مبینہ الزامات کی سیاست

موجودہ سیاست سے شرافت، رواداری ، قوت برداشت تقریباً ختم ہی ہوچکی ہے بس گالیاں دینا باقی رہ گیا ہے۔


Muhammad Saeed Arain November 14, 2017

سینیٹ کے چیئرمین میاں رضا ربانی نے بڑھتی ہوئی الزامات کی سیاست پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے جو واقعی درست اور تشویشناک ہے کیونکہ گزشتہ ساڑھے چار سالوں سے ملکی سیاست جارحانہ ہی نہیں ہوئی بلکہ تشویشناک اور قابل اعتراض ہوچکی ہے جہاں سے شائستگی ختم ہونے کے بعد ایک دوسرے پر الزامات عائد کرنا اور ان کی تضحیک سیاسی ضرورت بنا لی گئی ہے۔

موجودہ سیاست سے شرافت، رواداری ، قوت برداشت تقریباً ختم ہی ہوچکی ہے بس گالیاں دینا باقی رہ گیا ہے۔ الزام تراشی سیاست میں پہلے بھی ہوتی تھی مگر وہ الزام تراشی اتنی سنگین نہیں ہوتی تھی جو اب بڑھ کر شرمناک ہوچکی ہے اور اس سیاست کے موجد کرکٹ سے سیاست میں آنے والے بلاشبہ عمران خان ہیں۔ عمران خان خود 1997 کی انتخابی مہم میں مسلم لیگ ن کا نشانہ بنے تھے اور انھیں خاصا بدنام کیا گیا تھا۔ اس وقت عمران خان سیاست میں نو وارد تھے اور ان پر جو الزامات لگائے گئے تھے وہ غیر اخلاقی ضرور تھے جس کے بعد عمران خان نے شاید تہیہ کرلیا تھا کہ وہ بھی سیاست میں اپنا مقام بنانے کے لیے خود بھی ایسا کریںگے اور ملک میں جارحانہ اور الزامات کی سیاست کو فروغ دیںگے۔

2002 میں عمران خان اپنے شہر میانوالی سے پہلی بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے مگر بعد میں دس سال تک تحریک انصاف ملکی سیاست میں کوئی مقام نہیں بنا پائی تھی۔ 2008ء میں عمران خان نے عام انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا اور نواز شریف کے انتخاب لڑنے پر سخت تنقید کی تھی جس کے نتیجے میں پیپلزپارٹی نے سب سے زیادہ اور مسلم لیگ ن نے دوسری پوزیشن حاصل کی تھی اور بے نظیر بھٹو کی شہادت کے باعث جنرل پرویز مشرف کی مسلم لیگ ق کا صفایا ہوگیا تھا۔

پیپلزپارٹی نے 2013 تک اپنی مدت اقتدار جس طرح پوری کی تھی اس وقت ملک میں تیسری سیاسی قوت کی ضرورت تھی اور پیپلزپارٹی 1988 کے بعد تین اور مسلم لیگ ن دو باریاں لے چکی تھی اور دونوں پارٹیوں سے بیزار سیاسی حلقوں کو تیسری سیاسی قوت کی ضرورت تھی جو انھیں عمران خان کی صورت میں نظر آئی اور لاہور میں پی ٹی آئی کے پہلے کامیاب جلسے نے عمران خان کی مقبولیت بڑھادی۔ بڑے بڑے سیاسی نام پی ٹی آئی میں شامل ہونے سے پارٹی کو بھی مقبولیت ملی۔

پیپلزپارٹی کی حکومت نے 2013 تک کرپشن کے ریکارڈ قائم کیے اور لوڈ شیڈنگ پی پی کو لے ڈوبی۔ پی پی کی وفاقی حکومت میں مسلم لیگ ن کی پنجاب حکومت نے وزیراعلیٰ شہباز شریف کی سربراہی میں اچھی کارکردگی دکھائی اور شریف برادران نے لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کو اپنا انتخابی ایجنڈا بنایا جب کہ عمران خان کو 2013 تک اقتدار میں آنے کا موقع نہیں ملا تھا اور ن لیگ اقتدار کا طویل تجربہ رکھتی تھی جس کے لیے پی ٹی آئی پنجاب میں پیپلز پارٹی کا اور کے پی کے میں اے این پی کا متبادل بن کر ابھری اور عمران خان نے سندھ اور بلوچستان کو نظر انداز کرکے پنجاب اور کے پی کے کو اقتدار کا مرکز سمجھ کر انتخابی مہم چلائی جو ایک حد تک شائستگی کی حد میں تھی۔

انھوں نے دونوں پارٹیوں پی پی اور ن لیگ پر کرپشن اور باریاں لینے، ایک دوسرے کی کرپشن چھپانے کے الزامات لگائے، عمران خان کو قوی امید تھی کہ پی ٹی آئی وفاق اور پنجاب میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں آجائیگی۔ 2013 میں نگران حکومتیں پنجاب اور وفاق میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے بنائی تھیں مگر پنجاب کے عوام نے پیپلزپارٹی کو مسترد کرکے پی ٹی آئی پر اعتماد کیا اور اکثریت مسلم لیگ ن کو دلوائی جو عمران خان کی توقع کے برعکس تھی اور وہ ملک کا وزیراعظم بننے کے لیے بہت پر امید تھے مگر انھیں کے پی کے کے علاوہ نمایاں کامیابی نہ ملی تو وہ تلخ ہوتے گئے۔

انھوں نے انتخابی دھاندلیوں کے الزامات لگائے مگر ثابت نہ کرسکے پھر چار حلقوں کو بنیاد بناکر لاہور سے اسلام آباد دھرنا دینے اس امید پر نکلے کہ لاکھوں افراد ان کا ساتھ دینگے۔ عمران خان کو ن لیگ حکومت کے خلاف کسی کے اشاروں پر کامیابی کی امید تھی مگر ان کے دھرنے سے زیادہ لوگ ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنے میں تھے اور عمران خان کا چند ہزار افراد کا دھرنا شام کا میوزیکل شو بن کر ان کے گلے پڑگیا اور پشاور کے آرمی اسکول میں دہشت گردی کی آڑ لے کر دھرنا ختم کرنا پڑا۔

دھرنے میں نواز شریف سے استعفیٰ لے کر واپس جانے کے عمران خان نے بہت دعوے کیے جو پورے نہ ہوئے تو شادی کرکے ٹھنڈے پڑگئے۔

نواز شریف کی بد قسمتی اور عمران خان کی خوش قسمتی سے پاناما لیکس منظر عام پر آگئی جس کی بنیاد پر انھوں نے دھرنے کی ناکامی کا بدلہ لینے کے لیے نواز شریف کے خلاف تحریک شروع کی، لانگ مارچ کیے اور نواز شریف سے استعفیٰ مانگتے رہے اور عدالتی مداخلت پر لانگ مارچ چھوڑ کر جلسے کرتے رہے اور جماعت اسلامی کا پہلے سپریم کورٹ میں جانے کے بعد وہ بھی فریق بن گئے۔

وزیراعظم نواز شریف نے پاناما کو اہمیت نہیں دی اور پاناما اقامہ بن کر نواز شریف کو نا اہل کراگیا جس سے عمران خان، شیخ رشید، چوہدریوں کے ساتھ پیپلزپارٹی کی بھی سیاسی لاٹری کھل گئی جس کا سب سے زیادہ فائدہ عمران خان کو ہوا اور انھوں نے خود کو پاناما کا ہیرو سمجھ کر اپنی جارحانہ سیاست کو مزید تیز کر کے اپنے مخالفین پر حملے بڑھا دیے اور مبینہ الزامات کی سیاست انھوں نے اپنا منشور بنا لیا ہے۔

عمران خان کے حلیف شیخ رشید جارحانہ سیاست میں ان سے بھی دو ہاتھ آگے جاچکے ہیں ۔ شیخ رشید شریف خاندان کی مخالفت میں اب پوری حکومت کو لٹیرے قرار دے کر فوج کو حکومت سے دور رہنے کا کہہ رہے ہیں جو بغاوت کے زمرے میں آتا ہے۔ عمران خان شریفوں پر تو سنگین الزامات لگاتے ہی رہے ہیں حالانکہ نواز شریف کو اب تک کسی بھی عدالت نے چور یا مجرم قرار نہیں دیا۔

آصف زرداری کوکسی عدالت نے ڈاکو قرار نہیں دیا مگر عمران خان اپنے جلسوں میں نواز شریف اور آصف زرداری کو چور، ڈاکو اور مجرم قرار دے رہے ہیں اور اب فریال تالپور بھی عمران خان کے مبینہ الزامات کی زد میں ہیں۔ عمران خان نے الزامات عائد کرنا اپنا اصول بناکر خود کو پی پی اور ن لیگ، جے یو آئی، اے این پی میں انتہائی متنازعہ کرلیا ہے جس کے جواب میں عمران خان کو آصف زرداری، مولانا فضل الرحمن، اسفندیار ولی اور مسلم لیگ ن کے رہنماؤں سے سخت جواب سننا بھی پڑ رہے ہیں۔

وزیراعظم سمیت اعلیٰ افسروں کو ''اوے'' سے مخاطب کرنا عمران خان نے شروع کیا تھا۔ عمران خان اس سے قبل جب ایم کیو ایم کے بانی پر برسے تھے تو ایم کیو ایم نے کراچی، حیدرآباد کی دیواروں پر عمران خان کی شان میں جو کچھ لکھوایا تھا اس کے بعد عمران خان کو اپنے سیاسی مخالفین کی پگڑیاں اچھالنے سے گریز کرکے اپنی سیاست کو مثبت بنانا چاہیے تھا۔

عمران خان کسی کو جعلی بھٹو تو کسی کو کچھ کہتے ہیں جس پر اب انھیں بھی کہاجا رہا ہے کہ وہ خان نہیں نیازی ہیں۔ شہباز شریف نے غلط الزام پر دس ارب روپے کا نوٹس دے رکھا ہے عمران خان الیکشن کمیشن کو متعصب کہہ کر معافی مانگ چکے ہیں مگر باہر آکر دشنام تراشی سے باز نہیں آئے۔

میاں رضا ربانی کی تشویش بجا ہے کہ سیاست میں جتنی الزام تراشیاں اب ہورہی ہیں ماضی میں کبھی نہیں ہوئیں۔ سیاست میں دودھ کا دھلا ہوا کوئی نہیں ہے جس کی وارننگ چوہدری نثار نے شیخ رشید کو دے بھی دی ہے اس لیے بہتر ہوگا کہ مخالفین کی سیاست کا بھی احترام کیا جائے کیونکہ بعض سیاسی کارکن سر پھرے بھی ہوتے ہیں اور اشتعال میں آکر وہ بھی جذباتی پن کا مظاہرہ کرسکتے ہیں جس سے پہلے سے لہو لہان سیاست خونریزی کی شکل بھی اختیار کرسکتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں