تبدیلی تبھی آئے گی جب اچھے لوگ منتخب ہوں گے
مذاکرات کے لیے مولانا فضل الرحمن کے قطر جانے کاتاثر درست نہیں
ملک میں اس وقت عام انتخابات کا غلغلہ ہے۔ مختلف جماعتیں الیکشن کے لیے متحرک اور فعال دکھائی دیتی ہیں۔
مذہبی سیاسی جماعتوں میں جمعیت علماء اسلام اس وقت سب سے زیادہ متحرک اور قومی سیاسی دھارے میں ایک اہم جماعت کی حیثیت رکھتی ہے ۔ گزشتہ دنوں تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش میں جن معروف سیاستدانوں کا نام بطور ضامن دیا گیا تھا ان میں ایک نام جمعیت علماء اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمان کا نام بھی شامل تھا ۔اسی طرح قطر میں افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے بھی خبریں عوام تک پہنچیں۔ جس کے بعد جے یو آئی نے اسلام آباد میں آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا۔
ان تمام ایشوز کے بارے میں جمعیت علماء اسلام کے موقف سے آگاہی کے لیے جماعت کے سیکرٹری جنرل سینیٹر عبدالغفور حیدری لاہور آئے تو'' ایکسپریس فورم ''کے لیے ان کے ساتھ ایک نشست کااہتمام کیاگیا جس میں ملک کی سیاسی صورت حال کے ضمن میں تفصیلی گفتگو ہوئی ۔اس نشست میں جے یو آئی کے سیکرٹری اطلاعات مولانا محمدامجد خان اور عبدالغفور حیدری کے صاحبزادے سیف الرحمٰن بھی موجود تھے۔ ایکسپریس فورم میں سینیٹر عبدالغفور حیدری سے ہونے والی گفتگو قارئین کے لیے پیش کی جارہی ہے۔
مولانا عبدالغفور حیدری (سیکرٹری جنرل جمعیت علماء اسلام پاکستان)
ملکی حالات پچھلے پانچ سال پاکستان کے لئے بڑے پرآشوب گزرے ہیں ۔ افسردگی، پریشانی اورعدم تحفظ کا شکار پاکستانی قوم نے ہر طرف خون کی ندیاں بہتی دیکھی ہیں، حکومت وقت مسائل کے حل میں ناکام رہی ہے بلکہ الٹا حکومت پر الزام بھی لگتا رہا کہ بعض معاملات وہ خود بھی ملوث ہے ۔ مخلوط حکومت کے دوران کراچی میں جتنے بھی چوری ڈکیتی، اغواء برائے تاوان، لوٹ مار کے واقعات ہوئے ہیں ان کے بارے میں رپورٹس دیکھیں توان میں کسی نہ کسی سیاسی جماعت کے لوگ ملوث رہے ، یہ صورتحال انتہائی شرمناک ہے۔
بعض قوتیں چاہتی ہیں کہ جمہوریت اور سیاسی جماعتیں بدنام ہوں تاکہ وہ لوگ عوام کو باور کراسکیں کہ مشرف کا دور بہتر تھا اوریہ حقیقت ہے کہ پیپلزپارٹی کی حکومت نے واقعی عوام کو مشرف کا دور یاد کرادیا ہے۔ اس وقت ملک میں کچھ نوزائیدہ جماعتیں ہیں جو اسلامی فلاحی ریاست کا نام لیتی ہیں اور لوگ ان کے پیچھے بھاگ پڑتے ہیں کیونکہ لوگ اتنے پریشان ہیں کہ روشنی کی چھوٹی سی کرن کے پیچھے بھاگ پڑتے ہیں۔ آخر کار حکومت کے 5سال پورے ہورہے ہیں اور آئندہ الیکشن میں لوگ اچھے لوگوں کو منتخب کرنے کی کوشش کریں۔ اچھے لوگ منتخب ہوکر آئیں تاکہ تبدیلی آسکے ۔
ہم اس کیلئے اپنی پارٹی کو پیش کرتے ہیں ہم پچھلے 25سال سے عوام کی خدمت کررہے ہیں' ہم عوام کیلئے کوئی نئے نہیں ہیں۔ میں خود بلوچستان میں سینئر وزیر رہا ہوں، خیبر پختونخواہ میں ہماری حکومت نے 25 سال اسی پارلیمانی نظام میں رہ کر کام کیا ۔لیکن ہم پر لوٹ مار کا کوئی الزام آج تک نہیں لگا، 7 ہزار سے زائد لوگوں نے این آر او سے فوائد حاصل کئے ان میں جمعیت علماء اسلام کا ایک بھی فرد موجود نہیں ہے' اس کے بعد اصغر خان کیس کی طرف جائیں جو کہ 1990ء میں اداروں کی طرف سے پیسے لینے کے بارے میں ہے اس میں بھی اداروں نے اپنی مرضی کی جن جماعتوں کو پیسے دیئے ان کی فہرست بھی آئی ہے اس میں بھی جمعیت علماء اسلام کا نام نہیں ہے۔
جن لوگوں نے قرضے معاف کرائے ان کی لسٹ بھی منظر عام پر آگئی ہے' اس کے تحت اربوں کے قرضے معاف کرائے گئے ہیں' اس میں بھی جمعت علماء اسلام کا ذکر نہیں ہے۔ اسلئے جمعیت علماء اسلام قوم کی قیادت کیلئے خود کو پیش کرتی ہے' اگر عوام ایماندار قیادت چاہتے ہیںتو وہ جمعیت کو منتخب کریں۔ اس وقت کچھ جماعتیں جو کبھی حکومت میں آئی ہی نہیں ہیں وہ بھی دعویٰ کرتی ہیں کہ انہوں نے کرپشن نہیں کی مگر ہم اسی نظام میں موجود رہ کے اس سے دامن بچا کر نکلے ہیں۔ پاکستان کے مسائل کا حل صرف مخلص قیادت کرسکتی ہے۔
آئندہ انتخابات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ یہ انتخابات ملتوی کرانے کی کوششیں کی جارہی ہیں، کوئٹہ، بلوچستان، گلگت کے حالات' اس کے بعد دھرنے اور دھرنے کے جواب میں دھرنے' یہ سب انتخابات مؤخر کرنے کی کوشش ہی ہے۔ پچھلے 5 سال تو غم اور دکھ کے گزرگئے مگر آگے اچھی قیادت آئے تو مستقبل میں جمہوری ادارے مضبوط ہوسکتے ہیں۔ ہم نے جمہویت کو قائم بھی رکھنا ہے اور اس کو مضبوط بھی کرنا ہے۔ ایک ماہ پہلے نواز شریف کی قیادت میں آل پارٹیز کانفرنس ہوئی تو تمام جماعتوں نے اعادہ کیا کہ انتخابات ملتوی نہیں ہونے چاہئیں کیونکہ انتخابات ہی بہترین احتساب ہیں۔ جن جماعتوں نے اچھے کام کئے لوگ ان کا انتخاب کریں گے۔
جمعیت علماء اسلام نے کچھ عرصے سے کوشش شروع کی ہوئی ہے کہ قبائلی علاقوں میں حالات بہتر کئے جائیں' اس سلسلے میں پہلے گرینڈ جرگہ منعقد کیا گیا جس میں فاٹا اور قبائلی ایجنسیوں کے 60 سے زائد لوگ شریک تھے اور کل 4ہزار کے لگ بھگ لوگوں نے اس میں شرکت کی۔ اس میں تمام مسالک اور اقلیتوں کی بھی نمائندگی تھی جس میں انہوں نے اپنے اپنے مطالبات پیش کئے' اس کے بعد 28 فروری کو ہم نے آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی جس میں تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے شرکت کی۔ اب اس گرینڈ جرگے کی حکومت سے ملاقات کرائیں گے تاکہ ان کے مطالبات پر عملدرآمد ہوسکے۔ بدامنی کی وجہ سے قبائلی علاقوں میں کاروبار تباہ ہوچکا ہے۔
جمعیت علماء اسلام نے اس سے پہلے بھی امن کی ایک کوشش کی تھی، اب سب سے پہلے طالبان کی طرف سے ایک پیشکش ہوئی کہ اگر مولانا فضل الرحمن ، منور حسن اور نوازشریف ذمہ دار بن جائیں تو مذاکرات کیلئے تیار ہیں۔اگرچہ یہ ایک خبر ہے مگر ہم جرگے کے ذریعے یہ بھی جاننے کی کوشش کریں گے کہ اس میں کس حد تک صداقت ہے۔انہوں نے کہا کہ نگران وزیراعظم کی تعیناتی اگرچہ اپوزیشن اور حکومت نے مشاورت سے کرنی ہے مگر نواز شریف سے ملاقات میں یہ بات زیرغور آئی ہے اور ہم نے بھی ایک آدھ نام پیش کیا ہے مگر آئین کی رو سے فیصلہ اپوزیشن اور حکومت نے کرنا ہے۔
الیکشن کی قائمہ کمیٹی نے مشترکہ طور پر مل کر چیف الیکشن کمشنر اور ادارے کا تعین کیا ہے' ہر ادارے کا ایک دائرہ کار ہوتا ہے اداروں کو اسی میں رہ کر کام کرنا چاہئے اگر کوئی ادارہ اپنے لئے طے شدہ حدود سے نکلنے کی کوشش کرے تو مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے جعلی ڈگری والے ارکان کے خلاف کارروائی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس وقت اگر گڑھے مردے اکھاڑے جائیں گے مسائل پیدا ہوں گے۔کسی جعلی ڈگری والے کو آؤٹ کرنا ہے تو جنہوں نے پیسے لئے جنہوں نے قرضے معاف کرائے ان کو بھی آؤٹ کریں یہاں کوئی بھی صحیح نہیں۔ اگر دفعہ 62 اور 63 کو بنیاد بناکر دیکھیں تو جو بھی لوگ الیکشن لڑنا چاہتے ہیں وہ اس پر پورے نہیں اترتے۔
الیکشن لڑنے والوں کو دیکھنے کی بجائے یہ دیکھیں کہ الیکشن شفاف ہونے چاہئیں۔جمعیت علماء اسلام نے ہمیشہ کتاب کے نشان پر الیکشن لڑا مگر اس دفعہ الیکشن کمیشن نے بند کتاب کو کھول دیا' اس سے بدا عتمادی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے ، ایسا نہیں ہونا چاہئے ، ہم کتاب کو بند رکھنے کی پوری کوشش کریں گے۔ جہاں تک ایم ایم اے کے مستقبل کا تعلق ہے 'مجھے ایم ایم اے کی بحالی نظر نہیں آرہی۔ جماعت اسلامی اور نواز شریف سے انتخابی اتحاد اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کیلئے دو بار ملاقات ہوچکی ہے اوریہی طے پایا کہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوگی۔ اب دونوں جماعتوں کے نمائندے مل بیٹھ کر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کریں گے۔
اس وقت الیکشن قریب ہیں جہاں سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوسکی وہاں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کریں گے کسی ضلع میں ن لیگ اور کہیں جماعت اسلامی ہے تو جہاں جو پارٹی مضبوط ہے وہاں اس کے ساتھ چلیں گے۔اگر صوبہ کی سطح پر کوئی پارٹی ہے تو اس کے ساتھ صوبائی سطح پر اتحاد کریں گے۔کسی جگہ ایک پارٹی نہیں اور دوسری ہے تو وہاں اس کے ساتھ اتحاد کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں حکومت نے جب گورنر راج کا فیصلہ کیا تو اس وقت صوبائی حکومت میں شامل تمام سٹیک ہولڈرز نے فیصلہ کیا تھا وہ مل کر فیصلہ کریں گے اور جس طرح ہزارہ کمیونٹی کے لوگ مطمئن ہوں' اگر وہ وزراء کے استعفوں سے مطمئن ہوں تو وہ بھی دینے کو تیار تھے۔
ہم نے حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ اگر وزراء استعفے دے دیں تو ان ہاؤس تبدیلی لائی جائے مگر وفاقی حکومت نے غیر جمہوری راستہ اختیار کیا' جب تمام وزراء استعفے دینے کو تیار تھے تو گورنر راج نہیں لگانا چاہئے تھا۔ اب اگر 14مارچ کو حکومت بحال بھی ہوگئی تو ہم اپوزیشن میں بیٹھیں گے' حکومت بحال کرنے کا کوئی فائدہ نہیںہوگا صرف یہ ہوگا کہ نگران حکومت بن جائے گی۔ بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ریلوے دیوالیہ ہوگیا اور تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے' اس حوالے سے ہم تجاویز دیتے رہتے ہیں مگر حکومت ان پر عملدرآمد نہیں کرتی۔ اس کے علاوہ دیگر ادارے بھی تباہ ہوگئے ہیں ،ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ جو سمت حکومت کیلئے متعین کردیتی ہے حکومت اسی پر چلتی ہے۔
65 سال سے بھارت اور پاکستان کے مسائل جاری ہیںاور دونوں ممالک اپنے وسائل خرچ کررہے ہیں اور خرچ کرتے رہتے ہیں یہ وسائل ان اداروں کی بحالی کیلئے خرچ کئے جائیں۔ ہمارا اس حوالے سے مؤقف یہ ہے کہ باہمی مذاکرات کے ذریعے معاملات حل کرنے چاہئیں۔ تنازع کشمیر دونوں ممالک کے مابین ایک دیرینہ مسئلہ ہے۔تنازع کشمیر کے حل کیلئے مختلف مؤقف ہیں۔ کچھ لوگ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں اور کچھ لوگ آزاد رہنا چاہتے ہیں اس مسئلے کو وہاں کے عوام کی امنگوں کے مطابق حل ہونا چاہئے۔ اس مسئلے کا حل بہت ضروری ہے جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا دونوں ملکوں میں امن نہیں ہوسکتا۔
آل پارٹیز کانفرنس میں مختلف جماعتوں کی شرکت کے حوالے سے کئے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کانفرنس میں سیاسی اور مذہبی دونوں جماعتوں کوشرکت کی دعوت دی گئی اس میں مسلکی حوالے سے دعوت نہیں دی گئی 'مذہبی جماعتوں میں تمام مسالک کی نمائندہ جماعتوں کو دعوت دی گئی۔ ہر مسلک کی تمام جماعتوں کو دعوت نہیں دی جاسکی کیونکہ اس وقت ہر مسلک کی 10 سے 12 جماعتیں ہیںاور ان سب کو بلانا ممکن نہیں تھا اس لئے نمائندگی کے طور پر جو جماعتیں ایم ایم اے میں موجود تھیں ان کو آل پارٹیز کانفرنس میں بلایا گیا۔
قطر میں امریکہ طالبان کے مذاکرات کے وقت مولانا فضل الرحمن کی قطر میں موجودگی کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن قطر طالبان سے مذاکرات میں شرکت کیلئے نہیں گئے تھے بلکہ قطر میں جمعیت علماء اسلام کی ایک شاخ موجود ہے جو اکثر مولانا کو دعوت دیتی رہتی ہے' مولانا اسی کی دعوت پر قطر گئے۔ یہ محض اتقاق ہے کہ اسی وقت طالبان کے امریکہ کے ساتھ مذاکرات ہورہے تھے اس موقع پر حافظ حسین احمد نے ایک اخباری خبر کی بنیاد پر جماعت سے تصدیق کئے بغیر طالبان کے ساتھ مذاکرات میں شرکت کا بیان دے دیا جس سے غلط فہمی پیدا ہوئی۔تاہم جب حافظ حسین احمد صاحب سے بات ہوئی تو بات واضح ہوگئی اور جو غلط فہمی پیدا ہوئی تھی وہ دور کردی گئی۔
مذہبی سیاسی جماعتوں میں جمعیت علماء اسلام اس وقت سب سے زیادہ متحرک اور قومی سیاسی دھارے میں ایک اہم جماعت کی حیثیت رکھتی ہے ۔ گزشتہ دنوں تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش میں جن معروف سیاستدانوں کا نام بطور ضامن دیا گیا تھا ان میں ایک نام جمعیت علماء اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمان کا نام بھی شامل تھا ۔اسی طرح قطر میں افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے بھی خبریں عوام تک پہنچیں۔ جس کے بعد جے یو آئی نے اسلام آباد میں آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا۔
ان تمام ایشوز کے بارے میں جمعیت علماء اسلام کے موقف سے آگاہی کے لیے جماعت کے سیکرٹری جنرل سینیٹر عبدالغفور حیدری لاہور آئے تو'' ایکسپریس فورم ''کے لیے ان کے ساتھ ایک نشست کااہتمام کیاگیا جس میں ملک کی سیاسی صورت حال کے ضمن میں تفصیلی گفتگو ہوئی ۔اس نشست میں جے یو آئی کے سیکرٹری اطلاعات مولانا محمدامجد خان اور عبدالغفور حیدری کے صاحبزادے سیف الرحمٰن بھی موجود تھے۔ ایکسپریس فورم میں سینیٹر عبدالغفور حیدری سے ہونے والی گفتگو قارئین کے لیے پیش کی جارہی ہے۔
مولانا عبدالغفور حیدری (سیکرٹری جنرل جمعیت علماء اسلام پاکستان)
ملکی حالات پچھلے پانچ سال پاکستان کے لئے بڑے پرآشوب گزرے ہیں ۔ افسردگی، پریشانی اورعدم تحفظ کا شکار پاکستانی قوم نے ہر طرف خون کی ندیاں بہتی دیکھی ہیں، حکومت وقت مسائل کے حل میں ناکام رہی ہے بلکہ الٹا حکومت پر الزام بھی لگتا رہا کہ بعض معاملات وہ خود بھی ملوث ہے ۔ مخلوط حکومت کے دوران کراچی میں جتنے بھی چوری ڈکیتی، اغواء برائے تاوان، لوٹ مار کے واقعات ہوئے ہیں ان کے بارے میں رپورٹس دیکھیں توان میں کسی نہ کسی سیاسی جماعت کے لوگ ملوث رہے ، یہ صورتحال انتہائی شرمناک ہے۔
بعض قوتیں چاہتی ہیں کہ جمہوریت اور سیاسی جماعتیں بدنام ہوں تاکہ وہ لوگ عوام کو باور کراسکیں کہ مشرف کا دور بہتر تھا اوریہ حقیقت ہے کہ پیپلزپارٹی کی حکومت نے واقعی عوام کو مشرف کا دور یاد کرادیا ہے۔ اس وقت ملک میں کچھ نوزائیدہ جماعتیں ہیں جو اسلامی فلاحی ریاست کا نام لیتی ہیں اور لوگ ان کے پیچھے بھاگ پڑتے ہیں کیونکہ لوگ اتنے پریشان ہیں کہ روشنی کی چھوٹی سی کرن کے پیچھے بھاگ پڑتے ہیں۔ آخر کار حکومت کے 5سال پورے ہورہے ہیں اور آئندہ الیکشن میں لوگ اچھے لوگوں کو منتخب کرنے کی کوشش کریں۔ اچھے لوگ منتخب ہوکر آئیں تاکہ تبدیلی آسکے ۔
ہم اس کیلئے اپنی پارٹی کو پیش کرتے ہیں ہم پچھلے 25سال سے عوام کی خدمت کررہے ہیں' ہم عوام کیلئے کوئی نئے نہیں ہیں۔ میں خود بلوچستان میں سینئر وزیر رہا ہوں، خیبر پختونخواہ میں ہماری حکومت نے 25 سال اسی پارلیمانی نظام میں رہ کر کام کیا ۔لیکن ہم پر لوٹ مار کا کوئی الزام آج تک نہیں لگا، 7 ہزار سے زائد لوگوں نے این آر او سے فوائد حاصل کئے ان میں جمعیت علماء اسلام کا ایک بھی فرد موجود نہیں ہے' اس کے بعد اصغر خان کیس کی طرف جائیں جو کہ 1990ء میں اداروں کی طرف سے پیسے لینے کے بارے میں ہے اس میں بھی اداروں نے اپنی مرضی کی جن جماعتوں کو پیسے دیئے ان کی فہرست بھی آئی ہے اس میں بھی جمعیت علماء اسلام کا نام نہیں ہے۔
جن لوگوں نے قرضے معاف کرائے ان کی لسٹ بھی منظر عام پر آگئی ہے' اس کے تحت اربوں کے قرضے معاف کرائے گئے ہیں' اس میں بھی جمعت علماء اسلام کا ذکر نہیں ہے۔ اسلئے جمعیت علماء اسلام قوم کی قیادت کیلئے خود کو پیش کرتی ہے' اگر عوام ایماندار قیادت چاہتے ہیںتو وہ جمعیت کو منتخب کریں۔ اس وقت کچھ جماعتیں جو کبھی حکومت میں آئی ہی نہیں ہیں وہ بھی دعویٰ کرتی ہیں کہ انہوں نے کرپشن نہیں کی مگر ہم اسی نظام میں موجود رہ کے اس سے دامن بچا کر نکلے ہیں۔ پاکستان کے مسائل کا حل صرف مخلص قیادت کرسکتی ہے۔
آئندہ انتخابات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ یہ انتخابات ملتوی کرانے کی کوششیں کی جارہی ہیں، کوئٹہ، بلوچستان، گلگت کے حالات' اس کے بعد دھرنے اور دھرنے کے جواب میں دھرنے' یہ سب انتخابات مؤخر کرنے کی کوشش ہی ہے۔ پچھلے 5 سال تو غم اور دکھ کے گزرگئے مگر آگے اچھی قیادت آئے تو مستقبل میں جمہوری ادارے مضبوط ہوسکتے ہیں۔ ہم نے جمہویت کو قائم بھی رکھنا ہے اور اس کو مضبوط بھی کرنا ہے۔ ایک ماہ پہلے نواز شریف کی قیادت میں آل پارٹیز کانفرنس ہوئی تو تمام جماعتوں نے اعادہ کیا کہ انتخابات ملتوی نہیں ہونے چاہئیں کیونکہ انتخابات ہی بہترین احتساب ہیں۔ جن جماعتوں نے اچھے کام کئے لوگ ان کا انتخاب کریں گے۔
جمعیت علماء اسلام نے کچھ عرصے سے کوشش شروع کی ہوئی ہے کہ قبائلی علاقوں میں حالات بہتر کئے جائیں' اس سلسلے میں پہلے گرینڈ جرگہ منعقد کیا گیا جس میں فاٹا اور قبائلی ایجنسیوں کے 60 سے زائد لوگ شریک تھے اور کل 4ہزار کے لگ بھگ لوگوں نے اس میں شرکت کی۔ اس میں تمام مسالک اور اقلیتوں کی بھی نمائندگی تھی جس میں انہوں نے اپنے اپنے مطالبات پیش کئے' اس کے بعد 28 فروری کو ہم نے آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی جس میں تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے شرکت کی۔ اب اس گرینڈ جرگے کی حکومت سے ملاقات کرائیں گے تاکہ ان کے مطالبات پر عملدرآمد ہوسکے۔ بدامنی کی وجہ سے قبائلی علاقوں میں کاروبار تباہ ہوچکا ہے۔
جمعیت علماء اسلام نے اس سے پہلے بھی امن کی ایک کوشش کی تھی، اب سب سے پہلے طالبان کی طرف سے ایک پیشکش ہوئی کہ اگر مولانا فضل الرحمن ، منور حسن اور نوازشریف ذمہ دار بن جائیں تو مذاکرات کیلئے تیار ہیں۔اگرچہ یہ ایک خبر ہے مگر ہم جرگے کے ذریعے یہ بھی جاننے کی کوشش کریں گے کہ اس میں کس حد تک صداقت ہے۔انہوں نے کہا کہ نگران وزیراعظم کی تعیناتی اگرچہ اپوزیشن اور حکومت نے مشاورت سے کرنی ہے مگر نواز شریف سے ملاقات میں یہ بات زیرغور آئی ہے اور ہم نے بھی ایک آدھ نام پیش کیا ہے مگر آئین کی رو سے فیصلہ اپوزیشن اور حکومت نے کرنا ہے۔
الیکشن کی قائمہ کمیٹی نے مشترکہ طور پر مل کر چیف الیکشن کمشنر اور ادارے کا تعین کیا ہے' ہر ادارے کا ایک دائرہ کار ہوتا ہے اداروں کو اسی میں رہ کر کام کرنا چاہئے اگر کوئی ادارہ اپنے لئے طے شدہ حدود سے نکلنے کی کوشش کرے تو مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے جعلی ڈگری والے ارکان کے خلاف کارروائی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس وقت اگر گڑھے مردے اکھاڑے جائیں گے مسائل پیدا ہوں گے۔کسی جعلی ڈگری والے کو آؤٹ کرنا ہے تو جنہوں نے پیسے لئے جنہوں نے قرضے معاف کرائے ان کو بھی آؤٹ کریں یہاں کوئی بھی صحیح نہیں۔ اگر دفعہ 62 اور 63 کو بنیاد بناکر دیکھیں تو جو بھی لوگ الیکشن لڑنا چاہتے ہیں وہ اس پر پورے نہیں اترتے۔
الیکشن لڑنے والوں کو دیکھنے کی بجائے یہ دیکھیں کہ الیکشن شفاف ہونے چاہئیں۔جمعیت علماء اسلام نے ہمیشہ کتاب کے نشان پر الیکشن لڑا مگر اس دفعہ الیکشن کمیشن نے بند کتاب کو کھول دیا' اس سے بدا عتمادی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے ، ایسا نہیں ہونا چاہئے ، ہم کتاب کو بند رکھنے کی پوری کوشش کریں گے۔ جہاں تک ایم ایم اے کے مستقبل کا تعلق ہے 'مجھے ایم ایم اے کی بحالی نظر نہیں آرہی۔ جماعت اسلامی اور نواز شریف سے انتخابی اتحاد اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کیلئے دو بار ملاقات ہوچکی ہے اوریہی طے پایا کہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوگی۔ اب دونوں جماعتوں کے نمائندے مل بیٹھ کر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کریں گے۔
اس وقت الیکشن قریب ہیں جہاں سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوسکی وہاں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کریں گے کسی ضلع میں ن لیگ اور کہیں جماعت اسلامی ہے تو جہاں جو پارٹی مضبوط ہے وہاں اس کے ساتھ چلیں گے۔اگر صوبہ کی سطح پر کوئی پارٹی ہے تو اس کے ساتھ صوبائی سطح پر اتحاد کریں گے۔کسی جگہ ایک پارٹی نہیں اور دوسری ہے تو وہاں اس کے ساتھ اتحاد کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں حکومت نے جب گورنر راج کا فیصلہ کیا تو اس وقت صوبائی حکومت میں شامل تمام سٹیک ہولڈرز نے فیصلہ کیا تھا وہ مل کر فیصلہ کریں گے اور جس طرح ہزارہ کمیونٹی کے لوگ مطمئن ہوں' اگر وہ وزراء کے استعفوں سے مطمئن ہوں تو وہ بھی دینے کو تیار تھے۔
