کراچی میں امن کے لیے ایم کیوایم پی ایس پی اتحاد اہم ہے

ایم کیو ایم کو کسی دباؤ کے ذریعے ختم نہیں کیا جاسکتا، ڈاکٹر فاروق ستار

ایک نام ، ایک نشان اور ایک منشور پر انتخابات میں حصہ لیں گے، نیس قائم خانی۔ فوٹو:فائل

کہاجاتا ہے سیاست میں وقت بہت اہمیت رکھتا ہے کہ کب اپنے پتے کھیلنا ہیں اور کب انھیں چھپاکر رکھنا ہے۔

ملکی سیاست کی جب بات کی جاتی ہے تو اس میں جن جماعتوں کا سب سے زیادہ ذکر خیر ہوتا ہے ان میں پاکستان پیپلزپارٹی، مسلم لیگ نواز،پاکستان تحریک انصاف اور ایم کیوایم نمایاں ہیں اور آج کل ایم کیو ایم پاکستان اور پاک سرزمین پارٹی کا چرچہ بہت زیادہ ہے۔

قارئین کرام ہم نے کراچی کی گزشتہ ڈیڑھ سال کی صورتحال ایم کیو ایم پاکستان اور پاک سرزمین پارٹی کے درمیان جاری کشیدگی کے تناظر میں ایکسپریس فورم کے لیے دونوں جماعتوں کے رہنماؤں ڈاکٹر فاروق ستار اور انیس قائم خانی سے سیر حاصل گفتگودو روز قبل کی تھی جب دونوں جماعتوں کے قایدین نے کراچی پریس کلب میں ایک پرہجوم پریس کانفرنس کے دوران اس بات کا اعلان کیا کہ دونوں جماعتوں کے درمیان اس بات پر اتفاق ہوگیا ہے کہ وہ آئندہ عام انتخابات میں ایک نشان، ایک جماعت اور ایک منشور کے تحت حصہ لیں گی۔

اسی پریس کانفرنس میں چیئرمین پی ایس پی مصطفی کمال نے یہ بھی کہا کہ وہ مہاجر نام پر سیاست نہیں کریں گے اور ایم کیو ایم کو دفن کرنا ان کا مقصد ہے جبکہ ڈاکٹر فاروق ستار نے آخری الفاظ کے طور پر میڈیا کو کہا کہ ایم کیو ایم بھی اپنی جگہ قائم رہے گی اور پی ایس پی بھی ختم نہیں ہوگی ہم انتخابی الائنس قائم کرنے جارہے ہیں۔

پریس کانفرنس کے بعد ایم کیو ایم پاکستان میں ایک بھونچال آگیا اور ڈاکٹر فاروق ستار نے ایک دن بعد ہی ایک پریس کانفرنس میں مصطفی کمال کے رویے اور اپنی جماعت کے رہنماؤں کے حوالے سے دھواں دار پریس کانفرنس کرتے ہوئے سیاست سے علیحدگی کا اعلان کیا جسے ایک گھنٹے بعد والدہ کے کہنے پر واپس لے لیا۔

فاروق ستار کی پریس کانفرنس کے جواب میں پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ نے بھی جوابی پریس کانفرنس میں فاروق ستار اور ان کی جماعت پر سنگین نوعیت کے الزامات عائد کردیے اب دونوں جماعتیں ایک دوسرے کو لفظوں اور الزامات کے ذریعے نشانہ بنارہی ہیں ہم قارئین کی خدمت میں اس صورتحال سے قبل کی گفتگو پیش کررہے ہیں جو دونوں جماعتوں کے قائدین نے کی تھی۔

ڈاکٹر فاروق ستار ( سربراہ ایم کیو ایم پاکستان)

ایم کیو ایم پاکستان اور پاک سرزمین پارٹی (پی ایس پی) کے درمیان صرف سیاسی اور انتخابی اتحاد ہوا ہے، متحدہ پاکستان پی ایس پی میں یا پی ایس پی متحدہ پاکستان میں ضم نہیں ہورہی ہیں، دونوں جماعتیں اپنی شناخت برقرار رکھیں گی، سیاسی اور انتخابی اتحادکے نام اور انتخابی نشان کا فیصلہ عام انتخابات سے قبل کیا جائے گا، اس سیاسی اور انتخابی اتحاد کا دائرہ کار فی الحال سندھ تک محدود ہے، ہوسکتا ہے کہ مستقبل میں یہ سیاسی اور انتخابی اتحاد قومی سطح پر قائم ہوجائے۔

اس سیاسی اور انتخابی اتحاد میں تمام ہم خیال جماعتوں کو شامل کریں گے، ایم کیو ایم پاکستان کی شناخت کو ختم نہیں کرسکتے، سندھ میں وڈیرہ شاہی اور کچھ بااثر قوتیں انجینئرڈ سیاست کرنے کی کوشش کررہی ہیں، یہ قوتیں سندھ کی سیاست پر اپنا تسلط قائم رکھنا چاہتی ہیں، ایم کیو ایم پاکستان کو کسی دباؤ کے ذریعے ختم نہیں کیا جاسکتا، ایم کیو ایم پاکستان اور پی ایس پی کے درمیان سیاسی اور انتخابی اتحاد پر مشاورت کئی ماہ سے چل رہی تھی، ہم نے سندھ کے وسیع تر مفاد اور عوام کے مسائل کے حل کے لیے سیاسی اور انتخابی اتحاد کا فیصلہ کیا ہے۔

دونوں جماعتوں کی قیادت کے درمیان کئی امور پر ورکنگ ریلیشن شپ قائم ہوئی ہے۔ اس ورکنگ ریلیشن شپ میں یہ طے کیا گیا ہے کہ دونوں جماعتیں کراچی سمیت سندھ بھر میں قیام امن کے لیے مل کرکوششیں کریں گی۔ عوام کے مسائل کے حل کے لیے مشترکہ پالیسی اختیار کی جائے گی۔ مردم شماری کے نتائج پر تحفظات، بلدیاتی نمائندوں کے اختیارات اور دیگر معاملات پر بھی ہم مل کر اپنا لائحہ عمل طے کریں گے۔ ہمارا پی ایس پی سے کوئی جھگڑا نہیں ہے۔

22 اگست 2016ء کو پریس کلب پر ہونے والے واقعے کے بعد23 اگست 2016ء کو ایم کیو ایم پاکستان قائم کی گئی۔ اب ہمارا متحدہ لندن اور اس کے قائد سے کوئی رابطہ یا تعلق نہیں۔ ہم اس ملک کے شہری ہیں اور ہمارے آبا واجداد نے پاکستان بنانے کے لیے قربانیاں دی ہیں۔ ہم پاکستان کے خلاف بات کرنے والوں کی ہمیشہ سے مخالفت کرتے رہے ہیں اور آئندہ بھی کریں گے۔ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت بلدیاتی نمائندوں کو اختیارات نہیں دے رہی ہے۔ کراچی سمیت صوبے کے شہری علاقے مسائل کا گڑھ بن گئے ہیں۔ جب بلدیاتی نمائندوں کو اختیارات اور وسائل نہیں دیئے جائیں گے تو وہ کس طرح عوام کے مسائل حل کریں گے۔ ہم محدود وسائل میں بھی عوام کی خدمت کررہے ہیں۔

ایم کیو ایم پاکستان اور پی ایس پی میں اچھی ورکنگ ریلیشن شپ قائم ہوگئی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ رابطوں کے ذریعے تمام امور کو طے کیا جائے گا۔ جو رہنما وہاں چلے گئے ہیں یا جن ارکان اسمبلی نے استعفے دیے ہیں ان کے استعفے قبول کرنا یا نہ کرنا اسپیکرکا کام ہے۔ دونوں جماعتوں میں ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنے سے اب سندھ کے شہری علاقوں کی سیاست میں بہتری آئے گی۔ ہمیں امید ہے کہ پی ایس پی کے ساتھ ہمارے سیاسی اور انتخابی تعلقات مستقبل میں بہتر ہوں گے۔


اس سیاسی اور انتخابی اتحاد کا مقصد یہ ہے کہ سندھ میں آئندہ ایسی حکومت قائم ہو جو عوام کے مسائل حل کرسکے۔جو جماعتیں اس اتحاد میں شامل ہوں گی، ہم انھیں خوش آمدید کہیں گے۔ سینیٹ کے انتخاب میں ایم کیو ایم کی جو نشستیں خالی ہوں گی، وہ دوبارہ ایم کیو ایم پاکستان کو ہی ملیں گی۔ اس کے لیے ہم نے حکمت عملی بنالی ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان میں کوئی گروپ بندی ہے اور نہ ہی قیادت میں اختلافات ہیں۔ متحدہ پاکستان اور پی ایس پی میں سیاسی اتحاد پرکچھ رہنماؤں نے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔ اگر کسی کے کوئی تحفظات ہیں تو ہم انھیں دور کریں گے۔

ایم کیو ایم پاکستان کو ختم نہیں کیا جارہا ہے اور نہ ہی ہم اپنا جھنڈا یا انتخابی نشان تبدیل کررہے ہیں۔سیاست میں اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے اور بڑی جماعتوں میں ہر رہنما کو حق ہوتا ہے کہ وہ اپنی رائے کا اظہار کرے۔ اگر ہماراکوئی رہنما پارٹی کی کسی پالیسی پر کوئی رائے دیتا ہے تو اس کا مقصد اختلاف نہیں ہے۔ متحدہ پاکستان اور پی ایس پی کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا فارمولہ دونوں جماعتوں کی کمیٹیاں طے کریں گی۔

ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا تھا کہ متحدہ پاکستان کوکھل کر سیاسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی جارہی، ہمارے قانونی دفاتر بند ہیں، ہم نے اپنے مطالبات اور تحفظات سے وفاقی حکومت کو آگاہ کردیا ہے۔ امید کرتے ہیں کہ ایم کیو ایم کے قانونی دفاتر کو جلد کھول دیا جائے گا۔ اسیر اور لاپتہ کارکنان کے معاملات سے بھی ہم نے وفاقی حکومت کو آگاہ کیا ہے اور ہماری وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال سے ملاقات ہوچکی ہے۔

ہمیں امید ہے کہ اس مسئلے کو بھی قانون کے مطابق حل کیا جائے گا۔پی ایس پی کے ساتھ ابھی بہت سارے معاملات پر بات ہوگی کچھ لوگ یہ افواہیں پھیلا رہے ہیں کہ ایم کیو ایم پاکستان ختم ہورہی ہے لیکن میں اس کی سختی سے تردید کرتا ہوں ۔ ہم عدالت عظمیٰ سے درخواست کرتے ہیں کہ مردم شماری اور بلدیاتی نمائندوں کے اختیارات کے حوالے سے دائر پٹیشن کی سماعت بھی جلد کی جائے۔سندھ کے شہری علاقوں کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ان اضلاع کے لیے خصوصی پیکیج کا اعلان کریں۔

انیس قائم خانی ( صدر پاک سرزمین پارٹی)

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے ساتھ ہمارا سیاسی اور انتخابی اتحاد اس بات پر قائم ہوا ہے کہ آئندہ انتخابات میں ایک نام اور ایک انتخابی نشان پرالیکشن لڑا جائے گا اور انتخابی نام اور نشان کا فیصلہ اتفاق رائے سے کریں گے،اس انتخابی اتحاد کا ایسا نام تجویز کیا جائے گا جس کا ایم کیو ایم لندن کی سیاست سے بالواسطہ یا بلاواسطہ کوئی تعلق نہیں ہوگا، مذکورہ اتحاد کا قیام اس لیے عمل میں لایا گیا ہے تاکہ شہری علاقوں کا مینڈیٹ تقسیم نہ ہو، اس اتحاد کے ابتدائی نکات طے کیے گئے ہیں تاہم باقی معاملات طے کرنے کے لیے دونوں جماعتوں کی ایک مشترکہ کمیٹی قائم کی جائے گی جو انتخابی اتحاد کے نام، نشان اور الیکشن حکمت عملی کو طے کرے گی پی ایس پی2 مارچ 2016ء کو قائم ہوئی۔ ہم نے ایم کیو ایم لندن کی پالیسیوں کی مخالفت کرتے ہوئے پاکستان آئے اور جب ہم نے اس شہر میں سیاست کا آغاز کیا توصرف میں اور مصطفی کمال تھے۔

آج پاک سرزمین پارٹی پورے ملک میں پھیل چکی ہے۔ہماری جماعت میں جو کارکن یا رہنما شامل ہورہے ہیں، وہ کسی دباؤ کے تحت نہیں آرہے۔ پی ایس پی کوئی ڈرائی کلین مشین نہیں ہے اور نہ ہی ہمیں مقتدر حلقوں کی تائید حاصل ہے۔ ہماری طاقت صرف عوام ہیں۔ ایم کیو ایم پاکستان کے جو ارکان اسمبلی یا رہنما پی ایس پی میں شامل ہوئے ہیں، وہ اپنی مرضی سے ہماری جماعت میں آئے ہیں۔ ہمارا جینا مرنا پاکستان کے ساتھ ہے اور ہمارا پیغام امن اور محبت کا ہے، ہم نے اس شہر میں اسلحہ نہیں بلکہ قلم کا درس دیا ہے۔ کیونکہ مسائل جنگوں سے نہیں بلکہ مذاکرات کے ذریعے حل ہوتے ہیں اور وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جو علم کو اپنا ہتھیار بناتی ہیں۔

کراچی منی پاکستان کا درجہ رکھتا ہے آج یہ شہر مسائل کا گڑھ بن گیا ہے، دونوں ہاتھوں سے اس شہر کے وسائل کو لوٹا گیا ہے۔ شہر کا انفرااسٹرکچر مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے،ہم اس شہر کی ترقی چاہتے ہیںٔ ایم کیو ایم پاکستان اور پی ایس پی میں جو سیاسی اتحاد قائم ہوا ہے، وہ کسی دباؤ کے تحت نہیں بلکہ سندھ کے عوام کے مسائل کے حل اور ترقی کے لیے قائم کیاگیا ہے۔ انیس قائم خانی نے کہا آئندہ الیکشن کا وقت قریب آرہا ہے اور اس الیکشن کی تیاری ہم نے شروع کردی ہے۔

ایم کیو ایم پاکستان سے سیاسی اتحاد قائم ہوگیا ہے۔ اب متحدہ پاکستان پر منحصر ہے کہ وہ اس اتحاد کو کامیاب بنانے کے لیے کیا کام کرتے ہیں۔ اگر اس اتحاد کے قیام پر ان کی جماعت میں کوئی اختلاف ہے تو اس کو حل کرنا ایم کیو ایم کی قیادت کا کام ہے۔ ہم ان کی پارٹی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرتے۔ پی ایس پی نے کراچی میں اپنا تنظیمی نیٹ ورک قائم کرلیا ہے اور ہماری تنظیم میں صرف ایم کیو ایم نہیں بلکہ تمام جماعتوں کے لوگ شامل ہورہے ہیں۔ ماضی کی ایم کیو ایم کی پالیسیوں کی وجہ سے سیکڑوں گھرانے اجڑ گئے۔

اب اس شہر میں امن کی ضرورت ہے کراچی کے جو نوجوان بھٹک گئے ہیں ان کو سدھرنے کا ایک موقع فراہم کیا جائے، میں وفاقی حکومت سے مطالبہ کرتا ہوں کہ انھیں بلوچستان طرز پر عام معافی دی جائے اور ان کے لیے خصوصی پیکیج کا اعلان کیا جائے۔ جو نوجوان لاپتہ ہیں، انھیں بھی بازیاب کرایا جائے۔ ایک موقع دینے سے بہت سارے بھٹکے ہوئے لوگ سدھر سکتے ہیں۔ اگر ہمارا اور ایم کیو ایم پاکستان کا اتحاد قائم رہا تو پھر ضروری نہیں کہ ان کا کوئی رہنما یا ایم پی اے ہماری جماعت میں شامل ہو۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں جماعتوں کا اتحاد کامیابی کے ساتھ چلے تاکہ آئندہ انتخابات میں ہم زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرسکیں۔ ہماری کوشش ہوگی کہ آئندہ سندھ میں حکومت ہماری قائم ہو۔ سندھ میں رہنے والے لوگ محبت کرنے والے ہیں اور کسی قومیت میں کوئی جھگڑا نہیں۔ مجھ پر الزامات یا مقدمات ہیں، ان کا سامنا میں قانون کے مطابق کررہا ہوں، مجھے عدالتوں سے انصاف کی توقع ہے۔ کراچی ترقی کرے گا تو ملک ترقی کرے گا۔ الزام تراشی کی سیاست اب بند ہونی چاہیے، حالیہ مردم شماری کے نتائج سے مطمئن نہیں۔ ان نتائج کو مسترد کرتے ہیں۔

کراچی سمیت صوبے کے شہری علاقوں کے ساتھ حالیہ مردم شماری میں زیادتی کی گئی ہے۔مردم شماری کے نتائج پر تحفظات دور کرنا وفاقی حکومت کی ذمے داری ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان سے اتحاد کے حوالے سے مذاکرات کا آغاز جلد ہوگا۔ انیس قائم خانی نے کہا کہ بلدیاتی نظام جب تک مستحکم نہیں ہوگا، اس وقت تک عوام کے مسائل حل نہیں ہوسکتے۔بلدیاتی نمائندوں کو اختیارات ملنے چاہئیں۔

ایم کیو ایم کے جو ارکان اسمبلی پی ایس پی میں شامل ہوئے ہیں وہ اپنی نشستوں سے فی الحال مستعفی نہیں ہوں گے ۔ ان کے حوالے سے فیصلہ دونوں جماعتوں کا اتحاد مل کرکرے گا۔ انیس احمد قائم خانی نے کہا کہ ایم کیو ایم پاکستان کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں کے بڑے رہنما بھی ہم سے رابطے میں آگئے ہیں اور جلد ہم ان کی وکٹیں بھی گرائیں گے۔
Load Next Story