انتخابی عمل اور عوام …

عوام کو بھی اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے حق رائے دہی کا استعمال سوچ سمجھ کر کریں۔


S S Haider March 06, 2013

انتخابی عمل سے قبل ہی انتخابات کے مخلصانہ اور منصفانہ ہونے کی سوچ عوام کے ذہن میں ڈالی جا رہی ہے۔ اگر پاکستان کی تاریخ کے گزشتہ انتخابات کا جائزہ لیا جائے تو کوئی الیکشن ایسا دکھائی نہیں دیتا جسے حقیقی معنوں میں منصفانہ اور شفاف قرار دیا جا سکے۔ جب ماضی میں کبھی ایسا عمل ممکن نہ ہو سکا تو اب کیا ہو گا؟ صرف بڑی بڑی باتیں ہی دہرائی جاتی ہیں، حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے۔

سیاست میں دو نظریے سامنے ہیں، کسے صحیح اور کسے غلط تصور کیا جائے فیصلہ عوام خود کریں۔ اول تو عوام وہی لوگ تصور کیے جاتے ہیں جو پارٹی یا تنظیم کے کارکن ہوا کرتے ہیں، عام شہری کب عوام کہلاتے ہیں؟ ہاں جب انتخاب کا بگل بجنے لگتا ہے اس وقت عام شہریوں کے پاس کارکن اور رہنما حضرات کی دوڑ لگتی ہے پھر عوام یاد آتے ہیں اور ان کی چوکھٹ پر حاضری کی دوڑ دیکھیے، رہنما بمع کارکن حاضری دینا شروع کر دیتے ہیں کیونکہ ''ووٹ بینک'' پورا کرنا ہے۔ یہی تو ہوتا آیا ہے۔ ماضی میں ہونے والے تمام انتخابات ''بدنظمی'' اور غیر منصفانہ طریقہ کار پر مبنی ہیں۔

شفاف انتخابی عمل ممکن نہ ہو سکا ''درپردہ مفاد حائل تھا'' اس بار کیا اور کیسا عمل ہو گا اور اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا یہ کہنا قبل از وقت ممکن نہیں۔ موجودہ صورت حال کے پیش نظر کرپشن کے عمل میں جس طرح قومی وسائل کو بے جا مفاد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، اس سے ملک کی بنیاد ہی ہل کر رہ گئی ہے۔ ملک اس وقت سنگین بحران سے دوچار ہے۔ موجودہ سیٹ اپ میں قیادت اور اونچے درجے کے پارٹی رہنماؤں کی ذمے داری ہے کہ وہ ہر سطح پر ''شفافیت'' اور ''میرٹ'' کو فروغ دیں تا کہ بدعنوانیوں اور غیر دیانت دارانہ عمل سے نجات ممکن ہو سکے اور نظام کی تبدیلی پر توجہ ضروری امر ہے تا کہ انتخابی عمل کو حقیقی عملی جامہ پہنایا جا سکے۔ یہ اقدام قیادت و دیگر کی اولین ترجیح ہونی چاہیے، جب ہی انتخاب منصفانہ اور مخلصانہ ہو سکتا ہے۔

عوام کو بھی اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے حق رائے دہی کا استعمال سوچ سمجھ کر کریں۔ ماضی کے سیاستدانوں کی زندگی و طرز عمل کا جائزہ لیں، بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح، لیاقت علی خان ان کے طریقہ کار اور سیاسی پہلو پر نظر ڈالیں اور اس کا موازنہ آج کی سیاست سے کریں تو دودھ کا دودھ، پانی کا پانی ہو جائے گا۔ اصول شرع کے ماتحت اگر انتخابی عمل ہو تو انتخابات ''شفاف'' ماحول میں ممکن ہو سکتے ہیں۔ ویسے تو موجودہ صورت حال میں سیاست کا کھیل ہر سطح پر کھیلا جا رہا ہے، کوئی پانی پر سیاست کر رہا ہے تو کوئی تیل پر، کوئی اشیاء خوردنی پر تو، کوئی گیس و بجلی پر۔ گو کہ ہر اعتبار سے ایک دوسرے سے بڑھ کر نت نئے سیاسی پہلو کا ڈنکا بجایا جا رہا ہے، یہاں تک کہ سیاسی کھیل ملزم ، مجرم اور وکلاء کے مابین بھی کھیلا جانے لگا۔ ایسے خود غرض سیاسی کھیل سے اجتناب برتنے کی ضرورت ہے۔

