جمہوری بے حسی…

حالیہ کراچی سانحے میں جمہوریت کی روح رواں حکمران جماعت کی رکن کا بھی نقصان سامنے آیا

قارئین بغیر تمہید کے آغاز کرونگی کہ اب وہ کونسے حالات و واقعات رونما ہونگے جس کے وقوع پذیر ہونے پر میرے وطن کے نام نہاد جمہوری حکمرانوں کو اپنی نا اہلی کا احساس ہوتے ہوئے ذرا سی دیر کو ہی سہی خفت کا احساس تو ہوگا۔ ماضی کے روشنیوں کے شہر آج کے موت کے نگر 'کراچی' میں ایک مرتبہ پھر قیامت برپا ہوئی ایک مرتبہ پھر مقامِ افسوس ہے کہ اپنے گھر میں مقیم افراد قبر کے مکین بن گئے۔

بحیثیت پاکستانی اور کراچی کی شہر ی میرا سوال ہے رحمٰن ملک سے کہ محترم کمیونیکیشن سگنلز پر، موٹر سائیکلز پر پابندی عائد کرنے سے دہشتگردی تو نہیں رکی اب کیا گھر میں بھی رہنا چھوڑ دیں، شاہراہوں پر آنا جانا چھوڑ دیں؟ حالیہ کوئٹہ واقعے میں جس طرح معصوم ثنا اپنے باپ کو یاد کر کے آج بھی روتی ہے کل اسی طرح کا منظر میرے شہر میں بھی پیش آیا ایک کمسن بچہ اپنے والد کی تصویر لیے حالت غم میں دریافت کر رہا تھا میرے بابا کہاں ہیں؟ اس منظر کو دیکھ کر نہ صرف میری بلکہ ہر انسان کی روح کانپ گئی واضح رہے' ہر انسان کی' کیونکہ میرے شہر میں اگر قیامت کا یہ منظر تھا تو شادیانے بھی بج رہے تھے۔

آپ سب جانتے ہیں کہ مہٹہ پیلس میں روشنیوں کا راج تھا جب کہ عباس ٹائون میں ہر شخص اشک بار تھا ہر آنکھ خون روتی رہی مگر 'نام نہاد جمہوریت' کے کان پر جوں نہ رینگی کیونکہ منگنی تو کبھی کبھی ہوتی ہے جب کہ لوگ تو روز ہی مرتے ہیں۔ شاید یہ ہی ہے جمہوریت کا اصل حسن یا پھر ریاستی عہدیدار اس کو بھی جمہوریت کے خلاف سازش قرار دیدیں گے، کیونکہ میرے وطن میں اس جمہوری دور میں الزامی سیاستAllegation Politics نے بہت فروغ پایا ہے۔

حالیہ کراچی سانحے میں جمہوریت کی روح رواں حکمران جماعت کی رکن کا بھی نقصان سامنے آیا جس کا ہم سب کو بہت افسوس ہے غالبا اسی لیے ِوطن کا پرچم سرنگوں بھی ہے کیونکہ حکمرانوں کے اپنے ذاتی اندازے کے مطابق ان 5 سالہ دور حکومت میں وطن کی سر بلندی کے بہت امور سر انجام دیے ہیں۔ شاید اسی لیے اس واقعے پر پرچم ِپاک کو سرنگوں کر دیا گیا جب کہ ناچیز کو یاد نہیں پڑتا کہ ان 5 سالہ 'جمہوری اقتدار ' میں کوئی ایک کام بھی پرچم ِپاکستان کی سر بلندی کا باعث بنا ہو۔ گرچہ اُن محترمہ کے غم میں ہم سب برابر سے شریک ہیں مگر میں کیسے بھول جائوں حکمران جماعت کی Victim politics کو؟ میرے ہم وطنوں کو سب یاد ہے دعا یہ ہے کہ الیکشن کے دنوں میں بھی یاداشت فعال رہے( آمین )

چلیں ذرا اور تلخ 'عذابِ ماضی' یاد کرتے ہوئے یہ دعا کرتے ہیں کہ حافظہ سلامت رہے ایک مرتبہ پھر آمین کہتے ہوئے آتے ہیں موضوع کی جانب قارئین اگر ہم راجہ صاحب سے پہلے کا دور ہی یاد کریں تو وہ وہ مناظر سامنے آتے ہیں جن کی تکلیف کو محسوس کرتے ہوئے مجھ سمیت کتنے ہی محب وطن موصوف کو شایان شان خطاب دینا نہیں بھولتے۔ ناچیز جب 18 فروری 2008ء سے ابتک کے واقعات درجہ بہ درجہ یاد کرتی ہے تو خدا کی قسم اُس دردمند پاکستانی کی اس آہ کی تصدیق ہو جاتی جو کچھ یوں تھی 'پاکستان کا اللہ حافظ' جس ملک میں ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی گردن پر چُھری پھیر کر نماز کی ادائیگی کر ے اُس ملک کا کیا ہو گا ؟؟؟


کچھ بھی غلط نہیں ہے اس آہ میں فقط بے بسی ہے ملال ہے اور دردِ پاکستان ہے کیا بے حسی ہے ایک ہی وقت میں ایک ماں اپنے بیٹے کو رو رہی ہے جب کہ ایک ماں اپنی بیٹی کی نئی زندگی کی ابتدا ء پر اُسے دعائوں سے نواز رہی ہے مجھے اُس ماں سے کوئی شکوہ نہیں، مجھے دہشگردوں سے بھی کوئی شکایت نہیں میں تو اپنے رہبروں کی بے حسی پر پُرملال، سراپا ِسوال ہوں۔ بدامنی و بدعنوانی کے علاوہ اور کہیں بھی حکومت کی وِل نظر نہیں آتی، اگر 'کوئی' ادارہ از خود نوٹس لے بھی لے تو تاریخ پر تاریخ کی خبریں تو نگاہ ِخاکسار سے گزرتی ہیں مگر گرفتاریاں نظر نہیں آتیں اور اگر قسمت سے 'کوئی' گرفتار بھی ہو جائے تو اگلی خبر 'باعزت بری' ہونے کی یا جیل میں پولیس کو یرغمال بناتے ہوئے 'باعزت فرار' ہوتے قیدیوں کی!

انصاف کا منہ چڑاتی نظر آتی ہیں۔ یہ بھی کیا عجب بے بسی کی مثال ہے کہ قوم منتظر افواج ہے اور راولپنڈی خاموش ہے! آج بھی قوم کے دل میں اپنی فوج کی بے حد محبت موجود ہے مگر میں یہ سوچ کر ڈر جاتی ہوں اگر یہ ہی حالات رہے اور فوج کی محبت لفظ 'محبت' کی متضاذ ہو گئی تو۔۔۔ تو کیا ہو گا؟ مجھے اپنے قوم کے بیٹوں پر یقین ہے کہ اس کا اندازہ اُنھیں بھی ہو گا یقینا راولپنڈی بھی اس صورتحال کو دیکھ کر ناچیز سے کہیں زیادہ بے چین ہو گا! میں مان ہی نہیں سکتی کہ دوسرے ممالک میں پرچم امن بلند کرنے والے غیور نوجوان اپنے ہی وطن میں بے بس ہو جائیں۔

جمہوریت کے اس عظیم و شان بے حس دور میں ناچیز اپنے محدود علم کے مطابق جو بھی لمحہ یاد کرتی ہے باخدا درد سے بلبلا اُٹھتی ہے زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں کیونکہ مہنگائی، بدعنوانی، قتل و غارتگری، تعلیم، اور مہٹہ پیلس جگمگا رہا تھا بظاہر نظر آنے والے وزیر اعلی سندھ نے منگنی کی تقریب سے فراغت کے بعد (بڑی مشکل سے وقت نکل کے) عباس ٹائون کے متاثرین کے لیے اپنی ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے ملکی خزانے سے امداد کا اعلان کر دیا۔ واضح رہے 'اعلان کر دیا' اور گورنر سندھ نے ہر واقعے کی طرح اس واقعے کی بھی سختی سے مذمت کرتے ہوئے آئی جی سندھ سے برہمی کے ساتھ رپورٹ طلب کر لی یہ بھی' عجب کرپشن کی غضب کہانی ہے' کہ جناب جس سیاسی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں وہ الیکشن سے چند روز قبل ہی حزب اختلاف کا حصہ بنی ہے جب کہ رکنِ پارٹی گورنر ہائوس میں براجمان ہیں، یہ پارٹی نئی نویلی دلہن کی طرح جھوٹ موٹ کا روٹھتی ہے اور پھر مان جاتی ہے۔۔۔۔۔ !!

خیر میں اس سے زیادہ نہیں لکھنا چاہتی کیونکہ میں جس شہر کی رہائشی ہوں وہاں 'بوری' بہت سستی ہے آخر میں حکمران جماعت کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرنا چاہونگی کیونکہ ان 5 سالہ اذیت ناک دور میں اُنھوں نے یہ واضح کر دیا کہ 'جمہوریت' ہے کس چڑیا کا نام ہے؟ اگر واقعی ان خون آشام لمحات کو 'جمہوریت' کہتے ہیں تو ایسی جمہوریت سے عوام کا کیا لینا دینا! حالانکہ میں جانتی ہوں کہ کسی بھی ملک کے بہترین مستقبل کے لیے جمہوریت معاون کردار ادا کرتی ہے مگر ایک مرتبہ پھر کہونگی کہ میں کیسے بھول جائوں مائوں، بہنوں اور یتیم بچوں کے بین! اس دعوتِ فکر کے ساتھ اجازت چاہونگی کہ ایک بار موازنہ کریں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی نام نہاد جمہوریت اور سیکولر ریاست کی حقیقی جمہوریت کا جہاں 40 بچوں کی ہلاکت پر صدر جذبات پر قابو نہیں رکھ پاتا ہے جب کہ میرے وطن میں آئے دن کے دھرنوں میں قوم کا مستقبل Am I next ? کا پلے کارڈ اُٹھایا ہوتا ہے ذرا سوچیں! حقیقی جمہوریت کہاں ہے؟

اس دعا کہ ساتھ ناچیز اجازت چاہے گی، خدا پاکستان کو سلامت رکھے اس کی وسعتوں میں اضافہ کرے (آمین)
Load Next Story