جو کرنے کا کام ہے وہ کرو

نظام کی بہتری کے لیے یہاں چند تجاویز پیش کرنے کی جسارت کی جارہی ہے۔


Muqtida Mansoor November 13, 2017
[email protected]

بدھ 8 نومبر کی شام کچھ حلقوں کی خواہش پر ایک ڈرامہ کھیلاگیا۔ مگر چوبیس گھنٹے کے اندر یہ ڈرامہ فلاپ اور اسکرپٹ پٹ گیا۔ وہ کھیل جو اربن سندھ کی سیاست پر کنٹرول کے لیے کئی دہائیوں سے کھیلا جارہا ہے، اس میں 1992 اور پھر 2013 کے بعد تیزی آئی ہے، مگر ہر بار یہ کھیل بدترین شکست سے دوچار ہوا ہے۔اس بار بھی یہی ہونا ہے۔

یہ کوئی نئی بات نہیں، اس قسم کے کھیل پورے ملک میں 1954 سے کھیلے جارہے ہیں۔ جنرل ضیا کے دور میں سیاست دانوں کی خرید و فروخت کا سلسلہ بام عروج پر پہنچا۔ جب کہ جنرل پرویزمشرف کے دور میں اس کھیل کو مہمیز لگی۔ مگر من پسند سیاسی سیٹ اپ قائم کرنے کا ہر منصوبہ ہر دور میں ناکام ہوا، آیندہ بھی اس نوعیت کے ہر خواب کے شرمندہ تعبیر ہونے کے امکانات نظر نہیں آرہے۔

میرا خیال ہے کہ مجھے کراچی میں ہونے والی حالیہ ڈیولپمنٹ پر اظہارخیال سے گریز کرنا چاہیے، کیونکہ اس طرح صرف منصوبہ ساز حلقوں کی ناپسندیدگی ہی کا خدشہ نہیں ہے، بلکہ ان صحافیوں کی ناراضگی کا بھی سامنا کرنا پڑے گا، جو اربن سندھ کی سیاسی حرکیات (Political Dynamics) کی ابجد سے ناواقف ہونے کے باوجود اس پر تبصرہ اپنا حق سمجھتے ہیں۔

میڈیا منیجرز بھی شاید انھیں اس لیے اہمیت دیتے ہیں کہ وہ His Masters' Voice ہیں۔ اس لیے مسئلہ سندھ کا ہو یا بلوچستان کا، اسلام آباد اور لاہور میں بیٹھے صحافیوں کا مخصوص ٹولہ اپنی ''ماہرانہ رائے'' سے ناظرین کے علم وفضل میں اضافہ کرتا رہتا ہے۔ ویسے بھی حب الوطن اسٹبلشمنٹ اور معیاری صحافت صرف ایک صوبے ہی میں جنم رہی ہے۔

پاکستان کی حکمران اشرافیہ سے یہ توقع خام خیالی ہے کہ وہ ہٹ دھرمی اور خود نمائی کے زعم سے باہر نکل کر عقل ودانش کی بنیاد پر فیصلے کرسکے گی۔ اگر عقل و خرد ہوتی، تو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا زخم کھانے کے بعد باقی ماندہ ملک کے چھوٹے صوبوں کو نوآبادی بنانے کی کوشش نہ کی جاتی اور نہ ہی اربن سندھ کی سیاست پر شب خوں مارا جاتا، مگر جب حکمران اشرافیہ کو مشرقی پاکستان کے بنگلادیش بن جانے کا قلق ہی نہ ہو، تو انھیں سندھ اور بلوچستان میں بڑھتی ہوئی بے چینی کی کیا پرواہ ہوسکتی ہے۔ گو کہ آئے دن ہونے والے پرتشدد واقعات نوشتہ دیوار ہیں، مگر وہ حلقے جو دلیل کی بنیاد پر مکالمہ اور گفت وشنید پر یقین ہی نہ رکھتے ہوں، ان سے کسی بہتری کی توقع عبث ہے۔

لہٰذا چھوڑئیے ان موضوعات کو جو دل جلانے اور زندگی کو خطرات میں ڈالنے کا باعث ہیں۔ آئیے کچھ بات کرتے ہیں نئی حلقہ بندیوں کی۔ گو کہ یہ بھی حکمران اشرافیہ کی نااہلی اور کوتاہ بینی کا بین ثبوت ہے، مگر اس موضوع پر گفتگو کراچی کے سیاسی حالات اور اکھاڑ پچھاڑ پر گفتگو کرنے سے کم خطرناک ہے۔ ویسے بھی اربن سندھ کے عوام کو بے وقوف سمجھنے والے حلقے، جس قسم کی سیاست متعارف کرانے کی کوشش کررہے ہیں، اس کے نتائج وہ خود ہی بھگتیں گے، ہمیں کیا۔

دنیا بھر میں انتخابی حلقے ایک مخصوص علاقے، ضلع یا سمت (Precinct) کا اظہار ہوتے ہیں۔ امریکا میں ہر ریاست کے لیے آبادی کی بنیاد پر کانگریس کی نشستیں مختص کی جاتی ہیں۔ پاکستان میں صوبوں کے ساتھ ضلع کو بھی حلقوں کی تقسیم کی بنیاد بنایا جاتا ہے۔ پاکستان میں حلقہ بندیوں کے بارے میں پہلا باضابطہ قانون 1974 میں نافذ کیا گیا، جو Delimitation of Constituencies Act, 1974 کہلاتا ہے۔ اس قانون کے تحت 1972 کی مردم شماری کی بنیاد پر حلقہ بندیاں کی گئیں، جس پر 1977 کے عام انتخابات منعقد ہوئے۔

آخری بار حلقہ بندیاں 1998 کی مردم شماری کی بنیاد پر 2002 کے انتخابات سے قبل کی گئی تھیں، یعنی جب ملک کی کل آبادی ساڑھے 13 کروڑ کے لگ بھگ تھی۔ ان حلقہ بندیوں میں جس قسم کے اسقام اور خامیاں تھیں، ان پر نہ تو کسی سیاسی جماعت نے توجہ دلانے کی کوشش کی، نہ سول سوسائٹی کی جانب سے آواز اٹھائی گئی اور نہ ہی ذرایع ابلاغ نے نشاندہی کی۔ دو حلقوں کے درمیان 10 سے 15 ہزار ووٹرز کا فرق تو سمجھ میں آتا ہے۔ لیکن لاکھوں کا فرق سمجھ سے بالاتر ہے۔ ذیل میں 2002 میں کی گئی حلقہ بندیوں میں موجود خامیوں کی چند مثالیں پیش کی جارہی ہیں، جو نظام کے نقائص کو سمجھنے میں معاون ہوسکتی ہیں۔

سندھ کے ایک حلقے NA203 میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 2 لاکھ 28 ہزار 663 ہے۔ دوسرے حلقہ NA253 میں ووٹرز کی کل تعداد 5 لاکھ 19 ہزار 854 ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ حلقہ 253 میں 203 کی جسامت کے سوا دو حلقے بن سکتے ہیں۔ پنجاب کے حلقہ 115 میں 2 لاکھ 47 ہزار 582 ووٹرز رجسٹرڈ ہیں، جب کہ NA106 میں 4لاکھ 13 ہزار 565 ووٹرز رجسٹرڈ ہیں۔ بلوچستان کے حلقے 267 میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد ایک لاکھ 47 ہزار 595 ہے، جب کہ اس سے پہلے والے حلقے 266 میں ووٹرز کی کل تعداد 4 لاکھ 9 ہزار 664 ہے۔ ملک کی قومی اسمبلی کا سب سے چھوٹا حلقہ NA-41 ہے، جس میں ووٹرز کی کل تعداد 92 ہزار 719 ہے۔ جب کہ سب سے بڑا حلقہ NA-19 (ہری پوری) ہے، جس میں ووٹرز کی کل تعداد 5 لاکھ 31 ہزار 685 ہے۔

