حکمران عبرت اور سبق حاصل کریں

چیف جسٹس کا انتباہ بروقت اور متاع ضمیر کا سودا کرنے والی محکمہ جاتی نوکرشاہی کے لیے خود احتسابی کا موقع فراہم کرتا ہے.

چیف جسٹس نے کہا کہ کچے کے علاقے میں فصلیں توکاشت کی جاسکتی ہیں مگر تعمیرات نہیں ہوسکتیں۔ فوٹو: فائل

GILGIT:
سپریم کورٹ نے فلڈکمیشن کی سفارشات پرعملدرآمد سے متعلق وفاقی و صوبائی حکومتوں کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہارکیا ہے اور قرار دیا ہے کہ فلڈکمیشن کی رپورٹ پر اس کی روح کے مطابق عمل نہیں ہوا۔ تجاوزات برقرار ہیں اور سیلاب زدگان کو معاوضے کی ادائیگی خصوصی طور پر وطن کارڈ کے معاملے میں سنگین بدعنوانیوںکے الزامات سامنے آرہے ہیں۔ عدالت نے آبزرویشن دی کہ انگریز ڈیڑھ سو سال پہلے ہی بتاگئے تھے کہ دریائوںکا بہائوکس رخ ہے اور کس سمت میں تجاوزات نہیں ہونی چاہئیں۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے فلڈکمیشن کے حوالے سے درخواست کی سماعت کی ۔ سیکریٹری آبپاشی سندھ نے رپورٹ جمع کرائی اور بتایا سیلاب سے متاثرہ علاقوں اور متاثرین کی بحالی کا80 فیصدکام ہو چکا ہے، فلڈ کمیشن کی سفارشات پر عملدرآمد پر ملک کی سب سے بڑی عدالت کا عدم اطمینان اس اعتبار سے تو متاثرین سیلاب کے اطمینان کا باعث ہوگا کہ کوئی تو ہے جس کو اس کے دکھوں کا احساس ہے۔ سپریم کورٹ کے ریمارکس در حقیقت حکمرانوں ، ان کے مشیران وماہرین اور محکموں کے لیے تازیانہ ہیں جو قوم کو بحرانوں کی نذر ہوتے دیکھ کر کبوتر یا شتر مرغ کی طرح کبھی آنکھیں بند کرلیتے ہیں یا بے حسی، سنگدلی اور بے نیازی کی ریت میں سرچھپا کر یہ یقین کرلیتے ہیں کہ '' سب ٹھیک ہے۔''

دیہی و شہری علاقوں میں سیلاب کے ریلے جو تباہی مچاتے ہیں وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں، بلکہ معمولی سی بارش کے دوران سڑکیں تالاب کا منظر پیش کرتی ہیں۔سیلابی ریلوں کی زد میں آنے والی یہ مجبور و بے گھر خلق خدا کی، جس نے سیلاب کے عذاب سہنے کے بعد لاچاری و بربادی کے کئی کٹھن رات دن گزارے ہوتے ہیں کوئی فریاد نہیں سنتا۔ انھیں کیمپوں میں پڑے رہنے کے باعث اپنے گھروں میں دوبارہ جانا نصیب نہیں ہوتا۔ مکانات تباہ ہوجاتے ہیں، لوگوں کی زرعی اراضی، کھیت کھلیان، روزمرہ کے کام اور کاروبار تک ملیامیٹ ہوجاتے ہیں۔ یہی وقت ان بے آسرا لوگوں کی فوری مدد اور بحالی کا ہوتا ہے ، چنانچہ فلڈ کمیشن کی سفارشات پر فوری عمل کرکے نہ صرف ریلیف مہیا کیا جاسکتا تھا بلکہ ان کی بحالی اور دیگر تعمیراتی اور معاشی ضروریات کی تکمیل بھی معیاری طریقے پر کی جاسکتی تھی۔

تاہم وفاقی ،صوبائی اورمتعلقہ محکموں کی سطح پر منصوبہ بندی سے گریز اور متاثرہ افراد اور علاقوں میں ہمہ جہتی انسانی،اقتصادی اور سماجی ریلیف کے ساتھ ساتھ نکاسی آب سمیت لوگوں کی خوراک، رہائش اور علاج معالجے کے لیے منصوبہ بندی جس بڑے پیمانہ پر فوری انتظامات کی متقاضی تھی ان پر کسی نے عمل نہیں کیا اور جو اقدامات کیے بھی گئے وہ میڈیا کا پیٹ بھرنے کی حد تک تھے۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ حقیقت ان اعدادوشمارکے برعکس ہے، پانی کے بہائوکے راستوں میںاب بھی دس دس منزلہ عمارتیںکھڑی ہیں، کچے کی زمین پر وڈیروںکا قبضہ ہے اور انھوں نے کھیت بچانے کے لیے بند باندھ رکھے ہیں۔ سوچنا چاہیے کہ یہ باتیں قیاس آرائیوں پر مبنی نہیں ،عدالت عظمیٰ کے فاضل ججز کے چشم کشا ارشادات ہیں ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کچے کے علاقے میں فصلیں توکاشت کی جاسکتی ہیں مگر تعمیرات نہیں ہوسکتیں۔ ظاہر ہے جن بااثر لوگوں نے تعمیرات کیں وہ وڈیرا شاہی اور جاگیردارانہ نظام کے علمبردار ہی ہونگے۔ غریب ہاری تو اپنی زمینیں بچانے کی فریاد کرتے رہ گئے اور بڑے زمینداروں نے سیلابی پانی کا رخ ان ہی غریب ہاریوں کی طرف موڑ کر ، پشتے توڑ کر راتوں رات بربادی کی دردناک تاریخ رقم کی۔ درخواست گزار ماروی میمن نے بتایاکہ کسی وڈیرے یا تجاوزات کرنے والے کے خلاف کوئی کارروائی نہیںکی گئی، کارروائی سے گریز انتظامی ناکامی تھی۔ ارباب اختیارکو سیلاب کی شدت اور اس کی تباہ کاریوں کا اندازہ ہوتا اور وہ دیہی اور شہری عوام کے دکھ درد کا احساس کرتے تو مجبوریوں کی اتنی تلخ داستانیں جنم نہ لیتیں۔


چیف جسٹس کا یہ انتباہ بروقت اور متاع ضمیر کا سودا کرنے والی محکمہ جاتی نوکر شاہی کے لیے خود احتسابی کا موقع فراہم کرتا ہے کہ فلڈکمیشن کی سفارشات کو اگرسنجیدہ نہیں لیا گیا تو اگلے سیلاب میں حالات خوفناک ہوسکتے ہیں جب کہ جسٹس گلزارکا کہنا تھا گزشتہ سیلاب میں سکھر شہر ڈوبنے کا خطرہ تھا اگر اقدامات نہیں کیے گئے تو یہ خطرہ حقیقت بن سکتا ہے، بندوںکے ساتھ پندرہ پندرہ منزلہ عمارتیں بنی ہیں،کیا آیندہ سیلاب میں مزید لوگ مروانے کا ارادہ ہے؟ یہ استفسارات اور مشاہدات موجودہ اور آیندہ حکمرانوں کے لیے مشعل راہ بن سکتے ہیں بشرطیکہ فلڈ کمیشن کی رپورٹ اور اس کی سفارشات پر اس کی روح کے مطابق عمل کیاجائے۔

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب جواد حسن نے رپورٹ پیش کی اور بتایا کہ کمیشن کی سفارشات پر95فیصد عمل کیا جا چکا ہے، بعض قابضین نے ہائیکورٹ سے حکم امتناعی لے رکھا ہے جس پرکارروائی نہیں ہوسکی۔ چیف جسٹس نے کہا قابضین کو حکم امتناعی نہیں مل سکتا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سیکریٹری آبپاشی سندھ کے غلط سرٹیفکیٹ سے لگتا ہے کہ آیندہ کے سیلاب میں بھی لوگوںکومروانے کی حکمت عملی وضع کرلی گئی ہے ، سندھ حکومت کی سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ ایک کلرک سے غلط گرائمر اور انگریزی کی مدد سے نوٹ بنوا کر ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کو بھجوا دیا گیا۔

حقیقت یہ ہے کہ سیلاب، سمندری طوفان،زلزلے یا دیگر قدرتی آفات بے ثبات اور عوام سے کٹی ہوئی حکمرانی کی قلعی کھولتے ہیں مگر جو زندہ متحرک اور انسانیت نواز عوامی نظام ہوتے ہیں ان کی ٹھوس بنیادوں اور انتظامی ڈھانچہ کی مضبوطی اور مربوط ادارہ جاتی سسٹم کے ہونے کا پتا چلتا ہے ۔ ایسی حکومتیں آزمائش کی گھڑی میں پورا اترنے کی کوشش کرتی ہیں کیونکہ ان کو دوبارہ عوام سے ووٹ مانگنا ہوتا ہے۔ وہ ووٹ کو مقدس امانت سمجھتے ہیں۔یہ ان کا اور عوام کے درمیان ایک عہد وپیمان ہوتا ہے۔

وہ عوام کو ریلیف مہیا کرنے کے لیے جان پر کھیلتی ہیں۔ جاپان میں مارچ 2011 ء میںسونامی آیا، اس سے پہلے اور بعد میں زلزلے آئے یا فوکوشیما میں ایٹمی پاور اسٹیشن میں دھماکے سے تباہی کا منظر دنیا نے دیکھا اس میں آنکھیں کھولنے والا سبق جاپانی حکومت، اس کے ماہرین اور عوام کی منضبط ، مربوط اور موثر امدادی کارروائیوں میں مضمر تھا۔ کوئی ہڑبونگ اور افراتفری نہیں دیکھی گئی اور چند روز میں اس سانحہ کے مضمرات اور اثرات کا پتا لگا کر معمولات زندگی بحال کردیے گئے۔

امریکا ،آسٹریلیا، کیوبا،چین، بھارت ، فلپائن، انڈونیشیا، ملائیشیا ، ہیٹی، بنگلہ دیش وغیرہ میں سیلاب آتے رہتے ہیں ، سمندری طوفان وہاں کے عوام اور حکومت کے لیے چیلنج بن جاتے ہیں، اوباما کی انتخابی مہم کے دوران امریکا میں سمندری طوفان آیا مگر نہ صدارتی انتخابات ملتوی کرنے کی کوئی قرارداد سینیٹ اور کانگریس میں پیش ہوئی نہ امریکی ریاستوں نے اوباما کا جینا دوبھر کیا، اور نہ ہی پرنٹ میڈیا یا ٹی وی چینلز نے اپنا خود ساختہ طوفان برپا کردیا کہ پہلے طوفان سے بچائو پھر الیکشن کی بات کی جائے۔لاطینی امریکا کے ملک چلی میں 13اکتوبر2010ء کو کان کنی کا اندوہ ناک واقعہ پیش آیا۔

اس سانحہ کے نتیجہ میں 33 کان کن کئی فٹ نیچے سونے اور چاندی کی کان کے ملبہ میں پھنس گئے۔ 67 دن بعد انھیں زندہ نکالا گیا،ان کے لیے دعائیں مانگی گئیں، ایک خصوصی ڈرل لفٹ (کیپسول) بنایا گیا اور ایک ایک کرکے وہ سب زندہ باہر نکالے گئے۔ اس کارروائی کی صدر نے خود نگرانی کی۔امید کی جانی چاہیے کہ ان واقعات سے حکمران عبرت اور سبق حاصل کریں گے اور سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کریں گے۔
Load Next Story