روسی انقلاب
یہ انقلابی عمل مختلف اشکال میں ڈھائی برس جاری رہا اور بالآخر ناکامی سے دوچار ہوا۔
جماعت ہی لوگوں کو تنظیم مہیا کرتی ہے اور استحصالیوں سے نجات اور بہتر زندگی کے لیے کشمکش کے طور طریقوں کا علم بھی۔ یہ الفاظ تھے کارل مارکس کے جنھوں نے پوری زندگی محنت کشوں کی سیاسی جماعت کے قیام کے لیے زور دیا البتہ وہ خود اپنی پوری زندگی میں اپنی سیاسی جماعت قائم نہ کرسکے، مگر کارل مارکس نے اپنی ایسی تحریریں، فکر و فلسفہ ضرور چھوڑا ہے جوکہ ہر دورکے محنت کشوں کی رہنمائی کرتا رہے گا۔ جب کہ سیاسی جماعت کے بارے میں 5 جنوری 1879ء کو شکاگو ٹرائی ہیون کے ایک نامہ نگار سے گفتگوکرتے ہوئے کارل مارکس نے یہ بھی واضح کردیا کہ جماعت کبھی بھی انقلاب برپا نہیں کرسکتی فقط عوام ہی انقلاب برپا کرتے ہیں اور عوام میں سب مزدور نہیں ہوتے بلکہ اکثریت غیر مزدور ہوتے ہیں، ہاں یہ ضرور ہے کہ انقلابی عمل میں مزدور ہر اول دستے کا کردار ادا کرتے ہیں۔
چنانچہ مزدوروں کی اولین سیاسی جماعت 1903ء میں روس میں قائم ہوئی اور اس ترقی پسند جماعت کے بانی تھے ولادی میر لینن، چنانچہ لینن کی قیادت میں قائم ہونے والی جماعت کی اپیل پر پیٹرس برگ پرانا نام بعد ازاں لینن گراڈ میں روس میں پہلا انقلاب شروع ہوا یہ ذکر ہے 9 جنوری 1905ء کا۔ 14 لاکھ عام شہری جوکہ غیر مسلح تھے زار شاہی محلات کی جانب رواں دواں تھے وہ 14 لاکھ شہری زار کے سامنے اپنی زندگیاں بہتر بنانے کا مطالبہ پیش کرنا چاہتے تھے، البتہ زار کے سپاہیوں نے ان لوگوں پر گولیاں چلا دیں اور خوب تاک تاک کے نشانہ بازی کی یہ قتل عام 9 روز تک جاری رہا جس کے باعث ہزاروں عام شہری جاں بحق ہوئے یہ انقلابی عمل مختلف اشکال میں ڈھائی برس جاری رہا اور بالآخر ناکامی سے دوچار ہوا۔
ان حالات میں لینن پر مخالفین نے یہ اعتراض کیا کہ یہ انقلابی عمل شروع کرنا غلطی تھی جب کہ لینن نے اپنے مخالفین کی بات کی نفی کرتے ہوئے یہ موقف پیش کیا کہ ہمیں مزید شدت کے ساتھ لڑنے کی ضرورت تھی بہرکیف یہ انقلاب ناکام ضرور ہوا البتہ زار شاہی راج میں دراڑیں لازماً ڈال گیا۔
ایک لاوا تھا جوکہ روسی عوام کے دلوں میں اندر ہی اندر پک رہا تھا جب کہ زار شاہی جبر بھی ہر روز بڑھتا جا رہا تھا جبرکا ایک واقعہ یہ بھی ہوا کہ سائبریائی علاقے تائگا میں دریائے لینا کے سونے کی کانوں کے محنت کشوں پر زار شاہی سپاہیوں نے گولیاں چلادیں جس سے بہت سارے محنت کش ہلاک ہوگئے چنانچہ زار شاہی راج کے خلاف روسی عوام کا غم و غصہ مزید دوچند ہوگیا جب کہ 1914ء میں پہلی عالمگیر جنگ کا آغاز ہوگیا اس جنگ میں ایک جانب جرمنی، آسٹریا اور ہنگری تھے تو دوسری جانب روس، فرانس و برطانیہ تھے یہ جنگ اپنے مفادات کی جنگ تھی جس میں بعدازاں امریکا و جاپان بھی شریک ہوگئے۔ جنگی جنون میں مبتلا حکمرانوں نے تمام جنگی اخراجات کا بوجھ عوام پر ڈال دیا۔
یہ جنگی اخراجات روسی عوام کے لیے ناقابل برداشت تھے کیونکہ روسی عوام پہلے ہی شدید قسم کے مسائل سے دوچار تھے، ان حالات میں زار نے وطن کی حفاظت کی موقع پرست اپیل کی تو دوسری جانب لینن نے یہ اپیل کردی کہ اپنے بھائیوں اور کرائے کے فوجیوں کے خلاف اسلحہ استعمال کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ اس اسلحے کو رجعت پرست، سرمایہ دار حکومتوں کے خلاف استعمال کرنا چاہیے۔ لینن نے یہ انقلابی نعرہ بھی بلند کیا کہ سامراجی جنگ کو خانہ جنگی میں بدل دو۔
