ہمارے ہاں اچھے کام کی تعریف کا رواج نہیں
نیسپاک کے قیام سے غیرملکی کمپنیوں کی محتاجی ختم ہوئی۔
نیشنل انجینئرنگ سروسز پاکستان جسے عرف عام میں نیسپاک کہا جاتا ہے۔
پاکستان کی بہت بڑی کنسلٹینسی کمپنی ہے جو کہ ایک خود مختار ادارے کے طور پر کام کررہی ہے' جس نے ملک کے اندر اور بیرون ملک بڑے بڑے منصوبے مکمل کئے مگر عام لوگ اس کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں۔ عام لوگوں کو کمپنی کی کارکردگی اور کامیابیوں سے آگاہی دینے کیلئے ایکسپریس نے ایک فورم کا اہتمام کیا جس میں منیجنگ ڈائریکٹر نیسپاک اسد آئی اے خان نے کمپنی کے بارے میں تفصیلی گفتگو کی۔ فورم میں کمپنی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ترک پاک محمد عمر قیوم اور جی ایم بزنس ڈویلپمنٹ و اوور سیز ڈویژن احمد سعید بھی ان کے ہمراہ تھے۔ ایم ڈی کی گفتگو نذر قارئین ہے۔
اسد آئی اے خان (ایم ڈی نیشنل انجینئرنگ سروسز پاکستان (نیسپاک)
نیسپاک کی بنیاد 1973میں 5لاکھ روپے کی معمولی رقم سے رکھی گئی اور قیام کے وقت واپڈا سے آٹھ دس انجنیئرز لئے گئے تھے۔ جب اس کی بنیاد رکھی گئی تو ملک میں چھوٹی چھوٹی انجنیئرنگ کمپنیاں تھیں اور غیر ملکی کنسلٹینٹس ملک کے اندر چھائے ہوئے تھے اور کسی بھی بڑے منصوبے کیلئے فزیبیلٹی کی تیاری کیلئے حکومت ان کی محتاج ہوتی تھی۔ اس محتاجی کے خاتمے کیلئے نیسپاک کی بنیاد رکھی گئی اور نیسپاک نے تھوڑے ہی عرصے میں اپنی کارکردگی کی بنیاد پر ثابت کردیا کہ مہارت میں یہ کسی بھی غیر ملکی کمپنی سے کم نہیں ہے۔
اس وقت نیسپاک کے پاس 4ہزار ملازمین ہیں اور ہمارا سالانہ بزنس 6.4ارب روپے ہے۔ کمپنی میں تنخواہیں اچھی ہیں' جس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ میرا ڈرائیور جو اڑھائی سال پہلے 17 ہزار روپے ماہوارتنخواہ لیتا تھا آج اسکی تنخواہ بڑھ کر 33 ہزار روپے ہوچکی ہے۔ نیسپاک اب اس مقام پر پہنچ گئی ہے کہ ملک کے اندر کسی بھی بڑے منصوبے کو مکمل کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔ اس وقت نیسپاک ملکی ترقی کے بڑے منصوبوں ڈیموں، بیراجوں، تھرمل و پن بجلی گھروں، فلک بوس عمارتوں، ہوائی اور بحری اڈوں، آئل وگیس کی صنعتوں، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور اہم شاہراہوںکی تعمیر میں اہم خدمات انجام دے رہا ہے۔کالاباغ ڈیم کا تمام ڈیزائن اور فزیبلٹی ہمارے سٹور میں پڑے ہیں' حکومت آج کہے ہم کل اس پرکام شروع کرسکتے ہیں۔اگر یہ ڈیم بنانا ضروری ہے تو اسے فاسٹ ٹریک کے ساتھ بنانا چاہیے۔
آج نیسپاک 4ہزار ملازمین کی افرادی قوت کے ساتھ کسی بھی سطح کے پروجیکٹ کو مکمل کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے بورڈ آف ڈائریکٹرزکا چیئرمین اگرچہ سیکرٹری پانی و بجلی ہوتا ہے لیکن آج تک ہم نے حکومت سے ایک پیسہ بھی نہیں لیا بلکہ ہر سال حکومت کو کروڑوں روپے ٹیکس کی مد میں دیتے ہیں۔ نیسپاک کی خاصیت یہ ہے کہ اس کا منیجنگ ڈائریکٹر بھی ہمیشہ کمپنی کے اندر سے چنا جاتا ہے باہر سے تعینات نہیں کیا جاتا۔ پاکستان میں ایک مسئلہ ہے کہ یہاں غیر ملکی ماہر جو بھی بات کرے اسے جلدی قبول کرلیا جاتا ہے جبکہ ملکی ماہرین کی بات کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔
اس کی مثال یہ ہے کہ کراچی اور لاہور کے ایئرپورٹس کو نیسپاک نے ہی مکمل کیا لیکن اسلام آباد ایئرپورٹ کی باری آئی تواس کی نئی بلڈنگ کے ڈیزائن کیلئے سنگاپورکی ایک ایسی کمپنی کو کام دیدیا گیا جو پاکستان میں رجسٹر بھی نہیں ہے جبکہ دیگر کام نیسپاک کے ذمہ لگایا گیا' حالانکہ بلڈنگ کا ڈیزائن سب سے اہم ہوتا ہے۔اس کمپنی کو کام دینے کے باوجود حکومت نے اس پروجیکٹ کی ویلیو انجنیئرنگ ہم سے ہی کرائی جس کی وجہ سے اسکی لاگت میں کمی واقع ہوئی۔ نیسپاک پاکستان کی بہت بڑی آرگنائزیشن ہے یہ صرف انجنیئرنگ آرگنائزیشن نہیں ہے، کسی بھی زلزلے، سیلاب، قدرتی آفت کے بعد ترقیاتی کام ہوں یا کوئی ہاوسنگ سکیم لانچ کرنی ہو نیسپاک کا نام ہی لیا جاتا ہے کیونکہ ملک میں کئی اورکمپنیاں ہونے کے باوجود پہلا اور آخری آپشن تقریباً ہم ہی ہوتے ہیں۔
میٹرو بس سروس کا منفرد پروجیکٹ بھی ہم نے ہی مکمل کیا جبکہ مستقبل میں راوی پر ایسا پل بنانے جارہے ہیں جو لینڈ مارک ہوگا اورلاہورکی خوبصورتی میں مزید اضافہ کریگا،میٹرو بس منصوبے کی تعمیر کے دوران لوگوں کو تکلیف ضرور ہوئی ہے مگر تکمیل کے بعد جو سہولت مل رہی ہے اس سے لوگ تکلیف بھول جائیں گے یہ ایسا منصوبہ ہے کہ اسے دوسرے شہروں میں بنانا چاہئے۔ میٹرو بس پروجیکٹ کو فالو کرتے ہوئے اس طرزکا پروجیکٹ سندھ حکومت بھی کرنے کا سوچ رہی ہے۔لاہور رنگ روڈ بھی ایک بہت اچھا منصوبہ ہے۔ انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ میں ہم لوگ بہت آگے جاچکے ہیں۔دنیاکے کئی ممالک میںہمارے منصبوے چل رہے ہیں اور مکمل ہوئے ہیں۔
عمان میں ہم نے ایک ڈیم تعمیر کیااور وہاں 70 فیصد سڑکیں نیسپاک نے بنائی ہیں' اس کے علاوہ قطر، سعودی عرب سمیت پانچ ملکوں میں بھی ہمارے دفاتر موجود ہیں جہاں ہم 400 ملازمین کے ساتھ خدمات انجام دے رہے ہیں جبکہ اپنی 35 فیصد آمدن ہم انہی پانچ ملکوں سے حاصل کرتے ہیں وہاں کام حاصل کرنے کیلئے بہت محنت کرنا پڑتی ہے' تاہم وہاں ہمیں کام مل جاتا ہے کیونکہ نیسپاک ایک ایسی کمپنی ہے جو کسی بھی کام کو فوری طور پر شروع کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے' تاہم یورپ میں ابھی تک ہم کوئی قابل ذکر کام نہیں کرسکے ہیں وہاں ہماری بات چیت چل رہی ہے اور ہم وہاں جانا چاہتے ہیں۔ اگر کوئی برا کام کرے اسکی سبکی ہونی چاہیے لیکن اگر کوئی اچھا کام کرے تو اس کو شاباش بھی ملنی چاہیے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں تعریف کم ہی کی جاتی ہے۔
