صحافت اور آزادی اظہار و لاحق خطرات
بدقسمتی سے پاکستان کا ماضی بغیر ڈر یا خوف کے صحافت کرنے کے حوالے سے کبھی اچھا نہیں رہا ہے
ورلڈ فریڈم انڈیکس 2017ء کے مطابق 180 ممالک کی فہرست میں پاکستان کا نمبر 139 واں ہے جب کہ دنیا میں میڈیا کے لیے خطرناک ممالک میں پاکستان کا نام چوتھے نمبر پر ہے۔ پاکستان میں پچھلی دو دہائیوں میں 115 صحافی فرائض کی ادائیگی کے دوران جان سے گئے مگر اب تک ان کے قاتل انجام کو نہیں پہنچ سکے صرف ایک بین الاقوامی صحافی ڈینئل پرل کے کیس میں ملزمان کو سزا دی گئی مگر پاکستانی صحافیوں کے کیس میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔
گئے دنوں پاکستان کے انگریزی زبان کے ایک روزنامے کے رپورٹر پر حملہ پاکستان میں ریاست کے چوتھے ستون کے بھربھرے ہونے کا ثبوت کہا جاسکتا ہے مگر اس قسم کے واقعات کی تحقیقات پولیس پر چھوڑ دینا مناسب نہیں کہلایا جاسکتا جسے ایسے واقعات سے نمٹنے کی مطلوبہ مہارت حاصل نہیں ہے۔
اس سے بڑھ کر دیدہ دلیری اور کیا ہوسکتی ہے کہ ملک کے دارالحکومت میں دن دیہاڑے ایک شخص کو نشانہ بنایا گیا جس سے دنیا بھر میں پاکستان کی بڑی بدنامی ہوئی۔ ایسے میں معاشرہ کیسے ترقی کرسکتا ہے جب صحافیوں کی آواز کو تشدد سے کچلنے کی کوشش کی جائے۔ ان کارروائیوں کے پیچھے چھپے لوگ یہ کیا جانیں کہ سچائی کو کبھی بھی تشدد کے ذریعے خاموش نہیں کیا جاسکتا۔
ہر اچھے صحافی کا کام ہی سچ لکھنا، ظلم و ناانصافی کو بے نقاب کرنا اور مظلوموں کی مدد کرنا ہوتا ہے، لیکن افسوس یہ برہنہ سچائی بھی ہمارے ملک سے وابستہ ہے کہ یہاں میڈیا پر دباؤ ڈال کر عوامی حقوق اور دیگر زمینی حقائق پر رپورٹنگ سے روکا جاتا ہے اور یہ سلسلہ برسوں سے جاری ہے۔ صحافی نہایت مشکل حالات میں جس جرأت اور دلیری سے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں دنیا بھر میں کم ہی اس کی مثال ملے گی اور اس راہ پُرخار میں انھوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے سچائی اور حق پرستی کا علم بلند رکھا لیکن اب تک جتنے صحافی اس راہ حق میں شہید ہوئے ان کے کسی بھی ملزم کو کیفرکردار تک نہیں پہنچایا جاسکا۔
اس ضمن میں حکومت پاکستان کا تمام اسٹیک ہولڈروں کی مشاورت سے صحافیوں کے تحفظ کا قانون بنانے کا عمل وقت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے، گو قانون صحافت کے احیا یا آزادی کے لیے اب بھی موجود ہیں اور حکمران جماعت نے صحافیوں کی سیکیورٹی کے لیے ایک کمیٹی بھی بنا رکھی ہے اس کے باوجود صحافیوں کو آزادانہ کام کرنے سے روکا جا رہا ہے جو ہرگز جمہوری عمل نہیں کہلایا جاسکتا۔
ہماری دانست میں تمام پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے مالکان یا اس سے وابستہ افراد کا یہ کام ہونا چاہیے کہ وہ خود مشترکہ اتحاد قائم کرکے اس حساس مسئلے کو حل کرنے کے لیے خود ہی اس کارخیر کوکریں اور اپنے ادارے سے وابستہ صحافیوں کو کم ازکم جان کا تحفظ تو وہ ضرور فراہم کرنے کی سعی کریں۔ کیونکہ باہمی تعاون ہی ایک بامقصد یا مثبت معاشرے کی تعمیر کا بنیادی جزو ہوتا ہے۔ دنیا کا ہر انسان معاشرے کا محتاج اور آپسی تعاون کا دست نگر ہوتا ہے اس سے کٹ کر ایک طویل اور مشکل سفر طے کرنا کسی بھی انسان کے لیے ممکن نہیں ہوتا اور باہمی تعاون جس معاشرے کا حصہ ہو اس میں کامیابی اور آگے بڑھنے کے مواقعے زیادہ ہوتے ہیں ورنہ نہیں۔
