فیفا ورلڈ کپ 2022 کا میدان یا مزدوروں کا قبرستان

بہت کم لوگ اس حقیقت سے واقف ہیں کہ فیفا ورلڈ کپ 2022کے لیے قطر میں سجنے والا میدان سیکڑوں مزدوروں کا قبرستان بن چکا۔

BAMAKO:
آگ برساتے ہوئے سورج کے عین نیچے ایستادہ عالی شان ہوٹل، بلند و بالا عمارتیں، دیدہ زیب شاپنگ پلازے، چمکتی ہوئی سڑکیں، اسٹیڈیم، انسانیت کا سر فخر سے بلند کرنے والی یادگاریں اور مزدوروں کے زخمی ہاتھوں سے بننے والے لاتعداد شاہکار، صحرائی خطوں کی شان وشوکت اور غرور بڑھاتے ہیں۔ ان کو دیکھنے کے شوق میں بے تاب سیاح یہاں کا رخ کرتے ہیں، اور اس دل کَشی میں کھوکرکچھ دیرکو یورپ کی روشنیاں بھی بھول جاتے ہیں۔

مقامی لوگ ان عمارتوں کے سامنے فخر سے سر اٹھاتے ہیں اورآسمان کی وسعتوں کو چھوتی، شان دار عمارتوں کی انفرادیت اور اچھوتے ڈیزائن کی وجہ سے خود کو ترقی یافتہ اقوام کی صف میں شمار کرتے ہیں، لیکن افسوس! ان عمارتوں کی خوبصورتی اور دل فریبی کی مثال دینے والی دنیا ان مزدوروں کو بھول جاتی ہے جو صحرا کی جھلساتی گرمی میں ہونے والی تعمیرات کا حصہ بن کر، اپنی جانیں تک داؤ پر لگا دیتے ہیں۔

اب فیفا ورلڈ کپ 2022کے لیے قطر میں ہونے والی تیاریوں ہی کو دیکھ لیجیے۔ دو سو بلین ڈالر کی لاگت سے منعقد ہونے والے فیفا ورلڈکپ کو تاریخ کا سب سے منہگا ورلڈ کپ کہا جارہا ہے۔ فیفا مقابلوں کے لیے قطر میں تیار کیے جانے والے آٹھ اسٹیڈیم نہ صرف جدید ٹیکنالوجی، اپنے منفرد ڈیزائن اور تعمیرات کی وجہ سے اس وقت پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں بلکہ شائقین پہلی بار ایئرکنڈیشنڈ اسٹیڈیمز میں بڑے فخر سے قدم رکھیں گے (یہ الگ بات کہ ان قدموں تلے انسانیت ایک بار پھر کچلی جائے گی)۔

فیفا ورلڈ کپ کی تیاریاں صرف اسٹیڈیمزکی تعمیرات تک محدود نہیں بلکہ ریلوے ٹریک، ہائی ویز، اسپتال اور ہوٹل بھی تعمیر کیے جا رہے ہیں۔ پہلے سے تعمیر شدہ عمارات کو بھی مزید جدت عطا کی جارہی ہے، لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ مقابلہ صرف فٹ بال کے کھیل تک محدود رہتا۔ دنیا میں موجود امارت، غربت کا تمسخر اُڑانے کو کمر بستہ نہ ہوتی۔ غلامی کے جدید تصور سے کان بے بہرہ ہی رہتے۔ لیکن افسوس... ایسا نہ ہوا۔

بہت کم لوگ اس حقیقت سے واقف ہیں کہ فیفا ورلڈ کپ 2022کے لیے قطر میں سجنے والا میدان سیکڑوں مزدوروں کا قبرستان بن چکا۔ جون سے اگست تک کے مہینوں میں قطر کا درجۂ حرارت انسانی برداشت سے باہر ہوتا ہے۔ قطری قانون کے مطابق سخت گرم موسم میں دن ساڑھے گیارہ سے تین بجے تک کُھلی جگہ پر مشقت لینے کی سخت ممانعت ہے، لیکن فیفا ورلڈکپ کو کامیاب بنانے کے لیے سارے اصولوں اور قوانین کی دھجیاں بکھیر دی گئی ہیں۔ شدید گرمی میں مزدوروں کو چودہ سے سولہ گھنٹے لگاتار مشقت پر مجبور کیا جا رہا ہے، جس کے باعث ہلاکتوں کا سلسلہ بڑھ گیا ہے۔

ورلڈ کپ کی چکاچوند بڑھانے کے پیچھے مزدوروں کی زندگیوں کے چراغ بجھائے جا رہے ہیں۔ ورلڈ کپ کی تعمیرات میں حصہ لینے والے چوالیس مزدور2015 میں گرمی کی شدت سے ہلاک ہوئے۔ ستر سے زائد مزدوروں نے 2016 میں سورج کے نیچے پگھل کر کھیل کی شوقین دنیا کو اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔2017 میں بھی کئی ہلاکتیں ہوئی ہیں، سال کے اختتام تک مزید واضح ہو جائے گا کہ کتنے مزدوروں کا خون پلا کر اسٹیڈیمز کی رونقیں بڑھائی گئی ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیموں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر مزدوروں کے بنیادی حقوق اسی طرح پامال ہوتے رہے تو ورلڈ کپ کے انعقاد تک مزدور وں کی ایک بڑی تعداد موسم کی سختی کا شکار ہو سکتی ہے۔ یہ بلاشبہ ایک دردناک حقیقت ہے جس کی طرف سے آنکھیں موند کر لوگ سکون سے اس دن کے منتظر ہیں جب مختلف قوموں کے درمیان صحت بخش مقابلے کے بادل برسیں گے۔ عوام ایک دوسرے کے قریب آئیں گے، ہم آہنگی بڑھے گی، لیکن اس وقت تک کتنے مزدور زندگی کے خوفناک کھیل سے ہار مان جائیں گے، یہ سوچنے کی زحمت کوئی نہیں کر رہا۔


پسماندہ اور غریب ملکوں سے بہتر روزگار کی تلاش میں قطرکی طرف ہجرت کر کے آنے والے مہاجرین مجبوری کی چکی کے پاٹوں میں بری طرح پس رہے ہیں۔ویسے تو قطر میں بیس لاکھ کے لگ بھگ تارکین وطن موجود ہیں، لیکن ورلڈ کپ کی تیاریوں کے لیے قطر کو سالانہ تیس ہزار مزدوروں کی ضرورت ہے۔اس مقصد کے لیے مزید لوگوں کو مزدوری کے لیے قطر لایا گیا ہے۔جن میں سے زیادہ ترکا تعلق نیپال، بنگلہ دیش اور سری لنکا سے ہے۔ قطرکا قیامت خیز گرم موسم اس عالمی مقابلے کے انعقاد کے لیے قطعاً تسلی بخش نہیں، لیکن اس کو موزوں ترین بنانے کے لیے قطری حکومت وہ سارے جتن کر رہی ہے جس سے دنیا میں اس کی دھوم مچ جائے۔

انسانی حقوق کی شدید ترین پامالی چاہے ہو سو ہو، بس ورلڈ کپ تاریخی قرار پائے۔ قطری حکومت کی خوش فہمی ہے کہ یہ تیاریاں وہ اپنی دولت کے بل بوتے پرکررہی ہے، لیکن درحقیقت اس مقابلے کی تیاریوں کا سارا دارومدار مزدوروں کے جسموں سے نچوڑے لہو پر ہے۔ قطر میں ان مزدوروں کے گلے میں غلامی کا وہی طوق ڈال دیا گیا ہے جس سے نجات پانے کا ڈھنڈورا جدید دنیا بہت عرصے سے پیٹ رہی تھی۔

یہ مہاجر مزدور عرب دنیا میں موجود کفالہ سسٹم کے ناسور کا بری طرح شکار ہوکر خود کو گروی رکھوا چکے ہیں،اگرچہ گزشتہ سال قطر نے کفالہ سسٹم کو ختم کر کے اس کی جگہ نیا قانون نافذ کر دیا ہے لیکن یہ قانون سوائے لفاظی کے کچھ ثابت نہیں ہوا۔انسانی حقوق کی تنظیمیوں کو اس نئے قانون میں موجود جھول پر واضح اعتراضات ہیں۔ بہرحال،قانون نیا ہو یا پرانا ،سچ تو یہی ہے کہ مفلوک الحال مزدور نہ تو اپنی مرضی سے نوکری چھوڑ سکتے ہیں اور نہ ہی ملک۔ ان کا پاسپورٹ آجروں نے ضبط کر رکھا ہے۔

مزید ستم یہ ہے کہ اجرت کے نام پر ان کے ساتھ نہایت غیرمنصفانہ سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ رہائش کے نام پر ان کو دڑبے فراہم کیے گئے ہیں، جہاں زندگی گزارنا تو درکنار، چندگھڑیاں بِتانا بھی محال ہے۔ انسانیت کی اس سے بڑی تذلیل اور کیا ہو سکتی ہے کہ قطر ایک طرف تو صحرائے صحارا کی جھلساتی گرمی میں کام کرنے والے مزدوروں کو مفت پانی کی رسائی بھی دینے کو تیار نہیں مگر دوسری جانب ورلڈ کپ مقابلے کے دوران معزز مہمانوں کی لذتِ دہن کے لیے الکوحل پر سے پابندی اٹھانے کا اعلان کرچکا ہے۔

یہ ہے دولت مند اقوام کا دہرا معیار اور دوغلی پالیسی۔ حد تو یہ ہے کہ چند سال قبل تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے معاملے پر جب زیادہ شور اٹھا تو قطری حکومت نے ان غلاموں سے ایک حلف نامے پر جبری دستخط کر وا کے فیفا ورلڈ کپ کی کمیٹی کے سامنے پیش کیے، جس میں درج تھا کہ ان مزدوروں کو تنخواہوں کی ادائیگی بر وقت کی جاتی ہے۔

اس طرح قطر جو دنیا کا امیر ترین ملک قرار دیا جاتا ہے، مزدوروں کے حقوق کے معاملے میں اب سفاک آقا بن گیا ہے۔ قطری حکومت ان مزدوروں کو کام کرنے کے لیے سازگار حالات میسر کرنے سے واضح گریز کررہی ہے۔ جن کمپنیوں کو ان تعمیرات کے ٹھیکے دیے ہیں وہ دن رات ان مزدوروں کا خون چوس رہی ہیں۔2022 میں دنیا فٹ بال کا عالمی مقابلہ تو بعد میں دیکھے گی، پہلے ان غلاموں کی زندگیوں کے ساتھ ہونے والا کھلواڑ تو دیکھ لے۔ قطری حکومت کا کہنا ہے کہ فیفا ورلڈ کپ کی تیاریوں کے لیے شروع کیے گئے پراجیکٹ وقت طلب ہیں۔ ان پر غیرمعمولی کی حد سے بھی زیادہ سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ ایسے میں ان غلاموں کے حقوق بھلا کس کو نظر آئیں گے؟

حصول روزگار کے لیے ترک وطن کرکے مہاجرت کا دکھ جھیلنے والے پہلے ہی اندر سے کھوکھلے ہوتے ہیں۔ ان کو مزید غیرانسانی سلوک کا نشانہ بنانا اور جسموں کو سورج کی آگ برساتی شعاعوں کے عین نیچے کھڑا کر کے پگھلانا کہاں کا انصاف ہے؟ فیفا ورلڈ کپ2022 تاریخ کا سب سے متنازعہ ورلڈ کپ بن چکا ہے۔ اس کی تیاریوں میں ہونے والی مالی کرپشن نے بھی ریکارڈ توڑے ہیں اور مزدوروں کے ساتھ ہونے والے ظلم نے بھی۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ یہ سارا ظلم ایک ایسے کھیل کی تیاریوں کے نام پر ہو رہا ہے جس کا نعرہ ہی''منصفانہ کھیل '' ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل، فیفا ورلڈ کپ کے مزدوروں کی بدحالی کا کئی سالوں سے رونا رو رہی ہے۔ لیکن اس کی سنتا کون ہے؟ البتہ فیفا ورلڈ کپ کے اسپانسرز اور سول سوسائٹی کے ارکان قطر میں مزدوروں کے ساتھ ہونے والے اس ظلم کے خلاف نہایت مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔ لیکن ان کو جگائے گا کون؟ یہ بھی اپنی جگہ سفاک سچ ہے کہ فیفا مقابلے میں دیدہ زیب اور ٹھنڈے ٹھار اسٹیڈیم میں بیٹھے شائقین کی ہا ہو اور تالیوں کے شور میں وہ سسکیاں یقیناً دب جائیں گی جو ان عمارتوں کی دل کشی بڑھانے کی خاطر مزدوروں کے لاغر جسموں سے آہ بن کر نکلی ہوں گی۔
Load Next Story