بہرکیف 1917ء کا سال شروع ہوتا ہے، فروری کا مہینہ ہے روسی کمیونسٹ پارٹی جوکہ بالشویک پارٹی کہلاتی ہے کی اپیل پر پیٹرو گراڈ میں ایک ہڑتال منظم ہوتی ہے یہ یوں تو عام سی ہڑتال ہے مگر خلاف توقع لگ بھگ دو لاکھ مرد و زن محنت کش اس ہڑتال میں شریک ہوتے ہیں، مطلق العنانی مردہ باد، جنگ مردہ باد اور روٹی دو کے فلک شگاف نعروں سے فضا گونج رہی ہے۔
بالشویک پارٹی کی جانب سے ایک اعلان نامہ جاری ہوتا ہے جس میں درج ہے کہ زار کی مطلق العنانی کا تختہ الٹ دو، عارضی حکومت قائم کرو، عوامی جمہوریت قائم کرو، کام کا دورانیہ یومیہ آٹھ گھنٹے رائج کرو، جاگیرداروں کی جاگیریں ضبط کرو۔ بہرکیف پیٹروگراڈ کے محنت کشوں کو کچلنے کے لیے جو سپاہی زار شاہی کی جانب سے روانہ کیے جاتے ہیں وہ بھی محنت کشوں سے مل جاتے ہیں اور احتجاج میں بھی شریک ہوجاتے ہیں۔
زار شاہی یہ احتجاج برداشت نہیں کرپاتی اور فقط چند گھنٹوں میں زمین بوس ہوجاتی ہے۔ یہ انقلاب ضرور تھا مگر اسے سوشل انقلاب نہیں کہا جاسکتا۔ زار شاہی راج کے خاتمے کے بعد روس میں دو قسم کی حکومتیں قائم ہوجاتی ہیں ایک جانب سرمایہ دار ہیں جوکہ روس کی پارلیمنٹ ڈوما کا نظم و نسق سنبھال لیتے ہیں، دوسری جانب روسی عوام ہیں جوکہ ملک میں سوویت نظام یعنی پنچایتی نظام قائم کرلیتے ہیں مگر ظاہر ہے یہ دو قسم کا نظام کب تک چل سکتا تھا جب کہ فروری انقلاب کے پہلے ہی روز روپوش بالشویک پارٹی بھی منظر عام پر آگئی اور اپنی تمام سیاسی قوت یکجا کرنے کے ساتھ ساتھ پراودا اخبار (سچائی) کی اشاعت بھی شروع ہوگئی اور5 مارچ1917ء کو پراودا کا پہلا شمارہ عوام کے ہاتھوں میں تھا، اب سوشل (سماجی) انقلاب کا عمل تیزی سے شروع ہوگیا۔
ولادی میر لینن نے اپنی دس سالہ جلا وطنی ختم کی اور اپریل 1917ء میں واپس روس آگئے البتہ سوویتوں و سرمایہ دار حکمرانوں کے مابین شدید کشمکش شروع ہوگئی۔ تیزی سے ملکی حالات تبدیل ہوتے رہے اور 10 اکتوبر 1917ء کو پارٹی کے ارکان کے درمیان بحث ہوتی ہے جوکہ مسلح بغاوت کے بارے میں تھی۔
لینن اپنا موقف پیش کرتے ہیں کہ مزدوروں و کسانوں کو حکومتی اقتدار اپنے ہاتھوں میں لے لینا چاہیے۔ لینن کا موقف تسلیم کیا جاتا ہے اور مسلح بغاوت شروع ہوجاتی ہے 23 و24 اکتوبرکی شب لینن کے پاس بغاوت کی بابت اطلاعات آتی رہتی ہیں 25 اکتوبر عالمی کیلنڈر کے مطابق 7 نومبر 1917ء کی صبح روسی عوام جن میں مزدور سپاہی، ملاح و کسان شامل تھے تمام حکومتی اداروں ریڈیو اسٹیشنوں، دریائے نیوا کے پلوں، ریلوے اسٹیشنوں، تارگھروں پر قابض ہوجاتے ہیں 25 اکتوبر ہی کی صبح لینن کی لکھی ہوئی تقریر روس کے شہریوں کے نام شایع ہوتی ہے۔
اس تقریر میں لکھا ہوتا ہے کہ جس مقصد کے لیے عوام لڑ رہے تھے وہ مقصد حاصل کرلیا گیا ہے عارضی حکومت کا خاتمہ کردیا گیا ہے اور حکومتی اقتدار سوویتوں کے ہاتھ آگیا ہے۔ 25 و 26 اکتوبر 1917ء کی درمیانی شب سرمائی محل پر بھی قبضہ کرلیا جاتا ہے۔ یوں روس میں سماجی انقلاب مکمل ہوجاتا ہے۔
اب لینن کے مطابق جاگیرداروں کا حق ملکیت ختم کردیا گیا، زرعی زمین کسانوں میں بلامعاوضہ تقسیم کا عمل شروع ہوتا ہے، جنگ کو عظیم جرم قرار دے کر جنگ بندی کا اعلان کیا جاتا ہے تمام وہ علاقے جن پر روس نے جنگی عمل کے دوران قبضہ کرلیا ان سے دستبرداری کا اعلان کیا جاتا ہے اور آیندہ کا پروگرام پیش کیا جاتا ہے ہم نے مختصر ترین الفاظ میں اکتوبر انقلاب کے حالات و واقعات لکھنے کی کوشش کی ہے مگر حقیقت یہی ہے کہ عالمی کیلنڈر کے مطابق یہ انقلاب 7 نومبر کو مکمل ہوا جس کو اب 100 برس ہوچکے۔