عوام کو بھی سوچنا چاہیے کہ وہ اپنے قیمتی حق رائے دہی کے ذریعے جنھیں اپنا نمایندہ چن رہے ہیں ان کی سیرت، کارکردگی، اخلاق حسنہ آپ کے (عوام) حق رائے دہی کی منشا کے عین مطابق ہے یا نہیں۔ ضروری ہے کہ سوچ سمجھ کر انتہائی عادل و قانع شخصیت کا انتخاب عوامی عمل سے ہونا چاہیے جو عوام کا محبوب ہو اور وہ عوام کو اپنا محبوب رکھتا ہو۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نا اتفاقی کے تسلسل کو مل بیٹھ کر فیصلہ کن بنایا جائے تا کہ خلش و بدگمانی کا جو زور ابھر آیا ہے اسے ہموار بنایا جا سکے۔ عقلمندی، دانشمندی، دیانتداری، فرض شناسی و یکجہتی وقت کی اہم ذمے داری ہے۔

یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ عوامی حق رائے دہی سے انتخابی عمل میں کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہونے والوں کے پاس اقتدار ''امانت'' ہے اس میں خیانت نہ کی جانی چاہیے۔ ملک کی تاریخ کا اگر جائزہ لیا جائے تو دیکھا جائے گا کہ ماضی میں اقتدار پر قابض ہونے والے امیدوار آئے تو، پر انھیں مختلف دشواریوں کا سامنا رہا، جو ظاہر کرتا ہے کہ ایسے 'قابضین' کبھی بھی جمہوریت کے علمبردار نہیں رہے۔ اب آنے والے انتخاب میں کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہونے والوں سے امید کی جاتی ہے کہ پاکستان کی مضبوطی کا ایک نیا ''باب'' سامنے آ سکتا ہے بشرطیکہ آنے والے ''مخلص'' ہوں، پھر مسائل کے حل کا راستہ تلاش کرنے میں آسانی ہو گی، لہٰذا اعمال کو منظم، مرتب و مضبوط کرنے کا یہ اہم ترین عمل انتخاب پر گہرے غور و فکر کی ضرورت ہے۔

سوچنے کی ضرورت ہے کہ وقت کے ساتھ زندہ رہنے کے لیے اپنے اندر کے نظام کو ولولے و جستجو کے مساوی سانچے میں ڈھال کر وقت کی رفتار سے اپنے آپ کو ''ہم آہنگ'' رکھنے کے لیے بھی ضروری ہو گا کہ وقت کی رفتار سے قدم بڑھا کر ہر وہ کام انجام دیا جائے جو ''جائز'' اور ملک کی سلامتی و بقا اور عوامی فلاح و بہبود کے لیے ہو، یہ بھی دھیان میں رکھا جائے کہ وقت کا ہم سے کیا تقاضا ہے۔ موجودہ صورت حال میں ''مفاد'' سب پر اثر انداز ہوتا نظر آتا ہے، اسے کیسے دور کیا جائے گا تا کہ حالات کی بہتری ممکن ہو سکے۔ مثبت سوچ کی ضرورت ہے جذباتی و منفی سوچ کو ذہن کے گوشے سے نکال پھینکنا ہو گا، اگر ایسا کر لیا تو وہ مسائل جو ہم پر حاوی ہیں خود بخود پایہ تکمیل کو پہنچ جائیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں