عورتوں کی جدوجہد
امریکا اور یورپ میں عورت کے حق میں جتنے نعرے لگائے جاتے ہیں ہوتا اس کے برعکس ہی ہے
تقریباً ایک صدی قبل 1908میں نیویارک میں کپڑا بنانے والی ایک فیکٹری میں مسلسل دس گھنٹے کام کرنے والی خواتین نے اپنے کام کے اوقات کار میں کمی اور اجرت میں اضافے کے لیے آواز اٹھائی تو ان پر پولیس نے نہ صرف لاٹھی چارج اور وحشیانہ تشدد کیا بلکہ ان کو گھوڑوں سے باندھ کر سڑکوں پر گھسیٹا گیا، اس ریاستی جبر و تشدد کے خلاف خواتین کی مسلسل جدوجہد اور لازوال قربانیوں کے نتیجے میں 1910ء میں کوپن ہیگن میں خواتین کی پہلی عالمی کانفرنس ہوئی جس میں 17 سے زائد ممالک کی 100 کے قریب خواتین نے شرکت کی، اس کانفرنس میں عورتوں پر ہونے والے ظلم و استحصال کے خلاف عالمی دن منانے کا فیصلہ کیا گیا۔
پہلی جنگ میں 20 لاکھ روسی فوجیوں کی ہلاکت پر خواتین نے ہڑتال کی تب سے یہ دن ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں عالمی حیثیت اختیار کر گیا لیکن 1956ء میں سیاہ فام مزدوروں پر پابندی کے خلاف نیویارک میں 20 سے زائد خواتین نے بڑے پیمانے پر مظاہرہ کیا۔ میکسیکو میں 1975ء میں بہت بڑے پیمانے پر ایک کانفرنس ہوئی جس میں 4000 خواتین نے حصہ لیا اور آنے والے دس برسوں میں خواتین سے ہونے والے تمام اقسام کے امتیازی سلوک کے خاتمے کا لائحہ عمل تیار کیا گیا اور 8 مارچ کو اقوام متحدہ نے خواتین کا عالمی دن مقرر کر دیا۔ اس سب کے باوجود بھی خواتین کے ظلم میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ جب کہ مسلم دنیا میں خواتین پر ریاستی تشدد کی اتنی بدترین مثال آج تک نہیں پائی گئی کہ خواتین نے اس کے خلاف اتنے بڑے پیمانے پر آواز اٹھائی ہو یا ہڑتال کی ہو۔ یہ بات ماننی پڑے گی کہ مسلم معاشرہ جتنا بھی گیا گزرا ہو، عورت کو اس حد تک نہیں گراتا، نہ گرنے دیتا ہے۔
امریکا اور یورپ میں عورت کے حق میں جتنے نعرے لگائے جاتے ہیں ہوتا اس کے برعکس ہی ہے، حقوق نسواں کا شور اور ہنگامہ برپا کرنے والے معاشروں کا یہ دوغلا پن کسی تفصیلی بحث کا مرہون منت نہیں ہے، اس شعور کا اصل مقصد تو یہ ہے کہ عورت ایسے معاشرے میں بھی سکون سے کیوں رہے جہاں اسے فکر معاش سے کسی قدر ہی سہی، آزادی حاصل تو ہے۔ امریکا اور باقی ترقی یافتہ ممالک میں خواتین نے اپنی آزاد انسانی حیثیت کے لیے جدوجہد کی قابل تحسین تاریخ رقم کی ہے، ایک طویل لڑائی کے بعد ہی وہاں خواتین ثقافتی، سماجی اور سیاسی اہمیت اور بہتر درجہ حاصل کرنے میں کسی حد تک کامیاب ہوئی ہیں۔
لیکن اب بھی وہاں بڑے پیمانے پر صنفی بنیادوں پر تفریق موجود ہے جس کی بڑی مثال صنفی بنیادوں پر اجرتوں کے فرق کا ہونا ہے اگر وہاں خواتین گھریلو ذمے داریوں سے آزاد ہو کر معاشرے میں کام کر رہی ہیں تو وہاں معاشی ترقی اور انفرا اسٹرکچر کی بہتری کی خواہش کو ان تمام گھریلو مشترکہ سماجی ذمے داریوں میں تبدیل کر دیا ہے۔ تعلیم، صحت، بچوں کی نگہداشت کے لیے ڈے کیئر سینٹر، اجتماعی لانڈریاں وغیرہ کا وجود در آیا، ان کے بغیر یہ آزادی ممکن نہ تھی۔ حالانکہ عورت بحیثیت مجموعی انسانیت کا نصف اور معاشرے کا وہ ناگزیر عنصر ہے جس کی گود قوموں کی پرورش کرتی ہے۔
جب کہ حقیقی معنوں میں وہاں کی عورت کو اپنے ''عورت پن'' سے محروم ہوئے صدیاں بیت گئیں۔ یورپی معاشروں میں بھی عورت کا استحصال مشرق کی مانند ہی ہے، لیکن مشرق میں صنفی امتیاز کے تناظر میں عورتوں کو ایک کمتر مخلوق کا درجہ دیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ یہاں کا معاشرہ مرد پرور ہے اور مردوں کی اسی استحصالی سوچ کی وجہ سے عورتوں کو وہ حیثیت نہیں دی جاتی جس کی وہ مستحق ہیں۔ حالانکہ اسلام میں جتنا حق خواتین کو دیا گیا اس کا تصور بھی کسی اور معاشرے میں نہیں۔ وراثت میں کئی طرفہ حقوق اسے مالی طور پر مضبوط بناتے ہیں۔
مالی مضبوطی طاقت و سرخوشی ہے دنیا میں سب سے زیادہ امیر خواتین کا تناسب ایک مسلم ملک میں ہی پایا جاتا ہے جہاں مکمل اسلامی قانون ہے۔ لیکن رونا تو یہی ہے کہ مذہب اسلام کی جانب سے عورتوں کو دی جانے والی اس آزادی کو مرد پرور معاشرے نے سلب کرلیا ہے اور عورتوں کے حقوق کا استحصال ہر جانب دیکھنے میں آتا ہے۔ اگر بات تشدد کی ہے تو وہ ہر جگہ یکساں موجود ہے، امریکا میں ہر 6 منٹ کے بعد ایک عورت زیادتی کا نشانہ بنتی ہے۔ آج تیسری دنیا کو تعلیم اور شعور کی کمی کی بنا پر جن مسائل کا سامنا ہے ترقی یافتہ ممالک بھی انھی مسائل سے دوچار ہیں۔
مسلم ممالک میں حقوق نسواں کا نعرہ لگانے والی زیادہ تر وہ تنظیمیں ہیں جو اغیار کے بتائے ہوئے راستے پر انھی کے دیے ہوئے ایندھن کے زور پر اندھا دھند دوڑ رہی ہیں اور ان کے دیے ہوئے نعرے بلند کر رہی ہیں اور مسلم دشمن عناصر کے ہاتھ مضبوط کررہی ہیں۔ لیکن ان مفاد پرستانہ تنظیموں کے درمیان پاکستان میں چند ایک تنظیمیں ایسی بھی ہیں جو اپنی اسلامی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے نام نہاد آزادی کے بجائے صرف عورتوں کے حقوق اور ان کے استحصال کے خلاف اور مقامی طور پر پسماندہ عورتوں کی فلاح و بہبود اور ترقی کے لیے کام کررہی ہیں۔ النساء ویلفیئر فائونڈیشن بھی ایک ایسی ہی تنظیم ہے جو گزشتہ کئی سال سے اندرون سندھ عورتوں کی فلاح و بہبود اور ناخواندہ خواتین کی آگاہی کے لیے اپنے بل بوتے پر خدمت کے عمل میں مصروف ہے اور اپنی اسلامی اقدار کو برقرار رکھتے ہوئے غیروں کی مالی امداد اور ان کے وژن کو پھیلانے کے بجائے مقامی لوگوں کے تعاون سے فلاحی کاموں میں مصروف ہے۔
