دلیرانہ فیصلے امید کی کرن
امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں تھوڑی بہت تلخیاں وغیرہ ہیں مگر انشاء اللہ وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہوجائیں گی۔
لندن سے P.I.A کی پرواز کا انتخاب کیا اور کراچی کے لیے روانہ ہوگئے، راستے میں سوچ رہا تھا کہ کراچی کیا ہوا کرتا تھاکتنا پر رونق کتنا خوبصورت، کہا جاتا تھا کہ جب پورا پاکستان سوتا ہے تب کراچی جاگتا ہے دوستوں یاروں کے ساتھ رات رات بھر گھومنا پھرنا، پٹھانوں کے ہوٹلوں پر چائے پینا، برنس روڈ پر نہاری کھانا، کبھی کبھار دوستوں کے ساتھ رات کو کاروں یا موٹر سائیکلوں پر لمبی گشت پر نکل جانا چھوٹے موٹے پارکوں میں جاکر بیٹھ جانا، میدانوں میں کرکٹ کھیلنا، چھٹی والے دنوں میں رشتہ داروں کے گھروں پر خوب دعوتیں اڑانا یہ سب کچھ کراچی کی ماضی کی یادوں سے جُڑے ہوئے پروگرامز ہوا کرتے تھے۔
خیر اسی اثناء میں کراچی آگیا۔ کزن صاحب receive کرنے آگئے ان کی کار میں بیٹھے اور گھر کی جانب چل دیے۔ کیا دیکھتا ہوں کہ گویا میری تو حیرت سے آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر کوڑا کرکٹ کی وہ وہ منڈیاں نظر آئیں کہ دل دہل گیا۔ دیواروں پر پہلے سے زیادہ بیہودہ وال چاکنگ ہمارا استقبال کر رہی تھیں۔ پلوں اور سڑکوں کی تعمیرات میں تو بلا شبہ اضافہ ہوگیا تھا مگر آدھی آدھی سڑکوں تک پتھاروں نے ایسی ایسی تجاوزات قائم کر رکھی تھیں کہ لگ یہ رہا تھا کہ جیسے کسی گنجان بازار کے اندر سے گاڑی گزررہی ہو۔
میں نے کزن سے پوچھا کیا یہ کراچی ہے؟ کزن نے جواب دیا نہیں اب یہ کچراچی ہے۔ اب یہاں سڑکوں پر اسٹریٹ لائٹس کم گڈے گوڑھے زیادہ ہوتے ہیں۔ سڑکوں کے اوپر تجاوزات کی وجہ سے گاڑی اسپیڈ نہیں پکڑ سکتی مگر سرکار نے اسپیڈ بریکر خوب بنادیے ہیں۔ میں نے پوچھا چلو یہ تو صحیح ہے خبریں تو لندن میں بھی ملتی رہتی تھیں مگر کوئی پرسانِ حال کیوں نہیں؟
کراچی پاکستان کی شہہ رگ ہے، معاشی ہب ہے، روشنیوں کا شہر کہلایا جاتا تھا، عروس البلاد بھی اسی بابت کہتے تھے کہ ہر وقت دلہن کی طرح تیار رہتا تھا۔ آج اس کا کوئی والی وارث کیوں نہیں؟ کزن نے کہا ملکوں ملکوں میں تو اقتدار اور مسند کی جنگ ہوتی ہے مگر کراچی دنیا کا واحد ''شہر'' ہے جہاں پر اختیارات کی جنگ ہے وسائل کا رونا ہے۔
گھر پہنچ کر پاک سر زمین پارٹی کے رضا ہارون صاحب کو فون کیا حال احوال کیا تو رضا ہارون نے کہا کہ نسیم بھائی ہماری طرف آجائیں خوب گپ شپ کریں گے۔ خیر ہم ان کے آفس PECHS چل دیے، پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں باہر اسکوٹروں اور کاروں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔ ہم نے کسی سے پوچھا کہ یہاں کوئی جلسہ وغیرہ ہے کیا؟ تو جواب ملا نہیں یہاں تو ایسا ہی رش لگا رہتا ہے۔ پھر ہم آفس کے اندر پہنچے رضا ہارون اور انیس قائمخانی صاحبان نے روایتی استقبال کیا اور ہم لوگ ایک جانب بیٹھ گئے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ مصطفی کمال دوسرے کمرے میں ایک TV انٹرویو میں مصروف ہیں۔
میں نے انیس قائمخانی سے پوچھا کہ جب آپ نائن زیرو آفس پر بیٹھتے تھے اور اب یہاں پی ایس پی آفس میں بیٹھتے ہیں تو کیا تبدیلی ہے؟ (چونکہ میں تو تبدیلی بھانپ چکا تھا) کہنے لگے نسیم بھائی جب میں 90 پر بیٹھتا تھا میری اجازت کے بغیر میرے کمرے میں ہی کیا پورے 90 میں بھی کسی کو اندر آنے کی اجازت نہ تھی، مگر آج یہاں مصطفی کمال بھائی کی ہدایت کی روشنی میں ہر کام ہر معاملہ پُر سکون، آزادانہ اور انسان پسند رویے کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔
اتنی دیر میں مصطفی کمال صاحب بھی آگئے تو رضا ہارون نے فوراً مصطفی کمال صاحب کو کہا! یہ نسیم صدیقی صاحب ہیں! بس ابھی اتنا ہی کہنا تھا کہ مصطفی کمال پہلے سے زیادہ آگے بڑھے گرمجوشی سے ملے اور انیس قائمخانی اور رضا ہارون کو کہا میں نسیم بھائی کو اس وقت سے جانتا ہوں جب ہماری پہلی ملاقات عمران فاروق بھائی کی میت کے حوالے سے لندن میں ہوئی تھی۔ قارئین مجھے بڑی خوشگوار حیرت ہوئی کہ 7/8 سال قبل ہوئی پہلی ملاقات کو مصطفی کمال نے آج تک یاد رکھا ہوا ہے۔
مصطفی کمال کی واقعی ''کمال کی'' یادداشت ہے۔ تھوڑا بہت حالات حاضرہ ملکی معاملات پر تبادلہ خیال کے بعد میں نے مصطفی کمال سے پوچھا دنیا کے دوسرے بہترین میئر کا خطاب پانے والا شخص آج کے ''کچراچی'' کو دیکھ کر کیا سوچتا ہے؟ تو مصطفی کمال نے کہا نسیم صدیقی صاحب فکر نہ کریں اب ہم ایک ایسا کام کرنے جارہے ہیں کہ جو کراچی سندھ اور پاکستان کی بہتری کے لیے سب سے بڑا کام ہوگا۔
اگلے دن سب نے دیکھا کہ مصطفی کمال اور فاروق ستار پریس کانفرنس کررہے ہیں اور بنیادی طور پر دونوں کے اذہان میں ایک ہی بات تھی اور ہے کہ کراچی سندھ اور پاکستان کو کیسے بہتر کرنا ہے ۔ قارئین کرام گو کہ اگلے دن فاروق ستار کا سیاست سے کنارہ کش اور دو گھنٹے بعد والدہ کے حکم پر فیصلہ واپس لینے والا معاملہ بھی نظر آیا مگر ان دی اینڈ آف تینوں دن کے معاملات کو یکجا کرکے سوچا جائے تو مصطفی کمال اور فاروق ستار کے ''دلیرانہ فیصلے امید کی کرن'' ہیں کہ جس سے کراچی بہتر ہوسکے۔
فاروق ستار کو پریشانیاں لاحق ہوئی ہونگی اور آگے بھی امکان ہے، مصطفی کمال کی طرف بھی ایسا ہی معاملہ ہے کہ وہاںبھی سوچا جارہا ہے کہ بلدیہ فیکٹری کیس کا آگے چل کر کیاہونا ہے مگر ایک بات تو طے ہے کہ کراچی کو سیدھا کرنا ہے کچراچی سے کراچی تک کے سفر کو تیزی کے ساتھ پورا کرنا ہے۔
سب سوچ رہے ہیں کہ اتفاق، اتحاد، الحاق یاانضمام کیسے ہوا اور کیوں ہونے جارہا ہے؟ تو بتاتا چلوں ماضیٔ قریب میں جو نئی پیشرفت ہوئی تو اس میں الگ الگ کیسے چلا جاسکتا ہے کہ میئر وسیم اختر اور ڈپٹی میئر ارشد وہرہ الگ الگ منشور پر کام کریں الگ الگ ہدایتوں پر چلیں اور اگر وسیم اختر بھی پاک سر زمین پارٹی کو جوائن کرلیں یا کرلیتے تو کراچی کے بلدیاتی نظام کو رول بیک کرنا ہوگا اور ان باتوں سے کراچی صاف نہیں ہوگا بلکہ حکومتی اور انتظامی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔
میں ذاتی حیثیت میں تو بڑا پُر امید ہوں کہ مل بیٹھنے کی کوئی بھی شکل ہو کوئی بھی نام و نشان ہو بس اہم ترین ہونا یہ چاہیے کہ کراچی جو کہ پر امن تو ہوچکا ہے اب اس کو کلین اینڈ گرین کیسے کرنا ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے شہروں میں دیکھا گیا ہے کہ کسی بھی شہر کا امن اُس کی خوشحالی اُس شہر میں رہنے والے لوگوںاور شہر کے اسٹیک ہولڈرز کے اتفاق میں پنہاں ہوتا ہے۔
اس حقیقت سے تو اب کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ ایم کیو ایم پاکستان کراچی کی ایک اہم اکائی ہے تو دوسری طرف پاک سر زمین پارٹی نے بھی اپنے قدم جما لیے ہیں وسیم اختر اور ارشد وہرہ کی مثال سب کے سامنے ہے۔ میں لوگوں سے اور میڈیا سے بھی درخواست کرتا ہوں کہ حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے گفتگو میں احتیاط کا عنصر شامل کرلیجئے۔
کراچی کسی خون خرابے میں نہ چلے جائے اس سے بچنے کے لیے صرف دو پارٹیز کا ہی نہیں ہرپاکستانی کا بھی فرض بنتا ہے کہ اچھے پاکستانی کا ثبوت دیتے ہوئے بہتری کی باتیں کریں۔ امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں تھوڑی بہت تلخیاں وغیرہ ہیں مگر انشاء اللہ وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہوجائیں گی۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ کراچی پُر امن ہونے کے ساتھ ساتھ خوشنما بھی ہوجائے کیونکہ کراچی ہی پاکستان کی شہہ رگ ہے کراچی ہی پاکستان کا معاشی ہب ہے۔