُٹھاتا تھا ۔ اُس کے کئی شاگرد اسی بحث کی وجہ سے یہ سمجھتے تھے کہ موجودہ حکومت کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اقتدار پر رہے اور اس میں سے تیس کے قریب نوجوانوں کے ایک گروپ نے پہلے بغاوت کی اور اس کے بعد اقتدار پر قبضہ کر لیا۔
یہ 30 کا ٹولہ کہنے کو امن قائم کرنے آیا تھا لیکن اس نے امن کے نام پر ہر مخالف کو قتل کرنا شروع کردیا ۔ یہ آزادی اظہار کو یقینی بنانے آیا تھا لیکن اس نے جمہوریت کے تمام عناصرکا گلا دبا دیا ۔ یہ مفکروں کو حکومت کا حصہ بنانا چاہتا تھا لیکن ہر مخالف آواز کو دبا دیا گیا ۔ تاریخ یہ ہی کہتی ہے کہ جمہوریت میں اقتدار کی رسہ کشی کو نظام کی خرابی کہہ کر آمریت کو مسلط کیا گیا ۔جب کبھی اور جہاں بھی یہ کیا گیا یہ ہی نعرہ لگایا گیا کہ احتساب ضرور ہوگا۔ عوام کے حقوق کا خیال رکھا جائے گا۔ لیکن اس وقت موضوع یہ ہے نہیں۔ اس لیے آگے بڑھتے ہوئے یہ کہنا چاہ رہا تھا کہ اقتدار پر عوام کے نام کو استعمال کرتے ہوئے ایک گروپ نے قبضہ کر لیا۔
خود کو عوامی اور جمہوری ظاہر کرنے کے لیے ایتھینز کا نظام چلانے پر 3 ہزار لوگوں کو رکھا گیا ۔ یہ سمجھ لیں کہ ''مقامی حکومت'' کا تصور دیا گیا ۔ عدالت کو مضبوط کرنے کے لیے نظام میں 500 افراد پر مشتمل جیوری بنائی گئی ۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ اس میں مقدمے وہی بھیجے جاتے تھے جو یہ گروپ چاہتا تھا اور فیصلے وہی ہوتے تھے جو پہلے لکھے جاچکے ہوتے تھے ۔
اس سب کے باوجود ، کون تھا جو سقراط کو روک سکتا تھا ۔ جب ہزاروں لوگوں کو قتل کیا گیا تو سقراط سے بازار میں کسی نے پوچھا کہ اتنے لوگ مارے جا رہے ہیں آپ کیا کہتے ہیں ؟ سقراط نے کہا کہ چرواہا اپنے ریوڑ میں کمی کرکے خوش ہو رہا ہے ۔ اس نے مزید یہ کہا تعجب کی بات یہ ہے کہ ملک کا رہبر یہاں پر بچی کچھی قابلیت کو خود کم کر رہا ہے اور اس کی نیندیں بھی حرام نہیں ہو رہیں ۔ سقراط سر عام کوئی بات کرتا اور یہ بات کیسے ''ٹولے'' تک نہ پہنچتی ؟
یہ بات فورا اس ٹولے تک پہنچ گئی۔ اس میں سے کئی لوگ سقراط کے شاگرد تھے اور اکثر سقراط کی محفل میں دیکھے جاتے تھے ۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ سقراط کو فورا گرفتار کر لیا جائے کیونکہ وہ نوجوانوں کے ذہن خراب کر رہا ہے، جب کہ سقراط کے شاگردوں کا کہنا تھا کہ اُن سے پہلے بات کی جائے اور اگر وہ نہ مانے انھیں گرفتارکیا جائے ۔ کافی بحث کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ ایک حکم نامہ لکھ کر دو افراد کو سقراط کے پاس بھیجا جائے اور وہ سقراط کو بتائیں کہ اگر اُس نے اب قانون کی خلاف ورزی کی تو اُسے گرفتار کر لیا جائے گا ۔
دو افراد کی ایک کیمٹی بنائی گئی اور اُس کے سامنے سقراط کو پیش کیا گیا اور سقراط کو حکم نامہ سنایا گیا جس کے مطابق اب سقراط نوجوانوں سے کوئی بھی منطقی مکالمہ نہیں کرسکے گا ۔ سقراط نے اپنے لیے خصوصی حکم نامہ سُنا اورکہا کہ میں قانون کی پابندی ضرورکروں گا ، لیکن کیا مجھے آپ اپنا یہ قانون سمجھا سکتے ہیں۔ کمیٹی کے دو ممبر میں سے ایک سقراط کا شاگرد تھا ۔ اُس نے کہا بالکل آپ پوچھیں ۔ سقراط نے کہا کہ آپ کے قانون کے مطابق میں نوجوانوں سے کوئی منطقی بحث نہیں کرسکتا توکیا میں کوئی غیر معقول گفتگوکر سکتا ہوں۔
سقراط کا شاگرد سمجھ گیا کہ اگر ہم سقراط کے سوالات میں پھنس گئے تو سب اُلٹا ہوجائے گا ۔ اُس نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا آپ صورتحال کو سمجھ نہیں پا رہے ہیں اور ہمیں کنفیوژ کرنا چاہتے ہیں ۔ شاگرد تھا اس لیے اپنے استاد کے لیے اتنی رعایت کردی اور کہنے لگاکہ ہم آپ کے فائدے کے لیے قانون کی سیدھی سادھی تشریح کردیتے ہیں ۔تو سُن لوکہ اس قانون کو بس اس لیے لایا گیا ہے کہ تم اب کسی نوجوان سے معقول یا غیر معقول گفتگو نہیں کرسکتے ہو۔
اس گفتگو ، دھمکی ، قانون یا پھر سزا کے چند مہینوں کے بعد 30 کے ٹولے کی حکومت ختم ہوگئی اور ایک بار پھر جمہوریت آگئی اور پھر اسی جمہوریت میں '' ٹولے'' کا حکم چلا ۔ سقراط پر تاریخی مقدمہ چلتا ہے اور الزام وہ ہی ہوتے ہیں کہ یہ نوجوانوں کو گمراہ کرتا ہے ، سقراط کو زہرکا پیالہ پینا پڑتا ہے۔ اسی سقراط کے شاگرد افلاطون نے تاریخ کی عظیم کتاب ''جمہوریہ'' لکھی تھی اوراکثر لوگ یہ ہی مانتے ہیں کہ آج کا جمہوری نظام افلاطون کی کتاب کا ہی سلسلہ ہے ، مگر سیکھنا تو یہ ہی ہے کہ افلاطون نے اپنے استاد سقراط سے بہت کچھ سیکھا اور سقراط کی تاریخ ، سوالات ، بحث اور نظریات کے ساتھ ہم نے حالات کو کتنا سیکھا ۔ پہلی بات یہ سقراط کی زبان بندی کا قانون ایک جابر اور آمر ''ٹولے'' کے دور حکومت میں آیا ، مگر اُسے سزا اور موت ملی ایک جمہوری دور میں ۔ سقراط کو زبان بندی کا قانون سمجھانے والے وہ ہی تھے جو اُس کے اپنے شاگرد تھے ۔
جسے سیکھایا ایک طرف افلاطون بنا اور دوسری طرف اُس کی زبان بندی کرنے والا ۔ یوں تو میں جو کہنا چاہتا ہوں وہ بہت کچھ ہے ، مگر اس پوری تمہید سے جو چیز اخذ کرنا چاہتا ہوں ۔ وہ یہ ہے کہ آج کراچی کی سیاست ہو یا پھر اسلام آباد میں پنجاب ہاؤس ۔اس بحث میں مت پڑھیں کہ قانون کی تشریح کیا ہوسکتی ہے ۔ جو سقراط کے شاگرد نے کہا وہ ہی بات کہوں گا کہ آپ نئی صورتحال سے لاعلم ہیں ۔ میرے بھائی آپ کا فائدہ اسی میں ہے کہ اپنی زبان بند رکھیں اور بقول غالب
ہر ایک بات پہ کہتے ہوتم کہ توکیا ہے
اس دنیا میں رہنے والا کوئی شخص اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ آج سے ہزاروں سال پہلے یونان کی گلیوں میں علم و حکمت ، فلسفہ اور جمہوریت جیسے موضوع ہر جگہ عام تھے ۔ انسانیت کا چلن عام تھا لیکن ان ہی کی گلیوں اور دانشوروں کی درس گاہوں سے لشکر نکل کر قتل عام کو فخر کا باعث سمجھتے تھے ۔ اُسی لمحے جب سقراط اور افلاطون جیسے مفکر وہاں جمہوریت کے خدوخال واضح کر رہے تھے تو یونان چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹا ہوا تھا ۔ اقتدارکی کشمکش اتنی تھی کہ ایک جنگ میں 30 کے ٹولے نے یونان کی 5 فیصد سے زیادہ آبادی کو قتل کردیا۔
اسی بکھرے ہوئے یونان میں جہاں ایتھنز کی ریاست جہاں بڑے بڑے فلسفی موجود تھے دیگر ریاستوں کے مقابلے میں زیادہ جمہوری تھی ، لیکن دیکھا یہ جارہا تھا کہ وہ ریاستیں جہاں پر آمرانہ حکومتیں تھیں وہ زیادہ مضبوط تھی ۔ اقتدار کی کشمکش ایتھینز میں زیادہ تھی اور اسی کا نتیجہ تھا کہ سقراط جو جمہوریہ اور آزادی اظہارکا سب سے بڑا علمبردار تھا اُسی کے شاگردوں نے امن کے قیام کے لیے اقتدار پر قبضہ کر لیا ۔ جسے 30 کا گروپ کہا گیا ۔
یہ 401 قبل مسیح کی بات ہے ۔ ایتھینز میں ایک نیم جمہوری حکومت قائم تھی ، لیکن آس پڑوس کی ریاستوں سے خطرات اور اندرونی اقتدار کی کشمکش کی وجہ سے ریاستی امور ٹھپ پڑے ہوئے تھے ۔ سقراط کی محفلوں کی رونقیں عروج پر تھیں ۔ سقراط اپنے سوالات کی بنیاد پر حکومت ، خداؤں کے تصورات اور دیگر امور پر سوالات اُٹھاتا تھا ۔ اُس کے کئی شاگرد اسی بحث کی وجہ سے یہ سمجھتے تھے کہ موجودہ حکومت کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اقتدار پر رہے اور اس میں سے تیس کے قریب نوجوانوں کے ایک گروپ نے پہلے بغاوت کی اور اس کے بعد اقتدار پر قبضہ کر لیا۔
یہ 30 کا ٹولہ کہنے کو امن قائم کرنے آیا تھا لیکن اس نے امن کے نام پر ہر مخالف کو قتل کرنا شروع کردیا ۔ یہ آزادی اظہار کو یقینی بنانے آیا تھا لیکن اس نے جمہوریت کے تمام عناصرکا گلا دبا دیا ۔ یہ مفکروں کو حکومت کا حصہ بنانا چاہتا تھا لیکن ہر مخالف آواز کو دبا دیا گیا ۔ تاریخ یہ ہی کہتی ہے کہ جمہوریت میں اقتدار کی رسہ کشی کو نظام کی خرابی کہہ کر آمریت کو مسلط کیا گیا ۔جب کبھی اور جہاں بھی یہ کیا گیا یہ ہی نعرہ لگایا گیا کہ احتساب ضرور ہوگا۔ عوام کے حقوق کا خیال رکھا جائے گا۔ لیکن اس وقت موضوع یہ ہے نہیں۔ اس لیے آگے بڑھتے ہوئے یہ کہنا چاہ رہا تھا کہ اقتدار پر عوام کے نام کو استعمال کرتے ہوئے ایک گروپ نے قبضہ کر لیا۔
خود کو عوامی اور جمہوری ظاہر کرنے کے لیے ایتھینز کا نظام چلانے پر 3 ہزار لوگوں کو رکھا گیا ۔ یہ سمجھ لیں کہ ''مقامی حکومت'' کا تصور دیا گیا ۔ عدالت کو مضبوط کرنے کے لیے نظام میں 500 افراد پر مشتمل جیوری بنائی گئی ۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ اس میں مقدمے وہی بھیجے جاتے تھے جو یہ گروپ چاہتا تھا اور فیصلے وہی ہوتے تھے جو پہلے لکھے جاچکے ہوتے تھے ۔
اس سب کے باوجود ، کون تھا جو سقراط کو روک سکتا تھا ۔ جب ہزاروں لوگوں کو قتل کیا گیا تو سقراط سے بازار میں کسی نے پوچھا کہ اتنے لوگ مارے جا رہے ہیں آپ کیا کہتے ہیں ؟ سقراط نے کہا کہ چرواہا اپنے ریوڑ میں کمی کرکے خوش ہو رہا ہے ۔ اس نے مزید یہ کہا تعجب کی بات یہ ہے کہ ملک کا رہبر یہاں پر بچی کچھی قابلیت کو خود کم کر رہا ہے اور اس کی نیندیں بھی حرام نہیں ہو رہیں ۔ سقراط سر عام کوئی بات کرتا اور یہ بات کیسے ''ٹولے'' تک نہ پہنچتی ؟
یہ بات فورا اس ٹولے تک پہنچ گئی۔ اس میں سے کئی لوگ سقراط کے شاگرد تھے اور اکثر سقراط کی محفل میں دیکھے جاتے تھے ۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ سقراط کو فورا گرفتار کر لیا جائے کیونکہ وہ نوجوانوں کے ذہن خراب کر رہا ہے، جب کہ سقراط کے شاگردوں کا کہنا تھا کہ اُن سے پہلے بات کی جائے اور اگر وہ نہ مانے انھیں گرفتارکیا جائے ۔ کافی بحث کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ ایک حکم نامہ لکھ کر دو افراد کو سقراط کے پاس بھیجا جائے اور وہ سقراط کو بتائیں کہ اگر اُس نے اب قانون کی خلاف ورزی کی تو اُسے گرفتار کر لیا جائے گا ۔
دو افراد کی ایک کیمٹی بنائی گئی اور اُس کے سامنے سقراط کو پیش کیا گیا اور سقراط کو حکم نامہ سنایا گیا جس کے مطابق اب سقراط نوجوانوں سے کوئی بھی منطقی مکالمہ نہیں کرسکے گا ۔ سقراط نے اپنے لیے خصوصی حکم نامہ سُنا اورکہا کہ میں قانون کی پابندی ضرورکروں گا ، لیکن کیا مجھے آپ اپنا یہ قانون سمجھا سکتے ہیں۔ کمیٹی کے دو ممبر میں سے ایک سقراط کا شاگرد تھا ۔ اُس نے کہا بالکل آپ پوچھیں ۔ سقراط نے کہا کہ آپ کے قانون کے مطابق میں نوجوانوں سے کوئی منطقی بحث نہیں کرسکتا توکیا میں کوئی غیر معقول گفتگوکر سکتا ہوں۔
سقراط کا شاگرد سمجھ گیا کہ اگر ہم سقراط کے سوالات میں پھنس گئے تو سب اُلٹا ہوجائے گا ۔ اُس نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا آپ صورتحال کو سمجھ نہیں پا رہے ہیں اور ہمیں کنفیوژ کرنا چاہتے ہیں ۔ شاگرد تھا اس لیے اپنے استاد کے لیے اتنی رعایت کردی اور کہنے لگاکہ ہم آپ کے فائدے کے لیے قانون کی سیدھی سادھی تشریح کردیتے ہیں ۔تو سُن لوکہ اس قانون کو بس اس لیے لایا گیا ہے کہ تم اب کسی نوجوان سے معقول یا غیر معقول گفتگو نہیں کرسکتے ہو۔
اس گفتگو ، دھمکی ، قانون یا پھر سزا کے چند مہینوں کے بعد 30 کے ٹولے کی حکومت ختم ہوگئی اور ایک بار پھر جمہوریت آگئی اور پھر اسی جمہوریت میں '' ٹولے'' کا حکم چلا ۔ سقراط پر تاریخی مقدمہ چلتا ہے اور الزام وہ ہی ہوتے ہیں کہ یہ نوجوانوں کو گمراہ کرتا ہے ، سقراط کو زہرکا پیالہ پینا پڑتا ہے۔ اسی سقراط کے شاگرد افلاطون نے تاریخ کی عظیم کتاب ''جمہوریہ'' لکھی تھی اوراکثر لوگ یہ ہی مانتے ہیں کہ آج کا جمہوری نظام افلاطون کی کتاب کا ہی سلسلہ ہے ، مگر سیکھنا تو یہ ہی ہے کہ افلاطون نے اپنے استاد سقراط سے بہت کچھ سیکھا اور سقراط کی تاریخ ، سوالات ، بحث اور نظریات کے ساتھ ہم نے حالات کو کتنا سیکھا ۔ پہلی بات یہ سقراط کی زبان بندی کا قانون ایک جابر اور آمر ''ٹولے'' کے دور حکومت میں آیا ، مگر اُسے سزا اور موت ملی ایک جمہوری دور میں ۔ سقراط کو زبان بندی کا قانون سمجھانے والے وہ ہی تھے جو اُس کے اپنے شاگرد تھے ۔
جسے سیکھایا ایک طرف افلاطون بنا اور دوسری طرف اُس کی زبان بندی کرنے والا ۔ یوں تو میں جو کہنا چاہتا ہوں وہ بہت کچھ ہے ، مگر اس پوری تمہید سے جو چیز اخذ کرنا چاہتا ہوں ۔ وہ یہ ہے کہ آج کراچی کی سیاست ہو یا پھر اسلام آباد میں پنجاب ہاؤس ۔اس بحث میں مت پڑھیں کہ قانون کی تشریح کیا ہوسکتی ہے ۔ جو سقراط کے شاگرد نے کہا وہ ہی بات کہوں گا کہ آپ نئی صورتحال سے لاعلم ہیں ۔ میرے بھائی آپ کا فائدہ اسی میں ہے کہ اپنی زبان بند رکھیں اور بقول غالب
ہر ایک بات پہ کہتے ہوتم کہ توکیا ہے