مغربی امداد پر پلنے والی نام نہاد خواتین تنظیموں نے پاکستان میں بے لوث اور مخلصانہ کام کرنے والی ان حقیقی فلاح و بہبود کی تنظیموں کے روشن چہرے بھی دھندلا دیے ہیں اور عمومی طور پر این جی اوز کا نام سامنے آتے ہی لوگ یہ تصور کرتے ہیں کہ یہ تنظیمیں فلاحی کاموں کے بجائے صرف فنڈز کی لوٹ مار اور اپنے مقاصد کے حصول کے لیے روبہ عمل ہیں۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے، پاکستان میں اب بھی کئی لوگ مقامی سطح پر اپنے اپنے دائرے میں رہتے ہوئے مخلصانہ کوششیں کررہے ہیں، ان لوگوں کا نام کبھی اخبار کی زینت نہیں بنتا نہ ہی میڈیا اور دیگر پلیٹ فارم پر یہ اپنے 'نیک کاموں' کا چرچا اور واویلا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
ان لوگوں کے مطمع نظر صرف نیکی اور پاکستان کی ترقی ہے، ذاتی مفادات اور حرص و طمع سے دور پاکستان کے یہ گمنام لوگ یقیناً لائق ستائش ہیں جو اپنی بساط بھر کوششوں سے انسانیت کا نام زندہ رکھے ہوئے ہیں، ورنہ اس پرفتن دور میں جہاں بے حسی و مطلب پرستی نے اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں حقیقی ضرورت مند اپنے درد کے درماں کے لیے کسی ''حقیقی مسیحا'' کے متلاشی رہتے ہیں اور مفاد پرستانہ ٹولہ حقوق اور امداد کے نام پر استحصال کا ایک نیا محاذ کھولے رکھتے ہیں۔
پاکستان میں جہاں دیگر قوانین کی پاسداری نہیں کی جارہی اسی طرح این جی اوز اور فلاحی کام کرنے والی نام نہاد تنظیموں کے 'چیک اینڈ بیلنس' کا موثر انتظام بھی نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ ہمیں مختلف سطح پر فلاحی کاموں میں بھی کرپشن کا در کھلا دکھائی دیتا ہے، کبھی زلزلہ و سیلاب کے متاثرین کے نام پر لوٹ مار کی جاتی ہے تو کبھی وبائی امراض میں مبتلا اور معذوروں کے حق پر ڈاکا ڈالا جاتا ہے۔ مغرب کی پروردہ اور ان کے ایجنڈے کو لے کر چلنے والی این جی اوز کے ذریعے نام نہاد ترقی کے نام پر خواتین کو گھروں سے باہر نکالا جارہا ہے، عورت کی سب سے محفوظ پناہ گاہ اس کا گھر ہوتی ہے، عورتوں کو اس چار دیواری سے باہر تو لایا جارہا ہے لیکن معاشرے کے ماحول کو عورت کے لیے موزوں نہیں بنایا جارہا۔
جب کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس مرد پرور معاشرے کی سوچ کا دھارا تبدیل کیا جائے، عورتوں کو اپنے حقوق کی آگاہی دینے کے ساتھ مردوں کی سوچ کو بھی بدلا جائے تاکہ خواتین اگر اپنی ضرورت کے تحت گھر کی چار دیواری سے باہر نکلیں تو خود کو غیر محفوظ نہ سمجھیں۔ اپنے ہر عمل سے ثابت کیجیے کہ ہم باوقار مسلم معاشرے کے فرد ہیں اور اسلامی تربیت کے باعث اپنے اور دوسروں کے حقوق کا ادراک رکھتے ہیں۔
(نوٹ:مضمون نگار اندرون سندھ میں النساء ویلفیئر فائونڈیشن کی فائونڈر چیئرپرسن ہیں)