کوئی اچھی خبر اِس قوم کا مقدر بنے

دنیا ہم پر ہنس رہی ہے کہ ہم ایک کیسی قوم ہیں کہ جسے اپنے بہتر اور روشن مستقبل کی کوئی فکرلاحق نہیں۔

mnoorani08@hotmail.com

عرصہ ہو گیا لوگوں نے اپنے وطن ِ عزیز سے متعلق کوئی اچھی خبر نہیں سنی۔ ہر روز اِک نیا غم، اِک نیا دکھ اور اِک نئی آفت ہمارے دلوں کو، ہمارے ذہنوں کو افسردہ اور غم زدہ کرنے کے لیے ہماری دہلیز پر آ دھمکتی ہے۔ صبح سویرے سے یہ خوف دلوں کو بے چین وبے قرار کیے رہتا ہے کہ شام سے پہلے کوئی بُری خبر ہمارے کانوں سے ضرور ٹکرائے گی اور سارے ماحول کو کسی شامِ غریباں کی مانند کشیدہ اور ماتم کدہ بنا کے رکھ دے گی۔ زمانہ ہوا ہماری کسی صبح نو سے خوشی اور مسرت کی کوئی کونپل نہیں کِھل پائی ہے۔

ہمارے بختِ سیاہ کے بطن سے خوش بختی کی کوئی کرن ہی نہیں پھوٹ پائی ہے۔ ہر دن مایوسیوں اور نا اُمیدیوں کے گمبھیر اندھیروں کے سائے لیے طلوع ہوتا ہے۔ من حیث القوم ہماری غیرت و حمیت، انا و خودی اور اخلاقیت کا جنازہ تو بہت پہلے ہی نکل چکا تھا مگر اب بے حسی لاپرواہی اور بے اعتنائی بھی ہماری اجتماعی نفسیات کے سانچے میں ڈھل چکی ہے۔ قتل چاہے کوئٹہ میں ہو یا کراچی میں ہم چند روز اُس پر آہ و بکا بلند کرتے ہیں پھر وہی تغافل، بے نیازی اور خرمستیوں کا شکار ہو کر بھول جاتے ہیں۔ لاقانونیت اور ظلم و بربریت کا کوئی بڑے سے بڑا واقعہ بھی ہمارے سوئے ہوئے ضمیر کو جگا نہیں سکتا۔

مجھے آج ایک معروف کالم نگار کا وہ کالم یاد آ رہا ہے جس میں اُنہوں نے جناب حکیم محمد سعید کے قتل کے بعد اُن کی تدفین کے موقعے کو بڑے فکر انگیز اور سبق آموز انداز میں تحریر کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ حکیم محمد سعید کی شہادت کے بعد اُن کے بھائی جناب یونس دہلوی بھی خاص کر جنازے میں شرکت کی غرض سے دہلی سے کراچی تشریف لائے تھے اور فرطِ غم و جذبات سے متاثر ہو کر بے اختیار حکیم محمد سعید کے جسدِ خاکی سے براہِ راست مخاطب ہو کر فرمانے لگے کہ اے میرے بھائی تم اکثر مجھے پاکستان ہجرت کرنے کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کو امن و آشتی کا گہوارہ قرار دیتے ہوئے یہاں مکمل رہائش اختیار کرنے کی درخواست کیا کرتے تھے کہ کیا ہندؤں کے دیس کربلا میں پڑے ہوئے ہو یہاں آ جاؤ، یہاں تمہیں خلوص و محبت، امن و سکون اور اسلامی بھائی چارہ ملے گا۔

میں یہاں نہیں آیا لیکن دیکھو تم اپنے ہی لوگوں کے درمیان اپنے ہی بھائیوں کے ہاتھوں مدینے میں بھی محفوظ نہیں رہے اور میں کربلا میں بھی زندہ اور محفوظ ہوں۔ تم جس زمین کو امن و آشتی کا گہوارہ سمجھا کرتے تھے وہاں بھائی بھائی کو قتل کر رہا ہے۔ یہاں مسجدیں اور امام بارگاہیں بھی محفوظ نہیں رہیں تو انسانی خون کی کیا قدر و قیمت رہ گئی ہے۔ یہ صورتحال کم از کم ہندوستان میں تو نہیں ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جو ہمیں انتہائی افسردہ اور شرمندہ کر دیتی ہے کہ ہم نے ایک آزاد وطن اِس لیے حاصل کیا تھا کہ اپنے ہی لوگوں کا خون بہا کر اپنے غصے و اشتعال کو اور اپنے سلگتے ہوئے جذبات و احساسات کو ٹھنڈا کیا کریں گے۔ ہمارا ایک الگ وطن کا مطالبہ اور دو قومی نظریہ ہماری اِن ہی حرکتوں اور کرتوتوں کی بدولت اپنی اساس اور اہمیت کھوتا جا رہا ہے ۔