چاروں صوبوں کی ایک ایک مثال پیش کرنے سے یہ ثابت ہوا کہ حلقہ بندیاں کرتے وقت کس طرح اصول و ضوابط کو نظر انداز کرتے ہوئے سیاسی مفادات کو مدنظر رکھا جاتا ہے، جب کہ بلدیاتی حلقوں کی حد بندی میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی حد بندیوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ اسقام پائے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر کوئٹہ میٹروپولیٹن کارپوریشن کے ایک وارڈ میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 1,947 ہے، جب کہ دوسرے وارڈ میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 26 ہزار 445 ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ موخرالذکر حلقہ، اول الذکر حلقے سے 13گنا بڑا ہے۔ حالانکہ اقوام متحدہ کے مطابق 15 فیصد سے زیادہ تغیروتبدل نہیں ہونا چاہیے۔

اس خامی اور نقص کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جس محکمہ اور جن افراد کو یہ ذمے داری سونپی گئی، وہ اس کے اہل نہیں تھے۔ اس لیے جلد سیاسی دباؤ میں آگئے۔ سندھ ہائی کورٹ نے ایسی تمام حلقہ بندیوں کو غیر ذمے دارانہ قرار دیتے ہوئے Void قرار دے دیا ہے، جن میں بڑے پیمانے پر فرق اور بے قاعدگیاں پائی گئی ہیں۔ اس سلسلے میں لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ بھی جلد متوقع ہے۔

نظام کی بہتری کے لیے یہاں چند تجاویز پیش کرنے کی جسارت کی جارہی ہے۔ 1، نئی حلقہ بندیوں کے لیے ایک واضح میکنزم بنایا جائے، تاکہ پورے ملک میں ووٹ کی برابری (Equality) کے تصور کو یقینی بنایا جاسکے۔ 2، اس کام کے لیے ایک ایسا شعبہ تشکیل دیا جائے، جو فیصلہ سازی میں بااختیار اور آزاد ہو اور صرف پارلیمان کو جوابدہ ہو۔ 3، وارڈ سے یونین کونسل تک اور صوبائی سے قومی اسمبلی تک ہر حلقہ ووٹ کی برابری کی بنیاد پر تشکیل دیا جائے۔4، آبادی، شہری اور ووٹر جیسی اصطلاحات کی ازسرنو تعریف کی جائے، جو اقوام متحدہ کی جانب سے کی گئی تعریف سے مطابقت رکھتی ہو۔ 5، Delimitation کو اخبارات کے ذریعے مشتہر کیا جائے اور عوام کی جانب سے اٹھنے والے حقیقی اعتراضات پر توجہ دی جائے اور اس کی بنیاد پر حلقوں کے حتمی نقشہ میں مناسب ردوبدل کی جائے۔

عرض ہے کہ ملکی سیاست میں مداخلت اور نئی سیاسی تشکیلات بنانا وفاقی دارالحکومت میں بیٹھے منصوبہ سازوں کا درد سر نہیں ہونا چاہیے۔ اسی طرح شہری اور دیہی سندھ میں کس جماعت کو مقبول یا غیر مقبول ہونا چاہیے، یہ سندھ کے عوام کا مسئلہ ہے، وفاقی حکمرانوں کا نہیں۔ اس کے بجائے خارجہ امور اور مالیاتی پالیسیوں کو موثر بنانے کے لیے حکمت عملیاں تیار کرنا ان کی اولین ترجیح ہونا چاہیے۔ ساتھ انتخابی اصلاحات اور نئی حلقہ بندیوں کو عالمی معیار کے مطابق متعین کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، تاکہ ملک ایک پائیدار جمہوری مملکت کی شکل میں تیزی کے ساتھ ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں