یہ جمہوریت بھی کوئی جمہوریت ہے دوستو
اگر ملک کی ساسی جماعتیں اپنے اندر جمہوریت نافذ کردیں۔ یہ سیاسی لیڈر اپنی سیاسی جماعتوں میں آمریت ختم کر دیں۔
یہ جمہوریت بھی کوئی جمہوریت ہے دوستو؟ آج کل جمہوریت سر عام رسوا ہو رہی ہے۔ لیکن اسے سر عام رسوا کر کون رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جمہوریت کے اس گھر کو آگ لگ رہی ہے گھر کے چراغ سے۔ جمہوریت کو جمہوریت کے دعویداروں سے ہی خطرہ ہے۔ سیاستدان ہی جمہوریت کو کمزور کر رہے ہیں۔ باقی یہ ہماری مرضی ہے کہ ہم جس پر مرضی الزام لگا دیں، اس کی کھلی چھوٹ اور آزادی ہے۔
ہمارے سیاستدانوں کا حال بھی اسی شخص کی مانند ہے جو جس شاخ پر بیٹھا ہو تا ہے اسے ہی کاٹنے کی کوشش کر تا ہے۔ اسے اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ شاخ کے ٹوٹنے سے اس کا گھر بھی گر جائے گا۔ اسی طرح ہمارے سیاستدان بھی خود ہی جمہوریت کی شاخ کو کاٹ رہے ہیں، کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ جمہوریت کے اس درخت کی ہرشاخ پر ایک الو بیٹھا ہے۔
ملک میں جمہوریت اور سول بالادستی کی جدو جہد کا نعرہ لگانے والنے خود اپنی جماعت میں جمہوریت لانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اپنی جماعت میں لب کشائی کی اجازت نہ دینے والے اداروں کے خلاف بات کرنا جمہوری حق سمجھ رہے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کوذاتی ملکیت کے طور پر چلانے والے ملک جمہوریت کے تحت چلانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اپنی جماعت میں وراثت کے اصول کو جائز سمجھنے والے ملک میں آئین و قانون کی سر بلندی مانگ رہے ہیں۔ اپنی سیاست کو اپنے ذاتی مفاد کے طابع رکھنے والے دوسروں سے قومی مفاد میں فیصلہ کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
سیاست کو مفاد کے طابع کرنے والے قومی مفاد کے محافظ بننے کے دعویدار ہیں۔ دولت کے انبار جمع کرنے والے غریب کے دوست بننے کے دعویدار ہیں ۔ محلات میں رہنے والے بے گھروں کے محافظ بننے کے دعویدار ہیں۔ ڈالروں میں دولت رکھنے والے روپے کی قدر جاننے کے دعویدار ہیں۔ ذاتی جنریٹر کے مالک لوڈ شیڈنگ کا درد کیسے جان سکتے ہیں۔ بیرون ملک جائیداد رکھنے والوں کو ملک کے مسائل کا کیسے علم ہو سکتا ہے۔ ذاتی جہازوں کے مالک بس کے سفر کا مزہ کیا جانیں۔ بنی گالہ ہو یا جاتی عمرہ ،بلاول ہاؤس ہو یا کنگری ہاؤس اس حمام میں سب ننگے ہیں۔
میں تھک گیا ہوں یہ سن سن کر ملک کی جمہوریت کو اسٹبلشمنٹ سے خطرہ ہے۔ اسٹبلشمنٹ کو جمہوریت سے خطرہ ہے۔ اداروں کو سیاستدانوں سے اور سیاستدانوں کو اداروں سے خطرہ ہے۔ دراصل ہم سب کو اپنے آپ سے خطرہ ہے۔ آمریت آتی ہے تو آمر کو جمہوری بننے کا بھوت سوار ہو جاتا ہے۔ آمر ہی جمہوریت کا وکیل بن جاتا ہے اور ہمیں جمہوریت کا درس دینا شروع کر دیتا ہے۔ ملک میں اقتدار پر قبضہ کرنے والے ہر آمر نے یہ کوشش کی ہے کہ کسی نہ کسی طرح اس کو جمہوری آمر مان لیا جائے۔وہ یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ ہر فیصلہ ساتھیوں سے مشاورت سے کرتا ہے۔
ادھر جمہوری طریقہ سے بر سراقتدار آنے والے ہر لمحہ آمر بننے کے خواہاں رہتے ہیں۔ وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ وہ عقل کل ہیں۔ وہ اکیلے ہی سارا نظام چلا رہے ہیں۔ یہ ووٹ بینک بھی ان کی ذاتی ملکیت ہے اور یہ حکومت بھی ان کی ذاتی میراث ہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ یہ جمہوریت بھی کوئی جمہوریت ہے دوستو؟ اقتدار میں آنے کے لیے اسٹبلشمنٹ کا ساتھ جائز ہے۔
لوگ کہہ رہے ہیں کہ کراچی میں اسٹبلشمنٹ کا کھیل ننگا ہو گیاہے۔ مصطفیٰ کمال اور فاروق ستار کے کھیل میںجمہوریت ننگی ہو گئی ہے۔ لیکن یہ تو شہر شہر کی کہانی ہے۔ جو لڑائی فاروق ستار اور مصطفیٰ کمال میں ہے کیا وہی لڑائی آصف زرداری اور نواز شریف میں نہیں ہے۔ دونوں اسٹبلشمنٹ سے وفاداری دکھانے کے لیے ایک دوسرے کو زچ نہیں کرتے رہے۔ کوئی آج کر رہا ہے تو کسی نے کل کیا تھا۔کسی نے اقتدار کے چکر میں کل ملنے سے انکار کیا تھا۔ کوئی اقتدار کے چکر میں آج انکار کر رہا ہے۔ آج ن لیگ کے جن ستر ناراض ارکان کی کہانی گھوم رہی ہے۔ کل جب یہی ارکان ق لیگ چھوڑ کر ن لیگ کے پنجاب کے اقتدار کو ہم خیال کے نام پر سہارا ردے رہے تھے تو جائز تھا۔ آج ناجائز کیسے ہے۔ جن کو آج پنجاب میں عطا مانیکا اور ریا ض پرزادہ پر اعتراض تھا انھیں یہی عطا مانیکااور ریاض پیرزادہ پسند تھے جب وہ ان کے اقتدار کو سہارا دے رہے تھے۔
یہ کیسی جمہوریت ہے کہ جب کوئی کسی کو چھوڑ کر آپ کی طرف آئے تو جائز ، جب دوسری طرف جائے تو ناجائز۔ جب آپ کی طرف آئے تو ضمیر کی آواز، جب دوسری طرف جائے تو لوٹا کریسی۔ آپ کریں تو جائز کوئی اور کرے تو ناجائز کا اصول کیسے چل سکتا ہے۔
کیا ہمارے سیاستدان خود اداروں کو مداخلت کی دعوت نہیں دیتے۔ مصطفیٰ کمال نے ٹھیک بات کی ہے کہ اگر فاروق ستار اداروں سے بات کریں تو جائز اور اگر مصطفیٰ کمال کرے تو ناجائز۔ نواز شریف کرے تو جائز۔ عمران خان کرے تو ناجائز۔ نوازشریف کرے تو جمہوریت کی خدمت آصف زرداری کرے تو جمہوریت دشمنی ۔ آصف زرداری کے سوئس اکاؤنٹس ناجائز آپ کے پارک لین فلیٹ جائز۔ بے نظیر کی حکمرانی پر عورت کی حکمرانی کے ناجائز ہونے کاے فتویٰ اور مریم نواز کی سیاسی وراثت جائز۔ مولانا ٖفضل الرحمٰن پیپلزپارٹی کے ساتھ ہوں تو مولانا ڈیزل اور آپ کے ساتھ ہوں تو جمہوریت کے سپہ سالار۔ متحدہ مجلس عمل بن جائے تو جائز۔ نہ بنے تو دینی جماعتوں کا سیاسی مستقبل مخدوش۔ مشرف کے ساتھ ہوں تو جمہوریت کے قاتل جب آپ کے ساتھ آجائیں تو جمہوریت کے سپاہی۔
اگر اس ملک میں جمہوریت نے چلنا ہے تو سیاستدانوں کو کرداربدلنا ہوگا۔ جمہوریت کی شاخ پر بیٹھ کر اس کو کاٹنا بند کرنا ہو گا۔ سب سے پہلے اپنے آپ پر جمہوریت نافذ کرنا ہوگی۔ شاہی خاندان جمہوریت کیے حقیقی وارث نہیں ہو سکتے، ان کے ہوتے ہوئے جعلی جمہوریت ہی ہمارا مقدر رہے گی کیونکہ انھیں خود بھی اصلی جمہوریت قبول نہیں ہے۔
اگر ملک کی ساسی جماعتیں اپنے اندر جمہوریت نافذ کردیں۔ یہ سیاسی لیڈر اپنی سیاسی جماعتوں میں آمریت ختم کر دیں۔ سیاسی جماعتوں کو ذاتی ملکیتی ادارے سمجھنے کے بجائے حقیقی سیاسی جمہوری ادارے بنا دیں۔ سیاسی جماعتوں میں فیصلوں کے لیے من پسند افراد کے مشاورتی اجلاسوں کے بجائے مضبوط ادارے بنا دیے جائیں ۔تو کسی کو جمہوریت کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات بھی نہیں ہو گی۔ یہ اسٹبلشمنٹ اور ادارے حقیقی معنوں میں جمہوریت کے آگے سرنگوں کر دیں گے۔ ان کی جرات بھی نہیں ہو گی کہ ہماری جمہوریت کی طرف دیکھ بھی سکیں۔ لیکن جب تک ہم خود نہیں ٹھیک ہوںگے۔ مداخلت بھی رہے گی، نظام بھی ننگا رہے گا اور کمزور بھی رہے گا۔
ہمارے سیاستدانوں کا حال بھی اسی شخص کی مانند ہے جو جس شاخ پر بیٹھا ہو تا ہے اسے ہی کاٹنے کی کوشش کر تا ہے۔ اسے اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ شاخ کے ٹوٹنے سے اس کا گھر بھی گر جائے گا۔ اسی طرح ہمارے سیاستدان بھی خود ہی جمہوریت کی شاخ کو کاٹ رہے ہیں، کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ جمہوریت کے اس درخت کی ہرشاخ پر ایک الو بیٹھا ہے۔
ملک میں جمہوریت اور سول بالادستی کی جدو جہد کا نعرہ لگانے والنے خود اپنی جماعت میں جمہوریت لانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اپنی جماعت میں لب کشائی کی اجازت نہ دینے والے اداروں کے خلاف بات کرنا جمہوری حق سمجھ رہے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کوذاتی ملکیت کے طور پر چلانے والے ملک جمہوریت کے تحت چلانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اپنی جماعت میں وراثت کے اصول کو جائز سمجھنے والے ملک میں آئین و قانون کی سر بلندی مانگ رہے ہیں۔ اپنی سیاست کو اپنے ذاتی مفاد کے طابع رکھنے والے دوسروں سے قومی مفاد میں فیصلہ کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
سیاست کو مفاد کے طابع کرنے والے قومی مفاد کے محافظ بننے کے دعویدار ہیں۔ دولت کے انبار جمع کرنے والے غریب کے دوست بننے کے دعویدار ہیں ۔ محلات میں رہنے والے بے گھروں کے محافظ بننے کے دعویدار ہیں۔ ڈالروں میں دولت رکھنے والے روپے کی قدر جاننے کے دعویدار ہیں۔ ذاتی جنریٹر کے مالک لوڈ شیڈنگ کا درد کیسے جان سکتے ہیں۔ بیرون ملک جائیداد رکھنے والوں کو ملک کے مسائل کا کیسے علم ہو سکتا ہے۔ ذاتی جہازوں کے مالک بس کے سفر کا مزہ کیا جانیں۔ بنی گالہ ہو یا جاتی عمرہ ،بلاول ہاؤس ہو یا کنگری ہاؤس اس حمام میں سب ننگے ہیں۔
میں تھک گیا ہوں یہ سن سن کر ملک کی جمہوریت کو اسٹبلشمنٹ سے خطرہ ہے۔ اسٹبلشمنٹ کو جمہوریت سے خطرہ ہے۔ اداروں کو سیاستدانوں سے اور سیاستدانوں کو اداروں سے خطرہ ہے۔ دراصل ہم سب کو اپنے آپ سے خطرہ ہے۔ آمریت آتی ہے تو آمر کو جمہوری بننے کا بھوت سوار ہو جاتا ہے۔ آمر ہی جمہوریت کا وکیل بن جاتا ہے اور ہمیں جمہوریت کا درس دینا شروع کر دیتا ہے۔ ملک میں اقتدار پر قبضہ کرنے والے ہر آمر نے یہ کوشش کی ہے کہ کسی نہ کسی طرح اس کو جمہوری آمر مان لیا جائے۔وہ یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ ہر فیصلہ ساتھیوں سے مشاورت سے کرتا ہے۔
ادھر جمہوری طریقہ سے بر سراقتدار آنے والے ہر لمحہ آمر بننے کے خواہاں رہتے ہیں۔ وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ وہ عقل کل ہیں۔ وہ اکیلے ہی سارا نظام چلا رہے ہیں۔ یہ ووٹ بینک بھی ان کی ذاتی ملکیت ہے اور یہ حکومت بھی ان کی ذاتی میراث ہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ یہ جمہوریت بھی کوئی جمہوریت ہے دوستو؟ اقتدار میں آنے کے لیے اسٹبلشمنٹ کا ساتھ جائز ہے۔
لوگ کہہ رہے ہیں کہ کراچی میں اسٹبلشمنٹ کا کھیل ننگا ہو گیاہے۔ مصطفیٰ کمال اور فاروق ستار کے کھیل میںجمہوریت ننگی ہو گئی ہے۔ لیکن یہ تو شہر شہر کی کہانی ہے۔ جو لڑائی فاروق ستار اور مصطفیٰ کمال میں ہے کیا وہی لڑائی آصف زرداری اور نواز شریف میں نہیں ہے۔ دونوں اسٹبلشمنٹ سے وفاداری دکھانے کے لیے ایک دوسرے کو زچ نہیں کرتے رہے۔ کوئی آج کر رہا ہے تو کسی نے کل کیا تھا۔کسی نے اقتدار کے چکر میں کل ملنے سے انکار کیا تھا۔ کوئی اقتدار کے چکر میں آج انکار کر رہا ہے۔ آج ن لیگ کے جن ستر ناراض ارکان کی کہانی گھوم رہی ہے۔ کل جب یہی ارکان ق لیگ چھوڑ کر ن لیگ کے پنجاب کے اقتدار کو ہم خیال کے نام پر سہارا ردے رہے تھے تو جائز تھا۔ آج ناجائز کیسے ہے۔ جن کو آج پنجاب میں عطا مانیکا اور ریا ض پرزادہ پر اعتراض تھا انھیں یہی عطا مانیکااور ریاض پیرزادہ پسند تھے جب وہ ان کے اقتدار کو سہارا دے رہے تھے۔
یہ کیسی جمہوریت ہے کہ جب کوئی کسی کو چھوڑ کر آپ کی طرف آئے تو جائز ، جب دوسری طرف جائے تو ناجائز۔ جب آپ کی طرف آئے تو ضمیر کی آواز، جب دوسری طرف جائے تو لوٹا کریسی۔ آپ کریں تو جائز کوئی اور کرے تو ناجائز کا اصول کیسے چل سکتا ہے۔
کیا ہمارے سیاستدان خود اداروں کو مداخلت کی دعوت نہیں دیتے۔ مصطفیٰ کمال نے ٹھیک بات کی ہے کہ اگر فاروق ستار اداروں سے بات کریں تو جائز اور اگر مصطفیٰ کمال کرے تو ناجائز۔ نواز شریف کرے تو جائز۔ عمران خان کرے تو ناجائز۔ نوازشریف کرے تو جمہوریت کی خدمت آصف زرداری کرے تو جمہوریت دشمنی ۔ آصف زرداری کے سوئس اکاؤنٹس ناجائز آپ کے پارک لین فلیٹ جائز۔ بے نظیر کی حکمرانی پر عورت کی حکمرانی کے ناجائز ہونے کاے فتویٰ اور مریم نواز کی سیاسی وراثت جائز۔ مولانا ٖفضل الرحمٰن پیپلزپارٹی کے ساتھ ہوں تو مولانا ڈیزل اور آپ کے ساتھ ہوں تو جمہوریت کے سپہ سالار۔ متحدہ مجلس عمل بن جائے تو جائز۔ نہ بنے تو دینی جماعتوں کا سیاسی مستقبل مخدوش۔ مشرف کے ساتھ ہوں تو جمہوریت کے قاتل جب آپ کے ساتھ آجائیں تو جمہوریت کے سپاہی۔
اگر اس ملک میں جمہوریت نے چلنا ہے تو سیاستدانوں کو کرداربدلنا ہوگا۔ جمہوریت کی شاخ پر بیٹھ کر اس کو کاٹنا بند کرنا ہو گا۔ سب سے پہلے اپنے آپ پر جمہوریت نافذ کرنا ہوگی۔ شاہی خاندان جمہوریت کیے حقیقی وارث نہیں ہو سکتے، ان کے ہوتے ہوئے جعلی جمہوریت ہی ہمارا مقدر رہے گی کیونکہ انھیں خود بھی اصلی جمہوریت قبول نہیں ہے۔
اگر ملک کی ساسی جماعتیں اپنے اندر جمہوریت نافذ کردیں۔ یہ سیاسی لیڈر اپنی سیاسی جماعتوں میں آمریت ختم کر دیں۔ سیاسی جماعتوں کو ذاتی ملکیتی ادارے سمجھنے کے بجائے حقیقی سیاسی جمہوری ادارے بنا دیں۔ سیاسی جماعتوں میں فیصلوں کے لیے من پسند افراد کے مشاورتی اجلاسوں کے بجائے مضبوط ادارے بنا دیے جائیں ۔تو کسی کو جمہوریت کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات بھی نہیں ہو گی۔ یہ اسٹبلشمنٹ اور ادارے حقیقی معنوں میں جمہوریت کے آگے سرنگوں کر دیں گے۔ ان کی جرات بھی نہیں ہو گی کہ ہماری جمہوریت کی طرف دیکھ بھی سکیں۔ لیکن جب تک ہم خود نہیں ٹھیک ہوںگے۔ مداخلت بھی رہے گی، نظام بھی ننگا رہے گا اور کمزور بھی رہے گا۔