بدقسمتی سے پاکستان کا ماضی بغیر ڈر یا خوف کے صحافت کرنے کے حوالے سے کبھی اچھا نہیں رہا ہے اور پاکستان کا دنیا بھر میں اس حوالے سے اچھا تاثر نہیں ہے اور اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں سب کو اپنی اپنی مرضی کے ادارے مطلوب ہیں اور صحافت پاکستان کا کیا ہر چھوٹے بڑے ملک کا حساس اور اہم ترین شعبہ ہوتا ہے جس کی آبیاری، تحفظ اور بقا حکومتوں کا فرض اولین ہونا چاہیے اور بالخصوص اس وقت جب حکومتی، قانونی اور دیگر حساس ادارے ایک دوسرے سے شکایتی اور الجھے ہوئے ہیں ایسے میں تو یہ وقت آزادی صحافت کے لیے بالکل بھی بہتر نہیں ہے لہٰذا باوجود اس کے کہ وطن عزیز میں صحافت اور آزادی اظہار ہمیشہ خطرے میں ہی رہے ہیں اور ہم اگر واقعی خود کو آزاد مملکت سمجھتے ہیں تو ہمیں ایسے واقعات کا تدارک کرنا ہوگا۔
اس وقت ملک میں سیاست کا حد درجہ بحران اور قیادت کا فقدان ہے، ملک کو بین الاقوامی دباؤ کا بھی سامنا ہے اور اندرونی خلفشار کا سامنا بھی اسے کرنا پڑ رہا ہے ایسے میں ملکی مسائل ہیں کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ خاص طور پر پاکستان کا صدر مقام صحافیوں کے لیے غیر محفوظ ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن نہیں اس وقت تو اس سرزمین پر کوئی بھی محفوظ نہیں تو پھر صحافی کیونکر اور کیسے ''امان'' میں رہ سکتا ہے اور اس کا کارن یہ ہے کہ ہم نے کبھی تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا۔
بائیس کروڑ انسانوں کا یہ ملک تو ہے مگر معاشرہ مردہ ہے، سوائے مٹھی بھر افراد کے کسی کو پرواہ نہیں کہ ہم کس سمت میں جا رہے ہیں۔ اپنے تئیں ہم سب ہی محب وطن ہیں مگر کیا تاریخ بھی ہمیں محب وطن ہی سمجھے گی؟ ہمارے بزرگوں نے پاکستان بنتے دیکھا، ہم نے بنگلہ دیش بنتے دیکھا اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے بچے کیا بنتے دیکھتے ہیں؟ اس بات کا فیصلہ تاریخ پر ہی ہم چھوڑتے ہیں، لیکن ہماری ملکی تاریخ نے بار بار یہ ثابت کیا ہے کہ ہمارے سیاسی لیڈروں یا حکمرانوں کی ترجیح حکومت بچانا اور اگلا انتخاب جیتنا ہی ہمیشہ سے رہا ہے۔
ایسے میں وطن عزیز میں جو کچھ یا جیسا کچھ ہو رہا ہے وہ ہمارے اعمال اور بے حسی کے منطقی نتائج کے سوا کچھ نہیں۔ ہم تیزی سے ایک ایسا جزیرہ بنتے جا رہے ہیں جس پر من گھڑت خبروں، غلط تجزیوں اور بے بنیاد تھیوریوں کے سونامی ہر آن حملہ آور ہوتے رہتے ہیں۔ فہم و فراست پر مبنی بحث یا حقیقت پسندانہ استدلال کی گنجائش ختم ہوتی جا رہی ہے۔ التباسات اور من گھڑت قیاس آرائیوں کے سیلاب میں اختلاف رائے کے امکانات ڈوب چکے ہیں اور اس کے نتیجے میں فکری بانجھ پن کا ایسا لق دق صحرا نمودار ہوا ہے جہاں جھوٹ تو خوب ثمربار ہوتا ہے لیکن سچائی کی کونپلیں پھوٹتے ہی مرجھا جاتی ہیں۔
بہرحال یہ بھی ایک مسلمہ امر ہے کہ حق سچ کو کبھی کسی طور دبایا، چھپایا نہیں جاسکتا کیونکہ اکیسویں صدی میں تو اب سرگوشی بھی سو میل تک سنی جاسکتی ہے۔ تاریخ کے مطالعے یا اوراق سے پتہ چلتا ہے کہ ظلم و زیادتی انصاف کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، انصاف اور انسانیت کے مقابلے میں ظلم اور شرپسندی نقصان ہی اٹھاتی ہے۔ قرآن پاک میں قوموں کے عروج و زوال کی تاریخ اور بڑے بڑے ناموں کے مٹتے ہوئے ناموں کی داستان پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ جھوٹ مکر و فریب، جھوٹا جاہ و جلال اور رعب و دبدبہ کچھ عرصے تک تو چلتا ہے اور پھر بالآخر سچ کے بول بالا کا موسم آجاتا ہے۔
ہمارے ہاں ہمیشہ سچ لکھنے والوں کو سچ چھپانے والوں کا سامنا رہا ہے لیکن ہمارے معاشرتی چہرہ سازوں کو یہ بات بھی گوش گزار کرلینی چاہیے کہ جہاں کچھ دریافت نہ ہو وہاں ساخت مکروہ ہو جاتی ہے اور جہاں ایجاد رک جائے برباد ہونے کا عمل وہاں فوری شروع ہوجاتا ہے۔ آزادی اظہار، آزادی صحافت اور آزادی فکر مہذب معاشروں کا چلن ہے اور ان معاشروں اور ریاستوں کا فرض ہے کہ وہ ان کی آبیاری کریں اور ساتھ ہی ان کی بیخ کنی اور غلط استعمال کو روکیں، کیونکہ آج بھی آزادی اظہار کا گلا گھونٹنے کے لیے ہر طرح کی قوتیں متحرک ہیں جن کے خلاف چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