اختر اختر شماری اور اخترؔ شیرانی
اخترشماری کے متعلق بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے۔
HYDERABAD:
{الف} عزیزم کا عقدمسنونہ، قبلہ حاجی صاحب بارہ بنکوی کی دختر نیک اختر سے طے پایا ہے۔{ب} ہائے ہائے بڑا برا وقت آگیا ہے بے چارے پر ، دن میں اٹواٹی کھٹواٹی لیے پڑے رہتے ہیں اور رات کو اخترشماری کرتے ہیں۔ وہ کیا گئی کہ اُن کی تو دنیا ہی اُجڑگئی۔ {ج}لاہور سے شہرت پاکر امریکا میں سکونت اختیار کرنے والے شعراء میں ایک نمایاں نام اخترشمارؔ کا بھی ہے جو کبھی ہفت روزہ 'بجنگ آمد' نکالا کرتے تھے۔ {د}ع : دنیا کا تماشا دیکھ لیا، غم گین سی ہے، بے تاب سی ہے......کیا بات ہے اخترؔشیرانی کی۔ {ہ}حکیم مومن خان مومنؔ طبیب تھے، شاعر تھے اور ساتھ ساتھ اخترشناس بھی تھے۔
ان تمام بیانات میں ایک ہی لفظ کی مختلف تراکیب میں استعمال سے مختلف مفاہیم اخذ کیے گئے ہیں یعنی آسان الفاظ میں لفظ 'اختر' (یعنی ستارہ۔ فارسی) کو دیگر الفاظ سے ملاکر جو الفاظ بنائے گئے، ان سے مختلف معانی نکلتے ہیں یا معانی مراد لیے جاتے ہیں۔ ''دختر نیک اختر'' بہت مشہور اور پرانی اصطلاح ہے۔ اس ترکیب کا مطلب ہے: خوش قسمت بیٹی۔
پس منظر یہ ہے کہ ستاروں کی چال سے قسمت کا حال مربوط سمجھنے والے جب یہ کہیں کہ ستارہ عروج پر ہے تو گویا قسمت ساتھ دے رہی ہے، کام یابی اور خو ش حالی مل رہی ہے وغیرہ۔ ویسے سوچنے کی بات ہے کہ کبھی زندگی میں 'فرزند ِ نیک اختر' جیسا مرکب دیکھنے یا سننے کو نہیں ملا، البتہ 'فرزند ِ ارجمند' انہی معنوں میں مستعمل ہے اور 'فرزندِ دلبند ' بھی بیٹے سے دلی تعلق کے اظہار کے لیے لکھی جاتی ہے۔ (یہاں ایک ضمنی نکتہ : اگر راقم ''دل بند'' الگ الگ لکھے تو لوگ پریشان ہوجائیں گے کہ کہیں اُس بیٹے کا ذکر تو نہیں ، جس کا دل بند ہوگیا ہو)۔
اخترشماری کے متعلق بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے۔ ہرچند کہ مسلمانوں کے علمی زوال کے ساتھ ہی ایسی تمام سرگرمیاں اور مشاغل فضول اور لایعنی سمجھے جانے لگے ہیں جو کبھی علوم و فنون کا بنیادی حصہ تھے۔ اخترشماری یعنی تارے گننا جہاں تک مجھے علم ہے، علم نجوم و فلکیات ہی کا حصہ ہے۔ مغلیہ سلطنت کے دوسرے تاج دار نصیر الدین ہمایوں کی وفات بھی اسی طرح ہوئی تھی کہ ایک روایت کے مطابق، وہ روزانہ ستاروں کی نقل و حرکت کا بغور مشاہدہ کیا کرتا تھا۔
ایک رات اپنے محل کی چھت پر چڑھ کر کسی ستارے کی تلاش میں تھا کہ آج کہاں ہے، ایسے میں اُس کا پاؤں پھِسلا اور وہ سیڑھیوں سے لڑھک کر نیچے گرا۔ یوں اُس کی زندگی کا خاتمہ ہوگیا۔ وہ اپنے فطین باپ کی طرح بہ یک وقت صاحب قلم و شمشیر تو نہ تھا، مگر اُس کے خاص الخاص شغل، کتب بینی کا یہ عالَم تھا کہ اُس کے سفر میں (حتیٰ کہ جنگ میں بھی) اُس کے نجی کتب خانے کا ایک حصہ مخصوص جانوروں پر سوار ہوتا تھا اور وہ اپنی فرصت کے لمحات میں بے کار نہ بیٹھتا تھا۔ بات کی بات ہے کہ اس بادشاہ کے بارے میں یہ نکتہ بہت مشہور ہوا کہ اُس کے نام کا مطلب تھا، خوش نصیب، مگر اُس کی ساری زندگی مشکلات میں گزری۔ یہاں دو وضاحتیں کرتا چلوں:
(الف)۔ ہمایوں سے مراد ہے وہ شخص جس کے سر یا کندھے پر فرضی پرندہ ہُما بیٹھ جائے۔ یہ پرندہ ویسے تو کوئی وجود نہیں رکھتا، مگر اسے نایاب ہونے کے سبب ہی خوش قسمتی کی علامت ٹھہرادیا گیا۔ ویسے دنیا میں سِیمُرغ، عَنقاء اور Phoenix نامی فرضی پرندوں کے متعلق مختلف زبانوں کے ادب میں بہت سارا مواد موجود ہے۔
(ب)۔ یہ بات درحقیقت تاریخ کے منافی ہے۔ سچ یہ ہے کہ ہمایوں غالباً معلومہ تاریخ کا واحد بادشاہ ہے جس کی زندگی کے لیے خود اُس کے باپ نے اپنی جان کا صدقہ دیا، اُس باپ نے جو اپنے عہد کا زبردست بادشاہ تھا اور جس کے اوصاف کی بناء پر اُس کے مخالف اور دشمن بھی اُسے خراج تحسین پیش کرنے پر مجبور ہوئے۔ ظہیرالدین بابر نے یہ سن کر کہ چہیتے بیٹے کی جان اُسی صورت میں بچ سکتی ہے کہ جب اپنی سب سے عزیز شئے کا صدقہ دیاجائے، بسترعلالت پر لیٹے ہوئے ہمایوں کے گرد سات چکر لگائے اور کہتا رہا، ''برداشتیم، برداشتیم، برداشتیم'' (ہم نے برداشت کیا)۔ قسمت کا لکھا پورا ہوا اور بادشاہ ِوقت بیمار پڑگیا، ولی عہد رُوبہ صحت ہونے لگا۔
آخرش بابر کا انتقال ہوگیا۔ ہمایوں کو اتنی بڑی سلطنت یوں مل گئی گویا آج کی چالو زبان میں ''پلیٹ میں رکھ کر حلوہ'' دے دیا گیا ہو....پھر ہوا یوں کہ موصوف عیاشی میں پڑگئے اور پہلے تو مختلف صوبے داروں نے بغاوت کردی اور پھر 'اقتدار کا ہُما' بیٹھ گیا سہسرام ، بِہار (ہندوستان) کے جَری و شجیع حاکم فرید خان کے سر پر، جس نے تاریخ میں سلطان شیرشاہ سُوری کے لقب سے شہرت پائی۔ پندرہ سال تک ہندوستان کے طُول و عَرض میں ٹھوکریں کھانے کے بعد، ہمایوں، ایران کے بادشاہ کی مدد سے دوبارہ اقتدار پر قابض ہوا تو اُسی شیرشاہ کے کمزور جانشین اپنی حرکتوں کے سبب، تاج و تخت سے محروم ہوئے۔ اب خود ہی انصاف کریں ، کیا ہمایوں بدقسمت تھا؟
اخترشماری کے بعد ذکر کرتے ہیں اپنے معاصر شاعر اخترشمارؔ کا۔ اس خاکسار کی اخترشمارؔ سے کئی برس خط کتابت رہی، میرا رسالہ ہائیکو انٹرنیشنل[Haiku International] اُن کی خدمت میں ارسال کیا جاتا رہا اور اُن کے ہفت روزہ کے چند شمارے ادھر آئے، پھر سن دوہزار[2000] میں جب یہ خاکسار، ہائیکو انٹرنیشنل کے شمارہ پنجم (دنیا کی پندرہ زبانوں اور بولیوں کے مواد پر مبنی، خصوصی شمارہ بعنوان 'اقبال حیدرنمبر') کی اشاعت کے بعد مُلک گیر دورہ کرتا ہوا لاہور پہنچا تو جناب اخترشمارؔ اور اُن کے پاس موجود، ڈاکٹر سلیم اختر نے ٹیلی فون پر گفت وشنید میں بہت گرم جوشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فوری ملاقات کی خواہش ظاہر کی، سو اِن دونوں ممتاز ادیبوں سے انھی کی درس گاہ میں ملاقات کا شر ف حاصل کیا۔ اخترشمارؔ کی ایک غزل بطور امتثال امر ملاحظہ فرمائیں:
ستارہ لے گیا ہے میرا آسمان سے کون
اتررہا ہے شمارؔ آج میرے دھیان سے کون
ابھی سفر میں کوئی موڑ ہی نہیں آیا
نکل گیا ہے یہ چُپ چاپ داستان سے کون
لہو میں آگ لگا کر یہ کون ہنستا ہے
یہ انتقام سا لیتا ہے رو ح و جان سے کون
یہ دار چوم کے مُسکا رہا ہے کون ادھر
گزر رہا ہے تمھارے یہ امتحان سے کون
زمین چھوڑنا فی الحال میرے بس میں نہیں
دکھائی دینے لگا پھر یہ آسمان سے کون
اور جناب اب آتے ہیں ہم ، شاعر بے نظیر،''شاعر رومان'' کے نام سے مشہور، اخترؔ شیرانی کی طرف۔ نامورشاعر محمد داؤدخان اخترؔ شیرانی چار مئی سن انیس سو پانچ کو سابق ریاست ٹونک، راجستھان(ہندوستان) میں، معروف محقق پروفیسر حافظ محمود شیرانی (مصنف 'پنجاب میں اردو') کے گھر میں پیدا ہوئے اور اُن کا انتقال نو ستمبر سن انیس سو اڑتالیس کو لاہور، پاکستان میں ہوا [4 May 1905 - 9 September 1948]۔ اُن کے لواحقین میں ایک بیٹی مِینا شیرانی اور ایک بیٹا پروفیسر مظہرمحمود شیرانی شامل ہیں۔ منشی فاضل اور ادیب فاضل کی اسناد حاصل کرنے والے یہ لائق فائق سخنور اپنے عہد کے ممتاز سخنور تاجورؔ نجیب آبادی کے شاگرد تھے اور اردو کے علاوہ فارسی میں بھی شعر کہتے تھے۔
انھوں نے اردو کے شعری ادب میں انگریزی صنف 'سانیٹ'[Sonnet]متعارف کرائی، مگر بقول ناقدین، انھی کے ساتھ دَم توڑگئی.......حالانکہ گزشتہ چند عشروں میں کئی شعراء نے طبع زاد ومترجمہ سانیٹ اردو دنیا کے مختلف جرائد میں شایع کرائی ہیں، مگر ہمیں کوئی ایک بھی ایسا نہ ملا جس کی وجہ شہرت یہ صنف ہو یا کم ازکم یہ کہا جاسکتا ہو کہ یہ صنف فُلاں صاحب کی کاوش کے سبب مقبول ہوگئی ہے/ہورہی ہے۔ یاد رکھیے! لاطینی زبان سے انگریزی میں درآمد ہونے والی، سانیٹ کمزور صنف نہیں ہے/تھی اور اخترؔشیرانی کوئی شوقیہ شعرگو یا کچے پکے شاعر نہ تھے۔ یہ جملہ معترضہ اُن حضرات کے لیے ہے جو کسی بھی صنف کے متعلق اپنے تئیں فیصلہ صادر فرمادیتے ہیں کہ چونکہ کمزور صنف ہے یا غیرملکی ہے، لہٰذا اردو میں چل نہ پائے گی۔ اور یہ بات بھی یاد رہے کہ انگریزی کے بڑے بڑے شاعر اس صنف میں طبع آزمائی کرچکے ہیں، مگر اردو کو اِن سب باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لگے ہاتھوں اخترؔ شیرانی کی ایک سانیٹ بھی دیکھ لیں:
اک ایسا بُت بناؤں کہ دیکھا کروں اُسے
آسودہ ہے خیال کا پیکر بنا ہوا
خواب ِ عدم میں مست ہے جوہر بنا ہوا
اک مرمریں حجاب سے پیدا کروں اُسے
پھولوں میں جیسے جذبہ نکہت نِہُفتہ ہو
یا جلوہ بے قرار ہوں اَمواج رنگ میں
یوں اُس کی رو ح خُفتہ ہے آغوش سنگ میں
ظلمت میں جیسے نور کی صورت نِہُفتہ ہو
دن رات، صبح و شام میں پوجا کروں اُسے
میرا گُدازِ رو ح، جبیں سے مچل پڑے
اُس کی نظر سے جذب ِ محبت اُبل پڑے
ساز ِنفس کو توڑ کے گویا کروں اُسے
فن، خوابِ مرگ بن رہے، بُت ساز کے لیے
دنیا پکارتی رہے آواز کے لیے
اخترشیرانی نے ادبی صحافت میں دو بڑے نام متعارف کرائے: احمدندیم قاسمی اور قدرت اللہ شہاب۔ وہ خود کئی ادبی جرائد کے مدیر رہے اور مولانا محمدعلی جوہرؔ کے اخبار ہمدرد سے بھی وابستہ رہے۔ ان کی نثرنگاری کے متعلق کوئی کام ہوا ہے یا نہیں، اس ہیچ مدآں کے علم میں نہیں، البتہ اُن کی شاعری کے حوالے سے یقیناً تحقیق ہوتی رہی ہے۔ ہمارے بزرگ کرم فرما پروفیسر یونس حسنی نے تو اُن کے فن و شخصیت پر پی ایچ ڈی کا مقالہ تحریر کیا تھا جو کچھ عرصہ قبل انجمن ترقی اردو کے زیراہتمام دوبارہ شایع ہوچکا ہے۔ شاعر رومان نے عربی کے شعرائے عہدجاہلیہ کی طرح اپنے محبوب کو مختلف حقیقی انسانی ناموں سے پکارپکار کر گویا مجسم کردیا۔ انھوں نے سلمیٰ، ریحانہ اور عذرا کا ذکر اس قدر تواتر سے کیا کہ اُن کے معاصرین اور بعد کے اہل قلم، ناقدین اور ہمہ شما سبھی اس بحث میں حصہ لیتے دکھائی دیے کہ آیا یہ کردار، خصوصاً سلمیٰ حقیقی وجود رکھتے ہیں یا تھے؟
پہنچتی ہیں شعاعیں اُس کی جس دم، چشم حیراں تک
تصور مجھ کو لے اُڑتا ہے سلمیٰ کے شبستاں تک
جہاں سلمیٰ کے اور میرے سوا ہوتا نہیں کوئی
انگوٹھی کھوئی جاتی ہے مگر کھوتا نہیں کوئی
(نظم 'انگوٹھی'۔ مجموعہ کلام : صبح بہار)
اس عشق نگاری سے قطع نظریہ انکشاف بہت معنی خیز ہے کہ شاعر رومان کی نظم گوئی کا آغاز ہی 'جوگن' جیسی بھرپور نظم سے ہوا تھا۔ آج ہم میں سے کتنے شاعر اپنی پہلی کاوش میں ایسا زرخیز کلام کہنے پر قادر ہیں۔ اقتباس دیکھئے:
سبزے پہ چاندنی کے بادل برس رہے ہیں
یا کوئی حور جنت آنسو بہارہی ہے
ہے موج زن فضاء میں اک آبشار سیمیں
یا ملکہ پرستاں موتی لُٹارہی ہے
اک گرد مرمریں ہے چھائی ہوئی اُفُق پر
جس کو ہوائے صحرا ہر سُو اُڑارہی ہے
اک موج گوہریں سی ہر پھول پہ ہے رقصاں
نغمے کی روح رنگیں جس میں سمارہی ہے
یا دِن کے مقبرے پر دوشیزۂ شب آکر
گل ہائے نور کی اک چادر چڑھارہی ہے
دیکھو! وہ کوئی جوگن جنگل میں گارہی ہے!
(مجموعہ کلام : صبح بہار)
اخترشیرانی کے فن و شخصیت کے متعلق راقم کی معلومات نہایت واجبی سی ہیں، مگر ایک بہت عجیب نکتہ اُن کے مجموعہ کلام 'صبح بہار' کے سرسری مطالعے سے سامنے یہ آیا کہ وہ کہیں کہیں مقصدی انداز اختیار کرتے تو شبلی نعمانی اور علامہ اقبال جیسا رنگ نظر آتا تھا:
برہمن سے رخصت ہیں آج گیان کی باتیں
اور دھیان کی باتیں
شیخ میں نہیں باقی شیوہ مسلمانی
پاس ذوق ایمانی!
...........................
دل نہیں ہیں سینوں میں، عفتوں کے رہزن ہیں
عِصمتوں کے مدفن ہیں
روح جسم میں ہے یا پیکر ہوس رانی
موج خون نفسانی!
(نظم: دل کی ویرانی)
اس مشہور شاعر کے بعض لطائف بھی ادبی لطائف کی کتب میں محفوظ ہیں۔ معروف طبیب، حکیم نیر واسطی، اخترشیرانی کے گہرے دوست اور ذاتی معالج تھے۔ ظاہر ہے کہ حکیم صاحب کو اُن کی صحت کی فکر ہمہ وقت دامن گیر رہتی تھی۔ ایک دن مزاج پُرسی پر اخترشیرانی نے شعر کی زبان میں یوں جواب دیا:
امراض کا ہجوم ہے، اخترؔ سا نیم جاں
اک مرض ہو تو حضرتِ نیر دوا کریں
(''گلِ خنداں'' از سید اقبال حسن رضوی)
ویسے تو ذہن کے کسی نہاں خانے میں یہ لطیفہ بھی محفوظ ہے کہ کسی درس گا ہ میں کوئی استاد ، اخترشیرانی کا کلام پڑھاتے ہوئے کسی شعر میں محبوبہ کی زلفوں کے سائے تلے مئے نوشی کا ذکر لے بیٹھے۔ ایک شاگرد نے بڑی 'ذہانت' کا ثبوت دیتے ہوئے سوال کیا: ''مگر سر! اُس کے سر میں جُوئیں ہوتیں تو؟؟'' استاد تو استاد تھے، انھوں نے فوراً جواب دیا: 'میں آپ کی نہیں، اخترشیرانی کی محبوبہ کی بات کررہا ہوں۔''
اخترشیرانی کے مشہورزمانہ کلام 'اے عشق ہمیں برباد نہ کر' گانے والوں میں ہندوستان کی ممتاز مغنیہ، بیگم اختر (اختری فیض آبادی)، ثریا اور پاکستان میں نیرہ نور کے نام شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اخترشیرانی کی سلمیٰ کے حوالے سے ''بہار بیتنے والی ہے، تو آبھی جا سلمیٰ '' نہایت عمدگی سے گانے والے، کنییا کے دیدارسنگھ پردیسی (مقیم حال: لندن) کے متعلق جاننا بھی اہل ذوق کے لیے ضروری ہے۔ (اقبال فیروز: اخترشیرانی کی سلمیٰ اور دیدار سنگھ پردیسی) [https://www.humsub.com.pk/21948/iqbal-feroze/][۔ بات بات کہیں اور نکل جائے گی، مگر کہے بغیر رہا بھی نہیں جاتا کہ جس طرح سن انیس سو ستر کی دہائی کے اوائل میں اس 'رفیعِ مشرقی افریقہ ' یا رفیع ثانی کو محمد رفیع کے انداز گلوکاری کی نقل سے بہت اہمیت حاصل ہوئی، (ویسے تو اس ضمن میں سریندر، مہندر کپور، محمد عزیز اور شبیر کمار زیادہ ممتاز ہیں)، اسی سے ملتا جلتا ایک واقعہ بالکل برعکس یہ ہے کہ نامور گلوکار جگجیت سنگھ نے کینیا ہی میں ایک نجی محفل میں پاک فضائیہ اور پی آئی اے کے سابق کپتان، کیپٹن (ر)سید مشتاق شریف (تمغہ قائداعظم) کو متأثر کُن غزل سرائی سے لوگوں کے دل جیتتے ہوئے دیکھا تو بصد ادب گزارش کی کہ اگر آپ اجازت دیں تو مَیں آپ کی گائی ہوئی دو غزلیں گالوں۔
یہ اُسی دور کی با ت ہے جس کا ذکر رفیع کے فریفتہ دیدار پردیسی کے حوالے سے ہوا۔ سو جناب، ٹپے گانے والے گلوکار نے ایک شوقیہ گلوکار سے اجازت لے کر غزل گانا شروع کی اور ایک وقت آیا کہ مہدی حسن اور غلام علی (یا اُن کے چند ہونہار شاگردوں) کے سوا جگجیت سنگھ ہی گیت اور غزل کے کام یاب و مقبول گلوکار ٹھہرے۔ مشتاق صاحب خود سہگل کے عاشق تھے اور انھوں نے سہگل کے گائے ہوئے کئی نغمات اپنی آواز میں گاکر کیسٹ میں ریکارڈ کیے تھے اور خاص دوستوں کو سماعت کے لیے دیا کرتے تھے۔ یہ مشتاق شریف صاحب پاکستان کے نامور فن کار مرحوم امتیاز احمد اور ہندوستان کے مزاحیہ اداکار افتخار احمد کے چھوٹے بھائی اور ہمارے دور کے مشہور اداکار ٹیپو شریف کے والد ہیں اور ایک زمانے میں ٹیلی وژن ڈراما سیریل 'رَوِش' میں سینئیر پائلٹ کا کردار ادا کرنے کے بعد، کچھ ہی ڈراموں میں اداکاری کرکے اس کام سے تائب ہوگئے تھے۔ بعد ازآں وہ اعزازی مجسٹریٹ کے عہدے پر بھی فائز رہے اور اَب ایک مدت سے امریکا میں مقیم ہیں۔ راقم کو ٹیلی وژن کے دورتحریرو تحقیق میں اُن سے ملاقات اور پھر ایک انگریزی اخبار کے لیے اُن کا ایک انٹرویو کرنے (نیز متعدد بار ملاقات) کاشرف حاصل ہوا۔ اخترشناس اُس شخص کو کہتے ہیں جو ستاروں کا علم جانتا ہو، خواہ وہ علم نجوم ہو یا علم فلکیات۔
{الف} عزیزم کا عقدمسنونہ، قبلہ حاجی صاحب بارہ بنکوی کی دختر نیک اختر سے طے پایا ہے۔{ب} ہائے ہائے بڑا برا وقت آگیا ہے بے چارے پر ، دن میں اٹواٹی کھٹواٹی لیے پڑے رہتے ہیں اور رات کو اخترشماری کرتے ہیں۔ وہ کیا گئی کہ اُن کی تو دنیا ہی اُجڑگئی۔ {ج}لاہور سے شہرت پاکر امریکا میں سکونت اختیار کرنے والے شعراء میں ایک نمایاں نام اخترشمارؔ کا بھی ہے جو کبھی ہفت روزہ 'بجنگ آمد' نکالا کرتے تھے۔ {د}ع : دنیا کا تماشا دیکھ لیا، غم گین سی ہے، بے تاب سی ہے......کیا بات ہے اخترؔشیرانی کی۔ {ہ}حکیم مومن خان مومنؔ طبیب تھے، شاعر تھے اور ساتھ ساتھ اخترشناس بھی تھے۔
ان تمام بیانات میں ایک ہی لفظ کی مختلف تراکیب میں استعمال سے مختلف مفاہیم اخذ کیے گئے ہیں یعنی آسان الفاظ میں لفظ 'اختر' (یعنی ستارہ۔ فارسی) کو دیگر الفاظ سے ملاکر جو الفاظ بنائے گئے، ان سے مختلف معانی نکلتے ہیں یا معانی مراد لیے جاتے ہیں۔ ''دختر نیک اختر'' بہت مشہور اور پرانی اصطلاح ہے۔ اس ترکیب کا مطلب ہے: خوش قسمت بیٹی۔
پس منظر یہ ہے کہ ستاروں کی چال سے قسمت کا حال مربوط سمجھنے والے جب یہ کہیں کہ ستارہ عروج پر ہے تو گویا قسمت ساتھ دے رہی ہے، کام یابی اور خو ش حالی مل رہی ہے وغیرہ۔ ویسے سوچنے کی بات ہے کہ کبھی زندگی میں 'فرزند ِ نیک اختر' جیسا مرکب دیکھنے یا سننے کو نہیں ملا، البتہ 'فرزند ِ ارجمند' انہی معنوں میں مستعمل ہے اور 'فرزندِ دلبند ' بھی بیٹے سے دلی تعلق کے اظہار کے لیے لکھی جاتی ہے۔ (یہاں ایک ضمنی نکتہ : اگر راقم ''دل بند'' الگ الگ لکھے تو لوگ پریشان ہوجائیں گے کہ کہیں اُس بیٹے کا ذکر تو نہیں ، جس کا دل بند ہوگیا ہو)۔
اخترشماری کے متعلق بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے۔ ہرچند کہ مسلمانوں کے علمی زوال کے ساتھ ہی ایسی تمام سرگرمیاں اور مشاغل فضول اور لایعنی سمجھے جانے لگے ہیں جو کبھی علوم و فنون کا بنیادی حصہ تھے۔ اخترشماری یعنی تارے گننا جہاں تک مجھے علم ہے، علم نجوم و فلکیات ہی کا حصہ ہے۔ مغلیہ سلطنت کے دوسرے تاج دار نصیر الدین ہمایوں کی وفات بھی اسی طرح ہوئی تھی کہ ایک روایت کے مطابق، وہ روزانہ ستاروں کی نقل و حرکت کا بغور مشاہدہ کیا کرتا تھا۔
ایک رات اپنے محل کی چھت پر چڑھ کر کسی ستارے کی تلاش میں تھا کہ آج کہاں ہے، ایسے میں اُس کا پاؤں پھِسلا اور وہ سیڑھیوں سے لڑھک کر نیچے گرا۔ یوں اُس کی زندگی کا خاتمہ ہوگیا۔ وہ اپنے فطین باپ کی طرح بہ یک وقت صاحب قلم و شمشیر تو نہ تھا، مگر اُس کے خاص الخاص شغل، کتب بینی کا یہ عالَم تھا کہ اُس کے سفر میں (حتیٰ کہ جنگ میں بھی) اُس کے نجی کتب خانے کا ایک حصہ مخصوص جانوروں پر سوار ہوتا تھا اور وہ اپنی فرصت کے لمحات میں بے کار نہ بیٹھتا تھا۔ بات کی بات ہے کہ اس بادشاہ کے بارے میں یہ نکتہ بہت مشہور ہوا کہ اُس کے نام کا مطلب تھا، خوش نصیب، مگر اُس کی ساری زندگی مشکلات میں گزری۔ یہاں دو وضاحتیں کرتا چلوں:
(الف)۔ ہمایوں سے مراد ہے وہ شخص جس کے سر یا کندھے پر فرضی پرندہ ہُما بیٹھ جائے۔ یہ پرندہ ویسے تو کوئی وجود نہیں رکھتا، مگر اسے نایاب ہونے کے سبب ہی خوش قسمتی کی علامت ٹھہرادیا گیا۔ ویسے دنیا میں سِیمُرغ، عَنقاء اور Phoenix نامی فرضی پرندوں کے متعلق مختلف زبانوں کے ادب میں بہت سارا مواد موجود ہے۔
(ب)۔ یہ بات درحقیقت تاریخ کے منافی ہے۔ سچ یہ ہے کہ ہمایوں غالباً معلومہ تاریخ کا واحد بادشاہ ہے جس کی زندگی کے لیے خود اُس کے باپ نے اپنی جان کا صدقہ دیا، اُس باپ نے جو اپنے عہد کا زبردست بادشاہ تھا اور جس کے اوصاف کی بناء پر اُس کے مخالف اور دشمن بھی اُسے خراج تحسین پیش کرنے پر مجبور ہوئے۔ ظہیرالدین بابر نے یہ سن کر کہ چہیتے بیٹے کی جان اُسی صورت میں بچ سکتی ہے کہ جب اپنی سب سے عزیز شئے کا صدقہ دیاجائے، بسترعلالت پر لیٹے ہوئے ہمایوں کے گرد سات چکر لگائے اور کہتا رہا، ''برداشتیم، برداشتیم، برداشتیم'' (ہم نے برداشت کیا)۔ قسمت کا لکھا پورا ہوا اور بادشاہ ِوقت بیمار پڑگیا، ولی عہد رُوبہ صحت ہونے لگا۔
آخرش بابر کا انتقال ہوگیا۔ ہمایوں کو اتنی بڑی سلطنت یوں مل گئی گویا آج کی چالو زبان میں ''پلیٹ میں رکھ کر حلوہ'' دے دیا گیا ہو....پھر ہوا یوں کہ موصوف عیاشی میں پڑگئے اور پہلے تو مختلف صوبے داروں نے بغاوت کردی اور پھر 'اقتدار کا ہُما' بیٹھ گیا سہسرام ، بِہار (ہندوستان) کے جَری و شجیع حاکم فرید خان کے سر پر، جس نے تاریخ میں سلطان شیرشاہ سُوری کے لقب سے شہرت پائی۔ پندرہ سال تک ہندوستان کے طُول و عَرض میں ٹھوکریں کھانے کے بعد، ہمایوں، ایران کے بادشاہ کی مدد سے دوبارہ اقتدار پر قابض ہوا تو اُسی شیرشاہ کے کمزور جانشین اپنی حرکتوں کے سبب، تاج و تخت سے محروم ہوئے۔ اب خود ہی انصاف کریں ، کیا ہمایوں بدقسمت تھا؟
اخترشماری کے بعد ذکر کرتے ہیں اپنے معاصر شاعر اخترشمارؔ کا۔ اس خاکسار کی اخترشمارؔ سے کئی برس خط کتابت رہی، میرا رسالہ ہائیکو انٹرنیشنل[Haiku International] اُن کی خدمت میں ارسال کیا جاتا رہا اور اُن کے ہفت روزہ کے چند شمارے ادھر آئے، پھر سن دوہزار[2000] میں جب یہ خاکسار، ہائیکو انٹرنیشنل کے شمارہ پنجم (دنیا کی پندرہ زبانوں اور بولیوں کے مواد پر مبنی، خصوصی شمارہ بعنوان 'اقبال حیدرنمبر') کی اشاعت کے بعد مُلک گیر دورہ کرتا ہوا لاہور پہنچا تو جناب اخترشمارؔ اور اُن کے پاس موجود، ڈاکٹر سلیم اختر نے ٹیلی فون پر گفت وشنید میں بہت گرم جوشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فوری ملاقات کی خواہش ظاہر کی، سو اِن دونوں ممتاز ادیبوں سے انھی کی درس گاہ میں ملاقات کا شر ف حاصل کیا۔ اخترشمارؔ کی ایک غزل بطور امتثال امر ملاحظہ فرمائیں:
ستارہ لے گیا ہے میرا آسمان سے کون
اتررہا ہے شمارؔ آج میرے دھیان سے کون
ابھی سفر میں کوئی موڑ ہی نہیں آیا
نکل گیا ہے یہ چُپ چاپ داستان سے کون
لہو میں آگ لگا کر یہ کون ہنستا ہے
یہ انتقام سا لیتا ہے رو ح و جان سے کون
یہ دار چوم کے مُسکا رہا ہے کون ادھر
گزر رہا ہے تمھارے یہ امتحان سے کون
زمین چھوڑنا فی الحال میرے بس میں نہیں
دکھائی دینے لگا پھر یہ آسمان سے کون
اور جناب اب آتے ہیں ہم ، شاعر بے نظیر،''شاعر رومان'' کے نام سے مشہور، اخترؔ شیرانی کی طرف۔ نامورشاعر محمد داؤدخان اخترؔ شیرانی چار مئی سن انیس سو پانچ کو سابق ریاست ٹونک، راجستھان(ہندوستان) میں، معروف محقق پروفیسر حافظ محمود شیرانی (مصنف 'پنجاب میں اردو') کے گھر میں پیدا ہوئے اور اُن کا انتقال نو ستمبر سن انیس سو اڑتالیس کو لاہور، پاکستان میں ہوا [4 May 1905 - 9 September 1948]۔ اُن کے لواحقین میں ایک بیٹی مِینا شیرانی اور ایک بیٹا پروفیسر مظہرمحمود شیرانی شامل ہیں۔ منشی فاضل اور ادیب فاضل کی اسناد حاصل کرنے والے یہ لائق فائق سخنور اپنے عہد کے ممتاز سخنور تاجورؔ نجیب آبادی کے شاگرد تھے اور اردو کے علاوہ فارسی میں بھی شعر کہتے تھے۔
انھوں نے اردو کے شعری ادب میں انگریزی صنف 'سانیٹ'[Sonnet]متعارف کرائی، مگر بقول ناقدین، انھی کے ساتھ دَم توڑگئی.......حالانکہ گزشتہ چند عشروں میں کئی شعراء نے طبع زاد ومترجمہ سانیٹ اردو دنیا کے مختلف جرائد میں شایع کرائی ہیں، مگر ہمیں کوئی ایک بھی ایسا نہ ملا جس کی وجہ شہرت یہ صنف ہو یا کم ازکم یہ کہا جاسکتا ہو کہ یہ صنف فُلاں صاحب کی کاوش کے سبب مقبول ہوگئی ہے/ہورہی ہے۔ یاد رکھیے! لاطینی زبان سے انگریزی میں درآمد ہونے والی، سانیٹ کمزور صنف نہیں ہے/تھی اور اخترؔشیرانی کوئی شوقیہ شعرگو یا کچے پکے شاعر نہ تھے۔ یہ جملہ معترضہ اُن حضرات کے لیے ہے جو کسی بھی صنف کے متعلق اپنے تئیں فیصلہ صادر فرمادیتے ہیں کہ چونکہ کمزور صنف ہے یا غیرملکی ہے، لہٰذا اردو میں چل نہ پائے گی۔ اور یہ بات بھی یاد رہے کہ انگریزی کے بڑے بڑے شاعر اس صنف میں طبع آزمائی کرچکے ہیں، مگر اردو کو اِن سب باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لگے ہاتھوں اخترؔ شیرانی کی ایک سانیٹ بھی دیکھ لیں:
اک ایسا بُت بناؤں کہ دیکھا کروں اُسے
آسودہ ہے خیال کا پیکر بنا ہوا
خواب ِ عدم میں مست ہے جوہر بنا ہوا
اک مرمریں حجاب سے پیدا کروں اُسے
پھولوں میں جیسے جذبہ نکہت نِہُفتہ ہو
یا جلوہ بے قرار ہوں اَمواج رنگ میں
یوں اُس کی رو ح خُفتہ ہے آغوش سنگ میں
ظلمت میں جیسے نور کی صورت نِہُفتہ ہو
دن رات، صبح و شام میں پوجا کروں اُسے
میرا گُدازِ رو ح، جبیں سے مچل پڑے
اُس کی نظر سے جذب ِ محبت اُبل پڑے
ساز ِنفس کو توڑ کے گویا کروں اُسے
فن، خوابِ مرگ بن رہے، بُت ساز کے لیے
دنیا پکارتی رہے آواز کے لیے
اخترشیرانی نے ادبی صحافت میں دو بڑے نام متعارف کرائے: احمدندیم قاسمی اور قدرت اللہ شہاب۔ وہ خود کئی ادبی جرائد کے مدیر رہے اور مولانا محمدعلی جوہرؔ کے اخبار ہمدرد سے بھی وابستہ رہے۔ ان کی نثرنگاری کے متعلق کوئی کام ہوا ہے یا نہیں، اس ہیچ مدآں کے علم میں نہیں، البتہ اُن کی شاعری کے حوالے سے یقیناً تحقیق ہوتی رہی ہے۔ ہمارے بزرگ کرم فرما پروفیسر یونس حسنی نے تو اُن کے فن و شخصیت پر پی ایچ ڈی کا مقالہ تحریر کیا تھا جو کچھ عرصہ قبل انجمن ترقی اردو کے زیراہتمام دوبارہ شایع ہوچکا ہے۔ شاعر رومان نے عربی کے شعرائے عہدجاہلیہ کی طرح اپنے محبوب کو مختلف حقیقی انسانی ناموں سے پکارپکار کر گویا مجسم کردیا۔ انھوں نے سلمیٰ، ریحانہ اور عذرا کا ذکر اس قدر تواتر سے کیا کہ اُن کے معاصرین اور بعد کے اہل قلم، ناقدین اور ہمہ شما سبھی اس بحث میں حصہ لیتے دکھائی دیے کہ آیا یہ کردار، خصوصاً سلمیٰ حقیقی وجود رکھتے ہیں یا تھے؟
پہنچتی ہیں شعاعیں اُس کی جس دم، چشم حیراں تک
تصور مجھ کو لے اُڑتا ہے سلمیٰ کے شبستاں تک
جہاں سلمیٰ کے اور میرے سوا ہوتا نہیں کوئی
انگوٹھی کھوئی جاتی ہے مگر کھوتا نہیں کوئی
(نظم 'انگوٹھی'۔ مجموعہ کلام : صبح بہار)
اس عشق نگاری سے قطع نظریہ انکشاف بہت معنی خیز ہے کہ شاعر رومان کی نظم گوئی کا آغاز ہی 'جوگن' جیسی بھرپور نظم سے ہوا تھا۔ آج ہم میں سے کتنے شاعر اپنی پہلی کاوش میں ایسا زرخیز کلام کہنے پر قادر ہیں۔ اقتباس دیکھئے:
سبزے پہ چاندنی کے بادل برس رہے ہیں
یا کوئی حور جنت آنسو بہارہی ہے
ہے موج زن فضاء میں اک آبشار سیمیں
یا ملکہ پرستاں موتی لُٹارہی ہے
اک گرد مرمریں ہے چھائی ہوئی اُفُق پر
جس کو ہوائے صحرا ہر سُو اُڑارہی ہے
اک موج گوہریں سی ہر پھول پہ ہے رقصاں
نغمے کی روح رنگیں جس میں سمارہی ہے
یا دِن کے مقبرے پر دوشیزۂ شب آکر
گل ہائے نور کی اک چادر چڑھارہی ہے
دیکھو! وہ کوئی جوگن جنگل میں گارہی ہے!
(مجموعہ کلام : صبح بہار)
اخترشیرانی کے فن و شخصیت کے متعلق راقم کی معلومات نہایت واجبی سی ہیں، مگر ایک بہت عجیب نکتہ اُن کے مجموعہ کلام 'صبح بہار' کے سرسری مطالعے سے سامنے یہ آیا کہ وہ کہیں کہیں مقصدی انداز اختیار کرتے تو شبلی نعمانی اور علامہ اقبال جیسا رنگ نظر آتا تھا:
برہمن سے رخصت ہیں آج گیان کی باتیں
اور دھیان کی باتیں
شیخ میں نہیں باقی شیوہ مسلمانی
پاس ذوق ایمانی!
...........................
دل نہیں ہیں سینوں میں، عفتوں کے رہزن ہیں
عِصمتوں کے مدفن ہیں
روح جسم میں ہے یا پیکر ہوس رانی
موج خون نفسانی!
(نظم: دل کی ویرانی)
اس مشہور شاعر کے بعض لطائف بھی ادبی لطائف کی کتب میں محفوظ ہیں۔ معروف طبیب، حکیم نیر واسطی، اخترشیرانی کے گہرے دوست اور ذاتی معالج تھے۔ ظاہر ہے کہ حکیم صاحب کو اُن کی صحت کی فکر ہمہ وقت دامن گیر رہتی تھی۔ ایک دن مزاج پُرسی پر اخترشیرانی نے شعر کی زبان میں یوں جواب دیا:
امراض کا ہجوم ہے، اخترؔ سا نیم جاں
اک مرض ہو تو حضرتِ نیر دوا کریں
(''گلِ خنداں'' از سید اقبال حسن رضوی)
ویسے تو ذہن کے کسی نہاں خانے میں یہ لطیفہ بھی محفوظ ہے کہ کسی درس گا ہ میں کوئی استاد ، اخترشیرانی کا کلام پڑھاتے ہوئے کسی شعر میں محبوبہ کی زلفوں کے سائے تلے مئے نوشی کا ذکر لے بیٹھے۔ ایک شاگرد نے بڑی 'ذہانت' کا ثبوت دیتے ہوئے سوال کیا: ''مگر سر! اُس کے سر میں جُوئیں ہوتیں تو؟؟'' استاد تو استاد تھے، انھوں نے فوراً جواب دیا: 'میں آپ کی نہیں، اخترشیرانی کی محبوبہ کی بات کررہا ہوں۔''
اخترشیرانی کے مشہورزمانہ کلام 'اے عشق ہمیں برباد نہ کر' گانے والوں میں ہندوستان کی ممتاز مغنیہ، بیگم اختر (اختری فیض آبادی)، ثریا اور پاکستان میں نیرہ نور کے نام شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اخترشیرانی کی سلمیٰ کے حوالے سے ''بہار بیتنے والی ہے، تو آبھی جا سلمیٰ '' نہایت عمدگی سے گانے والے، کنییا کے دیدارسنگھ پردیسی (مقیم حال: لندن) کے متعلق جاننا بھی اہل ذوق کے لیے ضروری ہے۔ (اقبال فیروز: اخترشیرانی کی سلمیٰ اور دیدار سنگھ پردیسی) [https://www.humsub.com.pk/21948/iqbal-feroze/][۔ بات بات کہیں اور نکل جائے گی، مگر کہے بغیر رہا بھی نہیں جاتا کہ جس طرح سن انیس سو ستر کی دہائی کے اوائل میں اس 'رفیعِ مشرقی افریقہ ' یا رفیع ثانی کو محمد رفیع کے انداز گلوکاری کی نقل سے بہت اہمیت حاصل ہوئی، (ویسے تو اس ضمن میں سریندر، مہندر کپور، محمد عزیز اور شبیر کمار زیادہ ممتاز ہیں)، اسی سے ملتا جلتا ایک واقعہ بالکل برعکس یہ ہے کہ نامور گلوکار جگجیت سنگھ نے کینیا ہی میں ایک نجی محفل میں پاک فضائیہ اور پی آئی اے کے سابق کپتان، کیپٹن (ر)سید مشتاق شریف (تمغہ قائداعظم) کو متأثر کُن غزل سرائی سے لوگوں کے دل جیتتے ہوئے دیکھا تو بصد ادب گزارش کی کہ اگر آپ اجازت دیں تو مَیں آپ کی گائی ہوئی دو غزلیں گالوں۔
یہ اُسی دور کی با ت ہے جس کا ذکر رفیع کے فریفتہ دیدار پردیسی کے حوالے سے ہوا۔ سو جناب، ٹپے گانے والے گلوکار نے ایک شوقیہ گلوکار سے اجازت لے کر غزل گانا شروع کی اور ایک وقت آیا کہ مہدی حسن اور غلام علی (یا اُن کے چند ہونہار شاگردوں) کے سوا جگجیت سنگھ ہی گیت اور غزل کے کام یاب و مقبول گلوکار ٹھہرے۔ مشتاق صاحب خود سہگل کے عاشق تھے اور انھوں نے سہگل کے گائے ہوئے کئی نغمات اپنی آواز میں گاکر کیسٹ میں ریکارڈ کیے تھے اور خاص دوستوں کو سماعت کے لیے دیا کرتے تھے۔ یہ مشتاق شریف صاحب پاکستان کے نامور فن کار مرحوم امتیاز احمد اور ہندوستان کے مزاحیہ اداکار افتخار احمد کے چھوٹے بھائی اور ہمارے دور کے مشہور اداکار ٹیپو شریف کے والد ہیں اور ایک زمانے میں ٹیلی وژن ڈراما سیریل 'رَوِش' میں سینئیر پائلٹ کا کردار ادا کرنے کے بعد، کچھ ہی ڈراموں میں اداکاری کرکے اس کام سے تائب ہوگئے تھے۔ بعد ازآں وہ اعزازی مجسٹریٹ کے عہدے پر بھی فائز رہے اور اَب ایک مدت سے امریکا میں مقیم ہیں۔ راقم کو ٹیلی وژن کے دورتحریرو تحقیق میں اُن سے ملاقات اور پھر ایک انگریزی اخبار کے لیے اُن کا ایک انٹرویو کرنے (نیز متعدد بار ملاقات) کاشرف حاصل ہوا۔ اخترشناس اُس شخص کو کہتے ہیں جو ستاروں کا علم جانتا ہو، خواہ وہ علم نجوم ہو یا علم فلکیات۔