صحافتی بدعنوانی
صرف پیسے کی ہیر پھیر یا خورد بُرد ہی کرپشن ہے یا ہر وہ شخص بدعنوان ہے جو اپنے پیشے یا کاروبار میں بددیانتی سے کام لے؟
دنیا بھر میں کرپشن یا بدعنوانی کو سنگین جرم سمجھا جاتا ہے، مگر جب سے پانامہ لیکس سامنے آئی ہیں تب سے اس کی سنگینی میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ کرپشن (بدعنوانی) ایک کینسر ہے جسے ختم کرنے کےلیے اقدامات ضرور ہونے چاہئیں۔ پانامہ کی زد میں آنے والوں کا تو جو ہوگا، وہ سب کے سامنے آ ہی جائے گا مگر کرپشن اور بدعنوانی کو صرف ٹیکس نہ دینا، منی لانڈرنگ یا پیسے کی ہیر پھیر سے جوڑنا زیادتی ہوگی۔
یہاں ہمیں بدعنوانی کی تعریف کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کیا صرف پیسے کی ہیر پھیر یا خورد بُرد ہی کرپشن یا بدعنوانی ہے یا ہر وہ شخص بدعنوان ہے جو اپنے پیشے/ کاروبار میں بددیانتی سے کام لے؟
آج کل ہمارے یہاں ایک ٹرینڈ بن گیا ہے کہ بغیر کسی ثبوت کے الزامات کی بوچھاڑ تو کردی جاتی ہے لیکن کسی بھی فورم پر اُن الزامات کو درست ثابت کرنے کےلیے اقدامات نہیں کیے جاتے۔ ہر شخص دوسرے پر الزام تو لگاتا ہے کہ فلاں نے کرپشن کی ہے، فلاں نے اتنی جائیداد بنائی وغیرہ، لیکن ایسے الزامات تب تک صرف الزامات ہی رہیں گے جب تک کسی فورم پر ثبوت فراہم کرکے بدعنوانی کرنے والوں کو مجرم ثابت نہیں کردیا جاتا۔
الزام تراشیاں ہمارا وطیرہ بن گئی ہیں۔ روز الزامات لگائے جاتے ہیں، ٹاک شوز کیے جاتے ہیں، چار گھنٹے کی مختلف طرز کی عدالتیں لگتی ہیں، تہذیب کی دھجیاں بکھیری جاتی ہیں اور پھر وقت ختم ہونے پر سب اپنے اپنے گھر چلے جاتے ہیں... اللہ اللہ خیر صلّا!
یہاں اگر قارئین کو میری بات سمجھنے میں مشکل پیش آرہی ہے تو آپ فوری طور پر اپنا ٹیلی ویژن آن کیجیے، کوئی بھی نیوز چینل لگائیے اور ریموٹ کنٹرول ایک کنارے پر رکھ کر کچھ دیر تک مشاہدہ کیجیے۔ پھر جو کچھ نیوز چینلز پر آرہا ہو اُسے دیکھنے اور سُننے کے بعد اپنا لیپ ٹاپ/ کمپیوٹر آن کیجیے، پھر صحافتی اخلاقیات اور صحافتی اقدار کا مطالعہ کیجیے یا پھر اس پر تحقیق کیجیے کہ کیا یہ جو ہم چوبیس گھنٹے اپنے ٹی وی چینلز پر دیکھتے ہیں، یہ حقیقتاً صحافت ہے یا پھر صحافت میں بدعنوانی اور بددیانتی کی جاتی ہے؟
دنیا میں صحافتی بدعنوانی سے سختی سے نمٹاجاتا ہے، جس کی بہترین مثال 2004 میں غلط بیانی سے کام لینے والے صحافی ڈان راتھر اور پھر 2015 میں براہ راست غلط بیانی سے کام لینے پر مشہور امریکی صحافی برائن ولیمز کی ہے جنہیں ایک افسانوی کہانی خود سے منسوب کرکے عوام کے سامنے بیان کرنے پر امریکی نیوز چینل این بی سی کے صدر نے نہ صرف چھ ماہ کےلیے معطل کردیا بلکہ ان پر جرمانہ بھی عائد کیا گیا جسے صحافی نے من وعن قبول بھی کیا۔
جب ہر طرف سے بدعنوانی کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا جارہا ہے تو کیوں نہ اب صحافتی شعبے میں بدعنوانی کرنے والوں کےخلاف بھی کارروائی کا آغاز کیا جائے۔ تفتیش ہونی چاہیے کہ آخر اپنی ذاتی رائے یا تجزیئے، اور اپنے ذرائع کی آڑ میں عوام تک من گھڑت کہانیاں اور حقائق کو مسخ کرکے پیش کرنے کے پس پشت وجوہ کیا ہیں؟ عوام کو بھی تو پتا چلے کہ آخر یہ کون لوگ ہیں جو بدعنوان صحافیوں کے ذریعے غلط کو صحیح اور صحیح کو غلط بنا کر عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں؛ جو صحافتی اصولوں کے بالکل برعکس ہے۔ وجہ یہ ہے کہ صحافتی اخلاقیات/ معیار/ اقدار تقاضا کرتے ہیں کہ صحافی کو ہر معاملے میں آزاد ہونا چاہیے۔
یہ ایک صحافی کی صحافتی و اخلاقی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ بغیر کسی ثبوت کے کسی فرد یا شخصیت کے خلاف کوئی بات آگے نہ بڑھائے؛ صحافت حقائق پر مبنی ہو۔ صحافی کو اپنے فرائض انجام دیتے وقت لازماً غیر جانبدار اور تعصب سے پاک ہونا چاہیے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
یہاں ہمیں بدعنوانی کی تعریف کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کیا صرف پیسے کی ہیر پھیر یا خورد بُرد ہی کرپشن یا بدعنوانی ہے یا ہر وہ شخص بدعنوان ہے جو اپنے پیشے/ کاروبار میں بددیانتی سے کام لے؟
آج کل ہمارے یہاں ایک ٹرینڈ بن گیا ہے کہ بغیر کسی ثبوت کے الزامات کی بوچھاڑ تو کردی جاتی ہے لیکن کسی بھی فورم پر اُن الزامات کو درست ثابت کرنے کےلیے اقدامات نہیں کیے جاتے۔ ہر شخص دوسرے پر الزام تو لگاتا ہے کہ فلاں نے کرپشن کی ہے، فلاں نے اتنی جائیداد بنائی وغیرہ، لیکن ایسے الزامات تب تک صرف الزامات ہی رہیں گے جب تک کسی فورم پر ثبوت فراہم کرکے بدعنوانی کرنے والوں کو مجرم ثابت نہیں کردیا جاتا۔
الزام تراشیاں ہمارا وطیرہ بن گئی ہیں۔ روز الزامات لگائے جاتے ہیں، ٹاک شوز کیے جاتے ہیں، چار گھنٹے کی مختلف طرز کی عدالتیں لگتی ہیں، تہذیب کی دھجیاں بکھیری جاتی ہیں اور پھر وقت ختم ہونے پر سب اپنے اپنے گھر چلے جاتے ہیں... اللہ اللہ خیر صلّا!
یہاں اگر قارئین کو میری بات سمجھنے میں مشکل پیش آرہی ہے تو آپ فوری طور پر اپنا ٹیلی ویژن آن کیجیے، کوئی بھی نیوز چینل لگائیے اور ریموٹ کنٹرول ایک کنارے پر رکھ کر کچھ دیر تک مشاہدہ کیجیے۔ پھر جو کچھ نیوز چینلز پر آرہا ہو اُسے دیکھنے اور سُننے کے بعد اپنا لیپ ٹاپ/ کمپیوٹر آن کیجیے، پھر صحافتی اخلاقیات اور صحافتی اقدار کا مطالعہ کیجیے یا پھر اس پر تحقیق کیجیے کہ کیا یہ جو ہم چوبیس گھنٹے اپنے ٹی وی چینلز پر دیکھتے ہیں، یہ حقیقتاً صحافت ہے یا پھر صحافت میں بدعنوانی اور بددیانتی کی جاتی ہے؟
دنیا میں صحافتی بدعنوانی سے سختی سے نمٹاجاتا ہے، جس کی بہترین مثال 2004 میں غلط بیانی سے کام لینے والے صحافی ڈان راتھر اور پھر 2015 میں براہ راست غلط بیانی سے کام لینے پر مشہور امریکی صحافی برائن ولیمز کی ہے جنہیں ایک افسانوی کہانی خود سے منسوب کرکے عوام کے سامنے بیان کرنے پر امریکی نیوز چینل این بی سی کے صدر نے نہ صرف چھ ماہ کےلیے معطل کردیا بلکہ ان پر جرمانہ بھی عائد کیا گیا جسے صحافی نے من وعن قبول بھی کیا۔
جب ہر طرف سے بدعنوانی کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا جارہا ہے تو کیوں نہ اب صحافتی شعبے میں بدعنوانی کرنے والوں کےخلاف بھی کارروائی کا آغاز کیا جائے۔ تفتیش ہونی چاہیے کہ آخر اپنی ذاتی رائے یا تجزیئے، اور اپنے ذرائع کی آڑ میں عوام تک من گھڑت کہانیاں اور حقائق کو مسخ کرکے پیش کرنے کے پس پشت وجوہ کیا ہیں؟ عوام کو بھی تو پتا چلے کہ آخر یہ کون لوگ ہیں جو بدعنوان صحافیوں کے ذریعے غلط کو صحیح اور صحیح کو غلط بنا کر عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں؛ جو صحافتی اصولوں کے بالکل برعکس ہے۔ وجہ یہ ہے کہ صحافتی اخلاقیات/ معیار/ اقدار تقاضا کرتے ہیں کہ صحافی کو ہر معاملے میں آزاد ہونا چاہیے۔
یہ ایک صحافی کی صحافتی و اخلاقی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ بغیر کسی ثبوت کے کسی فرد یا شخصیت کے خلاف کوئی بات آگے نہ بڑھائے؛ صحافت حقائق پر مبنی ہو۔ صحافی کو اپنے فرائض انجام دیتے وقت لازماً غیر جانبدار اور تعصب سے پاک ہونا چاہیے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