سیاسی وظیفے
ضعیف العتقاد مسلمان اسی دنیا میں اپنے جیسے انسانوں کا سہارا لینے پر مجبور ہیں اور وہ اس میں عافیت کا سامان ڈھونڈتے ہیں
KARACHI:
جنگ عظیم کے دوران انگریز بہادر کی فوج کے لیے ہندوستان بھر سے جوانوں کی بھرتی جاری تھی، اس سلسلے میں ہمارے پرانے ضلع شاہ پور جو اب سرگودھا کی تحصیل ہے اس میں انگریز کا نمک خوار ایک بڑا زمیندار جس کی جاگیر انگریزوں کی ہی دی ہوئی تھی، اس نے ملکہ برطانیہ کی فوج کے لیے جوان بھرتی کرنے کے لیے اپنے علاقے کے معززین کو اکٹھا کیا اور ایک بھر پور تقریر ملکہ برطانیہ اور اس کی فوج کے حق میں کی، اس نے یہ بھی کہا کہ ملکہ نے پیغام بھیجا ہے کہ جب تک ضلع سرگودھا کے جوان اس کی فوج میں شامل نہیں ہوں گے وہ ہٹلر سے جنگ نہیں جیت سکتی۔
یہ ساری گفتگو سننے کے بعد ایک جوان کھڑا ہوا اور کہا کہ اگر بات سرگودھا کے جوانوں تک آ گئی ہے تو ملکہ کو کہیں کہ وہ ہٹلر سے صلح کر لے۔ یہ پرانا واقعہ مجھے ایک خبر پڑھ کر یاد آیا ہے کہ اب ہمارے سابق وزیر اعظم تعویذ گنڈوں پر آگئے ہیں اور انھوں نے باقاعدہ طور پر اپنی شاہی رہائش گاہ میں ایک مولانا کو بلا کر ان سے دعا کرائی جنہوں نے خبر کے مطابق ان کو مشکلات سے نجات کے لیے ایک وظیفہ بھی پڑھنے کو دیا جس سے ان کی مشکلات دور ہو جائیں گی اور وہ ایک بار پھر اقتدار کے ایوانوں میں ہوں گے اور دوبار ہ سے تخت نشیں ہو جائیں گے۔
میاں صاحب سے پہلے بھی ہمارے ضعیف العقیدہ حکمران دنیاوی پیروں فقیروں کا سہارا لیتے رہے اور ان میں سے بعض تو اپنے پیروں سے ان کے قدموں میں بیٹھ کر چھڑیاں اور جھڑکیاں بھی کھاتے رہے۔ اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے ہمارے سابق وزیر اعظم بھی پیری مریدی کے چکر میں پڑ گئے ہیں لیکن وہ ا س کے لیے کسی درگاہ پر نہیں گئے بلکہ انھوں نے اپنی کرشماتی شخصیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے معزز مبلغ کو اپنے دولت خانے پر ہی دعوت دے کر بلا لیا اور ان سے وہ تمام وظائف بھی پوچھ لیے جس سے ان کی مشکلات کم ہو سکتی ہیں۔
میاں نواز شریف بنیادی طور پر راسخ العقیدہ اورایک باعمل مسلمان ہیں جن کی ذات کے اس پہلو کے بارے میں کسی نے کبھی کریدنے کی کوشش ہی نہیں کی، شاید وہ خود بھی نہیں چاہتے ہوں گے کہ ان کے ذاتی قسم کے اس معاملے کے بارے میں کرید کی جائے، اتفاق سے ان کی ایک بات کا علم مجھے بھی ہو گیا۔
ان کے ایک ممدوح اور سابق بیورو کریٹ نے مجھے بتایاکہ میاں نواز شریف کی وجہ سے وہ بھی ہر وقت باوضو رہتے ہیں اور اس کی عادت انھیں نواز شریف کی وجہ سے پڑی ہے کیونکہ وہ جب ان کے ساتھ اپنے سرکاری فرائض انجام دے رہے تھے تو انھوں نے یہ دیکھا کہ میاں نواز شریف ہر وقت باوضو رہتے ہیں۔
