صفائی نصف ایمان نعرہ نہیں حقیقت
یہ صفائی نت نئے کلینرز یا خوبصورت مہنگے برشزکے ذریعے نہیں حاصل کی جاسکتی ہے
صفائی ستھرائی کی اہمیت ہمارے مذہب میں اس قدر ہے کہ صفائی کو نصف ایمان کہا گیا ہے ۔ یہ صفائی نت نئے کلینرز یا خوبصورت مہنگے برشزکے ذریعے نہیں حاصل کی جاسکتی ہے بلکہ اس کا تعلق انسانی روح سے لے کر بدن گویا باطنی سے بدنی تک کی ہے اور یہ بدنی اور باطنی صفائی خودبخود پھیلتی ہوئی آپ کے گھر، محلے، گلیاں اور شہر تک جا پہنچتی ہے۔ ظاہر ہے جو انسان صفائی پسند ہوگا وہ نہ صرف اپنا آپ بلکہ اپنے اردگرد کام کرنے والی جگہیں اور رہنے یہاں تک کے گزرگاہ کو بھی صاف دیکھنا پسند کرے گا۔
تابش دہلوی ایک مشہورشاعر اور نہایت نفیس انسان تھے آپ کا تعلق ریڈیو سے بھی رہا ''نذر تابش'' نام کا مجلہ نہایت دلچسپ اور خوبصورت ہے جس میں ماضی میں ہونے والے خوبصورت ادبی واقعات کے علاوہ ایسے مضامین بھی پڑھنے کو ملے کہ جن میں بہت معلومات پنہاں ہیں۔ تابش دہلوی نے 1925ء کے زمانے کا ذکرکیا جب وہ صرف تیرہ برس کے تھے اور تعلیم و تربیت کی غرض سے حیدرآباد گئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب عثمانیہ یونیورسٹی قائم ہوچکی تھی اور ہندوستان بھر سے اہل علم یہاں جمع تھے۔ تابش دہلوی ان حضرات کی صفائی اور ستھرائی کو ان کی شخصیت سے نتھی کرتے ہوئے بڑے دلچسپ انداز میں لکھتے ہیں۔
''مرزا ہادی رسوا یونیورسٹی میں غالباً نفسیات پڑھاتے تھے، مرزا صاحب گداز جسم اور درمیانہ قد کے آدمی تھے وہ چوڑی دار پاجامہ اور شیروانی پہنتے تھے، پان کی پیک کے دھبے اکثر ان کی شیروانی پر نظر آتے وہ خاصے معمر ہونے کے باوجود زیادہ سے زیادہ پچاس پچپن کے معلوم ہوتے، مرزا صاحب واجد علی شاہ کے دربار میں رہتے تھے۔ مال گزاری کے سامنے پٹواری کی دکان کے اوپر والے کوٹھے میں رہتے تھے اور ان کا انتقال غالباً 1935ء میں ہوا۔''
ایک اور صاحب کا ذکر ذرا سنیے جو تابش دہلوی نے بڑے دلچسپ انداز میں کیا، لکھتے ہیں۔
''مولانا وحید الدین سلیم کا رہن سہن بڑا گندہ تھا، گھرکی دیواروں اور فرش پر جگہ جگہ گندگی اور پان کی پیک کے دھبے، ٹوٹی ہوئی چارپائیاں، چیکٹ بچھونے، غرض ان کے گھر پر ایک طرح کی نحوست برستی تھی۔''
پرانے زمانے میں بزرگ گندا رہنے اور گندگی میں رہنے کو نحوست قرار دیتے تھے ظاہر ہے کہ اس طرح نصف ایمان تو چلا ہی جاتا ہے باقی کے نصف ایمان میں انسان کے اپنے ارادے اور نفس کی شیطانیاں کہاں سنبھالی جاتی ہیں جوگندگی سے مل کر سوا سیر ہوجاتی ہیں۔ شہر کراچی ان دنوں سوا سیرگندگی کے جھولوں پینگیں بھر رہا ہے اور ان جھولوں کو مزید اونچا اڑانے میں ہماری اپنی حماقتوں کا بھی ہاتھ ہے کیونکہ ہمارا مزاج بن چکا ہے کہ ہر بات کا الزام سرکار پر ڈالو اور اپنے شانے ہلکے کرو۔
کوڑا نہیں اٹھ رہا، سرکارکی غلطی، کوڑا جل رہا ہے سرکارکی غلطی، صفائی نہیں ہو رہی سرکارکی غلطی، گٹر بہہ رہے ہیں سرکارکی غلطی، ان تمام غلطیوں میں اگر سرکارکی ذمے داری بنتی ہے تو بری الذمہ عوام بھی نہیں ہو سکتے، ہم خود اپنے اردگرد کو آلودہ کرنے میں برابر کے ذمے دار ہیں جو اپنے گھرکا کوڑا کرکٹ چپکے سے پڑوسی کے دروازے کے قریب سرکا کر مطمئن ہو جاتے ہیں کہ ہمارا دروازہ تو صاف ہے لیکن گلی میں آ کر کوڑا اٹھانے والے سے بحث سے بچنے یا دوسرے لفظوں میں اس پر یہ ظاہر کرنے میں کہ ہمارے گھر توکوڑا بہت ہی کم ہوتا ہے یہ طریقہ مناسب محسوس ہوتا ہے کہ کسی کو پتہ بھی نہ چلا اور کام بن گیا یوں باطن سے ہماری گندگی بڑھنا شروع ہوگئی۔
اب آتے ہیں سرکارکی جانب کہ ان کا اس تمام عمل میں کس حد تک حصہ ہے تو جواب ملتا ہے بہت حد تک، ایک زمانہ تھا جب خاکروب منہ اندھیرے سڑکوں پر جھاڑو لگایا کرتے تھے اکثر یوں ہوتا تھا کہ ان کے تیز جھاڑوکی آواز سے آنکھ کھل جاتی تھی۔ یہ مستعد خاکروب روز باقاعدگی سے کوڑا اٹھانے کا کام کرتے تھے اور جب ایک دو روز چھٹی کر لیتے تھے تو محلے میں باقاعدہ چہ میگوئیاں شروع ہوجاتی تھیں کہ کیا وجہ ہے جمعدار نہیں آیا؟ یہ نیا دور آزمائشوں سے بھرا ترقی کا دور ہے جہاں آپ کی آزمائش کے لیے ہر دوسرا کمر کس کر کھڑا ہے، وہ خاکروب اب کہاں گئے خدا جانے۔ ان کی جگہ کچرا اٹھانے والے گدھا گاڑی والے یا اسکوٹر والے نمو دار ہو گئے ہیں جو شکل وصورت میں گورے چٹے، مزاج کے کسی حد تک سخت، گفتگو میں کرخت اور ذمے داریوں میں نامعقول نظر آتے ہیں۔
''یہ پٹھان نہیں ہیں، اگر یہ پٹھان ہوتے تو میں ان سے پشتو میں بات کر رہا ہوں اور یہ مجھے فارسی میں جواب دے رہا ہے یہ افغان ہے۔''
ٰایک صاحب پیدائشی پٹھان ہونے کے باعث اس نئے کوڑا اٹھانے والے سے مخاطب تھے اور دوسری جانب سے جواب کچھ اور ملتا یا ٹوٹی پھوٹی اردو میں وہ بکتا جھکتا اور مغلظات بکتا، یہ کوڑا اٹھانے کے معاملے میں خاصا چوزی ہے یعنی جس کا اچھا نہ لگے کوڑا چھوڑ بھی دیتا ہے اور اگر ذرا زیادہ کوڑا ہو تو باقاعدہ بحث کرتا ہے ہر ماہ باقاعدگی سے اپنے کام کے پیسے بھی لیتا ہے چاہے کوڑا ایک چھوٹی سی تھیلی میں ہو یا نہ ہو۔
سنا ہے کہ کوڑا کرکٹ اٹھانے کے پروجیکٹ پر کسی چینی کمپنی سے معاہدہ کیا گیا ہے خدا جانے۔ ویسے یہ چینی انجینئر اور انِ کوڑا ابھی تک محض کاغذات تک محدود ہیں شاید۔
مہینہ بھر پہلے لاہور سے خبر ملی کہ کوڑے کی وجہ سے سخت پریشانی ہے پوچھا خیریت۔۔۔! پہلے تو سب اچھا بھلا تھا کیا کراچی کا رنگ لاہور پر بھی چڑھنے لگا؟ جواب ملا ابھی چھ سات مہینے سے ہمارا خاکروب تو نہیں آرہا البتہ ایک نیا عجیب سی شکل و صورت کا بدمزاج سا شخص آتا ہے جو نہ ٹھیک سے کوڑا اٹھاتا ہے اور نہ ہی جھاڑو لگاتا ہے اگر زیادہ کچھ کہو تو خوب بحث کرتا ہے۔ حالانکہ ہم اسے پیسے بھی دیتے ہیں، اس سے لاکھ درجے تو ہمارا پرانا خاکروب تھا، نہ بحث نہ کچھ سب کچھ اچھا بھلا چل رہا تھا۔
ان کا درد سر دورکرنے کی غرض سے کہہ دیا گیا کہ پریشان نہ ہوں آپ کی شکایت متعلقہ ادارے یا خادم اعلیٰ پنجاب تک پہنچانے کی کوشش کی جائے گی، اب نیٹ کے ذریعے یہ آسان ہے پر جب عقد کھلا تو پلٹ آئے کہ چھٹی ہی بھلی تھی، ہم یہاں۔۔۔۔وہ وہاں پتہ نہیں کیا اثر لیا جائے، بہر حال عرض یہ ہے کہ اگر کسی چینی کمپنی سے ہی معاہدہ ہے تو پرانے والے خاکروبوں کی سرکاری نوکری تھی اس کا کیا ہو گا اور آہستہ آہستہ کے اس عمل میں یہ ہو کیا رہا ہے؟ ویسے صفائی نصف ایمان ہے، یہ ضرور یاد رہے۔
تابش دہلوی ایک مشہورشاعر اور نہایت نفیس انسان تھے آپ کا تعلق ریڈیو سے بھی رہا ''نذر تابش'' نام کا مجلہ نہایت دلچسپ اور خوبصورت ہے جس میں ماضی میں ہونے والے خوبصورت ادبی واقعات کے علاوہ ایسے مضامین بھی پڑھنے کو ملے کہ جن میں بہت معلومات پنہاں ہیں۔ تابش دہلوی نے 1925ء کے زمانے کا ذکرکیا جب وہ صرف تیرہ برس کے تھے اور تعلیم و تربیت کی غرض سے حیدرآباد گئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب عثمانیہ یونیورسٹی قائم ہوچکی تھی اور ہندوستان بھر سے اہل علم یہاں جمع تھے۔ تابش دہلوی ان حضرات کی صفائی اور ستھرائی کو ان کی شخصیت سے نتھی کرتے ہوئے بڑے دلچسپ انداز میں لکھتے ہیں۔
''مرزا ہادی رسوا یونیورسٹی میں غالباً نفسیات پڑھاتے تھے، مرزا صاحب گداز جسم اور درمیانہ قد کے آدمی تھے وہ چوڑی دار پاجامہ اور شیروانی پہنتے تھے، پان کی پیک کے دھبے اکثر ان کی شیروانی پر نظر آتے وہ خاصے معمر ہونے کے باوجود زیادہ سے زیادہ پچاس پچپن کے معلوم ہوتے، مرزا صاحب واجد علی شاہ کے دربار میں رہتے تھے۔ مال گزاری کے سامنے پٹواری کی دکان کے اوپر والے کوٹھے میں رہتے تھے اور ان کا انتقال غالباً 1935ء میں ہوا۔''
ایک اور صاحب کا ذکر ذرا سنیے جو تابش دہلوی نے بڑے دلچسپ انداز میں کیا، لکھتے ہیں۔
''مولانا وحید الدین سلیم کا رہن سہن بڑا گندہ تھا، گھرکی دیواروں اور فرش پر جگہ جگہ گندگی اور پان کی پیک کے دھبے، ٹوٹی ہوئی چارپائیاں، چیکٹ بچھونے، غرض ان کے گھر پر ایک طرح کی نحوست برستی تھی۔''
پرانے زمانے میں بزرگ گندا رہنے اور گندگی میں رہنے کو نحوست قرار دیتے تھے ظاہر ہے کہ اس طرح نصف ایمان تو چلا ہی جاتا ہے باقی کے نصف ایمان میں انسان کے اپنے ارادے اور نفس کی شیطانیاں کہاں سنبھالی جاتی ہیں جوگندگی سے مل کر سوا سیر ہوجاتی ہیں۔ شہر کراچی ان دنوں سوا سیرگندگی کے جھولوں پینگیں بھر رہا ہے اور ان جھولوں کو مزید اونچا اڑانے میں ہماری اپنی حماقتوں کا بھی ہاتھ ہے کیونکہ ہمارا مزاج بن چکا ہے کہ ہر بات کا الزام سرکار پر ڈالو اور اپنے شانے ہلکے کرو۔
کوڑا نہیں اٹھ رہا، سرکارکی غلطی، کوڑا جل رہا ہے سرکارکی غلطی، صفائی نہیں ہو رہی سرکارکی غلطی، گٹر بہہ رہے ہیں سرکارکی غلطی، ان تمام غلطیوں میں اگر سرکارکی ذمے داری بنتی ہے تو بری الذمہ عوام بھی نہیں ہو سکتے، ہم خود اپنے اردگرد کو آلودہ کرنے میں برابر کے ذمے دار ہیں جو اپنے گھرکا کوڑا کرکٹ چپکے سے پڑوسی کے دروازے کے قریب سرکا کر مطمئن ہو جاتے ہیں کہ ہمارا دروازہ تو صاف ہے لیکن گلی میں آ کر کوڑا اٹھانے والے سے بحث سے بچنے یا دوسرے لفظوں میں اس پر یہ ظاہر کرنے میں کہ ہمارے گھر توکوڑا بہت ہی کم ہوتا ہے یہ طریقہ مناسب محسوس ہوتا ہے کہ کسی کو پتہ بھی نہ چلا اور کام بن گیا یوں باطن سے ہماری گندگی بڑھنا شروع ہوگئی۔
اب آتے ہیں سرکارکی جانب کہ ان کا اس تمام عمل میں کس حد تک حصہ ہے تو جواب ملتا ہے بہت حد تک، ایک زمانہ تھا جب خاکروب منہ اندھیرے سڑکوں پر جھاڑو لگایا کرتے تھے اکثر یوں ہوتا تھا کہ ان کے تیز جھاڑوکی آواز سے آنکھ کھل جاتی تھی۔ یہ مستعد خاکروب روز باقاعدگی سے کوڑا اٹھانے کا کام کرتے تھے اور جب ایک دو روز چھٹی کر لیتے تھے تو محلے میں باقاعدہ چہ میگوئیاں شروع ہوجاتی تھیں کہ کیا وجہ ہے جمعدار نہیں آیا؟ یہ نیا دور آزمائشوں سے بھرا ترقی کا دور ہے جہاں آپ کی آزمائش کے لیے ہر دوسرا کمر کس کر کھڑا ہے، وہ خاکروب اب کہاں گئے خدا جانے۔ ان کی جگہ کچرا اٹھانے والے گدھا گاڑی والے یا اسکوٹر والے نمو دار ہو گئے ہیں جو شکل وصورت میں گورے چٹے، مزاج کے کسی حد تک سخت، گفتگو میں کرخت اور ذمے داریوں میں نامعقول نظر آتے ہیں۔
''یہ پٹھان نہیں ہیں، اگر یہ پٹھان ہوتے تو میں ان سے پشتو میں بات کر رہا ہوں اور یہ مجھے فارسی میں جواب دے رہا ہے یہ افغان ہے۔''
ٰایک صاحب پیدائشی پٹھان ہونے کے باعث اس نئے کوڑا اٹھانے والے سے مخاطب تھے اور دوسری جانب سے جواب کچھ اور ملتا یا ٹوٹی پھوٹی اردو میں وہ بکتا جھکتا اور مغلظات بکتا، یہ کوڑا اٹھانے کے معاملے میں خاصا چوزی ہے یعنی جس کا اچھا نہ لگے کوڑا چھوڑ بھی دیتا ہے اور اگر ذرا زیادہ کوڑا ہو تو باقاعدہ بحث کرتا ہے ہر ماہ باقاعدگی سے اپنے کام کے پیسے بھی لیتا ہے چاہے کوڑا ایک چھوٹی سی تھیلی میں ہو یا نہ ہو۔
سنا ہے کہ کوڑا کرکٹ اٹھانے کے پروجیکٹ پر کسی چینی کمپنی سے معاہدہ کیا گیا ہے خدا جانے۔ ویسے یہ چینی انجینئر اور انِ کوڑا ابھی تک محض کاغذات تک محدود ہیں شاید۔
مہینہ بھر پہلے لاہور سے خبر ملی کہ کوڑے کی وجہ سے سخت پریشانی ہے پوچھا خیریت۔۔۔! پہلے تو سب اچھا بھلا تھا کیا کراچی کا رنگ لاہور پر بھی چڑھنے لگا؟ جواب ملا ابھی چھ سات مہینے سے ہمارا خاکروب تو نہیں آرہا البتہ ایک نیا عجیب سی شکل و صورت کا بدمزاج سا شخص آتا ہے جو نہ ٹھیک سے کوڑا اٹھاتا ہے اور نہ ہی جھاڑو لگاتا ہے اگر زیادہ کچھ کہو تو خوب بحث کرتا ہے۔ حالانکہ ہم اسے پیسے بھی دیتے ہیں، اس سے لاکھ درجے تو ہمارا پرانا خاکروب تھا، نہ بحث نہ کچھ سب کچھ اچھا بھلا چل رہا تھا۔
ان کا درد سر دورکرنے کی غرض سے کہہ دیا گیا کہ پریشان نہ ہوں آپ کی شکایت متعلقہ ادارے یا خادم اعلیٰ پنجاب تک پہنچانے کی کوشش کی جائے گی، اب نیٹ کے ذریعے یہ آسان ہے پر جب عقد کھلا تو پلٹ آئے کہ چھٹی ہی بھلی تھی، ہم یہاں۔۔۔۔وہ وہاں پتہ نہیں کیا اثر لیا جائے، بہر حال عرض یہ ہے کہ اگر کسی چینی کمپنی سے ہی معاہدہ ہے تو پرانے والے خاکروبوں کی سرکاری نوکری تھی اس کا کیا ہو گا اور آہستہ آہستہ کے اس عمل میں یہ ہو کیا رہا ہے؟ ویسے صفائی نصف ایمان ہے، یہ ضرور یاد رہے۔