ایک زندہ آدمی کی زندہ کہانی

ہیوگو چاویز کی زندگی اور سیاسی سفر

ہیوگو چاویز کی زندگی اور سیاسی سفر۔ فوٹو: فائل

ہیوگو چاویز کون تھا، وہ کیسے اقتدار میں آیا اور عالمی طاقتیں بالخصوص امریکا کے ساتھ اس کے تعلقات کیوں کشیدہ تھے، آئیے! اس کی زندگی پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

ابتدائی زندگی

چاویز 2 جولائی 1954 کو وینز ویلا کی ریاست، باریناس میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد، ہیوگوڈی لاس چاویز محکمہ تعلیم میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز تھے اور بعد میں ریاست باریناس کے گورنر بھی بنے۔17برس کی عمر میں اس نے فوج میں شمولیت اختیار کی۔ 4 سال بعد اس نے اکیڈمی آف ملٹری سائنس سے گریجویشن کیا اور کمیشن آفیسر منتخب ہوا۔

حصولِِ تعلیم کے بعد اسے ''کاؤنٹر انسرجنسی یونٹ'' میں تعینات کیا گیا، جو اس کے طویل اور قابل ذکر فوجی کیریئر کی ابتدا تھی۔ اس کے علاوہ اس نے چھاتا بردار یونٹ کی بھی سربراہی کی۔ اس نے بہت جلد ترقی کی منازل طے کیں اور لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے تک جا پہنچا۔ اس نے کچھ عرصہ اپنے پرانے اسکول، وینزویلین اکیڈمی آف ملٹر ی سائنس میں بطور انسٹرکٹر بھی خدمات انجام دیں۔

سیاسی سفر

چاویز وینزویلا کے اُن لوگوں میں سے ایک تھا جو ملک کے کرپٹ سیاست دانوں بالخصوص صدر کارلوس پیریز کی کرپشن سے بے زار تھے۔ اس نے فوج میں خفیہ گروہ بنانا شروع کر دیا، جس کا نام ''بولیویارین ریوولیوشنری موومنٹ 200'' تھا۔ ہیوگو چاویز سائمن بولیور کا مداح تھا، جس نے ہسپانوی امریکیوں کی اسپین سے آزادی میں اہم کر دار ادا کیا تھا اور آج بھی امریکا کی تاریخ کے موثر سیاست دانوں میں اُس کا شمار ہو تا ہے۔ اس نے اپنے کچھ ساتھی افسران کے ساتھ مل کر صدر پیریز کا تختہ اُلٹنے کا فیصلہ کیا۔ 4 فروری 1992ء کی صبح چاویز نے اپنے پانچ وفادار دستوں کو ساتھ لیا۔

منصوبے کے تحت انہیں دارلحکومت ''کاراکاز'' کی اہم سرکاری عمارات، صدارتی محل، ایئرپورٹ، وزارت دفاع اور فوجی میوزیم پر قبضہ کرنا تھا۔ اس سے ہم دردی رکھنے والے دیگر افراد نے ملک کے دیگر حصوں کا کنٹرول سنبھال لیا، لیکن چاویز اور اس کے ساتھی دارالحکومت پر قبضہ کرنے میں ناکام ہو گئے۔ بغاوت کچل دی گئی۔ چاویز کو جیل بھیج دیا گیا۔ اسی سال صدر پیریز کے خلاف بڑے پیمانے پر کرپشن کے اسکینڈل نے چاویز کے اقدام کو درست ثابت کردیا۔ دو سال بعد 1994ء میں صدر رافیل کالڈیرا کی جانب سے اسے معافی دے دی گئی اور یہیں سے اس نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا۔ اس نے اپنے فوجی گروہ کو سیاسی جماعت میں تبدیل کیا اور 1998ء میں صدارتی انتخابات میں حصہ لیا۔ چاویز نے 56 فی صد ووٹ لے کر کام یابی حاصل کی اور فروری 1999ء میں اپنے عہدے کا حلف اُٹھایا۔

سماجی اصلاحات

صدر منتخب ہونے کے بعد اس نے اپنے سماجی اصلاحات کے ایجنڈے، ''بولیویارین ازم'' پر عمل درآمد شروع کر دیا، جو سوشلزم کی ہی ایک قسم ہے۔ غریبوں کے لیے اسپتال قائم کیے گئے۔ تعلیم، صحت اور انفراسٹرکچر پر خصوصی توجہ دی گئی۔ تعمیراتی منصوبے شروع ہوئے، سماجی پروگرامز میں اضافہ ہوا۔ اس نے وینزویلا کے تیل کے ذخائر کا زیادہ تر منافع غریب عوام پر خرچ کیا۔ ہیوگو چاویز لاطینی امریکا میں بائیں بازو کی تحریکوں کے لیے ایک لیڈر کے طور پر اُبھرا اور اس نے بولیویا کے ایوومورالیس، ایکواڈور کے رافیل کورائی، کیوبا کے فیڈل کاسترو اور پیراگوئے کے فرنانڈو لوگو جیسے راہ نماؤں کے ساتھ تعلقات قائم کیے۔


سازشیں

ہیوگو چاویز جہاں غریبوں کا ہیرو تھا وہیں متوسط اور اعلیٰ طبقات اپنی زمینوں اور صنعتوں کو قومیائے جانے پر چاویز سے سخت نالاں تھے، اور انہوں نے ہر اُس کوشش میں بھر پور معاونت کی جو چاویز کو برطرف کرنے کے لیے کی گئی۔ 11 اپریل 2002ء کو ہیوگو چاویز کے خلاف مظاہرے شروع ہوگئے۔ یہ مظاہرے قومی آئل کمپنی کی انتظامیہ کے حق میں تھے، جسے چاویز نے برطرف کردیا تھا۔ مظاہروں نے اس قدر شدت اختیارکی کہ چاویز کو اقتدار چھوڑنا پڑا۔ امریکا اس کوشش میں تھا کہ فوری طور متبادل حکومت قائم اور اُسے تسلیم کیا جائے، لیکن جوں ہی چاویز نے اقتدار چھوڑا ، ملک کا غریب طبقہ سڑکوں پر اُمڈ آیا اور اتنی شدید تحریک چلی کہ 47 گھنٹوں بعد چاویز دوبارہ کرسی صدارت پر براجمان تھا۔ چاویز نے اپنا مینڈیٹ اپنے سوشل ایجنڈے کو وسعت دینے کے لیے استعمال کیا اور غریب طبقے کی خوش حالی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

چاویز اور امریکا

فیڈل کاسترو کی طرح چاویز کو بھی امریکا کی فرعونیت چیلینج کرنے کے باعث شہر ت حاصل ہوئی۔ وہ اکثر قومی و بین الاقوامی فورمز پر امریکی سام راج کے خلاف شعلے اگلتا دکھائی دیتا۔ 2002ء اقتدار سے رخصتی کے بعد جب ہیوگو چاویز دوبارہ برسراقتدار آیا تو امریکا کے بارے میں اس کی پالیسیوں اور رویے میں مزید شدت آگئی۔ اس نے ایران اور کیوبا سمیت اُن ممالک کے ساتھ روابط استوار کرنا شروع کردیے جن کے تعلقات امریکا سے کشیدہ تھے۔

چاویز کی علالت

ہیوگو چاویز7 اکتوبر 2012ء کو چوتھی مرتبہ، آئندہ 6 برسوں کے لیے، ملک کا صدر منتخب ہوا تھا۔ اسے رواں سال 10 جنوری کو اپنے عہدے کا حلف اُٹھانا تھا، لیکن اس کی صحت کے حوالے سے غیر یقینی صورت حال نے ایک بہت بڑے سیاسی بحران کو جنم دے دیا تھا۔ ایک غیرملکی ٹی وی کی اس خبر کے بعد کہ ''چاویز اب اس دنیا میں نہیں رہے''، نے ماحول اس قدر کشیدہ کر دیا کہ وزراء نے اس ٹی وی چینل کو غیرملکیوں کا آلہ کار قرار دے دیا۔ اپوزیشن کا مسلسل اصرار تھا کہ اگر چاویز زندہ ہیں تو اُنہیں سامنے لایا جائے، لیکن حکومت چاویز کی موت کی تردید کر تی رہی۔ سوشل میڈیا پر بھی چاویز کی زندگی اور موت کے حوالے سے خبروں کی بھرمار تھی۔

آئین کے تحت 10 جنوری کو صدر کا حلف اُٹھانا ضروری تھا اور اگر وہ ایسا نہیں کر پاتا تو آئین کی رو سے 30 دن کے اندر دوبارہ انتخاب کروانا لازمی تھا، لیکن بعد ازاں سپریم کورٹ نے اپوزیشن کا موقف مسترد کرتے ہوئے چاویز انتظامیہ کو اُس وقت تک حکومت جاری رکھنے کا حکم دیا جب تک چاویز صحت یاب نہیں ہوجاتے۔ کیوبا روانگی سے قبل چاویز نے پہلی مرتبہ اپنے جانشین کی بات کی اور کہا کہ اگر وہ دوبارہ اقتدار نہ سنبھال پائے تو عوام نائب صدر ''نکولس مدورو'' کو ووٹ دیں۔ اس وقت نائب صدر نکولس مدورو ہی ملک کا انتظام سنبھال رہے ہیں۔

58 سالہ چاویز کا 11 دسمبر کو کیوبا میں کینسر کا چوتھا آپریشن ہوا، جس کے بعد سے اسے سانس کی تکلیف کا سامنا رہا۔ کیوبا روانگی سے قبل اس نے اعتراف کیا تھا کہ ان کی بیماری خاصی سنگین ہو چکی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ چاویز ایک ہر دل عزیز شخصیت تھے اور جب کبھی اُس کے اقتدارکو خطرہ لاحق ہوا وینزویلا کے عوام نے کھل کر اُس کا ساتھ دیا۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کیا نائب صدر نکولس مدورو چاویز کی جگہ لے پائیں گے؟ کیا اُن کی شخصیت وینزویلا کے عوام کے لیے قابل قبول ہو گی؟ کیا چاویز کے بعد پارٹی میں اقتدار کی جنگ تو نہیں چھڑ جائے گی؟ اور ملک میں رائج نظام ''بولیوارین ازم'' کا مستقبل کیا ہوگا؟

یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب تو آنے والا وقت ہی دے گا لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ چاویز کی موت سے ملک میں جو''مرکزیت'' کا خلا پیدا ہوا ہے اسے پر کرنا انتہائی مشکل ہوگا اور چاویز کے مخالفین اس موقعے کو قطعی طور پر ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے۔ دیکھنا یہ ہے کہ حکومت کس طرح اس چینلج کا مقابلہ کر تی ہے اور کیا چاویز کے حامی اس حکومت کا بھی اتنا ہی ساتھ دیں گے جتنا اُنہوں نے چاویز کا دیا تھا۔ یہ دیکھنے کے لیے پوری دنیا بے تاب ہے۔
Load Next Story