ماحولیاتی اثرات

آلودہ فضا سے مختلف بیماریاں پیدا ہو رہی ہیں، کچرے کے ڈھیر نئی نئی بیماریوں کی مشین بن گئے ہیں


فرح ناز November 11, 2017
[email protected]

لاہور: اسموگ کا موسم اب شاید پاکستان کا پانچواں موسم بن گیا ہے، ماحولیاتی آلودگی تیزی سے ماحولیات کو تباہ کر رہی ہے۔ درختوں کی کٹائی ، جنگلات کی تباہی، انڈسٹری اور فیکٹریزکا گند سمندروں تک کو تباہ کر رہا ہے اور بدقسمتی سے کوئی پالیسی نہیں۔ سابق سینیٹر حسیب خان کہتے ہیں کہ سال بھرکے سینیٹ کے اجلاسوں میں ایک دفعہ بھی ماحولیات کا ذکر تک نہ ہوا نہ تعلیم پر بات ہوئی اور یہی ریت چلی آرہی ہے برسوں سے۔ پارلیمنٹ میں اگر ان مسئلوں پر بات نہیں ہوگی تو پھر کہاں ہوگی؟

بے تحاشا سہولیات پانے کے باوجود اگر پارلیمنٹیرنز اپنے فرائض پورے نہیں کریں گے تو پھر کون کرے گا؟ لاکھوں روپے سیمینارز اورکانفرنسز پر خرچ ہوتے ہیں، زبردست تقریریں ہوتی ہیں، تالیاں بجتی ہیں، ذہین لوگ سوال کرتے ہیں جواب ملتا ہے سول سوسائٹی قدم بڑھائے آگے، حکومت کچھ کرنے والی نہیں، اگر سول سوسائٹی نے ہی سب کچھ کرنا ہے تو یہ پارلیمنٹ، قانون، ادارے کس لیے؟

انسانوں کی بنیادی ضروریات ہی گویا ان کے لیے لگژری بن گئی ہے، صاف پینے کا پانی پیسے خرچ کرنے سے ملے گا، ورنہ بد بودار پانی گھر کے نلکوں سے حاصل کرلیجیے، دودھ میں مردہ گلانے والے کیمیکل، مسالہ جات میں پتھروں کا پاؤڈر، گوشت کی شکل میں کتے، گدھے اور صاف ہوا کی شکل تک تبدیل ہو رہی ہے، بجائے بے شمار درخت لگانے، رہے سہے درختوں کو بھی کاٹ کوٹ کر برابر کردیا جاتا ہے۔دواؤں کے نام پر جعلی دوائیں، ان کو کھانے کے بعد جیتا جاگتا انسان بھی مر جائے، جگہ جگہ ڈھابے اور ریسٹورنٹ نہ کوئی پلاننگ نہ کوئی سوچ، بس جوکچھ حاصل ہوجائے وہ حاصل کرلیا جائے۔

سمندر کی پٹی پر بے شمار ریسٹورنٹس، ساری گندگی سمندر میں ڈال کر اپنی دکانیں چمکا رہے ہیں۔ پلاسٹک کے شاپرز سے لے کر انڈسٹریز کا گند تک سب سمندر کی نذر۔کیا سمندری غذائیں کھانے کے قابل ہوں گی؟ کاریں بے حساب ، بڑھتا ہوا ٹریفک، پوری رات چلتا ہوا ہیوی ٹریفک، کیا فضا بغیر سبزے کے آلودہ نہیں ہوگی؟

پورے پاکستان میں ہنگامی بنیادوں پر حکومتی سطح پر جس میں لوٹ مار نہ ہو جس میں سنجیدگی سے کام ہو لاکھوں کی تعداد میں پودے اور درخت لگائے جائیں اور جو پودے اور درخت مضر صحت ہوں ان پر بین لگایا جائے، سول سوسائٹی میں سے بھی جو لوگ ہاتھ بٹانا چاہیں ان کو شامل کیا جائے اور ان کے لیے باقاعدگی سے سہولیات کا اعلان کیا جائے، حکومتی ارکان کروڑوں کھا کر رفو چکر ہوجاتے ہیں اور بات وہیں کی وہیں رہ جاتی ہے۔

آلودہ فضا سے مختلف بیماریاں پیدا ہو رہی ہیں، کچرے کے ڈھیر نئی نئی بیماریوں کی مشین بن گئے ہیں، گندگی، غلاظت نے عام انسانوں کا جینا حرام کیا ہوا ہے۔ ایک زمانے میں انڈسٹری کے تیزابیت والے ڈرین آؤٹ پانی سے ملیر میں سبزیاں اگائی جا رہی تھیں جب میڈیا کے کچھ لوگوں نے پروگرام کیے تو بات کھلی کہ سبزیوں اور پھلوں کے سائز کیمیکل ملے پانی کی وجہ سے بڑے ہوگئے، وزن دار ہوگئے، زہر سے بھر گئے، اب پتا نہیں غریب عوام سبزیاں، فروٹ بھی کھائیں تو پڑے مرتے اسپتالوں میں جائیں تو دوائیں جعلی، اللہ اللہ خیر صلہ۔

پچھلے ادوار میں جائیں تو نیم اور پیپل کے درخت بے حساب لگائے جاتے تھے۔ نیم کے درخت کے سوکھے پتے کیڑوں اور کتابوں کے کیڑے تک مارنے کے لیے رکھے جاتے تھے، نیم کے پتوں کو پانی میں بھگوکر رکھا جاتا تھا اور اس پانی کو مختلف جسمانی بیماریوں کے لیے استعمال کیا جاتا تھا اور آج بھی کیا جاتا ہوگا، جانوروں کی بہترین غذا بھی یہی سبزہ ہوتا ہے اور اس سے ہی جانوروں کے گوشت میں توانائی اور لذت ہے ۔

پنجاب میں اسموگ نے تباہی مچائی ہوئی ہے، موجودہ حکومت کو ماہرین ماحولیات کا ایک پینل فوری تشکیل دینا چاہیے جو ماحول کا باریک بینی سے جائزہ لے، رپورٹ تیارکریں اور نشاندہی کریں کہ کس طرح آنے والے وقت میں اس طرح کی صورتحال سے بچا جائے گا، زندگی اور صحت سے بڑھ کر کچھ اہم نہیں، ماہرین ہر شعبے کی ضرورت ہیں بس سنجیدگی چاہیے۔ ماحول جتنا زیادہ قدرتی ہوگا اتنا ہی فائدہ مند بھی، مصنوعی ماحول تباہی پیدا کرے گا۔ شدید ترین ضرورت ہے کہ پانی کی اسٹوریج کے لیے ڈیم بنائے جائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ فصلوں کو پروان چڑھایا جاسکیں، فصلیں اچھی ہوں گی تو کسانوں کی زندگی اچھی ہوگی۔

زرعی اور معدنیات سے لبریز حسین ترین پاکستان کوئی بھی صوبہ اٹھا کر دیکھ لیجیے زبردست شاندار قدرت کے عطا کردہ عطیات جا بجا نظر آتے ہیں، باہر سے جب لوگ آکر ناردرن ایریاز کی طرف جاتے ہیں تو ششدر رہ جاتے ہیں، گلگت، بلتستان، ناران، چترال، ہنزہ، مری، سوات اور ایسی ہی بہت سی خوبصورت وادیاں ملکیت ہیں پاکستان کی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ بہترین ماحول بہترین ذہن پیدا کرتا ہے آلودگی سے پاک ہوا، کس طرح پیدا کی جائے، آلودگی کو دورکرنے کے لیے کس طرح کے اقدامات ہونے چاہئیں۔ ایکسپرٹ کی باقاعدہ ایک ٹیم پورے پاکستان کے لیے بنائی جائے اور فوری طور پر اس لاپرواہی کو ختم کیا جائے۔ جس طرح کیسز جیسے مرض کے لیے الگ سے اسپتال بنائے گئے الگ سے اسپیشلسٹ ڈاکٹرز سے علاج کروایا جاتا ہے بالکل اسی طرح ہر وزارت بہترین لوگ چاہتی ہے، ہر شعبہ جو ترقی کرنا چاہتا ہے اس میں ان لوگوں کا ہونا بہت ضروری ہے، تب ہی فائدے حاصل ہوتے ہیں تب ہی ترقی صحیح سمت میں پروازکرتی ہے۔

پینے کے پانی کو اسٹور کرنا صحت کے اصولوں کے مطابق پھر اس میں توازن کے ساتھ اجزا ملانا بہت اہم ذمے داری ہے اس کو کھیل تماشا نہ بنائیں لاکھوں انسانی جانوں سے مت کھیلیے، موسمی تغیرات نہ صرف بہت بڑا تھریٹ ہیں بلکہ یہ ایک اہم ذریعہ ہے انسانی ضروریات کو پورا کرنے کا۔ 70 فیصد تباہیاں موسمی تغیرات اور خراب ماحول کی وجہ سے ہیں، ابھی تک 24 بلین لوگ ان ماحولیاتی تباہیوں کا شکار ہوچکے ہیں۔

1992 سے 2008 تک اور تاحال یہ سلسلہ جاری ہے۔ اچانک سے بھاری بارشیں بڑے بڑے غیر متوقع طوفان، سیلاب، درجہ حرارت کا اچانک بڑھ جانا، یقینا یہ سب بہت الارمنگ حالات ہیں اور اگر ابھی سے ان کے بارے میں پلاننگ نہیں کی گئی تو پاکستان جیسے ملک کے لیے یہ بڑی تباہی بن سکتی ہے۔ پوری دنیا میں ماحولیاتی تبدیلی ایک بڑی بحث بن چکی ہے اور اس پر بڑے بڑے بجٹ مختص کیے جا رہے ہیں کیونکہ یہی تبدیلیاں انسانی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی ہیں۔

اگر آپ اپنے گھر کے ساتھ ساتھ درخت لگاتے ہیں تو آپ کے گھر میں بھی ٹھنڈک کا احساس ہوگا، صبح و شام آپ اپنے گھر کی کھڑکیوں کو کھولیں گے، بجلی کا استعمال کم ہوگا، آپ کے موڈ پر اچھا اثر ہوگا، صبح کی آکسیجن آپ کو صحت دے گی جب کہ بند گھر، بند کمرے، ایئرکنڈیشنڈ ماحول آپ کو بیماریوں کی طرف لے کر جائے گا اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔

تعلیم کی کمیابی بھی ہماری تباہی کا باعث بن رہی ہے۔ حکمران اپنی کرپشن کو بچانے کے لیے عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے عوام کو تعلیم سے دور رکھتے ہیں اور ان کو ان کی بنیادی ضروریات کے حصول میں اٹکا دیتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں