ایم کیو ایم کی داخلی کشمکش
حالیہ برس کی سیاست میں ایم کیو ایم کی تقسیم نے اس کی سیاسی اور انتظامی طاقت کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔
بنیادی طور پر ایم کیو ایم ایک محفوظ سیاسی راستہ کی تلاش میں ہے ۔ اس کے سامنے ایک بڑا ہدف بغیر کسی بڑے سیاسی یا اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ ٹکراؤ کے اپنی سیاسی بقا اور سیاسی مینڈیٹ کو بچانا ہے ۔ یہ بات اب ایم کیو ایم سے وابستہ سیاسی قیادت کو بخوبی معلوم ہے کہ حالات ماضی جیسے نہیں کہ وہ جیسے چائیں اور جب چاہیں اپنی مرضی کی سیاسی اننگز کھیل سکھیں۔
ایم کیو ایم پاکستان کے لوگ یہ بھی جانتے ہیں کہ اگر وہ اپنے سابقہ قائد الطاف حسین کے ساتھ پس پردہ مفاہمت کے ساتھ بھی آگے بڑھنے کی کوشش کریں گے تو شائد یہ عمل انھیں کوئی بڑا سیاسی ریلیف فراہم نہ کر سکے۔ کیونکہ بظاہر پاکستانی اسٹیبلیشمنٹ سمیت کئی فریقین اس نقطہ پر متفق ہیں کہ الطاف حسین کی ریاست اور ملک دشمنی پر مبنی سرگرمیوں کے باعث ان کا کوئی کردار قابل قبول نہیں۔
حالیہ برس کی سیاست میں ایم کیو ایم کی تقسیم نے اس کی سیاسی اور انتظامی طاقت کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ اس وقت یہ چار گروپوں میں تقسیم ہے ۔ اول ایم کیو ایم پاکستان ، دوئم پاک سرزمین پارٹی ، سوئم ایم کیو ایم لندن اور چہارم ایم کیو ایم حقیقی ہیں ۔ اس کے علاوہ ایک گروپ ایسا بھی ہے جو ان سب سے نالاں ہوکر ایک اور متبادل راستہ کی تلاش چاہتا ہے۔
الطاف حسین کے بعد ایک مسئلہ ایم کیو ایم میں سیاسی قیادت کے بحران کا بھی ہے۔ فاروق ستار، مصطفے کمال یا آفاق احمد کوئی بھی ایسا لیڈر نہیں جس کی قیادت سب کو قابل قبول ہو۔ ایک مسئلہ ایم کیو ایم پاکستان اور الطاف حسین کے درمیان ہے ۔ کیا واقعی ایم کیو ایم پاکستان الطاف حسین سے لا تعلق ہوچکی ہے یا اب بھی اس کے پس پردہ رابطے ہیں ۔ یہ جو کچھ ایم کیو ایم پاکستان دکھارہی ہے یہ محض ایک دھوکہ یا سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہے او ران کی اصل طاقت الطاف حسین ہی ہیں۔
حالیہ چند دنوں میں ایم کیو ایم پاکستان اور پاک سرزمین پارٹی کی باہمی محبت پر مبنی پریس کانفرنس اور نئے نشان، نام ، منشور پر انتخاب لڑنے کا عہد اور چند گھنٹوں بعد اس باہمی محبت کا ڈراپ سین اور ایک دوسرے پر اسٹیبلیشمنٹ کی حمایت کا الزام ظاہر کرتا ہے کہ مسئلہ بہت سادہ نہیں ۔ڈاکٹر فاروق ستار کی جوابی پریس کانفرنس اور ردعمل نے ظاہرکردیا ہے کہ وہ تنہا نہیں اور کوئی تو ہے جو پس پردہ ان کا اصل ریموٹ کنٹرول پکڑے ہوئے ہے کیونکہ ڈاکٹر فاروق ستار اور مصطفیٰ کمال کی باہمی محبت پر مبنی پریس کانفرنس اچانک نہیں ہوئی تھی ۔ اس کے پیچھے کئی مہینوں کی پس پردہ جاری مشاورت تھی ۔ خود مصطفے کمال نے پردہ چاک کیا ہے کہ اس مشاورت میں کون کون بیٹھتا تھا اور ایک تحریری معاہدہ بھی دکھایا جس میں نئی جماعت کا اعتراف شامل تھا۔
ایم کیو ایم پاکستان کی داخلی سیاست میں یہ بات ثابت ہوگئی کہ فاروق ستار کوئی بڑا فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔یہ جو یوٹرن فاروق ستار نے لیا ہے، اس سے ان کا سیاسی امیج بہتر نہیں بلکہ خراب ہوا ہے ۔کیونکہ اگر وہ کچھ طے کرکے آگے بڑھے تھے تو اس پر قائم رہنے کی ہمت بھی ہونی چاہیے تھے ۔یہ جو سمجھا جارہا ہے کہ اب ایم کیو ایم کے مقابلے میں کسی نئی سیاسی جماعت کا دروازہ بند ہوگیا ہے ، پورا سچ نہیں ۔ اب ایم کیو ایم کے نام پر سیاست کرنے والوں میں مزید داخلی انتشار اور تقسیم بڑھے گی اور اس کا متحد رہنا مشکل ہوگا۔
یہ تاثر بھی موجود ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان میں ایسے لوگ موجود ہیں جو الطاف حسین ہی کے نمایندہ کے طور پر پارٹی میں موجود ہیں اور اس کے شواہد بھی اسٹیبلیشمنٹ کے پاس موجود ہیں ۔یہ تاثر بھی ایم کیو ایم سے وابستہ لوگوں میں موجود ہے کہ اگر وہ اپنے سیاسی موقف پر بضد رہے تو اس کے دو نقصانات ہوںگے ۔ اول ان کی تقسیم ہوگی اوراس کا اثر 2018کے انتخابی نتائج پر ہوگا ۔ دوئم اسٹیبلیشمنٹ سے ٹکراو اور ایک سازگار ماحول کا نہ ملنا بھی ان کے لیے نقصان دہ ہوگا۔سوئم جو سیاسی خلا کراچی کی سیاست میں ان کے داخلی انتشار سے بڑھ رہا ہے اس کا فائدہ تیسری قوت کو ملے گا جو ان کے سیاسی مستقبل کو مخدوش بنادے گی ۔
ایم کیو ایم پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اسٹیبلیشمنٹ کو پیغام دینا چاہتی ہے کہ اس کا اب الطاف حسین سے کوئی تعلق نہیں ، لیکن اس کا عملی مظاہرہ وہ نہیں ہے جو اسٹیبلیشمنٹ سمیت بہت سے فریق دیکھنا چاہتے ہیں ۔ یہی وہ بنیادی نقطہ ہے جہاں ایم کیو ایم پاکستان اور اسٹیبلیشمنٹ کے درمیان تضاد ہے ۔
یہ جوتاثر دیا جارہا ہے کہ اسٹیبلیشمنٹ کراچی کی حالیہ لڑائی میں فریق ہے ،اس پر سوچنا چاہیے ایسا کیوں ہے ، اس کی وجہ الطاف حسین کا ریاست اورملک دشمنی پر مبنی ایجنڈا ہے ، اس کا عملی مظاہرہ وہ کئی بار دکھا چکے ہیں ۔ خود ایم کیو ایم پاکستان نے بھی ان کے اقدامات سے لاتعلقی ظاہر کی۔اس لیے مسئلہ کسی کی سیاست کی بے دخلی کا نہیں بلکہ ریاست کی رٹ اور سالمیت کا ہے۔ وہ کسی کو اجازت دے گی کہ وہ ریاست مخالف ایجنڈے کو طاقت فراہم کرے۔
کراچی کی حالیہ سیاست میں سابق صدر اورجنرل )ر(پرویز مشرف بھی کافی سرگرم نظر آتے ہیں ۔ دوبئی میں ایم کیو ایم سے وابستہ کچھ افراد کی ان سے ملاقاتیں بھی ہوئیں ۔ یہ جو نئی جماعت اور نئے نشان کا نعرہ ہے اس کے پیچھے بھی جہاں ایم کیو ایم سے وابستہ یا مصطفے کمال کی سوچ ہے تو اس میں ایک بڑا حصہ جنرل )ر(پرویز مشرف کا بھی ہے ۔ یہی وہ نقطہ ہے جو ایم کیو ایم سے وابستہ لوگوں کو بتایا گیا ہے کہ اس طریقے سے کراچی اور ملک میں ان کی سیاسی طاقت برقرار رہ سکتی ہے ۔
ایم کیو ایم کو جو طاقت کراچی اور حیدرآباد میں ملی، اس کی ایک بڑی وجہ جنرل مشرف اور ایم کیو ایم کے درمیان محبت ہے۔ یہ محبت آج بھی بہت سے لوگوں کے دلوں میں موجود ہے ،لیکن جنرل مشرف کا نیا سیاسی کردار کیاہوگا ،یہ سوالیہ نشان ہے اور ان کا مستقبل فی الحال وہ نہیں جو وہ خود اپنے لیے دیکھ رہے ہیں۔ البتہ اگر کوئی مشترکہ نئی جماعت کراچی کی سیاست سے ابھرتی ہے تو اس میں یقینی طور پر وہ اپنا سیاسی راستہ تلاش کرسکتے ہیں ۔
ایک مسئلہ ایم کیو ایم کے ووٹرز کا ہے ۔ یقینیاً اس پر الطاف حسین کی سیاست کا کنٹرول ہے، لیکن اب حالات ماضی جیسے نہیں، ووٹر ایک متبادل قیادت بھی چاہتا ہے۔ کیونکہ اسے بھی اندازہ ہے کہ اب وہ حالات نہیں کہ وہ الطاف کے ساتھ کھڑے ہوسکتے ہیں۔مصطفے کمال کی خوبی یہ ہے کہ وہ کھل کر الطاف مخالف سیاست کو لیڈ کررہے ہیں جب کہ اس کے برعکس ایم کیو ایم پاکستان اس مسئلہ پر الجھاؤ اور کشمکش کا شکار ہے ۔اگر ایم کیو ایم پاکستان اس بحران سے باہر نہ نکلی تو اسے نقصان ہوگا۔
اب وقت ہے کہ ہمیں کراچی کی سیاست میں جو گھٹن ہے ، اسے ختم کرکے ایسی سیاسی فضا قائم کرنی ہے جو سب فریقین کے لیے قابل قبول ہو۔ شہروں پر قبضہ ووٹوں کی سیاست کی بنیاد پر ہونا چاہیے ۔ بندوق یا انتظامی طاقت یا مافیا کی سرپرستی کرکے شہروں پر کنٹرول کرنا سیاست نہیں ہوتا۔ سب سیاسی گروپوں کو کراچی میں سیاست کا حق ملنا چاہیے ۔
کراچی محض ایک شہر ہی نہیں بلکہ پاکستان کی معاشی سرگرمیوں کا مرکز بھی ہے ۔ کراچی کو پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے ساتھ جوڑ کر دیکھنا ہوگا ۔ کراچی کے لوگ گذشتہ کئی دہائیوں سے جس بیڈگورننس اور لاقانونیت کا شکار ہیں انھیں ایک اچھی سیاست اور حکمرانی ضرور ملنی چاہیے ۔لیکن اب اس کا دارومدار سیاسی فریقین بالخصوص ایم کیو ایم کے مختلف دھڑوں سے جڑا ہوا ہے کہ وہ آنے والے دنوں میں اپنے سیاسی کارڈ کیسے کھیل کر خود کو بھی محفوظ کرتے ہیں اور کراچی کی سیاست کو بھی نئی طاقت فراہم کرتے ہیں۔