بُک شیلف
جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔
SWABI/NOWSHERA/KOHAT/PESHAWAR/MARDAN/DI KHAN:
کتاب: آس نے دل کا ساتھ نہ چھوڑا
مصنفہ:قانتہ رابعہ،قیمت:180روپے
ناشر:ادبیات، رحمان مارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اردو بازار لاہور
زیرنظرکتاب مصنفہ کے افسانوں کا چوتھا مجموعہ ہے۔'ہم زاد'،'تیرے عشق میں'،'خراج عقیدت'،'ایک نئی سوچ'،'مان لیا دل نے تیرا فیصلہ'،'دل جوئی'،'دن مرادوں والے'،'سجدہ سہو'،'یہ ہیں اس کے فیصلے'،'ایک ہی روپ'،'بات لمحے بھر کی تھی'،'ہوم ورک'،' عید ہے ملنے کا نام'،' دیر لگی آنے میں تم کو'،' آس نے دل کا ساتھ نہ چھوڑا' اس مجموعہ کا حصہ ہیں۔
قانتہ رابعہ کا تعلق ایک ایسے خاندان سے ہے جو اپنے عقائد میں خوب راسخ ہے، جہاں اولاد کی تربیت پر خوب دھیان دیاجاتاہے، رابعہ کی تحریریں خود ہی بولتی ہیں کہ ان کی تربیت کس نہج پر ہوئی۔ وہ بامقصد زندگی گزارنے کی قائل ہیں، ظاہر ہے کہ اسی تناظر میں ادب کو بھی مقصدیت کے تحت ہی تخلیق کرتی ہیں۔اسی لئے وہ کہتی ہیں:'' ادبیت کھنگالنے کی بجائے مقصدیت اور پیغام ڈھونڈیں''۔اقدار کی زبوں حالی نے معاشرے میں جو بگاڑ پیدا کیا، قانتہ نے اپنی کہانیوں کے ذریعہ انھیں سنوارنے کی کوشش کی ہے۔ ایک خیال ہے کہ مقصدیت کہانی سے نہ صرف فطری پن چھین لیتی ہے بلکہ تحریر سپاٹ اور بے رس بھی ہوجاتی ہے اور اس میں تبلیغ کا عنصر غالب آجاتاہے۔ تاہم مصنفہ کے قلم سے نکلے سب افسانے اس خیال کو غلط ثابت کرتے ہیں۔
ان کی کہانیاں اپنے مخصوص دھیمے پن اور سادگی کے ساتھ ساتھ دلچسپی کا عنصر بھی بھرپور اندازمیں قائم رکھتی ہیں۔کہیں تقریر یا تبلیغ محسوس نہیں ہوتی بلکہ کہانیاں خود ہی اذہان و قلوب کو مسخر کرتی چلی جاتی ہیں، آپ کو زندگی کے بہت سے سنگین مسائل کا حل بتاتی چلی جاتی ہیں۔ بس! انھیں پڑھنا شرط ہے۔
٭٭٭
کتاب: ہندوستان کی جدوجہد آزادی میں مسلمانوں کا حصہ
مصنف: سیدعلی خامنہ ای، قیمت:600روپے
ناشر:مکتبہ جمال، تیسری منزل، حسن مارکیٹ، اردوبازار، لاہور
زیرنظرکتاب دراصل ایک فارسی کتاب 'مسلمانان در نہضت آزادی ہندوستان' کا اردو ترجمہ ہے جو ایران کے سپریم لیڈر سیدعلی خامنہ ای کی لکھی ہوئی ہے، انھوں نے یہ کتاب اپنی جوانی کے دورمیں اُس وقت لکھی تھی جب ایران میں انقلاب کا لاوا پک رہاتھا اور مختلف ممالک میں رونما ہونے والے انقلابات اور آزادی کی تحریکیں حکومت مخالف حلقوں کی خصوصی توجہ کا مرکز بنی ہوئی تھیں۔ سیدعلی خانہ ای برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں کی جدوجہد آزادی سے خاصا متاثرتھے۔
انھیں یہ خواہش ہمیشہ بے چین رکھتی تھی کہ جیسے بھی ممکن ہو، اپنے ہم وطنوں کو اس تحریک کی کامیابی کے مضمرات سے آگاہ کریں اور انھیں بتائیں کہ برصغیر کی مسلمان اقلیت نے اپنی قوت ارادی اور مناسب منصوبہ بندی کے بل بوتے پر کس طرح اپنے سے بدرجہا طاقتور ہندوسامراج اور انگریزی استعمار کی سازشوں کو خاک میں ملادیاتھا۔ ان کا مقصودتھا کہ ایرانی قوم اس جدوجہد آزادی کا مطالعہ کرے اور کسی بھی قسم کے خوف و ہراس اور ظلم و تشدد سے مرعوب ہوئے بغیر اپنے سفرِ انقلاب کو جاری رکھ سکے۔ اسی اثنا میں ایک مصری عالم ڈاکٹرعبدالمنعم النمر کی کتاب 'کفاح المسلمین فی تحریر الہند' سیدعلی خامنہ ای کے ہاتھ لگی۔ مصنف نے یہ عربی کتاب ہندوستان میں 26ماہ تک گھوم پھر کر، باخبر لوگوں سے تبادلہ خیال ، کتب خانوں میں مغزماری اور مختلف شہروں اور جدوجہد آزادی کے مراکز کا دورہ کرکے سپردقلم کی تھی۔ جناب خامنہ ای نے اس کتاب کا ترجمہ کیا اور اس میں اپنی یادداشتوں اور معلومات کو بھی شامل کیا۔ یوں زیرتبصرہ کتاب محض ایک عربی کتاب کا ترجمہ ہی نہیں ہے بلکہ اسے ترجمہ و تالیف کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔
کتاب سات ابواب پر مشتمل ہے، انقلاب1857ء کے بعد انگریزوں اور مسلمانوں کے تعلقات، عدم تعاون اور سول نافرمانی گاندھی جی اور مسلمانوں کی نظر میں، سول نافرمانی مسلمانوں کے نقطہ نظر سے، ہندوستان کی جدوجہد آزادی کا سنہری دور، ہندومسلم اختلافات، پاکستان کا پہلا نغمہ، نظریہ تقسیم کانگرس اور مسلم لیگ کے نقطہ نظر سے۔
بلندمرتبت مفکرکا کلام سمجھنے کے لئے کتابیں
شاعر مشرق علامہ اقبال کے مخلص رفیق شیخ عبدالقادر بیرسٹرایٹ لاء نے جریدے 'مخزن ' میں علامہ کی کتاب'بانگ درا' پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا: ' کسے خبرتھی کہ غالبؔ مرحوم کے بعد ہندوستان میں پھر کوئی ایسا شخص پیدا ہوگا جو اردوشاعری کے جسم میں ایک نئی روح پھونک دے گا اور جس کی بدولت غالبؔ کے بے نظیر تخیل اور نرالا انداز بیان پھر وجود میں آئیں گے اور ادبِ اردو کے فروغ کا باعث ہوں گے مگر زبانِ اردو کی خوش اقبالی دیکھئے کہ اس زمانے میں اقبال ساشاعر اسے نصیب ہوا جس کے کلام کا سکہ ہندوستان بھر کی اردوداں دنیا کے دلوں پر بیٹھا ہوا ہے اور جس کی شہرت روم و ایران بلکہ فرنگستان تک پہنچ گئی ہے''۔
''غالبؔ اور اقبالؔ میں بہت سی باتیں مشترک ہیں۔ اگر میں تناسخ کا قائل ہوتا تو ضرور کہتا کہ مرزا اسداللہ خان غالبؔ کو اردو اور فارسی کی شاعری سے جو عشق تھا، اس نے ان کی روح کو عدم میں جاکر بھی چین نہ لینے دیا اور مجبور کیا کہ وہ پھر کسی جسدخاکی میں جلوہ افروز ہوکر شاعری کے چمن کی آبیاری کرے اور اس نے پنجاب کے ایک گوشہ میں جسے سیالکوٹ کہتے ہیں دوبارہ جنم لیا اور محمد اقبال نام پایا۔''
جناب شیخ عبدالقادر کے یہ الفاظ علامہ اقبال کے پہلے اردو مجموعہ کلام'بانگ درا' کے دیباچے سے لئے گئے ہیں۔ 'بانگ درا' اردو ادب میں وہ گراں قدر اور عجوبہ روزگار مجموعہ کلام ہے جسے قیامت تک فراموش نہیں کیاجاسکتا۔جذبات نگاری، حب الوطنی اور قومی ملی درد سے لبریز جو خصوصیات اس مجموعہ کلام کی زینت ہیں وہ کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ مشرق کے اس مفکر اعظم کی نوک قلم سے نکلی ہوئی وہ پکار جس نے وقت کی مردہ روح کو جھجھوڑ کر رکھ دیا۔ اس کتاب میں شاعر کی عظمت خیال کا ایک آئینہ جس میں فلسفہ حیات بھی ہے، رموزکائنات بھی اور عارفانہ نکات بھی۔
علامہ کا دوسرا مجموعہ کلام 'بال جبریل' تھا جس میں وہ فلسفہ خودی کے نشہ میں سرشار و بے خود نظرآتے ہیں۔ سیدسلمان ندوی نے ' بال جبریل' پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھاتھا:'' بال جبریل کی نسبت سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اس میں شاعر نے' بانگ درا' سے بڑھ کر اپنی شاعرانہ صنعت، سلاست، روانی، بے تکلفی اور زبان کی صحت میں حیرت انگیز کامیابی کا ثبوت دیاہے اور عجب نہیں کہ ''بال جبریل'' کو دیکھ کر لکھنؤ اور دہلی کے صنعت گر سخنور بھی پنجاب کے سخن دان کا لوہا مان لیں۔ زبان میں غزل کی سی شیرینی تو نہیں مگر قصائد کی سی جزالت اور متانت پوری طرح موجود ہے۔''بال جبریل'' پر اردوبجا فخر کرتی ہے''۔
زیرنظردوکتابیں 'بانگ درا' اور 'بال جبریل ' کی شرح ہیں۔ شارح پروفیسر حمیداللہ شاہ ہاشمی نے ان کتابوں کی تشریح خاصی لگن اور شوق و جذبہ سے کی ہے۔ تشریح و مطالب کا ایسا انداز اختیار کیاگیاہے کتاب زیادہ ضخیم بھی نہ ہو اور اشعار کا مفہوم بھی بخوبی ذہن نشین ہوجائے۔ کوشش کی گئی ہے کہ زبان سادہ و عام فہم ہو ، کسی بھی قسم کی فلسفیانہ بحثوں کو نہیں چھیڑا گیا۔ آج کے دور میں علامہ اقبال کی فکر اور کلام سے استفادہ کرنا ازحد ضروری ہے۔ یقین واثق ہے کہ نئی نسل بلندمرتبت مفکر کے کلام کا فہم حاصل کرکے بلند مقام حاصل کرے گی۔ 'شرح بانگ درا' اور'شرح بال جبریل' میں سے ہرایک کی قیمت600 روپے ہے۔ یہ کتابیں 'بک کارنر ' جہلم سے منگوائی جاسکتی ہیں۔
کتاب: آس نے دل کا ساتھ نہ چھوڑا
مصنفہ:قانتہ رابعہ،قیمت:180روپے
ناشر:ادبیات، رحمان مارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اردو بازار لاہور
زیرنظرکتاب مصنفہ کے افسانوں کا چوتھا مجموعہ ہے۔'ہم زاد'،'تیرے عشق میں'،'خراج عقیدت'،'ایک نئی سوچ'،'مان لیا دل نے تیرا فیصلہ'،'دل جوئی'،'دن مرادوں والے'،'سجدہ سہو'،'یہ ہیں اس کے فیصلے'،'ایک ہی روپ'،'بات لمحے بھر کی تھی'،'ہوم ورک'،' عید ہے ملنے کا نام'،' دیر لگی آنے میں تم کو'،' آس نے دل کا ساتھ نہ چھوڑا' اس مجموعہ کا حصہ ہیں۔
قانتہ رابعہ کا تعلق ایک ایسے خاندان سے ہے جو اپنے عقائد میں خوب راسخ ہے، جہاں اولاد کی تربیت پر خوب دھیان دیاجاتاہے، رابعہ کی تحریریں خود ہی بولتی ہیں کہ ان کی تربیت کس نہج پر ہوئی۔ وہ بامقصد زندگی گزارنے کی قائل ہیں، ظاہر ہے کہ اسی تناظر میں ادب کو بھی مقصدیت کے تحت ہی تخلیق کرتی ہیں۔اسی لئے وہ کہتی ہیں:'' ادبیت کھنگالنے کی بجائے مقصدیت اور پیغام ڈھونڈیں''۔اقدار کی زبوں حالی نے معاشرے میں جو بگاڑ پیدا کیا، قانتہ نے اپنی کہانیوں کے ذریعہ انھیں سنوارنے کی کوشش کی ہے۔ ایک خیال ہے کہ مقصدیت کہانی سے نہ صرف فطری پن چھین لیتی ہے بلکہ تحریر سپاٹ اور بے رس بھی ہوجاتی ہے اور اس میں تبلیغ کا عنصر غالب آجاتاہے۔ تاہم مصنفہ کے قلم سے نکلے سب افسانے اس خیال کو غلط ثابت کرتے ہیں۔
ان کی کہانیاں اپنے مخصوص دھیمے پن اور سادگی کے ساتھ ساتھ دلچسپی کا عنصر بھی بھرپور اندازمیں قائم رکھتی ہیں۔کہیں تقریر یا تبلیغ محسوس نہیں ہوتی بلکہ کہانیاں خود ہی اذہان و قلوب کو مسخر کرتی چلی جاتی ہیں، آپ کو زندگی کے بہت سے سنگین مسائل کا حل بتاتی چلی جاتی ہیں۔ بس! انھیں پڑھنا شرط ہے۔
٭٭٭
کتاب: ہندوستان کی جدوجہد آزادی میں مسلمانوں کا حصہ
مصنف: سیدعلی خامنہ ای، قیمت:600روپے
ناشر:مکتبہ جمال، تیسری منزل، حسن مارکیٹ، اردوبازار، لاہور
زیرنظرکتاب دراصل ایک فارسی کتاب 'مسلمانان در نہضت آزادی ہندوستان' کا اردو ترجمہ ہے جو ایران کے سپریم لیڈر سیدعلی خامنہ ای کی لکھی ہوئی ہے، انھوں نے یہ کتاب اپنی جوانی کے دورمیں اُس وقت لکھی تھی جب ایران میں انقلاب کا لاوا پک رہاتھا اور مختلف ممالک میں رونما ہونے والے انقلابات اور آزادی کی تحریکیں حکومت مخالف حلقوں کی خصوصی توجہ کا مرکز بنی ہوئی تھیں۔ سیدعلی خانہ ای برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں کی جدوجہد آزادی سے خاصا متاثرتھے۔
انھیں یہ خواہش ہمیشہ بے چین رکھتی تھی کہ جیسے بھی ممکن ہو، اپنے ہم وطنوں کو اس تحریک کی کامیابی کے مضمرات سے آگاہ کریں اور انھیں بتائیں کہ برصغیر کی مسلمان اقلیت نے اپنی قوت ارادی اور مناسب منصوبہ بندی کے بل بوتے پر کس طرح اپنے سے بدرجہا طاقتور ہندوسامراج اور انگریزی استعمار کی سازشوں کو خاک میں ملادیاتھا۔ ان کا مقصودتھا کہ ایرانی قوم اس جدوجہد آزادی کا مطالعہ کرے اور کسی بھی قسم کے خوف و ہراس اور ظلم و تشدد سے مرعوب ہوئے بغیر اپنے سفرِ انقلاب کو جاری رکھ سکے۔ اسی اثنا میں ایک مصری عالم ڈاکٹرعبدالمنعم النمر کی کتاب 'کفاح المسلمین فی تحریر الہند' سیدعلی خامنہ ای کے ہاتھ لگی۔ مصنف نے یہ عربی کتاب ہندوستان میں 26ماہ تک گھوم پھر کر، باخبر لوگوں سے تبادلہ خیال ، کتب خانوں میں مغزماری اور مختلف شہروں اور جدوجہد آزادی کے مراکز کا دورہ کرکے سپردقلم کی تھی۔ جناب خامنہ ای نے اس کتاب کا ترجمہ کیا اور اس میں اپنی یادداشتوں اور معلومات کو بھی شامل کیا۔ یوں زیرتبصرہ کتاب محض ایک عربی کتاب کا ترجمہ ہی نہیں ہے بلکہ اسے ترجمہ و تالیف کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔
کتاب سات ابواب پر مشتمل ہے، انقلاب1857ء کے بعد انگریزوں اور مسلمانوں کے تعلقات، عدم تعاون اور سول نافرمانی گاندھی جی اور مسلمانوں کی نظر میں، سول نافرمانی مسلمانوں کے نقطہ نظر سے، ہندوستان کی جدوجہد آزادی کا سنہری دور، ہندومسلم اختلافات، پاکستان کا پہلا نغمہ، نظریہ تقسیم کانگرس اور مسلم لیگ کے نقطہ نظر سے۔
بلندمرتبت مفکرکا کلام سمجھنے کے لئے کتابیں
شاعر مشرق علامہ اقبال کے مخلص رفیق شیخ عبدالقادر بیرسٹرایٹ لاء نے جریدے 'مخزن ' میں علامہ کی کتاب'بانگ درا' پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا: ' کسے خبرتھی کہ غالبؔ مرحوم کے بعد ہندوستان میں پھر کوئی ایسا شخص پیدا ہوگا جو اردوشاعری کے جسم میں ایک نئی روح پھونک دے گا اور جس کی بدولت غالبؔ کے بے نظیر تخیل اور نرالا انداز بیان پھر وجود میں آئیں گے اور ادبِ اردو کے فروغ کا باعث ہوں گے مگر زبانِ اردو کی خوش اقبالی دیکھئے کہ اس زمانے میں اقبال ساشاعر اسے نصیب ہوا جس کے کلام کا سکہ ہندوستان بھر کی اردوداں دنیا کے دلوں پر بیٹھا ہوا ہے اور جس کی شہرت روم و ایران بلکہ فرنگستان تک پہنچ گئی ہے''۔
''غالبؔ اور اقبالؔ میں بہت سی باتیں مشترک ہیں۔ اگر میں تناسخ کا قائل ہوتا تو ضرور کہتا کہ مرزا اسداللہ خان غالبؔ کو اردو اور فارسی کی شاعری سے جو عشق تھا، اس نے ان کی روح کو عدم میں جاکر بھی چین نہ لینے دیا اور مجبور کیا کہ وہ پھر کسی جسدخاکی میں جلوہ افروز ہوکر شاعری کے چمن کی آبیاری کرے اور اس نے پنجاب کے ایک گوشہ میں جسے سیالکوٹ کہتے ہیں دوبارہ جنم لیا اور محمد اقبال نام پایا۔''
جناب شیخ عبدالقادر کے یہ الفاظ علامہ اقبال کے پہلے اردو مجموعہ کلام'بانگ درا' کے دیباچے سے لئے گئے ہیں۔ 'بانگ درا' اردو ادب میں وہ گراں قدر اور عجوبہ روزگار مجموعہ کلام ہے جسے قیامت تک فراموش نہیں کیاجاسکتا۔جذبات نگاری، حب الوطنی اور قومی ملی درد سے لبریز جو خصوصیات اس مجموعہ کلام کی زینت ہیں وہ کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ مشرق کے اس مفکر اعظم کی نوک قلم سے نکلی ہوئی وہ پکار جس نے وقت کی مردہ روح کو جھجھوڑ کر رکھ دیا۔ اس کتاب میں شاعر کی عظمت خیال کا ایک آئینہ جس میں فلسفہ حیات بھی ہے، رموزکائنات بھی اور عارفانہ نکات بھی۔
علامہ کا دوسرا مجموعہ کلام 'بال جبریل' تھا جس میں وہ فلسفہ خودی کے نشہ میں سرشار و بے خود نظرآتے ہیں۔ سیدسلمان ندوی نے ' بال جبریل' پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھاتھا:'' بال جبریل کی نسبت سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اس میں شاعر نے' بانگ درا' سے بڑھ کر اپنی شاعرانہ صنعت، سلاست، روانی، بے تکلفی اور زبان کی صحت میں حیرت انگیز کامیابی کا ثبوت دیاہے اور عجب نہیں کہ ''بال جبریل'' کو دیکھ کر لکھنؤ اور دہلی کے صنعت گر سخنور بھی پنجاب کے سخن دان کا لوہا مان لیں۔ زبان میں غزل کی سی شیرینی تو نہیں مگر قصائد کی سی جزالت اور متانت پوری طرح موجود ہے۔''بال جبریل'' پر اردوبجا فخر کرتی ہے''۔
زیرنظردوکتابیں 'بانگ درا' اور 'بال جبریل ' کی شرح ہیں۔ شارح پروفیسر حمیداللہ شاہ ہاشمی نے ان کتابوں کی تشریح خاصی لگن اور شوق و جذبہ سے کی ہے۔ تشریح و مطالب کا ایسا انداز اختیار کیاگیاہے کتاب زیادہ ضخیم بھی نہ ہو اور اشعار کا مفہوم بھی بخوبی ذہن نشین ہوجائے۔ کوشش کی گئی ہے کہ زبان سادہ و عام فہم ہو ، کسی بھی قسم کی فلسفیانہ بحثوں کو نہیں چھیڑا گیا۔ آج کے دور میں علامہ اقبال کی فکر اور کلام سے استفادہ کرنا ازحد ضروری ہے۔ یقین واثق ہے کہ نئی نسل بلندمرتبت مفکر کے کلام کا فہم حاصل کرکے بلند مقام حاصل کرے گی۔ 'شرح بانگ درا' اور'شرح بال جبریل' میں سے ہرایک کی قیمت600 روپے ہے۔ یہ کتابیں 'بک کارنر ' جہلم سے منگوائی جاسکتی ہیں۔