پاکستان کی جیلیں اور مجرم

ہمارے ہاں تربیت کا بڑا فقدان ہے، اگر تربیت کی جائے تو جرائم میں کمی آئے گی


ایم قادر خان November 13, 2017

میرا دوست بضد تھا کہ کسی بھی جیل کو اندر سے جاکر دیکھا جائے، لیکن یہ ایک عام آدمی کے لیے ممکن نہیں۔ کوئی بڑا بااثر یا وزیر، بڑے عہدے والے شخص کے لیے ممکن ہے۔ اب اگر ہم دونوں کسی بااثر سے سفارش کروا کر گئے تو جو دیکھنا چاہ رہے ہیں یا جس قسم کی معلومات درکار ہیں ان سے محروم ہوجائیں گے۔

بہرحال اپنی خواہش پوری کرنے کے لیے جیلر کو کچھ رقم دے کر جیل کے اندر پہنچ گئے۔ گیٹ پر ہماری جامعہ تلاشی لے کر اندر آفس لے جایا گیا اور یہاں سے دو سپاہی ہمارے ساتھ کردیے۔ ہم نے ان دونوں سپاہیوں کو بھی تھوڑی رقم فراہم کی تاکہ اپنی مطلوبہ معلومات حاصل کرسکیں۔ ان دونوں نے بتایا صاحب، یہاں اے سی کمرہ بھی ہے، اگر کوئی بہت بڑا آدمی آتا ہے تو باقاعدہ ایک بنگلے میں رہتا ہے، جہاں ملازمین کے علاوہ ضروریات کی ہر شے درکار ہے، لیپ ٹاپ اور ٹیلی وژن بھی ہے۔

میں نے ایک اہم سوال کیا۔ اچھا یہ بتاؤ کہ جیل میں مالدار، صاحب جائیداد، بڑے عہدے والے لوگ زیادہ ہیں یا غریب و متوسط؟ میری اس بات پر دونوں نے ہمیں غور سے دیکھا اور بتایا، آپ کو یہاں سب سے زیادہ غریب طبقہ ملے گا یا چند متوسط، امیرکبیر، رؤسا کا دور تک نام نہیں، اگر کبھی آئے مشکل سے دو دن یا پھر زیادہ رہنا ہوا تو ان کے لیے ریسٹ ہاؤس موجود ہے۔ میں بولا جیسے غریب زیادہ ہیں تو کیا بڑے جرائم میں ہیں یا چھوٹے جرم میں موجود ہیں۔

دوسرا سپاہی کہنے لگا، صاحب قربانی غریب کی، مقدمات غریب پر اور جیلیں بھی غریب کے لیے ہیں، کسی نے سائیکل چوری کی ہے، کسی نے دکان سے پانچ دس ہزار چوری کیے، کسی نے موبائل چھینے، کسی نے عورتوں کے پرس چھینے ہیں، اس قسم کی چھوٹی چھوٹی چوریاں ہیں، اب اگر ان سے پوچھیں تو یہ اپنی مجبوریاں بیان کرتے ہیں۔ وہ مجبوری صحیح معلوم دیتی ہے، اس لیے کہ اتنے چھوٹے چھوٹے جرائم میں موجود ہیں اگر ذرا بھی کچھ حیثیت ہوتی تو چھوٹ چکے ہوتے۔

دوسرا سپاہی بات کاٹتے ہوئے بولا، صاحب جی اس بات کو چھوڑیں، یہاں ایسے مجرم بھی ہیں جنھوں نے معمولی چوری کی، ایسے مقدمات جن میں چھ ماہ، دو سال، تین سال کی سزائیں ہوتی ہیں، جب کہ ان کو پانچ چھ سال ہوگئے، عدالت میں اگر ان کو سزا ملتی تو وہ بھی مکمل ہوکر باہر چلے جاتے، لیکن کوئی پرسان حال نہیں اس لیے لاوارثوں کی طرح پڑے ہیں۔ کیا کوئی قتل کے مجرم نہیں؟ بولا جی ہاں ہیں لیکن جنھوں نے قتل کیا وہ تو مفرور ہیں جو ساتھ تھا یا اس قاتل کو اٹھا رہا تھا اس کو پکڑ کر جیل میں ڈال دیا ہے۔

صاحب جی باہر پولیس والوں کے پاس تھانوں میں پہلے سے ایسی ایف آئی آر ہوتی ہیں جن میں لکھا ہوتا ہے بس جلانے، قتل و غارت کرنے، ہنگامہ کرنے میں ساٹھ نامعلوم افراد تھے۔ بس یہ ایف آئی آر سب پر فٹ ہوتی ہے، جب ان کو حکم ملتا ہے نفری بڑھانا ہے تو وہی پرانی ایف آئی آر نکال کر پیش کردیتے ہیں کہ اس ہنگامے میں یہ بھی موجود تھا، اب دو سال بعد پکڑا گیا ہے، جس نے اپنے جرم کا اعتراف کرلیا ہے۔ یہ معاملہ چلتا ہے، کیونکہ غریب تو پھر غریب ہے کیا کرے کس کے پاس جائے۔

پوری جیل میں گھومے، بہت کچھ معلوم ہوا، خفیہ باتوں کا بھی علم ہوا ایسی باتیں ہیں جو بتائی نہیں جاسکتیں، ان باتوں کو لکھنے سے قاصر ہوں۔ اتنا ضرور کہوں گا کہ جیل کو دیکھ کر لگا شاید یہ غریبوں کے لیے بنی ہے۔

ایسا ممکن نہیں میری بات پر سب کو اتفاق ہو تنقید کی جاسکتی ہے یا کوئی چاہے نہ مانے لیکن میں نے جو حقائق دیکھے وہ اس قدر زیادہ ہیں جن کو میں بیان نہیں کرسکتا۔ جیسے میں نے عرض کیا جو کچھ میں نے جاننا، سمجھنا تھا وہ تو میں نے پہلے ہی شروع میں کرلیا، مزید جو باتیں ان پولیس اہلکاروں نے بتائیں اور لوگوں سے ملے، ان کو دیکھا، اسپتال دیکھا، مجرموں کے لیے کھانا پکانے کی جگہ دیکھی، کھانا تیار ہوتے دیکھا، اب میں کیا کہوں یا کن باتوں کو اجاگر کروں۔

میں سمجھتا ہوں کہنا یا بتانا بے مقصد ہوگا، عمل کچھ نہیں ہونا۔ بچپن سے سنتے چلے آئے اور آج تک وہی بات ہے ہر جگہ غریب پستا ہے، جہاں بھی آپ جائیں غریب آپ کو اپنی غربت کے ہاتھوں صاف نظر آئے گا۔ پاکستان میں زیادہ آبادی غریبوں کی ہے، اس کے علاوہ بیروزگاری بھی غریبوں کی ہے، اگر کسی طرح ایک غریب کے لڑکے نے بی اے یا ایم اے کرلیا تو وہ بے چارہ نوکری کو ترستا ہے۔ کہاں سے لاکھوں روپیہ لائے جو دے کر ملازمت حاصل کرے، وہ تو پہلے سے غریب ہے۔ کس طرح اس نے تعلیم حاصل کی، مجبوراً مزدوری کرے یا کسی دکان پر ملازم ہوجائے، اس سے زیادہ اس کے پاس کوئی موقع نہیں۔

جیل جانے کا اصل مقصد یہی تھا کہ جیسے دوسروں سے سنا ہے اس کی تصدیق کرسکیں اور خود چشم دید گواہ ہیں۔ بڑے معصوم قسم کے مجرموں کو دیکھا، جن کو دیکھتے ہی افسوس ہوا۔ جب ان سے بات ہوئی تو معلوم ہوا کہ بہت غریب گھر سے تعلق ہے، ایک لڑکے کے تو والدین بھی نہیں، دوسرے لڑکے کے والدین ہیں لیکن باپ بالکل معذور ہے، کام نہیں کرسکتا، ایک کارخانے میں کام کرتے وہاں ایک مشین میں سیدھا ہاتھ آگیا جو پورا کٹ گیا اور ساتھ میں نیچے پیر کا پنجہ کٹا۔ اس حالت میں وہ ایسے معذور ہیں جو کچھ نہیں کرسکتے۔ والدہ گھروں میں کام کرتی ہیں ماسی کا کام ہے۔ اتنی رقم نہیں کہ وہ میرا مقدمہ لڑ سکیں۔ میں دو دوستوں کے ساتھ جا رہا تھا، ان دونوں نے ایک کار والے کو روک کر اس کا موبائل اور رقم چھینی، ہم تینوں ایک موٹرسائیکل پر تھے۔

میں پیچھے اترا وہ دونوں موٹرسائیکل پر بھاگ گئے، مجھ کو وہاں پکڑ لیا پھر پولیس کے حوالے کردیا، تھانے گیا ایف آئی آر کٹی، اس میں موبائل، رقم چھیننے اور دیگر دفعات لگادیں۔ وہ دونوں پولیس کے ہاتھ نہیں آئے، انھوں نے مجھے ریمانڈ لے کر جب ریمانڈ پورا ہوا تو جیل میں ڈال دیا۔

بڑا دکھ ہوا اس کی باتیں سن کر، اس نے بتایا ایسے اور بہت سے لڑکے ہیں جو رہائی کے انتظار میں ہیں، لیکن پولیس نے دفعات ایسی لگادی ہیں جو عدالت میں بغیر وکیل کے مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا۔ اگر ان لوگوں کا وکیل ہو تو مقدمات میں بری ہوسکتے ہیں لیکن وہ اس قابل نہیں، کیا کریں؟ میں نے اپنا ایک اندازہ لگایا، زیادہ نہیں ایک ارب روپے بہت ہیں اگر جیل کے ایسے معصوم چھوٹے مجرموں پر خرچ ہوجائیں تو ان کی اچھی زندگی بن سکتی ہے۔ کیونکہ ان کو اگر اچھی تربیت ملے تو یہ کامیاب شہری ہوں گے۔ شاید ہماری حکومت یا ہمارے کسی باحیثیت، رئیس، مالدار شخص نے سوچا تک نہیں۔

ہمارے ہاں تربیت کا بڑا فقدان ہے، اگر تربیت کی جائے تو جرائم میں کمی آئے گی، یہ جو چھوٹے موٹے جرم ہیں یہ تو بالکل ختم ہوجائیں گے۔ اس لیے کہ ان لڑکوں کو تربیت کے بعد ایسے کاموں میں مصروف کردیا جائے جس میں یہ اپنے گھر کو چلا سکیں۔ اگر صرف ایک بڑی فیکٹری قائم کرلی جائے تو کم ازکم تین ہزار لوگ کام کرسکتے ہیں۔ کم قیمت پر بھی کام کریں گے اور تربیت کے اثر پر وہ کبھی جرم کی طرف نہیں آسکتے۔ لیکن ایسا کام کسی نے نہیں کیا اور اگر کسی کو خیال بھی آیا ہوگا تو استطاعت سے باہر ہوگا۔ یہ کام حکومت کے کرنے کے ہیں اگر وہ عوام کے مسائل کو حقیقی انداز میں نمٹانا چاہے تو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں