کراچی کی سیاست میں ہلچل اور سوچنے کی بات

سیاست میں آج کے مخالف کل کے اتحادی ہو سکتے اور کل کے مخالف آج اتحادی ہو سکتے ہیں

سیاست میں آج کے مخالف کل کے اتحادی ہو سکتے اور کل کے مخالف آج اتحادی ہو سکتے ہیں۔ فوٹو:فائل

ایم کیو ایم پاکستان اور پاک سرزمین پارٹی نے 8نومبر کو کراچی میں جس سیاسی اتحاد کا اعلان کیا تھا' وہ اگلے ہی روز ڈرامائی انداز میں ختم ہو گیا۔

کراچی میں قیام امن کے خواہاں حلقوں کو اس سیاسی اتحاد سے مثبت امید تھی لیکن یہ اتحاد محض ایک روز کا سیاسی بیان ثابت ہوا اور اس پر اب تک بحث جاری ہے کہ یہ اتحاد کیوں ناکام ہوا اور دونوں سیاسی جماعتوں کو اتحاد میں لانے والی قوت کون سی ہے اور اس کے پس پردہ مقاصد کیا تھے'حسب توقع اسٹیبلشمنٹ کا نام بھی سامنے آ رہا ہے' ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ فاروق ستار نے بھی باتیں کیں اور پی ایس پی کے سربراہ مصطفی کمال نے بھی دھواں دھار پریس کانفرنس کی'دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوںشخصیات ایک دوسرے کے بارے میں کہہ رہی ہیں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے قریب ہے۔

اسٹیبلشمنٹ کا اس معاملے میں کوئی کردار ہے یا نہیں یا کون اسٹیبلشمنٹ کا آدمی ہے اس معاملے کو بحث میں لائے بغیر دیکھا جائے تو دو سیاسی جماعتوں کا باہمی اتحاد بنانا یا نہ بنانا' ان کی اپنی مرضی ہوتی ہے۔ ہر سیاسی جماعت کا چونکہ ایجنڈا' نظریہ اور ہدف اپنا ہوتا ہے' اس لیے اگر تو اس کے مقاصد کسی دوسری جماعت سے ہم آہنگ ہو جائیں تو وہ اتحاد کی شکل میں اکٹھا ہو جاتی ہیں اور بعض اوقات ایک دوسرے میں ضم ہو کر ایک سیاسی جماعت کی شکل بھی اختیار کر لیتی ہیں' ماضی میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔

متحدہ قومی موومنٹ پاکستان اور پاک سرزمین پارٹی اگر اتحاد کرتی ہیں تو تب بھی اس میں کوئی برائی نہیں اور اگر ایم کیو ایم پاکستان اور پی ایس پی ایک دوسرے کے ساتھ نہیں چل سکیں تو اس میں بھی کوئی برائی کی بات نہیں ہے۔ جمہوریت میں ایسا ہوتا رہتا ہے البتہ اس کھیل میں کسی تیسری قوت کو مورد الزام ٹھہرانا درست اور جمہوری طرز عمل نہیں ہے بلکہ اپنی سیاسی ناکامی اور سیاسی کم فہمی کو کسی دوسرے پر ڈالنے کے مترادف ہے۔ایسا سیاسی طرز عمل نہیں ہونا چاہیے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ حالات کا فائدہ اٹھا کر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے بھی اسٹیبلشمنٹ کی طرف انگلی اٹھائی ہے کیونکہ یہ دونوں جماعتیں اپنی پوائنٹ اسکورنگ کرنا چاہ رہی ہیں۔ ادھر عسکری ذرایع کے حوالے سے یہ خبر شایع ہوئی ہے کہ کراچی کے سیاسی معاملات میں فوج ملوث نہیں ہے اور نہ ہی پولیٹیکل انجینئرنگ ہو رہی ہے۔

کراچی میں سیاسی صورت حال خاصی پیچیدہ ہے' اس شہر میں دہشت گرد گروہوں 'جرائم مافیاز اور سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز کی موجودگی نے جو حشر برپا کیا' کراچی کے ہی نہیں بلکہ ملک بھر کے سنجیدہ اور فہمیدہ طبقے اس سے بخوبی آگاہ ہیں۔ کراچی میں بدامنی کا سب سے زیادہ نقصان یہاں کے باشندوں کو ہوا ہے یا پاکستان کو ہوا ہے کیونکہ کراچی پاکستان کا معاشی اور اقتصادی انجن ہے۔ جب اس انجن میں فالٹ آئے گا تو اس کا اثر پورے پاکستان پر مرتب ہو گا۔


کراچی میں سیاسی اسٹیک ہولڈرز نے تو اپنی اپنی پناہ گاہیں تلاش کر کے خود کو محفوظ بنا لیا ہے' جرائم اور دہشت گرد مافیاز بھی زیر زمین گردنیں چھپا کر بیٹھ گئے ہیںاور وقت کا انتظار کر رہے ہیں لیکن کراچی کے عام شہری کے پاس کوئی آپشن نہیں ہے' اسے کراچی میں امن چاہیے' انفرااسٹرکچر چاہیے اور روز گار چاہیے۔

اگر یہ تینوں چیزیں موجود نہیں ہیں تو پھر اسے کوئی فائدہ نہیں ہے' پی ایس پی اور ایم کیو ایم پاکستان دونوں مکمل طور پر کراچی کی نمایندگی کرنے والی سیاسی قوتیں ہیں' اصولی طور پر تو ان کے درمیان کراچی کی ترقی و خوشحالی کے ایشو پرکوئی سیاسی اختلاف نہیں ہونا چاہیے لیکن عملاً ایسا لگتا ہے کہ دونوں سیاسی جماعتوں کی قیادت کے درمیان پس پردہ خاصے اختلافات موجود ہیں' ان کے یہ اختلافات دونوں جماعتوں کے اتحاد کے خاتمے اور بعدازاںجاری ہونے والے بیانات سے آشکار ہو جاتے ہیں۔

جہاں تک اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے بیانات کا تعلق ہے تو اس سے یہ مطلب بھی لیا جا سکتا ہے کہ دونوں سیاسی جماعتوں کی قیادت کی اپنی سیاسی فہم و فراست کچھ نہیں ہے اور وہ کسی تیسری قوت کے اشارے کی منتظر رہتی ہے' سیاست میں یہ تاثر درست نہیں ہے۔ سیاسی جماعتوں کی ترجیحات' ان کا منشور اور طرز سیاست کا فیصلہ ان کی اپنی قیادت اپنے سیاسی مفادات اور فلسفے کو سامنے رکھ کر خود کرتی ہیں' کسی اور کے اشارے کا منتظر رہنے والی سیاسی جماعتیں کبھی کامیاب نہیں ہوتیں۔اس لیے پی ایس پی اور ایم کیو ایم کی قیادت کو ایک دوسرے کے خلاف منفی بیان بازی سے گریز کرنا چاہیے۔

اگر پی ایس پی اور ایم کیو ایم پاکستان کا سیاسی اتحاد نہیں ہو سکا تو کوئی بات نہیں ہے۔ دونوں سیاسی جماعتیں اپنی الگ الگ سیاست کریں' اپنا منشور عوام کے سامنے رکھیں' الیکشن لڑیں اور جیت کر اسمبلیوں میں پہنچیںاور پاکستان اور کراچی کے عوام کے مسائل اپنے منشور کے مطابق حل کرنے کی جدوجہد کریں۔ ایک دوسرے کو اسٹیبلشمنٹ کا پروردہ ہونے کا الزام دینے سے پہلے یہ بھی مدنظر رکھا جانا چاہیے کہ ہوسکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں دونوں سیاسی جماعتوں کو پھر ایک دوسرے کے قریب آنا پڑے۔ سیاست میں کچھ بھی ممکن ہے۔

سیاست میں تو کہا جاتا ہے کہ سیاست میں کوئی کسی کا مستقل دشمن ہے نہ مستقل دوست۔ آج کے مخالف کل کے اتحادی ہو سکتے اور کل کے مخالف آج اتحادی ہو سکتے ہیں لہٰذا اس حوالے سے طعنہ زنی درست نہیں ہے کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کے تعاون کے حمام میں سب ننگے ہیں۔ پیپلز پارٹی بھی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعاون کرتی رہی ہے۔ مسلم لیگ ن تو اسٹیبلشمنٹ کی پسندیدہ رہی ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں ایم کیو ایم نے بھی فوائد حاصل کیے اور اس سے پہلے بھی وہ سسٹم کا حصہ رہی ہے۔

قوم پرست سیاسی جماعتیں بھی اسٹیبلشمنٹ کے تالاب میں نہاتی رہی ہیں اور دین کے نام پر سیاست کرنے والی سیاسی جماعتوں کا دامن بھی اس حوالے سے صاف نہیں ہے۔لہٰذا سیاسی جماعتوں کو میچورٹی کا ثبوت دینا چاہیے۔ ادھر وہ قوتیں جو غیر منتخب حیثیت کی حامل ہوتی ہیں 'لیکن انھیں ریاستی قوت حاصل ہوتی ہے'انھیں بھی حالات کی نزاکت کا احساس کرنا چاہیے ۔آج سوشل میڈیا کا دور ہے 'ماضی میں سیاسی جماعتوں کی توڑ پھوڑ منظرعام پر نہیں آتی تھیں لیکن آج ایسا نہیں ہو سکتا۔اس لیے احتیاط سب پر لازم ہے۔

 
Load Next Story