جشن آغا شورش کاشمیری

آغا شورش کاشمیری بہادر، جرأت مند اور صاحب ایمان اور جھوٹ و منافقت سے کوسوں دور تھے۔


Naseem Anjum November 12, 2017
[email protected]

آغا شورش کاشمیری ایک نامور مورخ، صاحب طرز ادیب، منفرد لہجے کے شاعر، بے باک صحافی، شعلہ جوالہ خطیب، بطلِ حریت اور محب وطن تھے۔ ان کی ذات اوصاف حمیدہ سے مرصع تھی۔ آغا شورش کی پیدائش 14 اگست 1917ء ہے اور 14 اگست 2017ء کو ایک صدی بیت گئی ہے۔ اسی حوالے سے آج ہم سب جشن آغا شورش کاشمیری کے لیے ایک مرکز پر جمع ہوئے ہیں، تاکہ ان کی مذہب و ملت کی خدمت کے حوالے سے روشنی ڈالیں۔

ہر زمانے میں اہل ایمان کو کٹھن آزمائشوں سے گزرنا پڑا، سو یہاں بھی ایسا ہی معاملہ تھا، غیر مسلم جان کے دشمن ہوگئے، لہٰذا جان بچاکر پہلے سیالکوٹ اور پھر امرتسر پہنچے۔ آغا شورش کاشمیری نے حرمتِ پاک رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تحفظ کے لیے اپنا تن من، دھن قربان کیا اور زندگی کا بیشتر حصہ جیلوں میں گزارا۔

آغا شورش کاشمیری کے ایام اسیری کا زمانہ 13 سال 2 ماہ سات دن پر محیط ہے، وہ زمانہ طالب علمی میں بھی اس وقت قید ہوئے جب وہ آٹھویں جماعت میں زیر تعلیم تھے اور پھر یہ سلسلہ طویل ہوتا چلا گیا اور وہ 1935ء سے 1947ء تک قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے۔ شورش صاحب نے اپنی زندگی میں عید اور بقر عید آزادی کی چھاؤں میں نہیں منائی بلکہ یہ خوشیاں قید کی نذر ہوگئیں۔

آغا شورش کاشمیری کا سب سے بڑا مذہبی فریضہ ختم نبوتؐ کے تحفظ کے لیے روحانی اور دلی طور پر ایسی کاوش تھی کہ جس کے بدلے انھیں اپنی جان اور اپنے گھر والوں کی ذرا برابر پرواہ نہ تھی، یہ عشقِ رسولؐ اور جذبہ ایمانی تھا کہ ایک شخص چٹان کی مانند دشمنوں کے سامنے سینہ سپر ہوگیا اور ایک ایسا عظیم کارنامہ انجام دے ڈالا کہ جس کی بدولت وہ بے مثال بن گیا۔

اس واقعہ کا تاریخی پس منظر کچھ اس طرح ہے کہ اسلامی جمعیت کے طلبہ جن کا تعلق نشتر میڈیکل کالج ملتان سے تھا، ذوالفقار علی بھٹو کا دور حکومت تھا، طلبہ چھٹیاں منانے اپنے گھروں کو واپس جارہے تھے کہ دورانِ سفر جب ٹرین ربوہ کے مقام پر رکی تو اسٹیشن پر مسلح قادیانیوں نے ان پر لاٹھیاں برسائیں اور ڈنڈوں سے خاطر تواضع کی، یہ خبر آناً فاناً ملک کے کونے کونے میں پہنچ گئی، آغا شورش نے یہ خبر چٹان میں شایع کی اور فوری طور پر علمائے کرام کا اجلاس بلالیا اور اسی اجلاس میں تحفظ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے تنظیم قائم ہوئی، اس کے بعد تو آغا شورش کاشمیری نے اس مشن کو گویا اپنی زندگی کا نصب العین بنالیا کہ وہ قادیانیوں کی اسلام دشمنی کے خاتمے کے لیے ہر ممکن کوشش کریںگے۔

چنانچہ اسی مقصد کے لیے وہ اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے ملے اور قادیانیوں کی حقیقت سے آشکارا کیا اور حبِ رسولؐ سے مغلوب ہوکر بھٹو کے پیر پکڑلیے، وزیراعظم نے انھیں فوراً پکڑ کر کھڑا کیا تو اس کے جواب میں شورش نے اپنا دامن وزیراعظم کے سامنے پھیلاکر کہا ''یہ فاطمہ بنت محمدؐ کی جھولی ہے، اس میں حرمتِ رسولؐ کی بھیک ڈال دیجیے، قادیانی میرے آقاؐ کی حرمت پر حملہ آور ہیں''۔

وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھا اور پھر ایک موقع پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے علامہ تاج محمود سے کہا کہ میں نے قادیانیوں کو اس وقت غیر مسلم قرار دینے کا فیصلہ کرلیا تھا جب شورش نے ان کی اصلیت بیان کی تھی۔ یہ تھے مرد مجاہد آغا شورش کاشمیری جن کے دل و جان میں اللہ اور اس کے محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سمائی ہوئی تھی اور انھوں نے اپنے عمل سے یہ بات ثابت کر دکھائی۔

آغا شورش کاشمیری کی تحریر علم دین کے واقعہ کو بھی سامنے لاتی ہے کہ شاتم رسول راجپال کو علم دین نے نوجوانی کے زمانے میں بے حد دلیری سے اور اپنے سرکار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے سرشار ہوکر موت کے گھاٹ اتار دیا تھا اور جب علم دین کو سزائے موت ہوئی تو قبر کی پیمائش کرنے کے لیے مولانا ظفر علی خان قبر میں لیٹ گئے اور تقریباً ڈیڑھ لاکھ کا مجمع ان کے جنازے میں شریک تھا۔ عاشق رسول کا جنازہ اپنی دھوم دھام سے نکلتا ہے۔

آغا شورش کاشمیری بہادر، جرأت مند اور صاحب ایمان اور جھوٹ و منافقت سے کوسوں دور تھے۔ ایک سچا مسلمان یقیناً حق کی راہوں کا ہی مسافر ہوتا ہے، اسے دنیا کا خوف نہیں بلکہ اپنے مالک کا ڈر ہوتا ہے۔ اسی اولوالعزمی اور جرأت کے نتیجے میں بھری محفل میں آغا شورش نے سید مظہر علی اظہر کا کچا چٹھا کھول دیا، انھوں نے قائد اعظم کو کافراعظم محض سازش کے تحت کہا تھا۔ سلام ایسے نڈر اور بے باک صحافی پر۔

صوبہ بہار میں مسلمان مردوں، عورتوں، نوجوانوں پر ظلم ڈھائے گئے، ریل گاڑیوں سے اتار کر انھیں بے دردی سے قتل کیا گیا، ان کی ہڈیاں انوہ گرہ نارائن کی بربریت کی کہانی کو بے نقاب کررہی تھیں۔ یہ شیطان نما انسان نارائن صوبہ کے فنانس منسٹر تھے، فساد کرانے کا منصوبہ ان کا ہی تھا، ان حالات میں آغا شورش کاشمیری کا دورۂ بہار ناقابل فراموش خدمات میں شامل ہوتا ہے۔

یہ بڑی بات ہے کہ اس مردِ مجاہد کو یاد کرنے اور ان کا سو سالہ جشن منانے کے لیے جو تقریب منعقد ہورہی ہے اس کا کریڈٹ قائد اعظم رائٹر گلڈ کے بانی و صدر جلیس سلاسل کو جاتا ہے، جلیس صاحب کی آغاز شورش سے بارہا ملاقاتیں ہوئیں۔ میں بحیثیت جنرل سیکریٹری چیف جسٹس حاذق الخیری جو کہ صدارت فرما رہے ہیں اور مہمان خصوصی سینئر صحافی و شاعر محمود شام اور مہمان اعزازی قومی اسمبلی کے سابق رکن مظفر احمد ہاشمی کی شکر گزار ہوں کہ انھوں نے آغا شورش کاشمیری سے محبت، عقیدت اور ان سے دلی تعلقات، یادگار ملاقاتوں کے حوالے سے شرکت کی۔

میرا خیال ہے کہ ہم اس موقع پر اس بات کا عہد کریں کہ بڑے لوگوں کے بڑے کاموں کو جس طرح بھی ممکن ہو اجاگر کیا جائے، تاکہ نئی نسل کو پتہ چل سکے کہ آج وہ جن آزاد فضاؤں میں زندگی کی خوبصورت کشتی میں سوار ہیں وہ اکابرین اور معمارِ پاکستان کی مرہون منت ہے۔

یہ بات ہم سب کے علم میں ہے کہ اکثر شاہراہیں ان حضرات سے نام سے منسوب کردی گئی ہیں، جن کا ادب و سیاست یا فلاحی اعتبار سے کوئی بڑا کارنامہ نظر نہیں آتا ہے اور جن نابغہ روزگار شخصیات نے تعمیر وطن اور دینی فریضہ کی ادائیگی میں اپنی زندگیاں وقف کردیں انھیں ایک خاص طبقے کے علاوہ کوئی جانتا نہیں، لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک سڑک آغا شورش کے نام کردی جائے اور وہ اس طرح ہوسکتا ہے کہ بزنس ریکارڈر روڈ کا نام شورش کاشمیری روڈ رکھا جائے۔

آغا شورش کی قربانیاں بے دریغ ہیں، انھوں نے برطانوی دور حکومت میں انگریزوں کے ہندوستان پر ناجائز قبضے کے خلاف سالہا سال اسیری کی زندگی بسر کی، ان کے انتقال کے بعد مولانا مفتی محمود، مفتی ولی حسن ٹونکی، ماہرین تعلیم ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، شعراء رئیس امروہی، سید محمد تقی اور جون ایلیا، مجیب الرحمن شامی، محمد صلاح الدین اور محمود احمد مدنی جیسی نابغہ روزگار شخصیات نے مشترکہ اعلامیہ پر دستخط کیے جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ کراچی کے ایک روڈ کو آغا شورش کاشمیری روڈ سے موسوم کیا جائے اور آج پھر ہم سب شہر کے میئر وسیم اختر، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور گورنر سندھ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ انگریزوں کی یادگار بزنس ریکارڈر روڈ کو آغا شورش کاشمیری روڈ کا نام دیا جائے کہ یہ ان کا حق ہے۔ اسی طرح کراچی یونیورسٹی، فیڈرل اردو یونیورسٹی اور جناح یونیورسٹی برائے خواتین کے صحافت، ادب اور تاریخ کے شعبوں کے اساتذہ طلبا کو آغا شورش کاشمیری پر پی ایچ ڈی کرنے کی ترغیب دیں تاکہ علم کے چراغ روشن ہوں۔

(تقریب کے موقع پر پڑھا گیا مضمون)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں