انجینئرڈ سیاست چل سکے گی
انجینئرڈ سیاست کی خواہش مند قوتوں کو سیاسی جماعتیں بنانے اور توڑنے کا یہ سلسلہ ترک کردینا چاہیے۔
MUSCAT, OMAN:
اس وقت ملک کی سیاسی صورتحال غیر یقینی کیفیت سے دوچار ہے ۔ ایک جانب حکمران خاندان کو احتساب عدالتوں کا سامنا ہے تو دوسری جانب سابق صدر پرویز مشرف کی قیادت میں 23 جماعتوں پر مشتمل پاکستان عوامی اتحاد وجود میں آگیا ہے، قبل از وقت انتخابات کرانے کی صدا بھی لگائی جا رہی ہے۔
نئی مردم شماری کے تحت انتخابی حلقہ بندی کا معاملہ اب تک حل نہیں کیا جاسکا اس لیے عام انتخابات کا اپنے وقت پر انعقاد بھی خطرے میں پڑتا نظر آرہا ہے۔ اسی کے ساتھ ملک کے سیاسی منظرنامے میں شہر قائد کراچی کی سیاسی صورتحال سب کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان اور پاک سرزمین پارٹی کے درمیان ہونے والا ڈرامائی ملاپ کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکا جسے '' ا نجینئرڈ ملاپ ''کہا گیا اور اب اس پر تبصروں اور تجزیوں کا ختم نہ ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ پاکستان اور پارک سرزمین پارٹی کے درمیان ہونے والے سیاسی اتحاد کے متعلق ابتداء میں یہ کہا گیا کہ ووٹ بینک کو تقسیم ہونے سے بچانے کے لیے دونوں جماعتیں قریب آرہی ہیں، دونوں جماعتوں کا سیاسی و انتخابی اتحاد یقیناً ایک مثبت بات ہے کیونکہ کسی زمانے میں اس پارٹی کے متحد ہونے کی بدولت کراچی پر ان کا راج تھا لیکن دو دھڑے ہونے کے بعد ووٹ بینک تقسیم ہونا ایک قدرتی امر ہے، اس صورتحال سے بچنے کے لیے اگر دونوں دھڑے متحد ہوتے ہیں تو یہ کراچی کے ووٹرز کے لیے انتہائی خوشی کی بات ہوگی مگر دونوں جماعتوں کے اتحاد سے قبل جو پراسراریت محسوس کی جارہی تھی اس نے سیاسی رہنماؤں، کارکنوں اور عوام کو تذبذب میں مبتلا کردیا تھا۔
دونوں جماعتوں کے رہنماؤں نے مشترکہ پریس کانفرنس میں ایک نام، ایک انتخابی نشان اور ایک منشور کے ساتھ انتخابات لڑنے کا اعلان کیا، جس پر ایم کیو ایم کے کارکنوں نے شدید تحفظات کا اظہار کیا اور ایک رکن اسمبلی نے استعفے کا اعلان کر دیا تو رابطہ کمیٹی کو اپنا ہنگامی اجلاس بلانا پڑا، جس میں فاروق ستار کی قیادت پر اعتماد کا اظہار تو کیا گیا مگر پارٹی کا نام اور انتخابی نشان تبدیل کرنے سے واضح انکار کیا۔
فاروق ستار اس اجلاس میں شریک نہیں ہوئے اور دلبرداشتہ ہوکر پریس کانفرنس میں تمام حقائق سامنے رکھے خود پر دباؤ کا انکشاف کیا مہاجروں کے ساتھ زیادتیوں کا پرزور انداز میں گلہ شکوہ کیا اور سیاسی جماعتوں میں انجنئیرنگ روکنے کا مطا لبہ کرتے ہوئے سیاست چھوڑنے کا اعلان کرکے ہلچل مچا دی ۔تاہم رابطہ کمیٹی کے اشک بار اراکین، رہنماؤں و کارکنوں کے پر زور اصرار کے علاوہ اپنی والدہ ماجدہ کے حکم پر انھوں نے اپنا فیصلہ واپس لے لیا۔
یہ بات اب کھلتی جارہی ہے کہ ایم کیو ایم کو پی ایس پی سے اتحاد کرنے کے لیے دباؤ کا سامنا تھا، اتحاد کے اعلان سے چند دن قبل مصطفی کمال کی جانب سے یہ دھمکی دینا کہ یہ میری ایک پریس کانفرنس کی مار ہے، اگر میں نے وہ کردی تو یہ اپنے گھر والوں کو بھی منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے، اس کے بعد قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ کا کہنا کہ یہ مجبور لوگ ہیں، انھیں جہاں کہا جائے گا یہ وہاں چلے جائیں گے، پھر فاروق ستار نے بھی ازراہ مذاق اشارہ دیا کہ ن لیگ والے اگر سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو بحران سے نکالنا چاہتے ہیں تو انھیں پی ایس پی میں شامل کرادیں، یہ تمام عوامل اس بات کے اشارے تھے کہ دونوں جماعتوں کو ایک ساتھ بٹھانے اور ایک نئی جماعت بنانے کی '' انجنیئرنگ ''کی جا رہی تھی ۔گورنر سندھ محمد زبیر بھی کہہ چکے کہ فاروق ستار نے پاک سرزمین پارٹی کے ساتھ ملنے کے لیے دباؤ سے آگاہ کیا تھا، جب کہ پی ایس پی کے چیئرمین مصطفی کمال نے اسٹبلشمنٹ کے کہنے پر فاروق ستار سے ملاقات کرنے کا کہہ کر ان شکوک و شبہات پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔
سیاسی مبصرین یہ سمجھتے ہیں کہ پی ایس پی سے اتحاد کا فیصلہ کرکے فاروق ستار کی پارٹی میں پوزیشن ڈاؤن ہوگئی تھی اور وہ پارٹی رہنما جو کل ان کے ساتھ کھڑے تھے وہ بھی ان کے ساتھ نہیں رہے تھے، تاہم مشاورت میں شریک پارٹی رہنماؤں سے گلہ کرکے سیاست سے دستبرداری کے اعلان نے حالات کو فاروق ستار کے حق میں سازگار بنادیا اور وہ ایم کیو ایم پاکستان کے طاقتور سربراہ کے طور پر ابھرے ہیں، کیونکہ آج تک متحدہ بانی کے علاوہ کسی کے پارٹی چھوڑ کر جانے کی بات پر ایسا نہیں ہوا کہ کارکنوں کے رونے کی آوازیں آرہی ہوں یا سینئر پارٹی رہنما منتیں کرتے نظر آرہے ہوں۔
یہاں یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ کسی دباؤ میں آکر کیے گئے فیصلے کو عوام بھی قابل قبول نہیں سمجھتے، پارٹی کے چار پانچ بڑے لیڈروں کے ساتھ مل کر فیصلہ کرنے کے باوجود ایم کیو ایم پاکستان کو ختم نہیں کیا جاسکا ، یہ ان قوتوں کے لیے ایک سبق ہے جو ہمیشہ پس پردہ رہ کر کھیل کھیلا کرتی ہے اور سیاست میں انجینئرنگ کی خواہشمند ہیں۔
تاریخ یہی بتاتی ہے کہ اس طرح کی کوششیں کبھی کامیاب نہیں ہوئی ہیں اور نہ ہی کامیاب ہوسکتی ہیں، ماضی میں ضیاء الحق کے دور میں پیپلز پارٹی کو بھی ختم کرنے کی کوشش کی گئی تھی، جس کے لیے جبر و تشدد کا سہارا لیا گیا مگر لوگ آج بھی بھٹو کے نام پر پیپلز پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں، حقیقت یہی ہے کہ مصنوعی یا غیر سیاسی طریقے سے سیاسی انتظام کرنے کی کوشش کامیاب نہیں ہوسکتی، سیاسی معاملات کو غیر سیاسی انداز میں حل کرنے کی کوششیں کبھی کبھار وقتی طور پرکامیاب ہوجاتی ہیں لیکن وہ دیرپا ثابت نہیں ہوتیں، ماضی کے تجربات کی روشنی میں ایم کیو ایم کو ختم کرنے کی کوششیں کامیاب ہونے کا امکان بھی کم ہے اور آج تو عوام ماضی کے مقابلے میں زیادہ باشعور ہیں، ''لڑاؤ اورسیاست کرو''کی پالیسی عوام کی سمجھ میں آنا شروع ہوگئی ہے، عوام اس قدر باشعور ہوگئے ہیں کہ انھیں معلوم ہے کہ کون کس کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے،کس کی ڈوریں کون ہلارہا ہے۔
یہ بات درست ہے کہ اس وقت کراچی اور حیدرآباد پر 30-35 سال سے مضبوط گرفت رکھنے والی متحدہ قومی موومنٹ کٹھن مراحل سے گزر رہی ہے۔ پاک سرزمین پارٹی کے وجود میں آنے اور بانی ایم کیو ایم کی 22اگست کی تقریر کے بعد ایم کیو ایم کی ٹوٹ پھوٹ میں شدت بھی آئی تھی اور پارٹی ایک بڑے سیاسی بحران سے دوچار ہوئی تھی تاہم فاروق ستار کی قیادت میں طویل کشمکش اور جدوجہد کے بعد ایم کیو ایم مائنس ون فارمولے کے تحت اپنا تشخص برقرار رکھنے میں خاصی حد تک کامیاب ہوگئی ہے اور اس وقت ایم کیو ایم پاکستان ہی کو کراچی کے مینڈیٹ کی امین جماعت تصور کیا جاتا ہے۔
کراچی سے سندھ اسمبلی کے حلقے پی ایس 114 میں متحدہ لندن کی بائیکاٹ کی اپیل کے باوجود ایم کیو ایم پاکستان کے امیدوارکا 18ہزار ووٹ حاصل کرنا اور ایم کیو ایم پاکستان کے 5 نومبر کو ہونے والے جلسے میں عوام کی بڑی تعداد میں شرکت اس بات کا مظہر ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کو کراچی کی بااثر اسٹیک ہولڈر جماعت کا درجہ حاصل ہے۔ ایسے حالات میں اگر ایم کیو ایم یہ الزام عائد کرتی ہے کہ نادیدہ قوتیں ایم کیوایم کو ختم کرنا چاہتی ہیں اور ان کی جماعت کے رہنماؤں، عہدیداروں، کارکنوں اور ممبران اسمبلی پر وفاداریاں تبدیل کرنے کے لیے دباو ڈالا جارہا ہے تو یہ ایک لمحہ فکریہ ہے، ان شکایات کا ازالہ ہونا چاہیے۔
انجینئرڈ سیاست کی خواہش مند قوتوں کو سیاسی جماعتیں بنانے اور توڑنے کا یہ سلسلہ ترک کردینا چاہیے۔ شہر قائد کی اہمیت کے تناظر اور موجودہ منتشر سیاسی فضا میں ایم کیو ایم پاکستان اور پاک سرزمین پارٹی بذات خود مفاہمت پر رضامند ہوتے ہیں تو اس کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔ دونوں جماعتوں کے رہنماؤں نے ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کرنے کے باوجود بھی مذاکرات کے دروازے کھلے رکھنے کے اشارے دیے ہیں۔ اگر دونوں جماعتوں میں سیاسی معاملات پر کوئی مفاہمت آیندہ الیکشن کے تناظر میں ہوجاتی ہے توکراچی کے سیاسی موسم پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے اور اس اتحاد سے شہر کو فائدہ ہو سکتا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں جماعتوں کے رہنما شہر قائد اور مہاجروں کے وسیع تر مفاد میں فیصلہ کرکے ذمے داری کا ثبوت دیں اور بصیرت کا مظاہرہ کرکے شہر کو سیاسی بحران سے بچائیں ۔ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور ایک دوسرے پر غلبہ پانے کی خواہش سے گریز کرتے ہوئے جیو اور جینے دو کی پالیسی اپنائیں اسی میں سب کا فائدہ ہو گا اور سیاست میں ''انجنئیرنگ'' کرنے والے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوسکیں گے۔
اس وقت ملک کی سیاسی صورتحال غیر یقینی کیفیت سے دوچار ہے ۔ ایک جانب حکمران خاندان کو احتساب عدالتوں کا سامنا ہے تو دوسری جانب سابق صدر پرویز مشرف کی قیادت میں 23 جماعتوں پر مشتمل پاکستان عوامی اتحاد وجود میں آگیا ہے، قبل از وقت انتخابات کرانے کی صدا بھی لگائی جا رہی ہے۔
نئی مردم شماری کے تحت انتخابی حلقہ بندی کا معاملہ اب تک حل نہیں کیا جاسکا اس لیے عام انتخابات کا اپنے وقت پر انعقاد بھی خطرے میں پڑتا نظر آرہا ہے۔ اسی کے ساتھ ملک کے سیاسی منظرنامے میں شہر قائد کراچی کی سیاسی صورتحال سب کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان اور پاک سرزمین پارٹی کے درمیان ہونے والا ڈرامائی ملاپ کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکا جسے '' ا نجینئرڈ ملاپ ''کہا گیا اور اب اس پر تبصروں اور تجزیوں کا ختم نہ ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ پاکستان اور پارک سرزمین پارٹی کے درمیان ہونے والے سیاسی اتحاد کے متعلق ابتداء میں یہ کہا گیا کہ ووٹ بینک کو تقسیم ہونے سے بچانے کے لیے دونوں جماعتیں قریب آرہی ہیں، دونوں جماعتوں کا سیاسی و انتخابی اتحاد یقیناً ایک مثبت بات ہے کیونکہ کسی زمانے میں اس پارٹی کے متحد ہونے کی بدولت کراچی پر ان کا راج تھا لیکن دو دھڑے ہونے کے بعد ووٹ بینک تقسیم ہونا ایک قدرتی امر ہے، اس صورتحال سے بچنے کے لیے اگر دونوں دھڑے متحد ہوتے ہیں تو یہ کراچی کے ووٹرز کے لیے انتہائی خوشی کی بات ہوگی مگر دونوں جماعتوں کے اتحاد سے قبل جو پراسراریت محسوس کی جارہی تھی اس نے سیاسی رہنماؤں، کارکنوں اور عوام کو تذبذب میں مبتلا کردیا تھا۔
دونوں جماعتوں کے رہنماؤں نے مشترکہ پریس کانفرنس میں ایک نام، ایک انتخابی نشان اور ایک منشور کے ساتھ انتخابات لڑنے کا اعلان کیا، جس پر ایم کیو ایم کے کارکنوں نے شدید تحفظات کا اظہار کیا اور ایک رکن اسمبلی نے استعفے کا اعلان کر دیا تو رابطہ کمیٹی کو اپنا ہنگامی اجلاس بلانا پڑا، جس میں فاروق ستار کی قیادت پر اعتماد کا اظہار تو کیا گیا مگر پارٹی کا نام اور انتخابی نشان تبدیل کرنے سے واضح انکار کیا۔
فاروق ستار اس اجلاس میں شریک نہیں ہوئے اور دلبرداشتہ ہوکر پریس کانفرنس میں تمام حقائق سامنے رکھے خود پر دباؤ کا انکشاف کیا مہاجروں کے ساتھ زیادتیوں کا پرزور انداز میں گلہ شکوہ کیا اور سیاسی جماعتوں میں انجنئیرنگ روکنے کا مطا لبہ کرتے ہوئے سیاست چھوڑنے کا اعلان کرکے ہلچل مچا دی ۔تاہم رابطہ کمیٹی کے اشک بار اراکین، رہنماؤں و کارکنوں کے پر زور اصرار کے علاوہ اپنی والدہ ماجدہ کے حکم پر انھوں نے اپنا فیصلہ واپس لے لیا۔
یہ بات اب کھلتی جارہی ہے کہ ایم کیو ایم کو پی ایس پی سے اتحاد کرنے کے لیے دباؤ کا سامنا تھا، اتحاد کے اعلان سے چند دن قبل مصطفی کمال کی جانب سے یہ دھمکی دینا کہ یہ میری ایک پریس کانفرنس کی مار ہے، اگر میں نے وہ کردی تو یہ اپنے گھر والوں کو بھی منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے، اس کے بعد قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ کا کہنا کہ یہ مجبور لوگ ہیں، انھیں جہاں کہا جائے گا یہ وہاں چلے جائیں گے، پھر فاروق ستار نے بھی ازراہ مذاق اشارہ دیا کہ ن لیگ والے اگر سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو بحران سے نکالنا چاہتے ہیں تو انھیں پی ایس پی میں شامل کرادیں، یہ تمام عوامل اس بات کے اشارے تھے کہ دونوں جماعتوں کو ایک ساتھ بٹھانے اور ایک نئی جماعت بنانے کی '' انجنیئرنگ ''کی جا رہی تھی ۔گورنر سندھ محمد زبیر بھی کہہ چکے کہ فاروق ستار نے پاک سرزمین پارٹی کے ساتھ ملنے کے لیے دباؤ سے آگاہ کیا تھا، جب کہ پی ایس پی کے چیئرمین مصطفی کمال نے اسٹبلشمنٹ کے کہنے پر فاروق ستار سے ملاقات کرنے کا کہہ کر ان شکوک و شبہات پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔
سیاسی مبصرین یہ سمجھتے ہیں کہ پی ایس پی سے اتحاد کا فیصلہ کرکے فاروق ستار کی پارٹی میں پوزیشن ڈاؤن ہوگئی تھی اور وہ پارٹی رہنما جو کل ان کے ساتھ کھڑے تھے وہ بھی ان کے ساتھ نہیں رہے تھے، تاہم مشاورت میں شریک پارٹی رہنماؤں سے گلہ کرکے سیاست سے دستبرداری کے اعلان نے حالات کو فاروق ستار کے حق میں سازگار بنادیا اور وہ ایم کیو ایم پاکستان کے طاقتور سربراہ کے طور پر ابھرے ہیں، کیونکہ آج تک متحدہ بانی کے علاوہ کسی کے پارٹی چھوڑ کر جانے کی بات پر ایسا نہیں ہوا کہ کارکنوں کے رونے کی آوازیں آرہی ہوں یا سینئر پارٹی رہنما منتیں کرتے نظر آرہے ہوں۔
یہاں یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ کسی دباؤ میں آکر کیے گئے فیصلے کو عوام بھی قابل قبول نہیں سمجھتے، پارٹی کے چار پانچ بڑے لیڈروں کے ساتھ مل کر فیصلہ کرنے کے باوجود ایم کیو ایم پاکستان کو ختم نہیں کیا جاسکا ، یہ ان قوتوں کے لیے ایک سبق ہے جو ہمیشہ پس پردہ رہ کر کھیل کھیلا کرتی ہے اور سیاست میں انجینئرنگ کی خواہشمند ہیں۔
تاریخ یہی بتاتی ہے کہ اس طرح کی کوششیں کبھی کامیاب نہیں ہوئی ہیں اور نہ ہی کامیاب ہوسکتی ہیں، ماضی میں ضیاء الحق کے دور میں پیپلز پارٹی کو بھی ختم کرنے کی کوشش کی گئی تھی، جس کے لیے جبر و تشدد کا سہارا لیا گیا مگر لوگ آج بھی بھٹو کے نام پر پیپلز پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں، حقیقت یہی ہے کہ مصنوعی یا غیر سیاسی طریقے سے سیاسی انتظام کرنے کی کوشش کامیاب نہیں ہوسکتی، سیاسی معاملات کو غیر سیاسی انداز میں حل کرنے کی کوششیں کبھی کبھار وقتی طور پرکامیاب ہوجاتی ہیں لیکن وہ دیرپا ثابت نہیں ہوتیں، ماضی کے تجربات کی روشنی میں ایم کیو ایم کو ختم کرنے کی کوششیں کامیاب ہونے کا امکان بھی کم ہے اور آج تو عوام ماضی کے مقابلے میں زیادہ باشعور ہیں، ''لڑاؤ اورسیاست کرو''کی پالیسی عوام کی سمجھ میں آنا شروع ہوگئی ہے، عوام اس قدر باشعور ہوگئے ہیں کہ انھیں معلوم ہے کہ کون کس کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے،کس کی ڈوریں کون ہلارہا ہے۔
یہ بات درست ہے کہ اس وقت کراچی اور حیدرآباد پر 30-35 سال سے مضبوط گرفت رکھنے والی متحدہ قومی موومنٹ کٹھن مراحل سے گزر رہی ہے۔ پاک سرزمین پارٹی کے وجود میں آنے اور بانی ایم کیو ایم کی 22اگست کی تقریر کے بعد ایم کیو ایم کی ٹوٹ پھوٹ میں شدت بھی آئی تھی اور پارٹی ایک بڑے سیاسی بحران سے دوچار ہوئی تھی تاہم فاروق ستار کی قیادت میں طویل کشمکش اور جدوجہد کے بعد ایم کیو ایم مائنس ون فارمولے کے تحت اپنا تشخص برقرار رکھنے میں خاصی حد تک کامیاب ہوگئی ہے اور اس وقت ایم کیو ایم پاکستان ہی کو کراچی کے مینڈیٹ کی امین جماعت تصور کیا جاتا ہے۔
کراچی سے سندھ اسمبلی کے حلقے پی ایس 114 میں متحدہ لندن کی بائیکاٹ کی اپیل کے باوجود ایم کیو ایم پاکستان کے امیدوارکا 18ہزار ووٹ حاصل کرنا اور ایم کیو ایم پاکستان کے 5 نومبر کو ہونے والے جلسے میں عوام کی بڑی تعداد میں شرکت اس بات کا مظہر ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کو کراچی کی بااثر اسٹیک ہولڈر جماعت کا درجہ حاصل ہے۔ ایسے حالات میں اگر ایم کیو ایم یہ الزام عائد کرتی ہے کہ نادیدہ قوتیں ایم کیوایم کو ختم کرنا چاہتی ہیں اور ان کی جماعت کے رہنماؤں، عہدیداروں، کارکنوں اور ممبران اسمبلی پر وفاداریاں تبدیل کرنے کے لیے دباو ڈالا جارہا ہے تو یہ ایک لمحہ فکریہ ہے، ان شکایات کا ازالہ ہونا چاہیے۔
انجینئرڈ سیاست کی خواہش مند قوتوں کو سیاسی جماعتیں بنانے اور توڑنے کا یہ سلسلہ ترک کردینا چاہیے۔ شہر قائد کی اہمیت کے تناظر اور موجودہ منتشر سیاسی فضا میں ایم کیو ایم پاکستان اور پاک سرزمین پارٹی بذات خود مفاہمت پر رضامند ہوتے ہیں تو اس کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔ دونوں جماعتوں کے رہنماؤں نے ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کرنے کے باوجود بھی مذاکرات کے دروازے کھلے رکھنے کے اشارے دیے ہیں۔ اگر دونوں جماعتوں میں سیاسی معاملات پر کوئی مفاہمت آیندہ الیکشن کے تناظر میں ہوجاتی ہے توکراچی کے سیاسی موسم پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے اور اس اتحاد سے شہر کو فائدہ ہو سکتا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں جماعتوں کے رہنما شہر قائد اور مہاجروں کے وسیع تر مفاد میں فیصلہ کرکے ذمے داری کا ثبوت دیں اور بصیرت کا مظاہرہ کرکے شہر کو سیاسی بحران سے بچائیں ۔ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور ایک دوسرے پر غلبہ پانے کی خواہش سے گریز کرتے ہوئے جیو اور جینے دو کی پالیسی اپنائیں اسی میں سب کا فائدہ ہو گا اور سیاست میں ''انجنئیرنگ'' کرنے والے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوسکیں گے۔