پاکستان سب سے پہلے
پاکستان کو کھوکھلا کرنے کی سازشیں جب تک کامیاب ہوتی رہیں گی ہم اندرونی طور پر لاچار ہوتے رہیں گے۔
انتخابات 2018ء قریب آنے کے باعث ملک میں سیاسی محاذ پر فطری گہما گہمی بڑھی ہے اور سیاسی جوڑ توڑ کی میں بھی تیزی آتی جارہی ہے۔ اس نوعیت کا ایک بڑا مظاہرہ رواں ہفتے کے دوران کراچی میں ایم کیو ایم پاکستان اور پاک سرزمین پارٹی کے سیاسی اتحاد کے اعلان اور اگلے ہی دن اس کی ناکامی کی شکل میں ہوا۔اس اتحاد کو اہمیت اس لیے دی گئی کیوں کہ ایم کیو ایم بہرصورت منتخب اداروں میں نمایندگی کے اعتبار سے سندھ کی دوسری اور ملک کی چوتھی بڑی سیاسی جماعت ہے اورسندھ کی اردو بولنے والی آبادی کی ایک بڑی تعداد کا ووٹ بینک آج بھی اس کے پاس ہے۔
اب سیدھی سادی بات ہے کہ دنیا جانتی ہے کہ کراچی کا امن کیسے قائم ہوا، کیسے اسٹریٹ کرائمز اور ٹارگٹ کلنگ میں کمی ہوئی۔ کیسے وہاں پر مخصوص گروہوں اور بھتہ خوروں کی بدمعاشیاں ختم کی گئیں؟ کیسے وہاں پر دہشت گردوں کے سیاسی سرپرستوں اور سہولت کاروں کو کیفر کردار تک پہنچایا گیا؟ یہ سب کچھ رینجرز اور سیکیورٹی ادروں کی مرہون منت تھا۔ پھر سمجھ سے باہر ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو برا کیوں کہا جاتا ہے،کیا وہ ملک کی خیر خواہ نہیں؟ اس کے حلف میں سرفہرست ہے کہ پاکستان کی طرف اگر کسی نے میلی آنکھ سے دیکھا بھی تو اُس کی خیر نہیں، اس لیے ہمیں اُس کی خوبیوں کا بھی معترف ہونا چاہیے، رینجرز نے کراچی میں جس طرح امن و امان قائم کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔
بادی النظر میں ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ سے شکوہ بھی کیا جاتا ہے کہ وہ مخصوص سیاستدانوں کی خیر خواہ بھی رہی ہے، وہ گنے چنے افراد کا ہی احتساب کر تی ہے۔ ورنہ تو ملک کے ایک ہزار سیاستدانوں میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہو جس پر کوئی کیس نہ ہو؟ وہ آزادکیوںہیں۔اگر اسٹیبلشمنٹ کو سیاستدانوں کی کرپشن کا علم تھا تو وہ کیوں خاموش رہی، یہ کیسے ممکن ہوا کہ پاناما پر جے آئی ٹی بنائی گئی اور وہ دو ماہ میں ہزاروں فائلیں اور ثبوت سامنے لے آئی، ہمیں ان سے یہ بھی شکوہ ہے کہ پاناما و پیراڈائز لیکس میں ہزاروں پاکستانیوں کے نام کیسے آگئے، ان میں سے آدھے سے زیادہ لوگوں نے بھی اگر منی لانڈرنگ کی اور ملک کا بیڑہ غرق کرنے میں اپنا ہاتھ بٹایا تو یہ کیسے ممکن ہوگیا، ہزاروں پاکستانی سیاستدان، بیوروکریٹس عوام کا پیسہ لوٹ کر باہر چلے گئے، منی لانڈرنگ ہوتی رہی لیکن قانون بے بس رہا حالانکہ اس دوران جمہوری حکومت بھی رہی اور جنرل بھی حکمران رہے۔
پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سارے کھیل میں پاکستان کہاں کھڑا ہے؟ اس ساری لڑائی میں پاکستان کا کیا قصور ہے؟ پاکستان کے عوام کو آج تک کیا ملا ہے؟ ہم آج تک ڈیم نہیں بناسکے،جب کہ ہمارا ہمسایہ ملک بھارت 447 نئے ڈیم بنا چکا ہے۔ امریکا کو یہاں کھل کھیلنے کا موقع ملا ۔تو کیا میں بطور پاکستانی کسی سے یہ پوچھ سکتا ہوں کہ ان سارے بنتے بگڑتے اتحادوں اور نئی سیاسی جماعتوں کی ولادت کے بعد پاکستان کو کیا ملا؟ یا کیا ملے گا؟ اور آج اگر ایک بار پھر حالات خراب ہوگئے تو کیا ہم بلوچستان سے ہاتھ نہیں دھو بیٹھیں گے؟ اور پھر اُن 70ہزار جانوں کا کیا ہوگا جو حال ہی میں پاکستان کے نام پر قربان ہوگئیں؟ بقول شاعر
زمیں پہ خون کے گلشن سجائے جاتے ہیں
شفق میں رنگِ شہادت کھلائے جاتے ہیں
آج ہمیں ان سازشوں کو بے نقاب کرنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے جو ہمارے ملک میں اندرونی و بیرونی طور پر رچائی جا رہی ہیں، پاکستان کو کھوکھلا کرنے کی سازشیں جب تک کامیاب ہوتی رہیں گی ہم اندرونی طور پر لاچار ہوتے رہیں گے۔ اور ''پاکستان'' غریب سے غریب تر اور غیر محفوظ ہوتا جائے گا۔ جو کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔
بہرکیف آج الیکشن مہم کا آغاز ہو چکا ہے۔ سال 2018میں جمہور اپنا وزن کس کے پلڑے میں ڈالیں گے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ مقابلہ کانٹے کا نہیں بلکہ کاٹنے کا ہے۔ کاٹنا کیا ہے ، ایک دوسرے کا راستہ۔کھیل یہ ہے کہ نہ کھیلیں گے اور نہ کھیلنے دیں گے۔ حکمت عملی یہ ہے کہ دھول اتنی اڑائی جائے کہ سچ کا چہرہ دھندلا جائے۔منصوبہ یہ ہے کہ جمہوریت کو خطرئے کا راگ الاپو، سازش کا واویلا کرو،خود کو عوام کا خادم اور جمہوریت کا عاشق ثابت کرو۔ سانپ اور سیڑھی کا کھیل ہوتا تو خطرناک ہے لیکن بلندی پر پہنچنے کی فطری خواہش انسان کو کھیلنے پر مجبور کرتی ہے۔ اقتدار کا نشہ ہر نشے پہ بھاری ہوتا ہے۔
نئے الیکشن کے بعد کسی سیاستدان کو اسمبلی کی سیٹ ملے گی تو کسی کے سر پر اقتدار کا ہما بیٹھے گا مگر پاکستان کے عوام کو کیا ملے گا؟ بے روز گاری؟ غریبی؟ کرپشن؟ رہی بات پاک فوج کی تو میرے ذاتی خیا ل کے مطابق مشرق و مغرب دونوں بارڈر گرم ہیں اور ملک کے اندر بھی دہشتگردوں کے خلاف فوج سر گرم عمل ہے۔ دشمن ہمارے اندرونی حالات خراب کرکے پاکستان کو کمزور کرنا چاہتا ہے، وہ چاہتا ہے کہ ادارے آپس میں ٹکرائیں تاکہ پاکستان کے پاس کچھ نہ بچے۔آج ہم سب کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے، پاکستان سب کے لیے سب سے پہلے ہونا چاہیے۔