یہ وہ باتیں ہیں جو ایک انسان کی خالصتاً ذاتی نوعیت کی ہیں اور عوام کو اس سے کوئی سرو کار نہیں ہوتا لیکن اگر ایک حکمران کی نیکی کا پتہ عوام کو چلے تو عوام میں اس نیکی کی وجہ سے حکمران کی عزت و تکریم میں اضافہ ہو جاتا ہے کیونکہ حکمران عوام کے لیے رول ماڈل ہوتے ہیں اور عوام اپنے حکمرانوںکی پیروی کرتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب ضیاء الحق نے اقتدار سنبھالا تو وہ سب سے پہلے پاکستان کے دوسرے حکمرانوں کی طرح سعودی عرب عمرے کے لیے تشریف لیے گئے، ان کی احرام میں عبادات کرتے ہوئے تصاویر اخبارات کی زینت بنیں۔
وہ جب واپس تشریف آئے تو انھوں نے سب سے پہلے ملک بھر سے اخبار نویسوں کو راولپنڈی مدعو کیا تاکہ وہ اپنے انداز حکمرانی کے بارے میں ان کو آگاہ کر سکیں اور ان کی رائے لے کر اپنا آیندہ کالائحہ عمل متعین کر سکیں، اس نیوز بریفنگ میں میں بھی شریک تھا۔ ضیاء الحق جس کے خوفناک مارشل لاء کا آغاز ذوالفقار علی بھٹو کی قربانی سے ہوا تھا، اس نے فوجی وردی میں ملبوس ہو کر ملاقات کی جس سے پہلے اس کی دہشت عوام و خواص میں بیٹھ چکی تھی۔ ہم اخبار نویس بھی ابھی تک لاعلم ہی تھے کہ ضیاء الحق کس طرزحکمرانی کے خواہاں ہیں اور بطور انسان کیسے ہیں، ہم اس پہلی ملاقات تک ان کو صرف ان کے اقتدار پر شب خون مارنے کے حوالے سے ہی جانتے پہچانتے تھے۔
انھوں نے بریفنگ کے بعد جب سوال و جواب کا سلسلہ شروع کیا تو اس وقت ان کے پریس سیکریٹری بریگیڈیئر صدیق سالک شہید جن سے ابھی شناسائی کی ابتدا تھی، انھوں نے سوال و جواب کے لیے مائیک جب میری جانب بڑھایا تو جنرل سے میرا بے ساختہ سوال تھا کہ آپ کی عبادات میں تصاویر قوم نے اخبارات میں دیکھ لی ہیں لیکن آپ کی اصل عبادت یہ ہے کہ آپ عوام کی سہولت اور آسانی کے لیے کیا اقدامات کرتے ہیں جہاں تک عبادت کا معاملہ ہے ، یہ آپ کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان آپ کی ذات کا معاملہ ہے، اس پر جنرل صاحب کا جواب تو مجھے یاد نہیں لیکن انھیں میرا سوال پسند نہ آیا، جب جنرل بریفنگ کے بعد روانہ ہونے لگے تو انھوں نے سالک صاحب سے کہا کہ قادر حسن کو بھی ساتھ لے چلو۔
سالک صاحب کہنے لگے کہ آپ نے جنرل کو پہلی ہی ملاقات میں ناراض کر لیا ہے اور نہ جانے یہ ابتداء کی ناراضگی کیا رنگ لائے گی مگر بعد میں یہی جنرل ضیاء تھے جن سے دوستی ہو گئی اور بڑھتی گئی۔ وہ انسانوں کو اپنی شیریں گفتگو سے اپناگرویدہ بنا لیتے تھے اور اسی شیریں لب و لہجہ اور اسلام کے نعرہ کی وجہ سے ہمارے ساتھ بھی ان کی دوستی بڑھتی گئی تا آنکہ وہ قوم کو اسلام اور جہاد کی جانب لگا کرایک طویل عرصہ تک حکمرانی کر کے چلے گئے۔
ضعیف العتقاد مسلمان اسی دنیا میں اپنے جیسے انسانوں کا سہارا لینے پر مجبور ہیں اور وہ اس میں عافیت کا سامان ڈھونڈتے ہیں ۔کبھی وہ مزاروں پر جاکر منتیں مانتے ہیں،کبھی کسی جگہ دھاگے لٹکاتے ہیں۔کبھی صدقے کے ذریعے اپنے اوپر نازل ہونے والی بلاؤں کو ٹالنے کی تدبیر کرتے ہیں تو کبھی ان دنیاوی پیروں فقیروں کے سہارے میں پناہ تلاش کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ کمزور عقیدے والے مسلمان در اصل ایمانی طور پر کمزور ہو چکے ہیں کیونکہ انھوں نے اپنے رب کو راضی کرنے کا کوئی سامان نہیں کیا ہوتا بلکہ وہ جو کچھ بھی کرتے ہیں، اس میں ان کی اپنی ذات محور ہوتی ہے، جب مشکل پڑتی ہے تو پھر سہاروں کی تلاش شروع ہوتی ہے۔
وہ یہ سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں کہ ان کی اصل نیکی ان کی بطور حکمران عوام الناس کی بھلائی اور فلاح کے کام ہی تھے جو انھوں نے اقتدار کے نشے میں بھلائے رکھے۔ بہرکیف گل بات اب دم درود پہ آگئی ہے اور یہ دم درود ہمارے سابق وزیر اعظم نے شروع کردیا ہے، دیکھتے ہیں کہ ان کے وظیفوں کا اثر ان کے بدخواہوں پر کیا اور کتنا ہوتا ہے، ان کے سیاسی حریفوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی بچت کا سامان کر لیں اور اپنے اپنے پیروں کے پا س جا کر چھڑیا ں کھائیں اور ہاتھوں کی انگلیوں کو انگوٹھیوں سے سجائیں تا کہ میاں نواز شریف کی جانب سے ان پر پڑھے جانے والے دم درود اور وظیفوں کا اثر کم ہو سکے۔
جنگ عظیم کے دوران انگریز بہادر کی فوج کے لیے ہندوستان بھر سے جوانوں کی بھرتی جاری تھی، اس سلسلے میں ہمارے پرانے ضلع شاہ پور جو اب سرگودھا کی تحصیل ہے اس میں انگریز کا نمک خوار ایک بڑا زمیندار جس کی جاگیر انگریزوں کی ہی دی ہوئی تھی، اس نے ملکہ برطانیہ کی فوج کے لیے جوان بھرتی کرنے کے لیے اپنے علاقے کے معززین کو اکٹھا کیا اور ایک بھر پور تقریر ملکہ برطانیہ اور اس کی فوج کے حق میں کی، اس نے یہ بھی کہا کہ ملکہ نے پیغام بھیجا ہے کہ جب تک ضلع سرگودھا کے جوان اس کی فوج میں شامل نہیں ہوں گے وہ ہٹلر سے جنگ نہیں جیت سکتی۔
یہ ساری گفتگو سننے کے بعد ایک جوان کھڑا ہوا اور کہا کہ اگر بات سرگودھا کے جوانوں تک آ گئی ہے تو ملکہ کو کہیں کہ وہ ہٹلر سے صلح کر لے۔ یہ پرانا واقعہ مجھے ایک خبر پڑھ کر یاد آیا ہے کہ اب ہمارے سابق وزیر اعظم تعویذ گنڈوں پر آگئے ہیں اور انھوں نے باقاعدہ طور پر اپنی شاہی رہائش گاہ میں ایک مولانا کو بلا کر ان سے دعا کرائی جنہوں نے خبر کے مطابق ان کو مشکلات سے نجات کے لیے ایک وظیفہ بھی پڑھنے کو دیا جس سے ان کی مشکلات دور ہو جائیں گی اور وہ ایک بار پھر اقتدار کے ایوانوں میں ہوں گے اور دوبار ہ سے تخت نشیں ہو جائیں گے۔
میاں صاحب سے پہلے بھی ہمارے ضعیف العقیدہ حکمران دنیاوی پیروں فقیروں کا سہارا لیتے رہے اور ان میں سے بعض تو اپنے پیروں سے ان کے قدموں میں بیٹھ کر چھڑیاں اور جھڑکیاں بھی کھاتے رہے۔ اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے ہمارے سابق وزیر اعظم بھی پیری مریدی کے چکر میں پڑ گئے ہیں لیکن وہ ا س کے لیے کسی درگاہ پر نہیں گئے بلکہ انھوں نے اپنی کرشماتی شخصیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے معزز مبلغ کو اپنے دولت خانے پر ہی دعوت دے کر بلا لیا اور ان سے وہ تمام وظائف بھی پوچھ لیے جس سے ان کی مشکلات کم ہو سکتی ہیں۔
میاں نواز شریف بنیادی طور پر راسخ العقیدہ اورایک باعمل مسلمان ہیں جن کی ذات کے اس پہلو کے بارے میں کسی نے کبھی کریدنے کی کوشش ہی نہیں کی، شاید وہ خود بھی نہیں چاہتے ہوں گے کہ ان کے ذاتی قسم کے اس معاملے کے بارے میں کرید کی جائے، اتفاق سے ان کی ایک بات کا علم مجھے بھی ہو گیا۔
ان کے ایک ممدوح اور سابق بیورو کریٹ نے مجھے بتایاکہ میاں نواز شریف کی وجہ سے وہ بھی ہر وقت باوضو رہتے ہیں اور اس کی عادت انھیں نواز شریف کی وجہ سے پڑی ہے کیونکہ وہ جب ان کے ساتھ اپنے سرکاری فرائض انجام دے رہے تھے تو انھوں نے یہ دیکھا کہ میاں نواز شریف ہر وقت باوضو رہتے ہیں۔
یہ وہ باتیں ہیں جو ایک انسان کی خالصتاً ذاتی نوعیت کی ہیں اور عوام کو اس سے کوئی سرو کار نہیں ہوتا لیکن اگر ایک حکمران کی نیکی کا پتہ عوام کو چلے تو عوام میں اس نیکی کی وجہ سے حکمران کی عزت و تکریم میں اضافہ ہو جاتا ہے کیونکہ حکمران عوام کے لیے رول ماڈل ہوتے ہیں اور عوام اپنے حکمرانوںکی پیروی کرتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب ضیاء الحق نے اقتدار سنبھالا تو وہ سب سے پہلے پاکستان کے دوسرے حکمرانوں کی طرح سعودی عرب عمرے کے لیے تشریف لیے گئے، ان کی احرام میں عبادات کرتے ہوئے تصاویر اخبارات کی زینت بنیں۔
وہ جب واپس تشریف آئے تو انھوں نے سب سے پہلے ملک بھر سے اخبار نویسوں کو راولپنڈی مدعو کیا تاکہ وہ اپنے انداز حکمرانی کے بارے میں ان کو آگاہ کر سکیں اور ان کی رائے لے کر اپنا آیندہ کالائحہ عمل متعین کر سکیں، اس نیوز بریفنگ میں میں بھی شریک تھا۔ ضیاء الحق جس کے خوفناک مارشل لاء کا آغاز ذوالفقار علی بھٹو کی قربانی سے ہوا تھا، اس نے فوجی وردی میں ملبوس ہو کر ملاقات کی جس سے پہلے اس کی دہشت عوام و خواص میں بیٹھ چکی تھی۔ ہم اخبار نویس بھی ابھی تک لاعلم ہی تھے کہ ضیاء الحق کس طرزحکمرانی کے خواہاں ہیں اور بطور انسان کیسے ہیں، ہم اس پہلی ملاقات تک ان کو صرف ان کے اقتدار پر شب خون مارنے کے حوالے سے ہی جانتے پہچانتے تھے۔
انھوں نے بریفنگ کے بعد جب سوال و جواب کا سلسلہ شروع کیا تو اس وقت ان کے پریس سیکریٹری بریگیڈیئر صدیق سالک شہید جن سے ابھی شناسائی کی ابتدا تھی، انھوں نے سوال و جواب کے لیے مائیک جب میری جانب بڑھایا تو جنرل سے میرا بے ساختہ سوال تھا کہ آپ کی عبادات میں تصاویر قوم نے اخبارات میں دیکھ لی ہیں لیکن آپ کی اصل عبادت یہ ہے کہ آپ عوام کی سہولت اور آسانی کے لیے کیا اقدامات کرتے ہیں جہاں تک عبادت کا معاملہ ہے ، یہ آپ کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان آپ کی ذات کا معاملہ ہے، اس پر جنرل صاحب کا جواب تو مجھے یاد نہیں لیکن انھیں میرا سوال پسند نہ آیا، جب جنرل بریفنگ کے بعد روانہ ہونے لگے تو انھوں نے سالک صاحب سے کہا کہ قادر حسن کو بھی ساتھ لے چلو۔
سالک صاحب کہنے لگے کہ آپ نے جنرل کو پہلی ہی ملاقات میں ناراض کر لیا ہے اور نہ جانے یہ ابتداء کی ناراضگی کیا رنگ لائے گی مگر بعد میں یہی جنرل ضیاء تھے جن سے دوستی ہو گئی اور بڑھتی گئی۔ وہ انسانوں کو اپنی شیریں گفتگو سے اپناگرویدہ بنا لیتے تھے اور اسی شیریں لب و لہجہ اور اسلام کے نعرہ کی وجہ سے ہمارے ساتھ بھی ان کی دوستی بڑھتی گئی تا آنکہ وہ قوم کو اسلام اور جہاد کی جانب لگا کرایک طویل عرصہ تک حکمرانی کر کے چلے گئے۔
ضعیف العتقاد مسلمان اسی دنیا میں اپنے جیسے انسانوں کا سہارا لینے پر مجبور ہیں اور وہ اس میں عافیت کا سامان ڈھونڈتے ہیں ۔کبھی وہ مزاروں پر جاکر منتیں مانتے ہیں،کبھی کسی جگہ دھاگے لٹکاتے ہیں۔کبھی صدقے کے ذریعے اپنے اوپر نازل ہونے والی بلاؤں کو ٹالنے کی تدبیر کرتے ہیں تو کبھی ان دنیاوی پیروں فقیروں کے سہارے میں پناہ تلاش کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ کمزور عقیدے والے مسلمان در اصل ایمانی طور پر کمزور ہو چکے ہیں کیونکہ انھوں نے اپنے رب کو راضی کرنے کا کوئی سامان نہیں کیا ہوتا بلکہ وہ جو کچھ بھی کرتے ہیں، اس میں ان کی اپنی ذات محور ہوتی ہے، جب مشکل پڑتی ہے تو پھر سہاروں کی تلاش شروع ہوتی ہے۔
وہ یہ سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں کہ ان کی اصل نیکی ان کی بطور حکمران عوام الناس کی بھلائی اور فلاح کے کام ہی تھے جو انھوں نے اقتدار کے نشے میں بھلائے رکھے۔ بہرکیف گل بات اب دم درود پہ آگئی ہے اور یہ دم درود ہمارے سابق وزیر اعظم نے شروع کردیا ہے، دیکھتے ہیں کہ ان کے وظیفوں کا اثر ان کے بدخواہوں پر کیا اور کتنا ہوتا ہے، ان کے سیاسی حریفوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی بچت کا سامان کر لیں اور اپنے اپنے پیروں کے پا س جا کر چھڑیا ں کھائیں اور ہاتھوں کی انگلیوں کو انگوٹھیوں سے سجائیں تا کہ میاں نواز شریف کی جانب سے ان پر پڑھے جانے والے دم درود اور وظیفوں کا اثر کم ہو سکے۔