ایئرپورٹ کسی بھی ملک کا گیٹ وے سمجھا جاتا ہے ، لاہور ایئرپورٹ اور میٹرو بس منصوبہ دیکھ کر آپ کو نیسپاک کو شاباش دینی ہی پڑے گی۔کلمہ چوک ہم نے بڑے مختصر عرصے میں بنایا لیکن کوئی تعریف نہیں ہوئی حالانکہ یہ کتنا خطرناک کام ہوتا ہے جو ہم کرتے ہیں۔ میٹروبس پر ہر کام ڈیڈلائن پر ہوا جلدی میں مزہ تو آتا ہے لیکن جلدی کی وجہ سے بعض اوقات تھوڑا نقصان ہوتا ہے اور کوالٹی آف ورک پر بھی اثر پڑسکتا ہے۔انہوں نے اس بات پر دکھ کا اظہار کیا کہ ہم تو باہر کی کمپنیوں سے جوائنٹ وینچرکرتے ہیں لیکن انہوں نے کبھی ہمیں جوائنٹ وینچر کیلئے نہیں بلایا۔ملک ایمرجنسی کی حالت میں ہے خصوصاً پاور اور پانی کے سیکٹر میں برا حال ہے۔ایک دن کے نوٹس پر صرف نیسپاک ہی کام شروع کرسکتا ہے،ملک کے مشکل ترین علاقوں میں نیسپاک کام کررہی ہے۔
یہاں تک کہ وزیرستان اور فاٹا جہاں روز دھماکے اور ڈرون حملے ہوتے ہیں وہاں بھی ہمارے لوگ کام کررہے ہیں۔ یو ایس ایڈکا کام بھی وزیرستان وغیرہ میں ہم ہی کررہے ہیں، ہم پاکستان کے کسی بھی کونے حتٰی کہ سکیورٹی رسک والے علاقے میں بھی کام کرتے ہیں حالانکہ ہمارے ملازمین کو دھمکیاں اور دھمکی آمیز خطوط موصول ہوتے ہیں اور ہمارے کچھ لوگ اغواء بھی ہوئے مگر ہم نے وہاں کام نہیں روکے تاہم ہم نے انکی لائف انشورنس کرارکھی ہے جبکہ ایسے علاقوں میں کام کرنیوالوں کو معاوضہ بھی زیادہ دیا جاتا ہے۔ نیسپاک کی خوبی ہے کہ یہ لوگوں کیلئے ملازمتیں مہیا کرتا ہے جبکہ نیسپاک کے اچھے انجینئرز اور آرکیٹیکٹس کیلئے آج بھی بہتر نوکریاں موجود ہیں۔ پاکستان میں کوالٹی آف مین پاور نہیں ہے۔
میں نے ایم ڈی بننے کے بعد کہاکہ نیسپاک انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی قائم ہونا چاہیے جہاں فیلڈ میں کام آنے والی اصل عملی تربیت دی جائے۔جس پروجیکٹ میں نیسپاک کا نام آتا ہے وہ کامیابی کی گارنٹی ہوتا ہے۔کئی دفعہ نیسپاک پر الزامات بھی لگے لیکن ہمارے اپنے اندر بڑا چیک اینڈ بیلنس اور ہمارے سخت قوانین ہیں جس وجہ سے ہم ہر الزام سے بری الزمہ ہوئے۔ ہمارے دوست اسلامی ممالک کے ویزہ قوانین بڑے سخت ہیں جس کی وجہ سے ہمیں پاکستانی ماہرین لے جانے میں دشواری ہوتی ہے جس کے حل کیلئے ہم نے کئی وفعہ ایمبیسیز کو خط بھی لکھے مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا س کی مثال یہ ہے کہ دمام میں ہمارا ایک پراجیکٹ جس کیلئے 60 الیکٹریکل انجنیئرز درکار تھے ان میں سے صرف 4 ہم پاکستان سے لے جاسکے باقی انڈین، بنگالی یا سری لنکن وغیرہ کو بھرتی کرنا پڑا۔
ہمارے مزدوروں کو تو ویزہ مل جاتا ہے لیکن پروفیشنلز کو جلدی ویزہ نہ ملنے کی وجہ سے غیرملکی آفسز میں مقامی کے ساتھ ساتھ دوسرے ملکوں کے لوگوں سے بھی کام لینا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیسپاک '' آئی لینڈ آف سکسیس'' ہے، حکومت کا ہم پرکوئی کنٹرول نہیں نہ ہی وہ ہمارے معاملات میں دخل دیتی ہے۔ آج الحمدﷲ ہمارے پاس اتنا ریونیو ہے کہ کوئی کام نہ ملے تو اپنے ملازموں کو گھر بٹھاکر 4 ماہ تک ہم تنخواہیں دے سکتے ہیں۔ انہوں نے بتایاکہ سالانہ تقریباً30کروڑ روپے حکومت کو ٹیکس ادا کرتے ہیں ۔مظفرآباد میں نالوچی برج بنارہے ہیں۔ ہمارے مقابلے میں این ڈی سی اور اے سی ای اچھی کمپنیاں ہیں جو ہمارے مقابلے میں کام کررہی ہیں لیکن انکی افرادی قوت ہم سے پانچ گنا زیادہ ہونے کی وجہ سے ہمیں وہ بڑا ٹف ٹائم دیتی ہیں۔
ہم امپروو کرنے کی کوشش بھی کرتے رہتے ہیں۔ ہمارے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے ملازمین کی تنخواہیں بڑھائیں انہیں اچھی گاڑیاں اورسہولتیں دیں۔باقی سیاست تو ہر ادارے میں ہوتی ہے' ہمارے ادارے کے بعض لوگ بھی ہمارے خلاف ہی باتیں کررہے ہوتے ہیں۔ انہوں نے میڈیا سے درخواست کی کہ نیسپاک کے بارے میں لکھتے ہمارا موقف لے لیا کریں کیونکہ اکثر خبریں غلط معلومات کی وجہ سے غلط رپورٹ ہوجاتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب ہمارا ادارہ حکومت سے کوئی مالی مدد نہیں لیتا بلکہ کروڑوں روپے ٹیکس دیتا ہے تو پی آئی اے اور دیگر اداروں کی طرح نیسپاک سے سکروٹنی کرنے کی باتیں کرنا ہمارے ساتھ انصاف نہیں ہے۔ ہم نے ایٹمی دھماکوں کے بعد 2002 ء میں بڑے برے حالات بھی دیکھے ہیں جب ترقیاتی کام رکنے کی وجہ سے تین چار ماہ تک ہم اپنے ملازمین کو تنخواہیں نہیں دے سکے تھے' اس وقت کے ایم ڈی صابر پرویز چوہان مرحوم نے ان تھک محنت کرکے نیسپاک کو کرائسز سے نکالا۔
پاکستان کی بہت بڑی کنسلٹینسی کمپنی ہے جو کہ ایک خود مختار ادارے کے طور پر کام کررہی ہے' جس نے ملک کے اندر اور بیرون ملک بڑے بڑے منصوبے مکمل کئے مگر عام لوگ اس کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں۔ عام لوگوں کو کمپنی کی کارکردگی اور کامیابیوں سے آگاہی دینے کیلئے ایکسپریس نے ایک فورم کا اہتمام کیا جس میں منیجنگ ڈائریکٹر نیسپاک اسد آئی اے خان نے کمپنی کے بارے میں تفصیلی گفتگو کی۔ فورم میں کمپنی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ترک پاک محمد عمر قیوم اور جی ایم بزنس ڈویلپمنٹ و اوور سیز ڈویژن احمد سعید بھی ان کے ہمراہ تھے۔ ایم ڈی کی گفتگو نذر قارئین ہے۔
اسد آئی اے خان (ایم ڈی نیشنل انجینئرنگ سروسز پاکستان (نیسپاک)
نیسپاک کی بنیاد 1973میں 5لاکھ روپے کی معمولی رقم سے رکھی گئی اور قیام کے وقت واپڈا سے آٹھ دس انجنیئرز لئے گئے تھے۔ جب اس کی بنیاد رکھی گئی تو ملک میں چھوٹی چھوٹی انجنیئرنگ کمپنیاں تھیں اور غیر ملکی کنسلٹینٹس ملک کے اندر چھائے ہوئے تھے اور کسی بھی بڑے منصوبے کیلئے فزیبیلٹی کی تیاری کیلئے حکومت ان کی محتاج ہوتی تھی۔ اس محتاجی کے خاتمے کیلئے نیسپاک کی بنیاد رکھی گئی اور نیسپاک نے تھوڑے ہی عرصے میں اپنی کارکردگی کی بنیاد پر ثابت کردیا کہ مہارت میں یہ کسی بھی غیر ملکی کمپنی سے کم نہیں ہے۔
اس وقت نیسپاک کے پاس 4ہزار ملازمین ہیں اور ہمارا سالانہ بزنس 6.4ارب روپے ہے۔ کمپنی میں تنخواہیں اچھی ہیں' جس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ میرا ڈرائیور جو اڑھائی سال پہلے 17 ہزار روپے ماہوارتنخواہ لیتا تھا آج اسکی تنخواہ بڑھ کر 33 ہزار روپے ہوچکی ہے۔ نیسپاک اب اس مقام پر پہنچ گئی ہے کہ ملک کے اندر کسی بھی بڑے منصوبے کو مکمل کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔ اس وقت نیسپاک ملکی ترقی کے بڑے منصوبوں ڈیموں، بیراجوں، تھرمل و پن بجلی گھروں، فلک بوس عمارتوں، ہوائی اور بحری اڈوں، آئل وگیس کی صنعتوں، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور اہم شاہراہوںکی تعمیر میں اہم خدمات انجام دے رہا ہے۔کالاباغ ڈیم کا تمام ڈیزائن اور فزیبلٹی ہمارے سٹور میں پڑے ہیں' حکومت آج کہے ہم کل اس پرکام شروع کرسکتے ہیں۔اگر یہ ڈیم بنانا ضروری ہے تو اسے فاسٹ ٹریک کے ساتھ بنانا چاہیے۔
آج نیسپاک 4ہزار ملازمین کی افرادی قوت کے ساتھ کسی بھی سطح کے پروجیکٹ کو مکمل کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے بورڈ آف ڈائریکٹرزکا چیئرمین اگرچہ سیکرٹری پانی و بجلی ہوتا ہے لیکن آج تک ہم نے حکومت سے ایک پیسہ بھی نہیں لیا بلکہ ہر سال حکومت کو کروڑوں روپے ٹیکس کی مد میں دیتے ہیں۔ نیسپاک کی خاصیت یہ ہے کہ اس کا منیجنگ ڈائریکٹر بھی ہمیشہ کمپنی کے اندر سے چنا جاتا ہے باہر سے تعینات نہیں کیا جاتا۔ پاکستان میں ایک مسئلہ ہے کہ یہاں غیر ملکی ماہر جو بھی بات کرے اسے جلدی قبول کرلیا جاتا ہے جبکہ ملکی ماہرین کی بات کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔
اس کی مثال یہ ہے کہ کراچی اور لاہور کے ایئرپورٹس کو نیسپاک نے ہی مکمل کیا لیکن اسلام آباد ایئرپورٹ کی باری آئی تواس کی نئی بلڈنگ کے ڈیزائن کیلئے سنگاپورکی ایک ایسی کمپنی کو کام دیدیا گیا جو پاکستان میں رجسٹر بھی نہیں ہے جبکہ دیگر کام نیسپاک کے ذمہ لگایا گیا' حالانکہ بلڈنگ کا ڈیزائن سب سے اہم ہوتا ہے۔اس کمپنی کو کام دینے کے باوجود حکومت نے اس پروجیکٹ کی ویلیو انجنیئرنگ ہم سے ہی کرائی جس کی وجہ سے اسکی لاگت میں کمی واقع ہوئی۔ نیسپاک پاکستان کی بہت بڑی آرگنائزیشن ہے یہ صرف انجنیئرنگ آرگنائزیشن نہیں ہے، کسی بھی زلزلے، سیلاب، قدرتی آفت کے بعد ترقیاتی کام ہوں یا کوئی ہاوسنگ سکیم لانچ کرنی ہو نیسپاک کا نام ہی لیا جاتا ہے کیونکہ ملک میں کئی اورکمپنیاں ہونے کے باوجود پہلا اور آخری آپشن تقریباً ہم ہی ہوتے ہیں۔
میٹرو بس سروس کا منفرد پروجیکٹ بھی ہم نے ہی مکمل کیا جبکہ مستقبل میں راوی پر ایسا پل بنانے جارہے ہیں جو لینڈ مارک ہوگا اورلاہورکی خوبصورتی میں مزید اضافہ کریگا،میٹرو بس منصوبے کی تعمیر کے دوران لوگوں کو تکلیف ضرور ہوئی ہے مگر تکمیل کے بعد جو سہولت مل رہی ہے اس سے لوگ تکلیف بھول جائیں گے یہ ایسا منصوبہ ہے کہ اسے دوسرے شہروں میں بنانا چاہئے۔ میٹرو بس پروجیکٹ کو فالو کرتے ہوئے اس طرزکا پروجیکٹ سندھ حکومت بھی کرنے کا سوچ رہی ہے۔لاہور رنگ روڈ بھی ایک بہت اچھا منصوبہ ہے۔ انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ میں ہم لوگ بہت آگے جاچکے ہیں۔دنیاکے کئی ممالک میںہمارے منصبوے چل رہے ہیں اور مکمل ہوئے ہیں۔
عمان میں ہم نے ایک ڈیم تعمیر کیااور وہاں 70 فیصد سڑکیں نیسپاک نے بنائی ہیں' اس کے علاوہ قطر، سعودی عرب سمیت پانچ ملکوں میں بھی ہمارے دفاتر موجود ہیں جہاں ہم 400 ملازمین کے ساتھ خدمات انجام دے رہے ہیں جبکہ اپنی 35 فیصد آمدن ہم انہی پانچ ملکوں سے حاصل کرتے ہیں وہاں کام حاصل کرنے کیلئے بہت محنت کرنا پڑتی ہے' تاہم وہاں ہمیں کام مل جاتا ہے کیونکہ نیسپاک ایک ایسی کمپنی ہے جو کسی بھی کام کو فوری طور پر شروع کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے' تاہم یورپ میں ابھی تک ہم کوئی قابل ذکر کام نہیں کرسکے ہیں وہاں ہماری بات چیت چل رہی ہے اور ہم وہاں جانا چاہتے ہیں۔ اگر کوئی برا کام کرے اسکی سبکی ہونی چاہیے لیکن اگر کوئی اچھا کام کرے تو اس کو شاباش بھی ملنی چاہیے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں تعریف کم ہی کی جاتی ہے۔
ایئرپورٹ کسی بھی ملک کا گیٹ وے سمجھا جاتا ہے ، لاہور ایئرپورٹ اور میٹرو بس منصوبہ دیکھ کر آپ کو نیسپاک کو شاباش دینی ہی پڑے گی۔کلمہ چوک ہم نے بڑے مختصر عرصے میں بنایا لیکن کوئی تعریف نہیں ہوئی حالانکہ یہ کتنا خطرناک کام ہوتا ہے جو ہم کرتے ہیں۔ میٹروبس پر ہر کام ڈیڈلائن پر ہوا جلدی میں مزہ تو آتا ہے لیکن جلدی کی وجہ سے بعض اوقات تھوڑا نقصان ہوتا ہے اور کوالٹی آف ورک پر بھی اثر پڑسکتا ہے۔انہوں نے اس بات پر دکھ کا اظہار کیا کہ ہم تو باہر کی کمپنیوں سے جوائنٹ وینچرکرتے ہیں لیکن انہوں نے کبھی ہمیں جوائنٹ وینچر کیلئے نہیں بلایا۔ملک ایمرجنسی کی حالت میں ہے خصوصاً پاور اور پانی کے سیکٹر میں برا حال ہے۔ایک دن کے نوٹس پر صرف نیسپاک ہی کام شروع کرسکتا ہے،ملک کے مشکل ترین علاقوں میں نیسپاک کام کررہی ہے۔
یہاں تک کہ وزیرستان اور فاٹا جہاں روز دھماکے اور ڈرون حملے ہوتے ہیں وہاں بھی ہمارے لوگ کام کررہے ہیں۔ یو ایس ایڈکا کام بھی وزیرستان وغیرہ میں ہم ہی کررہے ہیں، ہم پاکستان کے کسی بھی کونے حتٰی کہ سکیورٹی رسک والے علاقے میں بھی کام کرتے ہیں حالانکہ ہمارے ملازمین کو دھمکیاں اور دھمکی آمیز خطوط موصول ہوتے ہیں اور ہمارے کچھ لوگ اغواء بھی ہوئے مگر ہم نے وہاں کام نہیں روکے تاہم ہم نے انکی لائف انشورنس کرارکھی ہے جبکہ ایسے علاقوں میں کام کرنیوالوں کو معاوضہ بھی زیادہ دیا جاتا ہے۔ نیسپاک کی خوبی ہے کہ یہ لوگوں کیلئے ملازمتیں مہیا کرتا ہے جبکہ نیسپاک کے اچھے انجینئرز اور آرکیٹیکٹس کیلئے آج بھی بہتر نوکریاں موجود ہیں۔ پاکستان میں کوالٹی آف مین پاور نہیں ہے۔
میں نے ایم ڈی بننے کے بعد کہاکہ نیسپاک انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی قائم ہونا چاہیے جہاں فیلڈ میں کام آنے والی اصل عملی تربیت دی جائے۔جس پروجیکٹ میں نیسپاک کا نام آتا ہے وہ کامیابی کی گارنٹی ہوتا ہے۔کئی دفعہ نیسپاک پر الزامات بھی لگے لیکن ہمارے اپنے اندر بڑا چیک اینڈ بیلنس اور ہمارے سخت قوانین ہیں جس وجہ سے ہم ہر الزام سے بری الزمہ ہوئے۔ ہمارے دوست اسلامی ممالک کے ویزہ قوانین بڑے سخت ہیں جس کی وجہ سے ہمیں پاکستانی ماہرین لے جانے میں دشواری ہوتی ہے جس کے حل کیلئے ہم نے کئی وفعہ ایمبیسیز کو خط بھی لکھے مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا س کی مثال یہ ہے کہ دمام میں ہمارا ایک پراجیکٹ جس کیلئے 60 الیکٹریکل انجنیئرز درکار تھے ان میں سے صرف 4 ہم پاکستان سے لے جاسکے باقی انڈین، بنگالی یا سری لنکن وغیرہ کو بھرتی کرنا پڑا۔
ہمارے مزدوروں کو تو ویزہ مل جاتا ہے لیکن پروفیشنلز کو جلدی ویزہ نہ ملنے کی وجہ سے غیرملکی آفسز میں مقامی کے ساتھ ساتھ دوسرے ملکوں کے لوگوں سے بھی کام لینا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیسپاک '' آئی لینڈ آف سکسیس'' ہے، حکومت کا ہم پرکوئی کنٹرول نہیں نہ ہی وہ ہمارے معاملات میں دخل دیتی ہے۔ آج الحمدﷲ ہمارے پاس اتنا ریونیو ہے کہ کوئی کام نہ ملے تو اپنے ملازموں کو گھر بٹھاکر 4 ماہ تک ہم تنخواہیں دے سکتے ہیں۔ انہوں نے بتایاکہ سالانہ تقریباً30کروڑ روپے حکومت کو ٹیکس ادا کرتے ہیں ۔مظفرآباد میں نالوچی برج بنارہے ہیں۔ ہمارے مقابلے میں این ڈی سی اور اے سی ای اچھی کمپنیاں ہیں جو ہمارے مقابلے میں کام کررہی ہیں لیکن انکی افرادی قوت ہم سے پانچ گنا زیادہ ہونے کی وجہ سے ہمیں وہ بڑا ٹف ٹائم دیتی ہیں۔
ہم امپروو کرنے کی کوشش بھی کرتے رہتے ہیں۔ ہمارے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے ملازمین کی تنخواہیں بڑھائیں انہیں اچھی گاڑیاں اورسہولتیں دیں۔باقی سیاست تو ہر ادارے میں ہوتی ہے' ہمارے ادارے کے بعض لوگ بھی ہمارے خلاف ہی باتیں کررہے ہوتے ہیں۔ انہوں نے میڈیا سے درخواست کی کہ نیسپاک کے بارے میں لکھتے ہمارا موقف لے لیا کریں کیونکہ اکثر خبریں غلط معلومات کی وجہ سے غلط رپورٹ ہوجاتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب ہمارا ادارہ حکومت سے کوئی مالی مدد نہیں لیتا بلکہ کروڑوں روپے ٹیکس دیتا ہے تو پی آئی اے اور دیگر اداروں کی طرح نیسپاک سے سکروٹنی کرنے کی باتیں کرنا ہمارے ساتھ انصاف نہیں ہے۔ ہم نے ایٹمی دھماکوں کے بعد 2002 ء میں بڑے برے حالات بھی دیکھے ہیں جب ترقیاتی کام رکنے کی وجہ سے تین چار ماہ تک ہم اپنے ملازمین کو تنخواہیں نہیں دے سکے تھے' اس وقت کے ایم ڈی صابر پرویز چوہان مرحوم نے ان تھک محنت کرکے نیسپاک کو کرائسز سے نکالا۔