ایس ایس پی راؤ انوار نے ماورائے عدالت قتل سے شہرت پائی
1982 میں اے ایس آئی بھرتی ہوئے،92 کے آپریشن میں اہم کردار ادا کیا.
ایس ایس پی ضلع ملیر راؤ انوار نے ضلع کی پوری نفری کو یرغمال بنارکھا تھا۔
ان کی اجازت کے بغیر ضلع میں کوئی بھی ایس ایچ اوز یا ہیڈ محرر نہیں لگ سکتا تھا، گڈاپ یا ملیر میں کوئی بھی شخص اپنی زمین پر مکان یا دکان بنوانے کیلیے مذکورہ ایس ایس پی سے اجازت لیے بغیر کام نہیں کرسکتا تھا، ایس ایس پی کو مبینہ طور پر بھاری رشوت کے عوض اپنی زمین پر کام کراتے تھے، مذکورہ افسر نے اپنا ٹرانسفر 2000 میں کوئٹہ کرالیا تھا اور8 سال بعد دوبارہ کراچی انسپکٹر کے عہدے پر آیا تھا۔
دو ماہ میں انھوں نے پے در پے2عہدے لیے اور اب ایس ایس پی ضلع ملیر تعینات تھے ، تفصیلات کے مطابق راؤ انوار 18 جنوری 1982 میں محکمہ پولیس میں اے ایس آئی کے عہدے پر بھرتی ہوئے تھے،1990تک پولیس میں اے ایس آئی رہے اور1991میں ترقی پاکر سب انسپکٹر بن گئے،1992میں کراچی آپریشن میں اہم کردار ادا کیا، مذکورہ افسر نے ماورائے عدالت قتل سے شہرت پائی، اس کے بعد جب پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت1993 میں آئی تو راؤ انوار کو ایس ایچ او ایئر پورٹ تعینات کیا گیا جہاں وہ1996تک رہے۔
اس دوران انھوں نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے کھیپیوں کو بلاجواز پکڑ اور ان کا سامان ضبط کرکے مبینہ طور پر بھاری رشوت لی، مذکورہ افسر شہر میں دہشت کی علامت بننا شروع ہوگیا تھا، راؤ انوار جب ایس ایچ او ایئر پورٹ تھے تو ان پر الزام لگا کہ انھوں نے لاہور کی مشہور رقاصہ نیناں کو اجرتی قاتل رؤف سے قتل کرایا، جب ملزم رؤف3 سال قبل لاہور میں سی آئی اے پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہوا تو اس نے انکشاف کیا کہ نیناں کو اس نے موجودہ ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کے کہنے پر قتل کیا تھا، لاہور پولیس نے راؤ انوار کا مقدمے میں چالان کیا اس کے باوجود مذکورہ افسر اپنے عہدے پر کام کرتا رہا ۔
بعدازاں انڈر ورلڈ کی لڑائی میں ابراہیم عرف بھولو مارا گیا جس پر انسپکٹر راؤ انوار نے مقدمے میں نامزد ملزم شعیب خان کو پکڑنے کیلیے اس کے گھر پر چھاپے مارے تاہم ملزم ہاتھ نہیں آیا تو ملزم کے باپ اختر نے راؤانوار اور دیگر افسران کیخلاف ڈکیتی کا مقدمہ گذری تھانے میں درج کرایا ، سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں مذکورہ افسر کوئٹہ میں تعینات رہا،2008 میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو انسپکٹر راؤ انوار نے دوبارہ کراچی تبادلہ کرالیا، اس وقت کے آئی جی شعیب سڈل کے منظور نظر انسپکٹر راؤ انوار کو ایس ایچ او جیکسن تھانہ تعینات کیا گیا اور اضافی چارج ڈی ایس پی جیکسن بھی دیا گیا۔
مذکورہ افسر کیلیے ہنگامی ڈی سی پی 8 جنوری 2008 کو بیٹھی جس میں انھیں ڈی ایس پی مقرر کیا گیا اور انھیں آئی جی سندھ شعیب سڈل نے ڈی ایس پی جیکسن تعینات کر دیا اور ٹی پی او کیماڑی کا اضافی چارج بھی دے دیا گیا، سابق آئی جی سندھ شعیب سڈل نے ڈی ایس پی راؤ انوار کی ایس پی کیلیے سمری7اپریل 2008 کو بھیجی تو چیف سیکریٹری نے منظور کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ کو بھیج دی جنھوں نے سمری منظور کرتے ہوئے راؤ انوار کو ایس پی کا نوٹیفیکیشن جاری کردیا،18 ستمبر 2008 تک راؤ انوار کے پاس ڈی ایس پی اور ایس پی کے کیماڑی کے2عہدے رہے۔
اس کے بعد انھوں نے اپنا ٹرانسفر ٹی پی او گڈاپ کے طور پر کرالیا جبکہ ضلع ملیر بنا تو انھوں نے اپنے رینک پر ایس ایس پی کے شولڈر لگا لیے، مذکورہ ضلع میں تین سینئر ایس پی تھے، راؤ انوار کے بارے میں پولیس کے افسران کہتے ہیں کہ وہ پولیس محکمے میں جو چاہتے ہیں آئی جی اور دیگر افسران کو ایسا ہی کرنا پڑتا ہے اور نہ کرنے پر راؤ انوار آئی جی سندھ کو بھی ہٹانے کی طاقت رکھتا ہے، ضلع ہو یا ٹاؤن راؤ انوار کی اجازت کے بغیر کوئی بھی تعینات نہیں ہوسکتا، اگر کوئی افسر ایس ایچ او کا آڈر لیکر آجائے تو اسے چارج نہیں لینے دیا جاتا، پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ گڈاپ ، ملیر ، بن قاسم ، منگھوپیر ، سرجانی ٹاؤن ، میمن گوٹھ اور اس کے اطراف میں تمام زمینوں پر قبضے علاقہ پولیس کی سرپرستی میں ہوتے تھے۔
ان کی اجازت کے بغیر ضلع میں کوئی بھی ایس ایچ اوز یا ہیڈ محرر نہیں لگ سکتا تھا، گڈاپ یا ملیر میں کوئی بھی شخص اپنی زمین پر مکان یا دکان بنوانے کیلیے مذکورہ ایس ایس پی سے اجازت لیے بغیر کام نہیں کرسکتا تھا، ایس ایس پی کو مبینہ طور پر بھاری رشوت کے عوض اپنی زمین پر کام کراتے تھے، مذکورہ افسر نے اپنا ٹرانسفر 2000 میں کوئٹہ کرالیا تھا اور8 سال بعد دوبارہ کراچی انسپکٹر کے عہدے پر آیا تھا۔
دو ماہ میں انھوں نے پے در پے2عہدے لیے اور اب ایس ایس پی ضلع ملیر تعینات تھے ، تفصیلات کے مطابق راؤ انوار 18 جنوری 1982 میں محکمہ پولیس میں اے ایس آئی کے عہدے پر بھرتی ہوئے تھے،1990تک پولیس میں اے ایس آئی رہے اور1991میں ترقی پاکر سب انسپکٹر بن گئے،1992میں کراچی آپریشن میں اہم کردار ادا کیا، مذکورہ افسر نے ماورائے عدالت قتل سے شہرت پائی، اس کے بعد جب پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت1993 میں آئی تو راؤ انوار کو ایس ایچ او ایئر پورٹ تعینات کیا گیا جہاں وہ1996تک رہے۔
اس دوران انھوں نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے کھیپیوں کو بلاجواز پکڑ اور ان کا سامان ضبط کرکے مبینہ طور پر بھاری رشوت لی، مذکورہ افسر شہر میں دہشت کی علامت بننا شروع ہوگیا تھا، راؤ انوار جب ایس ایچ او ایئر پورٹ تھے تو ان پر الزام لگا کہ انھوں نے لاہور کی مشہور رقاصہ نیناں کو اجرتی قاتل رؤف سے قتل کرایا، جب ملزم رؤف3 سال قبل لاہور میں سی آئی اے پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہوا تو اس نے انکشاف کیا کہ نیناں کو اس نے موجودہ ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کے کہنے پر قتل کیا تھا، لاہور پولیس نے راؤ انوار کا مقدمے میں چالان کیا اس کے باوجود مذکورہ افسر اپنے عہدے پر کام کرتا رہا ۔
بعدازاں انڈر ورلڈ کی لڑائی میں ابراہیم عرف بھولو مارا گیا جس پر انسپکٹر راؤ انوار نے مقدمے میں نامزد ملزم شعیب خان کو پکڑنے کیلیے اس کے گھر پر چھاپے مارے تاہم ملزم ہاتھ نہیں آیا تو ملزم کے باپ اختر نے راؤانوار اور دیگر افسران کیخلاف ڈکیتی کا مقدمہ گذری تھانے میں درج کرایا ، سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں مذکورہ افسر کوئٹہ میں تعینات رہا،2008 میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو انسپکٹر راؤ انوار نے دوبارہ کراچی تبادلہ کرالیا، اس وقت کے آئی جی شعیب سڈل کے منظور نظر انسپکٹر راؤ انوار کو ایس ایچ او جیکسن تھانہ تعینات کیا گیا اور اضافی چارج ڈی ایس پی جیکسن بھی دیا گیا۔
مذکورہ افسر کیلیے ہنگامی ڈی سی پی 8 جنوری 2008 کو بیٹھی جس میں انھیں ڈی ایس پی مقرر کیا گیا اور انھیں آئی جی سندھ شعیب سڈل نے ڈی ایس پی جیکسن تعینات کر دیا اور ٹی پی او کیماڑی کا اضافی چارج بھی دے دیا گیا، سابق آئی جی سندھ شعیب سڈل نے ڈی ایس پی راؤ انوار کی ایس پی کیلیے سمری7اپریل 2008 کو بھیجی تو چیف سیکریٹری نے منظور کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ کو بھیج دی جنھوں نے سمری منظور کرتے ہوئے راؤ انوار کو ایس پی کا نوٹیفیکیشن جاری کردیا،18 ستمبر 2008 تک راؤ انوار کے پاس ڈی ایس پی اور ایس پی کے کیماڑی کے2عہدے رہے۔
اس کے بعد انھوں نے اپنا ٹرانسفر ٹی پی او گڈاپ کے طور پر کرالیا جبکہ ضلع ملیر بنا تو انھوں نے اپنے رینک پر ایس ایس پی کے شولڈر لگا لیے، مذکورہ ضلع میں تین سینئر ایس پی تھے، راؤ انوار کے بارے میں پولیس کے افسران کہتے ہیں کہ وہ پولیس محکمے میں جو چاہتے ہیں آئی جی اور دیگر افسران کو ایسا ہی کرنا پڑتا ہے اور نہ کرنے پر راؤ انوار آئی جی سندھ کو بھی ہٹانے کی طاقت رکھتا ہے، ضلع ہو یا ٹاؤن راؤ انوار کی اجازت کے بغیر کوئی بھی تعینات نہیں ہوسکتا، اگر کوئی افسر ایس ایچ او کا آڈر لیکر آجائے تو اسے چارج نہیں لینے دیا جاتا، پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ گڈاپ ، ملیر ، بن قاسم ، منگھوپیر ، سرجانی ٹاؤن ، میمن گوٹھ اور اس کے اطراف میں تمام زمینوں پر قبضے علاقہ پولیس کی سرپرستی میں ہوتے تھے۔