امریکا افغانستان میں ’’آپریشن فونکس‘‘ دُہرانے والا ہے
ویتنام جنگ میں ہزاروں مخالفین کو خفیہ طور پر قتل کرنے کی حکمت عملی اب افغانستان میں آزمائی جائے گی
ISLAMABAD:
کہتے ہیں، جب ببر شیر کو انسانی خون کی چاٹ لگ جائے، تو اسے کوئی اور غذا مشکل ہی سے پسند آتی ہے۔ وہ پھر انسانی خون کی تلاش میں بھوکے بھیڑیوں کی طرح مارا مارا پھرتا ہے اور جو انسان مل جائے، اسے بے رحمی سے بھنبھوڑ ڈالتا ہے۔ افغانستان میں امریکی حکومت بھی ایک لحاظ سے آدم خور شیر کا روپ دھار چکی ہے۔
7 اکتوبر 2001ء کو امریکی یہ دعویٰ کرتے افغانستان پہنچے تھے کہ وہ اس دیس کو امن و امان اورخوشحالی کا گہوارہ بنادیں گے۔ سولہ سال بیت چکے، افغانستان بدستور جنگ و جدل کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ یہ دیس خوشحال اور ترقی یافتہ تو کیا ہوتا، امریکیوں کی وجہ سے مزید تباہ حالی اور زوال کا شکار ہوگیا۔ برطانوی اور روسی سمجھدار تھے، وہ ہزیمت و ذلت اٹھا کر افغانستان سے نکل گئے لیکن مفاد پرست امریکی حکومت سرزمین افغاناں چھوڑنے کو تیار نہیں۔ اس ملک پر قابض رہ کر وہ اپنی سب سے بڑی مخالف قوتوں روس اور چین پر قریبی نظر جو رکھ سکتی ہے۔ مزید براں افغان قدرتی وسائل کا خزانہ دیکھ کر بھی ہوس پرست امریکی حکمرانوں کا دل للچاتا رہتا ہے۔
کابل پر امریکیوں کی کٹھ پتلی حکومت قائم ہے۔ ڈالروں اورعسکری امداد کے ذریعے انہوں نے ہی اس نام نہاد حکومت کو برقرار رکھا ہوا ہے ورنہ افغانوں کی اکثریت اپنے حکمرانوں اور ارکان پارلیمنٹ کو اپنا نمائندہ تسلیم نہیں کرتی۔ بہت سے افغان طالبان کو اپنا نمائندہ کہتے ہیں جنہوں نے پچھلے سولہ برس سے امریکیوں کے ساتھ جنگ چھیڑ رکھی ہے۔
دنیا کی اکلوتی سپرپاور کی جدید ترین اور نت نئے تکنیکی آلات سے لیس فوج بھی طالبان کو شکست نہیں دے سکی بلکہ اب وہ افغانستان کے کئی صوبوں میں امریکیوں اور افغان حکومت سے زیادہ اثرو رسوخ رکھتے ہیں۔ طالبان سے جنگ میں ناکامی کے باعث ہی سابق امریکی صدر اوباما نے اعلان کیا تھا کہ افغانستان سے مرحلے وار فوج واپس بلا لی جائے گی۔
2017ء میں قوم پرست ڈونالڈ ٹرمپ امریکی صدر بن گئے جو ایک کمزور شخصیت کے مالک ہیں۔چونکہ وہ بنیادی طور پر کاروباری شخص ہیں لہٰذا وہ پچھلے امریکی صدور کے مانند واضح نظریات اور فلسفہ حیات نہیں رکھتے۔ان کی سوچ کا دائرہ نفع نقصان سے آگے شاذ ہی بڑھتا ہے۔ اسی لیے ٹرمپ پر بہت جلد امریکی فوج نے غلبہ حاصل کرلیا اور کئی سابق جرنیل ان کے دست راست بن بیٹھے۔
امریکی فوج چاہتی ہے کہ چین اور روس کے سر پر سوار رہنے کی خاطر افغانستان کو مستقل بنیادوں پر اپنا اڈا بنا لیا جائے۔ اسی لیے اپنی فوج کی ایما پر صدر ٹرمپ نے اگست 2017ء میں افغانستان میں فوجی آپریشن جاری رکھنے کا اعلان کردیا۔اس اعلان سے صدر ٹرمپ کے مفادات بھی وابستہ ہیں۔ ان کے بہت سے کاروباری دوست افغانستان میں پوشیدہ قیمتی معدنیات نکال کر خوب دولت کمانا چاہتے ہیں۔
یہ خبر افغان عوام پر بم بن کر گری۔ انہیں امید تھی کہ غیر ملکی حملہ آوروں کی رخصتی سے افغانستان میں رفتہ رفتہ امن قائم ہوجائے گا۔ طالبان ہتھیار پھینک کر سیاسی دھارے میں شامل ہونے لگیں گے۔ مگر مفاد پرست امریکی حکومت نے ان کے وطن کو دوبارہ جنگ کی بھٹی میں جھونک دیا۔ گویا عام افغانوں کے مصائب و مشکلات کا دور ختم نہیں ہوا اور انہیں نہ جانے کب تک مزید تباہی دیکھنا ہوگی۔
صدر ٹرمپ نے اپنے اعلان میں یہ نہیں بتایا کہ افغانستان میں امریکی فوج کی کتنی تعداد تعینات رہے گی اور امریکا وہاں کس قسم کے آپریشن انجام دے گا۔ بس یہ بتایا گیا کہ امریکی فوج فی الوقت سرزمین افغاناں سے رخصت ہوئی تو ''دہشت گرد'' تنظیم نو سے گزر کر پھر طاقتور ہوجائیں گے۔ تب وہ امریکاکے لیے دوبارہ خطرہ بن سکتے ہیں۔اسی لیے افغانستان میں امریکی فوج کا قیام ناگزیر ہے۔
اب امریکی میڈیا بالخصوص نیویارک ٹائمز نے خبر دی ہے کہ صدر ٹرمپ افغان جنگ اپنی خفیہ ایجنسی، سی آئی اے اور کرائے کے فوجیوں المعروف بہ پرائیویٹ ملٹری کنٹریکٹروں کے سپرد کرنا چاہتے ہیں۔ یہ دونوں مل جل کر طالبان کے خلاف خفیہ آپریشن کریں گے۔ یہ حکمت عملی اپنانے کی خاص وجہ ہے۔تقریباً سبھی امریکی عوام افغان جنگ سے بددل ہوچکے۔ان کے ادا کردہ ٹیکسوں کی بہت بڑی رقم اس لاحاصل جنگ پر ضائع ہو چکی۔ اکثریت کی خواہش ہے کہ امریکی فوج افغانوں کو ان کے حال پر چھوڑ کر واپس وطن آجائے۔
امریکی حکومت اربوں ڈالر افغان جنگ پر پھونک چکی۔وہ میدان جنگ میں اپنے سوا دو ہزار امریکی مروا چکی مگر فتح یا نتیجہ دور دور تک دکھائی نہیں دیتا۔اس عالم میں اپنے عوام کو غچہ و دھوکا دینے کی خاطر امریکی حکومت چاہتی ہے کہ افغان جنگ سی آئی اے اور پرائیویٹ ملٹری کنٹریکٹروں کے سپرد کردی جائے۔ ان کے خفیہ آپریشن مخالفین کو مارنا شروع کر دیں گے جبکہ امریکی عوام کو پتا ہی نہیں چلے گا کہ پس پردہ افغان جنگ بدستور جاری ہے۔ویسے بھی جب تک پانی سر سے نہ گزریں،عام امریکیوں کی اکثریت اپنے حال میں مست رہتی ہے اور انھیں کچھ خبر نہیں ہوتی کہ بیرون ممالک میں کیا ہو رہا ہے۔بظاہر امریکی حکومت کی جانب سے اس تاثر کی تردید کردی گئی تھی اور 8ہزار مزید فوجی افغانستان بھیجنے کا اعلان کیا تھا لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ جو کام ایک مکمل فوج نہ کرسکی چند ہزار فوجی کیسے کر پائیں گے اس لیے یہ کہا جارہا ہے کہ امریکی انتظامیہ درپردہ ان خفیہ ہتھکنڈوں کے استعمال کا فیصلہ کرچکی ہے۔
افغانستان میں امریکی جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی سی آئی اے کے ایجنٹ وہاں موجود تھے۔ ان کا تعلق ایجنسی کے اسپیشل ایکٹوٹیز ڈویژن (ایس اے ڈی) سے امریکا کی خفیہ ترین لڑاکا فورس ہے سے تھا۔ عسکری تربیت سے لیس خفیہ ایجنٹ اس ڈویژن کا حصہ ہیں۔ ان کی تعداد ایک سے دوہزار کے درمیان بتائی جاتی ہے۔ یہ خصوصی''فوجی خفیہ ایجنٹ'' پوری دنیا میں اپنی ذمے داریاں انجام دیتے ہیں۔
جب امریکا نے کابل میں کٹھ پتلی حکومت قائم کردی، تو سی آئی اے کیایس اے ڈی سے تعلق رکھنے والے ایجنٹ ہی افغان فوجیوں کو عسکری تربیت دینے لگے۔ البتہ امریکی فوج کے انتہائی تجربہ کار دستے، جوائنٹ سپیشل آپریشنز کمانڈ سے وابستہ فوجی افغانستان میں القاعدہ رہنماؤں کے خلاف آپریشن کرتے، تو اس میں سی آئی اے کے فوجی خفیہ ایجنٹ بھی شامل ہوتے۔
جب صدر اوباما برسر اقتدار آئے، تو 2013ء میں انہوں نے کوشش کی تھی کہ ایس اے ڈی بھی افغان طالبان کے خلاف کارروائیاں کرنے لگے۔ مگر سی آئی اے کے کارپردازان نے انکار کردیا۔ ان کا مؤقف یہ تھا کہ امریکی فوج زیادہ وسائل اور افرادی قوت رکھتی ہے۔ لہٰذا اسے ہی وسیع پیمانے پر طالبان کے خلاف فوجی آپریشن کرنے چاہیں۔
ٹرمپ حکومت میں سابقہ فوجی، مائک پومپیو سی آئی اے کا سربراہ بنا تو امریکی فوج کی ایما پر اس نے پالیسی بدل لی۔ چناں چہ سی آئی اے کے عام وخاص (عسکری طور پر تربیت یافتہ) ایجنٹ طالبان کے خلاف بھی خفیہ آپریشنوں میں شرکت کرنے لگے۔اب ٹرمپ حکومت نے پلان بنایا ہے کہ سی آئی اے کے دس سے پندرہ انتہائی تجربہ کار اور جدید ترین اسلحے سے لیس ایجنٹوں پر مشتمل چھوٹی چھوٹی ٹیمیں پورے افغانستان میں شکاری کتوں کی طرح طالبان کی بو سونگھتی پھریں گی اور ان پر دن رات دھاوا بولیں گی۔ یہ تمام آپریشن خفیہ ہوں گے... یعنی امریکی و عالمی میڈیا کو مطلق خبر نہیں ہوگی کہ آپریشنوں میں کتنے طالبان مارے گئے، ان میں کتنے شہری تھے اور یہ کہ آپریشن کامیاب رہے یا ناکام؟
گویا امریکی افغانستان میں ''قتل عام'' کا منصوبہ بناچکے۔ افغان باشندے عموماً راتوں کو گھروں سے گھسیٹ کر نکالے جائیں گے اور پھر گھر والوں کو ان کا کچھ اتا پتا نہیں چلے گا۔ پچھلے سولہ برس سے افغانستان میں یہ عمل چھوٹے پیمانے پر جاری تھا، اب اس کا ٹارگٹ القاعدہ نہیں طالبان ہے جو اپنے وطن میں چپے چپے پر پھیلے ہوئے ہیں۔ لہٰذا یہ آپریشن بہت وسیع ہوگا اور نتیجتاً اموات بھی زیادہ ہوںگی۔
امریکا میں کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں سی آئی اے کی زیر نگرانی شروع ہونے والا یہ آپریشن ''کاؤنٹر انسرجنسی مہم'' (counter-insurgency campaign) نہیں کہلا سکتا۔ وجہ یہ کہ اس قسم کا آپریشن سیاسی، معاشی، عسکری اور معاشرتی پہلو رکھتا ہے۔ مزید براں مملکت کی حکومت اور عوام کی اکثریت آپریشن کی تائید کرتی ہے۔ افغانستان میں ایسا کچھ نہیں!حقیقت میں صدر ٹرمپ نے اپنے جرنیلوں کے دباؤ میں آکر فیصلہ کیا کہ طالبان کا صفایا کرنے کی مہم سی آئی اے اور پرائیویٹ ملٹری کنٹریکٹروں کے سپرد کردی جائے۔ اس مہم کا صرف ایک مقصد ہے... یہ کہ غیر قانونی اور غیر اخلاقی طور پر چوری چھپے زیادہ سے زیادہ افغان باشندے مار دیئے جائیں۔
ویت نام جنگ کی خونی یادیں تازہ
امریکی حکمرانوں نے ویت نام جنگ کے دوران بھی سی آئی اے کو مخالف ویت نامی قتل کرنے کا ٹھیکہ دے دیا تھا۔ سوشلسٹ ویت نامیوں کے خلاف سی آئی اے نے پھر ''آپریشن فونکس'' (Operation Phoenix)شروع کیا جو سات سال (1965ء تا 1972) جاری رہا۔اس آپریشن کے دوران سی آئی اے اور امریکی فوج کی ٹیمیں مخالف ویت نامیوں کے گاؤں اور قصبوں میں چھاپے مارتیں اور جو شخص مشکوک لگتا، اسے گرفتار کرلیتیں۔ انہیں پھر شدید تشدد کا نشانہ بنایا جاتا۔ خیال ہے کہ سات برسوں میں آپریشن فونکس پر عمل کرتے ہوئے امریکیوں نے 26 سے 41 ہزار کے درمیان ویت نامی قتل کر ڈالے۔
آپریشن فونکس کا سب سے بڑا منفی اثریہ تھا کہ عام ویت نامی امریکا سے متنفر ہوگئے۔ ویت نام میں عوام کی اکثریت امریکی فوجیوں سے نفرت کرنے لگی اور مخالفوں سے جاملی۔ عوامی رائے عامہ تبدیل ہونے سے ہی امریکیوں کو دم دبا کر ویت نام سے بھاگنا پڑا۔امریکی حکمرانوں نے یقینا ویت نام جنگ میں ناکامی سے سبق نہیں سیکھا کیونکہ اب وہ افغانستان میں نیا آپریشن فونکس کرنے جارہے ہیں۔ طالبان یقینا سرکاری تنصیبات اور قابض فوجیوں پر خودکش حملے اور بم دھماکے بڑھا کر اس آپریشن کا جواب دیں گے۔ مگر محاذ جنگ پر آپریشن فونکس کے باعث انہیں سب سے بڑا فائدہ یہ ملے گا کہ عوام ان کے طرف دار بن سکتے ہیں۔
فی الوقت طالبان کو افغانستان میں بڑے پیمانے پر حمایت حاصل نہیں ۔ کئی پشتون علاقوں میں بھی ان کے مخالفین موجود ہیں۔ مگر امریکی حکومت کے آپریشن فونکس کی طرز پر کارروائی سے صورتحال تیزی سے تبدیل ہوسکتی ہے۔وجہ یہ کہ افغانستان میں امریکی فوج، سی آئی اے اور پرائیویٹ ملٹری کنٹریکٹر ، تینوں افغان انٹیلی جنس (نیشنل ڈائرکٹوریٹ آف سکیورٹی) کی فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پر عسکری و خفیہ آپریشن کرتے ہیں۔ اس افغان تنظیم میں تاجک اور ازبک افسروں اور ایجنٹوں کی اکثریت ہے۔ لہٰذا طالبان کے خلاف آپریشن فونکس جیسی مہم شروع ہونے پر انہیں موقع مل جائے گا کہ وہ پشتون باشندوں کا وسیع پیمانے پر قتل عام کرواسکیں۔
افغان انٹیلی جنس کسی بھی پشتون کو طالبان قرار دے کر اسے امریکیوں کے ہاتھوں قتل کراسکتی ہے۔ گویا پشتونوں کی شدید مخالف اس تنظیم کو انہیں قتل کرنے کا لائسنس مل جائے گا۔ لیکن اس صورت حال سے طالبان کو مدد بھی مل سکتی ہے۔وہ اس طرح کہ جس بستی، گاؤں یا دیہہ میں امریکیوں کی خفیہ ٹیمیں کسی افغان کو قتل کریں گی، اس کا پورا خاندان اور قبیلہ کابل حکومت اور امریکا کے خلاف ہوجائے گا۔ یوں طالبان کی صفوں میں غصے سے بھرے اور انتقام کی آگ میں جلتے ہوئے سپاہی شامل ہونے لگیں گے۔
یاد رہے کہ افغان طالبان کی اکثریت اپنے اپنے علاقوں میں امریکی و اتحادی افواج سے نبرد آزما ہے۔ اگر ان کے خلاف خفیہ آپریشن فونکس شروع ہوا، تو لازماً افغان علاقوں میں عوام کی اکثریت طالبان کی حمایت کرنے لگے گی۔ گویا ٹرمپ حکومت کا یہ نیا داؤ دراصل طالبان کا کلّہ مزید مضبوط کرسکتا ہے۔ تب یہ چال الٹا امریکی حکومت کے گلے کا پھندا بن جائے گی۔افغان جنگ سی آئی اے اور پرائیویٹ ملٹری کنٹریکٹروں کے سپرد کرنے سے ٹرمپ حکومت کا مدعا یہ ہے کہ طالبان کو نیست و نابود کردیا جائے۔ یہ خواب شاید ہی عملی شکل میں ڈھل سکے۔ امریکی اپنے اتحادیوں کے ساتھ سولہ برس سے طالبان کا مقابلہ کررہے ہیں۔ اس دوران طالبان کی قوت میں اضافہ ہی ہوا۔اب آپریشن فونکس کی نئی گیدڑ سنگھی اگلے برسوں میں امریکی اسٹیبلشمنٹ کے لیے سنکھیا کا زہر ثابت ہوسکتی ہے۔
افغانستان میں آپریشن فونکس جیسی کارروائی کی شروعات پاکستان کے لیے اچھی خبر نہیں۔وجہ یہ کہ امریکی خفیہ ٹیمیں افغان طالبان کی تلاش میں چوری چھپے پاکستان بھی آ سکتی ہیں۔امریکی وزیر خارجہ تو حال ہی میں ببانگ دہل کہہ چکا کہ پاکستانی حکومت کی مدد شامل نہ ہوئی تب بھی امریکا اپنے طور پہ ''دہشت گردوں''کو مارنا جاری رکھے گا۔مطلب یہ کہ افغان جنگ بدستور پاکستانی حکومت اور قوم کے لیے مصیبت کا باعث اور دردسر بنی رہے گی۔نیز بھارت کو موقع ملے گا کہ وہ اس کی آڑ میں پاکستان دشمن کارروائیاں کر سکے۔
کہتے ہیں، جب ببر شیر کو انسانی خون کی چاٹ لگ جائے، تو اسے کوئی اور غذا مشکل ہی سے پسند آتی ہے۔ وہ پھر انسانی خون کی تلاش میں بھوکے بھیڑیوں کی طرح مارا مارا پھرتا ہے اور جو انسان مل جائے، اسے بے رحمی سے بھنبھوڑ ڈالتا ہے۔ افغانستان میں امریکی حکومت بھی ایک لحاظ سے آدم خور شیر کا روپ دھار چکی ہے۔
7 اکتوبر 2001ء کو امریکی یہ دعویٰ کرتے افغانستان پہنچے تھے کہ وہ اس دیس کو امن و امان اورخوشحالی کا گہوارہ بنادیں گے۔ سولہ سال بیت چکے، افغانستان بدستور جنگ و جدل کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ یہ دیس خوشحال اور ترقی یافتہ تو کیا ہوتا، امریکیوں کی وجہ سے مزید تباہ حالی اور زوال کا شکار ہوگیا۔ برطانوی اور روسی سمجھدار تھے، وہ ہزیمت و ذلت اٹھا کر افغانستان سے نکل گئے لیکن مفاد پرست امریکی حکومت سرزمین افغاناں چھوڑنے کو تیار نہیں۔ اس ملک پر قابض رہ کر وہ اپنی سب سے بڑی مخالف قوتوں روس اور چین پر قریبی نظر جو رکھ سکتی ہے۔ مزید براں افغان قدرتی وسائل کا خزانہ دیکھ کر بھی ہوس پرست امریکی حکمرانوں کا دل للچاتا رہتا ہے۔
کابل پر امریکیوں کی کٹھ پتلی حکومت قائم ہے۔ ڈالروں اورعسکری امداد کے ذریعے انہوں نے ہی اس نام نہاد حکومت کو برقرار رکھا ہوا ہے ورنہ افغانوں کی اکثریت اپنے حکمرانوں اور ارکان پارلیمنٹ کو اپنا نمائندہ تسلیم نہیں کرتی۔ بہت سے افغان طالبان کو اپنا نمائندہ کہتے ہیں جنہوں نے پچھلے سولہ برس سے امریکیوں کے ساتھ جنگ چھیڑ رکھی ہے۔
دنیا کی اکلوتی سپرپاور کی جدید ترین اور نت نئے تکنیکی آلات سے لیس فوج بھی طالبان کو شکست نہیں دے سکی بلکہ اب وہ افغانستان کے کئی صوبوں میں امریکیوں اور افغان حکومت سے زیادہ اثرو رسوخ رکھتے ہیں۔ طالبان سے جنگ میں ناکامی کے باعث ہی سابق امریکی صدر اوباما نے اعلان کیا تھا کہ افغانستان سے مرحلے وار فوج واپس بلا لی جائے گی۔
2017ء میں قوم پرست ڈونالڈ ٹرمپ امریکی صدر بن گئے جو ایک کمزور شخصیت کے مالک ہیں۔چونکہ وہ بنیادی طور پر کاروباری شخص ہیں لہٰذا وہ پچھلے امریکی صدور کے مانند واضح نظریات اور فلسفہ حیات نہیں رکھتے۔ان کی سوچ کا دائرہ نفع نقصان سے آگے شاذ ہی بڑھتا ہے۔ اسی لیے ٹرمپ پر بہت جلد امریکی فوج نے غلبہ حاصل کرلیا اور کئی سابق جرنیل ان کے دست راست بن بیٹھے۔
امریکی فوج چاہتی ہے کہ چین اور روس کے سر پر سوار رہنے کی خاطر افغانستان کو مستقل بنیادوں پر اپنا اڈا بنا لیا جائے۔ اسی لیے اپنی فوج کی ایما پر صدر ٹرمپ نے اگست 2017ء میں افغانستان میں فوجی آپریشن جاری رکھنے کا اعلان کردیا۔اس اعلان سے صدر ٹرمپ کے مفادات بھی وابستہ ہیں۔ ان کے بہت سے کاروباری دوست افغانستان میں پوشیدہ قیمتی معدنیات نکال کر خوب دولت کمانا چاہتے ہیں۔
یہ خبر افغان عوام پر بم بن کر گری۔ انہیں امید تھی کہ غیر ملکی حملہ آوروں کی رخصتی سے افغانستان میں رفتہ رفتہ امن قائم ہوجائے گا۔ طالبان ہتھیار پھینک کر سیاسی دھارے میں شامل ہونے لگیں گے۔ مگر مفاد پرست امریکی حکومت نے ان کے وطن کو دوبارہ جنگ کی بھٹی میں جھونک دیا۔ گویا عام افغانوں کے مصائب و مشکلات کا دور ختم نہیں ہوا اور انہیں نہ جانے کب تک مزید تباہی دیکھنا ہوگی۔
صدر ٹرمپ نے اپنے اعلان میں یہ نہیں بتایا کہ افغانستان میں امریکی فوج کی کتنی تعداد تعینات رہے گی اور امریکا وہاں کس قسم کے آپریشن انجام دے گا۔ بس یہ بتایا گیا کہ امریکی فوج فی الوقت سرزمین افغاناں سے رخصت ہوئی تو ''دہشت گرد'' تنظیم نو سے گزر کر پھر طاقتور ہوجائیں گے۔ تب وہ امریکاکے لیے دوبارہ خطرہ بن سکتے ہیں۔اسی لیے افغانستان میں امریکی فوج کا قیام ناگزیر ہے۔
اب امریکی میڈیا بالخصوص نیویارک ٹائمز نے خبر دی ہے کہ صدر ٹرمپ افغان جنگ اپنی خفیہ ایجنسی، سی آئی اے اور کرائے کے فوجیوں المعروف بہ پرائیویٹ ملٹری کنٹریکٹروں کے سپرد کرنا چاہتے ہیں۔ یہ دونوں مل جل کر طالبان کے خلاف خفیہ آپریشن کریں گے۔ یہ حکمت عملی اپنانے کی خاص وجہ ہے۔تقریباً سبھی امریکی عوام افغان جنگ سے بددل ہوچکے۔ان کے ادا کردہ ٹیکسوں کی بہت بڑی رقم اس لاحاصل جنگ پر ضائع ہو چکی۔ اکثریت کی خواہش ہے کہ امریکی فوج افغانوں کو ان کے حال پر چھوڑ کر واپس وطن آجائے۔
امریکی حکومت اربوں ڈالر افغان جنگ پر پھونک چکی۔وہ میدان جنگ میں اپنے سوا دو ہزار امریکی مروا چکی مگر فتح یا نتیجہ دور دور تک دکھائی نہیں دیتا۔اس عالم میں اپنے عوام کو غچہ و دھوکا دینے کی خاطر امریکی حکومت چاہتی ہے کہ افغان جنگ سی آئی اے اور پرائیویٹ ملٹری کنٹریکٹروں کے سپرد کردی جائے۔ ان کے خفیہ آپریشن مخالفین کو مارنا شروع کر دیں گے جبکہ امریکی عوام کو پتا ہی نہیں چلے گا کہ پس پردہ افغان جنگ بدستور جاری ہے۔ویسے بھی جب تک پانی سر سے نہ گزریں،عام امریکیوں کی اکثریت اپنے حال میں مست رہتی ہے اور انھیں کچھ خبر نہیں ہوتی کہ بیرون ممالک میں کیا ہو رہا ہے۔بظاہر امریکی حکومت کی جانب سے اس تاثر کی تردید کردی گئی تھی اور 8ہزار مزید فوجی افغانستان بھیجنے کا اعلان کیا تھا لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ جو کام ایک مکمل فوج نہ کرسکی چند ہزار فوجی کیسے کر پائیں گے اس لیے یہ کہا جارہا ہے کہ امریکی انتظامیہ درپردہ ان خفیہ ہتھکنڈوں کے استعمال کا فیصلہ کرچکی ہے۔
افغانستان میں امریکی جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی سی آئی اے کے ایجنٹ وہاں موجود تھے۔ ان کا تعلق ایجنسی کے اسپیشل ایکٹوٹیز ڈویژن (ایس اے ڈی) سے امریکا کی خفیہ ترین لڑاکا فورس ہے سے تھا۔ عسکری تربیت سے لیس خفیہ ایجنٹ اس ڈویژن کا حصہ ہیں۔ ان کی تعداد ایک سے دوہزار کے درمیان بتائی جاتی ہے۔ یہ خصوصی''فوجی خفیہ ایجنٹ'' پوری دنیا میں اپنی ذمے داریاں انجام دیتے ہیں۔
جب امریکا نے کابل میں کٹھ پتلی حکومت قائم کردی، تو سی آئی اے کیایس اے ڈی سے تعلق رکھنے والے ایجنٹ ہی افغان فوجیوں کو عسکری تربیت دینے لگے۔ البتہ امریکی فوج کے انتہائی تجربہ کار دستے، جوائنٹ سپیشل آپریشنز کمانڈ سے وابستہ فوجی افغانستان میں القاعدہ رہنماؤں کے خلاف آپریشن کرتے، تو اس میں سی آئی اے کے فوجی خفیہ ایجنٹ بھی شامل ہوتے۔
جب صدر اوباما برسر اقتدار آئے، تو 2013ء میں انہوں نے کوشش کی تھی کہ ایس اے ڈی بھی افغان طالبان کے خلاف کارروائیاں کرنے لگے۔ مگر سی آئی اے کے کارپردازان نے انکار کردیا۔ ان کا مؤقف یہ تھا کہ امریکی فوج زیادہ وسائل اور افرادی قوت رکھتی ہے۔ لہٰذا اسے ہی وسیع پیمانے پر طالبان کے خلاف فوجی آپریشن کرنے چاہیں۔
ٹرمپ حکومت میں سابقہ فوجی، مائک پومپیو سی آئی اے کا سربراہ بنا تو امریکی فوج کی ایما پر اس نے پالیسی بدل لی۔ چناں چہ سی آئی اے کے عام وخاص (عسکری طور پر تربیت یافتہ) ایجنٹ طالبان کے خلاف بھی خفیہ آپریشنوں میں شرکت کرنے لگے۔اب ٹرمپ حکومت نے پلان بنایا ہے کہ سی آئی اے کے دس سے پندرہ انتہائی تجربہ کار اور جدید ترین اسلحے سے لیس ایجنٹوں پر مشتمل چھوٹی چھوٹی ٹیمیں پورے افغانستان میں شکاری کتوں کی طرح طالبان کی بو سونگھتی پھریں گی اور ان پر دن رات دھاوا بولیں گی۔ یہ تمام آپریشن خفیہ ہوں گے... یعنی امریکی و عالمی میڈیا کو مطلق خبر نہیں ہوگی کہ آپریشنوں میں کتنے طالبان مارے گئے، ان میں کتنے شہری تھے اور یہ کہ آپریشن کامیاب رہے یا ناکام؟
گویا امریکی افغانستان میں ''قتل عام'' کا منصوبہ بناچکے۔ افغان باشندے عموماً راتوں کو گھروں سے گھسیٹ کر نکالے جائیں گے اور پھر گھر والوں کو ان کا کچھ اتا پتا نہیں چلے گا۔ پچھلے سولہ برس سے افغانستان میں یہ عمل چھوٹے پیمانے پر جاری تھا، اب اس کا ٹارگٹ القاعدہ نہیں طالبان ہے جو اپنے وطن میں چپے چپے پر پھیلے ہوئے ہیں۔ لہٰذا یہ آپریشن بہت وسیع ہوگا اور نتیجتاً اموات بھی زیادہ ہوںگی۔
امریکا میں کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں سی آئی اے کی زیر نگرانی شروع ہونے والا یہ آپریشن ''کاؤنٹر انسرجنسی مہم'' (counter-insurgency campaign) نہیں کہلا سکتا۔ وجہ یہ کہ اس قسم کا آپریشن سیاسی، معاشی، عسکری اور معاشرتی پہلو رکھتا ہے۔ مزید براں مملکت کی حکومت اور عوام کی اکثریت آپریشن کی تائید کرتی ہے۔ افغانستان میں ایسا کچھ نہیں!حقیقت میں صدر ٹرمپ نے اپنے جرنیلوں کے دباؤ میں آکر فیصلہ کیا کہ طالبان کا صفایا کرنے کی مہم سی آئی اے اور پرائیویٹ ملٹری کنٹریکٹروں کے سپرد کردی جائے۔ اس مہم کا صرف ایک مقصد ہے... یہ کہ غیر قانونی اور غیر اخلاقی طور پر چوری چھپے زیادہ سے زیادہ افغان باشندے مار دیئے جائیں۔
ویت نام جنگ کی خونی یادیں تازہ
امریکی حکمرانوں نے ویت نام جنگ کے دوران بھی سی آئی اے کو مخالف ویت نامی قتل کرنے کا ٹھیکہ دے دیا تھا۔ سوشلسٹ ویت نامیوں کے خلاف سی آئی اے نے پھر ''آپریشن فونکس'' (Operation Phoenix)شروع کیا جو سات سال (1965ء تا 1972) جاری رہا۔اس آپریشن کے دوران سی آئی اے اور امریکی فوج کی ٹیمیں مخالف ویت نامیوں کے گاؤں اور قصبوں میں چھاپے مارتیں اور جو شخص مشکوک لگتا، اسے گرفتار کرلیتیں۔ انہیں پھر شدید تشدد کا نشانہ بنایا جاتا۔ خیال ہے کہ سات برسوں میں آپریشن فونکس پر عمل کرتے ہوئے امریکیوں نے 26 سے 41 ہزار کے درمیان ویت نامی قتل کر ڈالے۔
آپریشن فونکس کا سب سے بڑا منفی اثریہ تھا کہ عام ویت نامی امریکا سے متنفر ہوگئے۔ ویت نام میں عوام کی اکثریت امریکی فوجیوں سے نفرت کرنے لگی اور مخالفوں سے جاملی۔ عوامی رائے عامہ تبدیل ہونے سے ہی امریکیوں کو دم دبا کر ویت نام سے بھاگنا پڑا۔امریکی حکمرانوں نے یقینا ویت نام جنگ میں ناکامی سے سبق نہیں سیکھا کیونکہ اب وہ افغانستان میں نیا آپریشن فونکس کرنے جارہے ہیں۔ طالبان یقینا سرکاری تنصیبات اور قابض فوجیوں پر خودکش حملے اور بم دھماکے بڑھا کر اس آپریشن کا جواب دیں گے۔ مگر محاذ جنگ پر آپریشن فونکس کے باعث انہیں سب سے بڑا فائدہ یہ ملے گا کہ عوام ان کے طرف دار بن سکتے ہیں۔
فی الوقت طالبان کو افغانستان میں بڑے پیمانے پر حمایت حاصل نہیں ۔ کئی پشتون علاقوں میں بھی ان کے مخالفین موجود ہیں۔ مگر امریکی حکومت کے آپریشن فونکس کی طرز پر کارروائی سے صورتحال تیزی سے تبدیل ہوسکتی ہے۔وجہ یہ کہ افغانستان میں امریکی فوج، سی آئی اے اور پرائیویٹ ملٹری کنٹریکٹر ، تینوں افغان انٹیلی جنس (نیشنل ڈائرکٹوریٹ آف سکیورٹی) کی فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پر عسکری و خفیہ آپریشن کرتے ہیں۔ اس افغان تنظیم میں تاجک اور ازبک افسروں اور ایجنٹوں کی اکثریت ہے۔ لہٰذا طالبان کے خلاف آپریشن فونکس جیسی مہم شروع ہونے پر انہیں موقع مل جائے گا کہ وہ پشتون باشندوں کا وسیع پیمانے پر قتل عام کرواسکیں۔
افغان انٹیلی جنس کسی بھی پشتون کو طالبان قرار دے کر اسے امریکیوں کے ہاتھوں قتل کراسکتی ہے۔ گویا پشتونوں کی شدید مخالف اس تنظیم کو انہیں قتل کرنے کا لائسنس مل جائے گا۔ لیکن اس صورت حال سے طالبان کو مدد بھی مل سکتی ہے۔وہ اس طرح کہ جس بستی، گاؤں یا دیہہ میں امریکیوں کی خفیہ ٹیمیں کسی افغان کو قتل کریں گی، اس کا پورا خاندان اور قبیلہ کابل حکومت اور امریکا کے خلاف ہوجائے گا۔ یوں طالبان کی صفوں میں غصے سے بھرے اور انتقام کی آگ میں جلتے ہوئے سپاہی شامل ہونے لگیں گے۔
یاد رہے کہ افغان طالبان کی اکثریت اپنے اپنے علاقوں میں امریکی و اتحادی افواج سے نبرد آزما ہے۔ اگر ان کے خلاف خفیہ آپریشن فونکس شروع ہوا، تو لازماً افغان علاقوں میں عوام کی اکثریت طالبان کی حمایت کرنے لگے گی۔ گویا ٹرمپ حکومت کا یہ نیا داؤ دراصل طالبان کا کلّہ مزید مضبوط کرسکتا ہے۔ تب یہ چال الٹا امریکی حکومت کے گلے کا پھندا بن جائے گی۔افغان جنگ سی آئی اے اور پرائیویٹ ملٹری کنٹریکٹروں کے سپرد کرنے سے ٹرمپ حکومت کا مدعا یہ ہے کہ طالبان کو نیست و نابود کردیا جائے۔ یہ خواب شاید ہی عملی شکل میں ڈھل سکے۔ امریکی اپنے اتحادیوں کے ساتھ سولہ برس سے طالبان کا مقابلہ کررہے ہیں۔ اس دوران طالبان کی قوت میں اضافہ ہی ہوا۔اب آپریشن فونکس کی نئی گیدڑ سنگھی اگلے برسوں میں امریکی اسٹیبلشمنٹ کے لیے سنکھیا کا زہر ثابت ہوسکتی ہے۔
افغانستان میں آپریشن فونکس جیسی کارروائی کی شروعات پاکستان کے لیے اچھی خبر نہیں۔وجہ یہ کہ امریکی خفیہ ٹیمیں افغان طالبان کی تلاش میں چوری چھپے پاکستان بھی آ سکتی ہیں۔امریکی وزیر خارجہ تو حال ہی میں ببانگ دہل کہہ چکا کہ پاکستانی حکومت کی مدد شامل نہ ہوئی تب بھی امریکا اپنے طور پہ ''دہشت گردوں''کو مارنا جاری رکھے گا۔مطلب یہ کہ افغان جنگ بدستور پاکستانی حکومت اور قوم کے لیے مصیبت کا باعث اور دردسر بنی رہے گی۔نیز بھارت کو موقع ملے گا کہ وہ اس کی آڑ میں پاکستان دشمن کارروائیاں کر سکے۔