ہم نے حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ اگر وزراء استعفے دے دیں تو ان ہاؤس تبدیلی لائی جائے مگر وفاقی حکومت نے غیر جمہوری راستہ اختیار کیا' جب تمام وزراء استعفے دینے کو تیار تھے تو گورنر راج نہیں لگانا چاہئے تھا۔ اب اگر 14مارچ کو حکومت بحال بھی ہوگئی تو ہم اپوزیشن میں بیٹھیں گے' حکومت بحال کرنے کا کوئی فائدہ نہیںہوگا صرف یہ ہوگا کہ نگران حکومت بن جائے گی۔ بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ریلوے دیوالیہ ہوگیا اور تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے' اس حوالے سے ہم تجاویز دیتے رہتے ہیں مگر حکومت ان پر عملدرآمد نہیں کرتی۔ اس کے علاوہ دیگر ادارے بھی تباہ ہوگئے ہیں ،ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ جو سمت حکومت کیلئے متعین کردیتی ہے حکومت اسی پر چلتی ہے۔
65 سال سے بھارت اور پاکستان کے مسائل جاری ہیںاور دونوں ممالک اپنے وسائل خرچ کررہے ہیں اور خرچ کرتے رہتے ہیں یہ وسائل ان اداروں کی بحالی کیلئے خرچ کئے جائیں۔ ہمارا اس حوالے سے مؤقف یہ ہے کہ باہمی مذاکرات کے ذریعے معاملات حل کرنے چاہئیں۔ تنازع کشمیر دونوں ممالک کے مابین ایک دیرینہ مسئلہ ہے۔تنازع کشمیر کے حل کیلئے مختلف مؤقف ہیں۔ کچھ لوگ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں اور کچھ لوگ آزاد رہنا چاہتے ہیں اس مسئلے کو وہاں کے عوام کی امنگوں کے مطابق حل ہونا چاہئے۔ اس مسئلے کا حل بہت ضروری ہے جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا دونوں ملکوں میں امن نہیں ہوسکتا۔
آل پارٹیز کانفرنس میں مختلف جماعتوں کی شرکت کے حوالے سے کئے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کانفرنس میں سیاسی اور مذہبی دونوں جماعتوں کوشرکت کی دعوت دی گئی اس میں مسلکی حوالے سے دعوت نہیں دی گئی 'مذہبی جماعتوں میں تمام مسالک کی نمائندہ جماعتوں کو دعوت دی گئی۔ ہر مسلک کی تمام جماعتوں کو دعوت نہیں دی جاسکی کیونکہ اس وقت ہر مسلک کی 10 سے 12 جماعتیں ہیںاور ان سب کو بلانا ممکن نہیں تھا اس لئے نمائندگی کے طور پر جو جماعتیں ایم ایم اے میں موجود تھیں ان کو آل پارٹیز کانفرنس میں بلایا گیا۔
قطر میں امریکہ طالبان کے مذاکرات کے وقت مولانا فضل الرحمن کی قطر میں موجودگی کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن قطر طالبان سے مذاکرات میں شرکت کیلئے نہیں گئے تھے بلکہ قطر میں جمعیت علماء اسلام کی ایک شاخ موجود ہے جو اکثر مولانا کو دعوت دیتی رہتی ہے' مولانا اسی کی دعوت پر قطر گئے۔ یہ محض اتقاق ہے کہ اسی وقت طالبان کے امریکہ کے ساتھ مذاکرات ہورہے تھے اس موقع پر حافظ حسین احمد نے ایک اخباری خبر کی بنیاد پر جماعت سے تصدیق کئے بغیر طالبان کے ساتھ مذاکرات میں شرکت کا بیان دے دیا جس سے غلط فہمی پیدا ہوئی۔تاہم جب حافظ حسین احمد صاحب سے بات ہوئی تو بات واضح ہوگئی اور جو غلط فہمی پیدا ہوئی تھی وہ دور کردی گئی۔