دنیا ہم پر ہنس رہی ہے کہ ہم ایک کیسی قوم ہیں کہ جسے اپنے بہتر اور روشن مستقبل کی کوئی فکرلاحق نہیں۔ کوئی اجتماعی شعور، بالغ نظری اور دور اندیشی ہماری قومی سوچ کا مظہر نہ بن سکی۔ قائدِ اعظم کے بعد ہمارے یہاں کوئی لیڈر بھی قوم کو متحد و منظم نہ کر سکا۔ ہر ایک نے لسانی، علاقائی و صوبائی و فروعی اختلافاف کو ہوا دینے کی کوشش کی۔ ہم آج دانستہ طور پر اجتماعی زوال و پستی کے طرف دھکیل دیے گئے ہیں۔ مذہبی جنونیت اور منا فقت نے ہمیں ٹکروں میں تقسیم کر دیا ہے۔ لیکن کسی کو پرواہ نہیں۔

سب اپنے ذاتی مفادات کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ حکمران ہر مسئلے کو طالبان کے سروں پر ڈال کر بڑی آسانی سے اپنا دامن جھٹک لیتے ہیں اور ایک صاف و شفاف اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کروانے کے بجائے عجیب و غریب ٹیٹو کے نشان والے افراد کو اسلامی دہشت گرد قرار دیکر مذہب سے اپنے دلوں کی پُرخاش اور رنجش کو بھی ٹھنڈا کر لیتے ہیں۔ ہمارے اکابرین کی یہی سوچ اور اندازِ فکر معاملے کو اور بھی فتنہ انگیز اور متنازع بنانے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے اور ساری قوم کو مختلف گروہ بندی اور فرقہ واریت کی طرف مائل ہونے پر مجبور کر رہا ہے او ر جو نتیجتاً بڑے پیمانے پر علماء دین کے قتل و ہلاکت کا بھی باعث بن رہا ہے۔

قطع نظر اِس کے کہ اُن کے اِس طرز عمل سے وہ اپنی اِس قوم کا کتنا بڑا نقصان کر رہے ہیں وہ صرف اپنے ذاتی مقاصد اور مکروہ عزائم کی تکمیل کو اپنی ترجیحات میں شامل کیے ہوئے ہیں۔ ہم آنے والے ملکی الیکشن کو بھی اِسی مذہبی منافرت اور فرقہ واریت کی نظر کر دینا چاہتے ہیں۔ اپنی اِن درپردہ خواہشوں اور حسرتوں کی آبیاری کے لیے ہم ہر غیر مناسب اور ناجائز قدم بھی اُٹھا لینے میں کوئی شرم و حیا محسوس نہیں کرتے خواہ جس کے نتائج کتنے ہی بھیانک کیوں نہ ہو۔

اپنی اِس تباہی کی ذمے داری ہم کس پر ڈالیں۔ دہشت گردی کے بین الاقوامی جنگ جنہوں نے شروع کی تھی اُن کے اپنے شہری، گھر اور محلات تو محفوظ رہے لیکن ہمارا وطنِ عزیز تباہ برباد ہو گیا۔ دس سالہ اِس معرکا آرائی کا نتیجہ ہماری معاشی، اقتصادی اور اخلاقی و معاشرتی زوال و پستی کے سوا کچھ نہ ملا۔ ہمارا ازلی دشمن بھارت افغانستان کے راستے ہمارے علاقوں تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکا ہے اور ہمارے حکمران اپنی آنکھیں بند کیے صرف ایک ہی رٹ لگائے بیٹھے ہیں کہ اِس تمام واقعات کی ذمے دار کالعدم تنظیمیں ہیں۔

واقعہ خواہ محترمہ بے نظیر کے قتل کا ہو یا کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کا ہو یا کوئٹہ میں خون ریزی کا سب کی کڑیاں بقول وزیرِ داخلہ تحریک ِ طالبان سے جا ملتی ہیں۔ ہم ابھی اپنے معاشی بحران سے نکل بھی نہ پائے تھے کہ دہشت گردی کی اِن واقعات نے سارے ملک کی فضا کو مکدر کر کے رکھ دیا ہے۔ قوم سیاستدانوں، مذہبی لیڈروں، قوم پرستوں اور انقلاب کے داعیوں کے بیچ کھڑی عجب شش و پنج میں مبتلا ہے کہ کو ن صحیح ہے اور کون غلط۔ سب کی الزام تراشی اور بیان بازی سے اُن کا اپنا کاروبارِ سیاست تو خوب چل رہا ہے لیکن ملک و قوم کی حالتِ زار انتہائی مخدوش اور مضمحل ہو چکی ہے۔
Load Next Story