طلبا تعلیم سے دور کیوں ہیں

ہمیں سب سے پہلے ان اسباب کو ختم کرنا ہوگا جس کی وجہ سے ہمارے نظام تعلیم میں خرابیوں نے جنم لیا ہے

jabbar01@gmail.com

ایک اچھے نظام تعلیم کی بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ نہ صرف طالب علم کو خواندہ بناتا ہے بلکہ ماحول سے مطابقت پیدا کرنے اور معاشی سرگرمیوں سے عہدہ برآ ہونے کے قابل بھی بناتا ہے، اس کے علاوہ طالب علم کی کردار سازی کے ساتھ طالب علم کی نظریاتی، فکری اور تہذیبی تربیت بھی کی جاتی ہے تاکہ اس کی روشنی میں وہ اپنی زندگی میں پیش آنے والی مشکلات اور مسائل کا تجزیہ کرکے اپنی صحیح رائے قائم کرسکے اور اس کی مدد سے مستقبل کے مسائل اور مشکلات کا سامنا کرکے ان سے عہدہ برآ بھی ہوسکے۔

سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا نظام تعلیم ان تمام خوبیوں کا حامل ہے یقیناً آپ کا جواب نفی میں ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا نصاب تعلیم، ذریعہ تعلیم، طریقہ تعلیم اور صلاحیت جانچنے کا طریقہ یعنی نظام امتحانات الغرض پورا نظام تعلیم ہی ناقص ہے۔

ایک عام مشاہدہ ہے کہ جس معاشرے میں تعلیم کا ذریعہ وہ زبان ہوگی جسے فرد گھر کے اندر یا گھر کے باہر بولتا ہے اور اسے استعمال کرتا ہے اس معاشرے میں تعلیم اور معیار تعلیم دونوں بلند ہوں گے، اسی صورت میں علم رٹ کر نہیں بلکہ سمجھ کر طالب علم ذہن نشیں کرے گا۔ اس طرح طالب علم میں فہم زیادہ ہوگا یہی وہ روشنی ہے جو تعلیم سے حاصل ہوتی ہے۔

ہم نے ایک اجنبی زبان انگریزی کو ذریعہ تعلیم کے نام پر اپنے طالب علم پر مسلط کردیا ہے جو طالب علم کے ذہن میں اترنے اور اس کی تخلیقی صلاحیتوں کو بیدار کرنے میں ناکام رہی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہمارا طالب علم تعلیم کے میدان میں نہ صرف تخلیقی صلاحیت سے محروم ہے بلکہ علم کا حصول اور اس کی جستجو کا جذبہ بھی ختم ہوگیا ہے، اس کی ساری صلاحیت اور قوت ایک اجنبی زبان کی گتھیاں سلجھانے پر صرف ہو رہی ہے۔

جہاں تک اردو ذریعہ تعلیم کا تعلق ہے ہم نے اصطلاحات کے نام پر اس ذریعہ تعلیم کو انتہائی مشکل بنا دیا ہے۔ آپ کسی سائنسی اور فنی کتاب جسے اردو زبان میں ڈھالا گیا ہو اس کا مطالعہ کرکے دیکھ لیں یہ کتاب آپ کے ذہن میں اترنا تو بہت دور کی بات ہے آپ کے فہم سے ہی بالاتر ہوگی۔ اس طرح کی عملی کوشش نے طالبعلم کے لیے تعلیم کے عمل کو مشکل تر بنادیا ہے۔

اب آئیے نصاب تعلیم کی طرف ہمارا نصاب تعلیم ہماری عملی اور پیشہ ورانہ زندگی سے ہم آہنگ نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات محنت اور لگن سے پڑھنے والے طالبعلم بھی اپنی عملی زندگی میں ناکامی سے دوچار ہوجاتے ہیں۔ مثلاً ایک طالب علم سیاست کے مضمون میں ایم اے کرنا چاہتا ہے، اسے بی اے کے مضامین میں علم سیاست کے ساتھ معاشرت، ایڈمنسٹریشن اورتعلقات عامہ جیسے مضامین جو علم سیاست کے مضمون سے ہم آہنگ ہیں اس کے نصاب کا حصہ ہونے چاہئیں، لیکن یہ طالب علم ''علم کتب خانہ'' کا مضمون جس کا علم سیاست کے مضمون سے دورکا بھی واسطہ نہیں ہے صرف اس وجہ سے پڑھنے پر مجبور ہے کہ اس کے کالج میں اس مضمون کے استاد ہی میسر ہیں۔

سوچیے ایسی صورت میں طالب علم اس مضمون سے دلچسپی کس طرح برقرار رکھ سکتا ہے یہ وہ عوامل ہیں جن کے باعث ہمارا طالبعلم تعلیم سے بیزار اور عدم دلچسپی کا شکار نظر آتا ہے۔ اس کے نزدیک تعلیم کا مقصد محض امتحان پاس کرنا اور ڈگری کے حصول کا ذریعہ بن گیا ہے نتیجے میں وہ پورا سال پڑھنے کے بجائے اپنا زیادہ تر وقت کلاس روم سے باہر غیر تعلیمی سرگرمیوں میں گزارتا ہے جیسے ہی امتحان کے انعقاد میں چند ہفتے رہ جاتے ہیں تو وہ امتحانی ٹوٹکے کی تیاری میں مصروف ہوجاتا ہے۔


یہ امتحانی ٹوٹکے کی صورت میں مختصر اور آسان انداز میں ماڈل ٹیسٹ پیپر، خلاصہ جات، گیس پیپر، حل شدہ پرچہ جات اس کے ہاتھوں میں آجاتے ہیں جب منتخب مواد مربوط انداز میں مرتب کیا ہوا اس کو حاصل ہوجاتا ہے تو نتیجے میں علمی جستجو کا جذبہ طالب علم میں ختم ہوجاتا ہے وہ اپنی کامیابی کا انحصار ان امتحانی ٹوٹکوں پر کرتا ہے۔ کیونکہ وہ طالب علم سارا سال تعلیم سے عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرتا ہے نتیجے میں یہ امتحانی ٹوٹکے اسے سمجھنے اور یاد کرنے میں مشکلات پیش آتی ہیں تو وہ امتحانات کے آخری ایام میں رٹے کا سہارا لیتا ہے۔

اس میں بھی وہ یہ کوشش کرتا ہے کہ صرف ان سوالات کے جوابات کو رٹے کی مدد سے حافظے میں محفوظ کیا جائے جو عموماً ہر سال دہرائے جاتے ہیں (عمومی طور پر ان کی تعداد دو درجن سے بھی کم ہوتی ہے) اس کوشش کے نتیجے میں وہ پانچ سے چھ سوالات کے جوابات لکھ کر امتحان میں کامیابی حاصل کرلیتا ہے۔

جن مضامین میں رٹے سے کام نہیں لیا جاسکتا وہ طالب علم نقل کا سہارا تلاش کرتا ہے امتحان میں نقل دراصل علمی بددیانتی ہے اس کے منفی اثرات پورے نظام تعلیم پر مرتب ہوتے ہیں نقل کے رحجان سے لائق اور باصلاحیت طلبا کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے کیونکہ نقل کے نتیجے میں نالائق اور تعلیم میں دلچسپی نہ رکھنے والے طلبا زیادہ نمبر لے جاتے ہیں ذہین اور پڑھنے والے طالب علم اس صورتحال کا منفی اثر لیتے ہیں اور وہ بھی محنت سے جی چرانے لگتے ہیں تعلیمی سرگرمیوں میں ان کا ذوق و شوق ختم ہوجاتا ہے اس سے ہمارا پورا تعلیمی نظام متاثر ہوتا ہے۔

یہ ہے طالب علم کا کردار۔ اب آئیے تعلیمی نظام میں اساتذہ کے کردارکا بھی جائزہ لیتے ہیں کیونکہ تعلیمی نظام میں استاد کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ بد قسمتی سے ہمارے بیشتر اساتذہ کرام بھی امتحانی نکتہ نظرکو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اپنی تعلیمی سرگرمیاں انجام دیتے ہیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ طلبا کو اتنی ہی معلومات فراہم کی جائیں جتنی طالب علم کے لیے امتحان میں کامیابی کے لیے ضروری ہے اس بنیاد پر اساتذہ پورے نصاب کی تکمیل کے بجائے نصاب کے اہم حصوں پر ہی اپنی توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔

تعلیمی اداروں میں ان کی توانائی اور قوت اپنی ترقیوں کے حصول اور دوسروں کی ٹانگ کھینچنے میں صرف ہوجاتی ہے۔ بعض اساتذہ تعلیمی میدان میں اپنے نجی تعلیمی ادارے یعنی ٹیوشن سینٹرز جنھیں روپیہ پیسہ بنانے کے تعلیمی کارخانوں کا نام دیا جائے تو غلط نہ ہوگا اس کے قیام اور فروغ میں کوشاں اور فکرمند نظر آتے ہیں۔ اساتذہ کے اس عمل کی وجہ سے تعلیم کو جوکبھی ایک مشن اور نصب العین ہوتی تھی اب ایک تجارت بن کر رہ گئی ہے۔

بعض اساتذہ طلبا کو پڑھانے کی اہلیت اور صلاحیت دونوں سے محروم ہوتے ہیں وہ اپنی اس کمزوری کو چھپانے کے لیے طالب علموں کے ساتھ دوستیاں قائم کرکے ان کے مشاغل میں شریک ہوکر وقت کو گزارنے یا کسی حد تک کلاس میں نظم و ضبط قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ طلبا شعور کی اس منزل پر نہیں ہوتے کہ وہ اس بات کا ادراک کرسکیں کہ انھیں الو بنا کر دراصل اپنا الو سیدھا کررہا ہے نتیجے میں طلبا کا تعلیمی نقصان ہوتا ہے اور استاد بھی اپنی حرمت اور احترام کھو دیتا ہے۔

اگر ہم اپنے نظام تعلیم کو بہتر بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے ان اسباب کو ختم کرنا ہوگا جس کی وجہ سے ہمارے نظام تعلیم میں خرابیوں نے جنم لیا ہے ایسی صورت میں ہی ہم اپنے تعلیمی نظام کو بہتر بناسکتے ہیں۔ ورنہ ہم اس جاری نظام کے تحت اچھی یادداشت رکھنے والے طوطے پیدا کرتے رہیں گے اور اس میں اضافے کی تعداد کوکوئی نہیں روک سکے گا اور ہر سال ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہے گا۔
Load Next Story