آئیں جہنم کی سیر کریں
ہم میں سے اکثریت اقتدار، طاقت، اختیار پا کر یکسر بدل جاتے ہیں اور ہر چیزکو بھلا بیٹھتے ہیں
تیرہویں صد ی کا عظیم اطالو ی شاعر دانتے جس نے ''ڈیوائین کامیڈی'' لکھ کر عالمی شہرت حاصل کی اس عظیم شعر ی کارنامے سے پوری دنیا کے ادب نے استفاد ہ کیا۔ ڈیوائن کا میڈی کو دانتے نے تین حصوں میں تقسیم کیا ہے (1) جہنم (2) اعراف (3) بہشت ۔
ہم یہاں صرف جہنم کا ذکر کریں گے کیونکہ ہمارے ملک کی اشرافیہ کی اکثریت یہاں ہی آیندہ قیام پذیر ہونے والی ہے، اس لیے اس کا ذکر بہت ضروری ہے کہ ہمیں اس بات کا اندازہ ہونے میں آسانی ہو جائے گی کہ وہ وہاں کن حالوں میں ہونگے ''دانتے ورجل کو ساتھ لے دوزخ کی یاترا کی طرف روانہ ہوتا ہے جہنم میں گناہ گار روحوں کا ہجوم تھا اور یہ 9 حصو ں میں تقسیم تھیں۔ پہلے حصے کے دروازے سے داخل ہونے لگا تو دانتے نے دیکھا دروازے پر لکھا تھا کہ اب تم آہوں اور آنسوؤں کے شہر میں داخل ہو رہے ہو، اس شہر میں جو چلا گیا وہ اپنے آپ کو فرامو ش کردیتا ہے یہ وہ شہر ہے جہاں گناہگار اپنے گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔ اس میں وہ فرشتے ہیں جنہوں نے حکم خداوندی سے انکارکیا وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے خدا کا اقرار کیا نہ انکارکیا بلکہ ساری زندگی شکوک میں مبتلا رہے۔
یہ سب لوگ ہاتھ باندھ کر ایک دوسرے کے آگے پیچھے چل رہے تھے اور ناقابل فہم الفاظ ان کے منہ سے نکل رہے تھے اور ان کے منہ سے نکلی ہوئی آوازیں ساری فضا کو داغدار کررہی تھیں۔ ورجل اور دانتے چلتے چلتے ایک ایسی جگہ پہنچے جہاں پانچ ندیاں بہہ رہی تھیں ان میں کشتیاں کھڑی تھیں جن پر روحیں سر جھکائے بیٹھی تھیں۔ دانتے نے ورجل سے پوچھا ''یہ کشتیاں کہاں جارہی ہیں'' ۔ ''یہ ملاح انھیں لے کر جہنم کے مختلف حصو ں میں جارہے ہیں'' ورجل یہ کہہ کر کشتی بان شارون کے پاس گیا اورکہا ''میں حکم الہی سے اس فانی انسان کو جہنم کی سیر کرا رہا ہوں ''جہنم کے ایک ڈھلوان راستے سے گزرکر وہ ایک ایسی جھیل کے پاس پہنچتے ہیں جہاں ایک شیطان ناف تک جھیل میں ڈوبا ہوا کھڑا ہے ارد گرد روحیں درد اورکرب میں مبتلا ہیں روحیں الٹی لٹکی ہوئی ہیں اور آہ و فغان اور درد کی شدت سے روحیں رو رہی ہیں۔
دانتے نے ورجل سے پوچھا ''میرے پیرو مرشد۔ یہ کون ہیں'' ورجل نے جواب دیا ''یہ زنا کے گناہ کے مرتکب ہیں ان کی سزا کا خاتمہ نہیں ہوگا'' کچھ لوگ انھیں ایسے بھی نظر آئے جن کے چہرے جلے ہوئے تھے بس جبڑے ہل رہے تھے دانتے کے پوچھنے پر ورجل نے جواب دیا یہ سب شرابی لوگ ہیں۔ دانتے نے دیکھا کہ ان پر پیپ اور غلاظت کی بارش ہورہی تھی اور وہ یہ پیپ پی رہے تھے ان میں وہ لوگ بھی شامل تھے جنہوں نے عیاشی اور فضول خرچی کو اپنا وتیرہ بنا رکھا تھا جہنم کے ایک حصے میں غلاظت، خون، پیپ اورکیچڑ میں لپٹی ہوئی روحیں دریا کے پانی پر بے چینی کی حالت میں دوڑی پھررہی ہیں۔
ایک دوسرے کو نوچ رہی ہیں لڑ رہی ہیں ورجل دانتے کو بتلاتا ہے کہ یہ مسلسل گناہوں میں مصروف رہنے والی روحیں ہیں، جنہوں نے دنیا کو صرف گناہوں کی آماج گاہ سمجھا تھا۔ ایک حصے میں خون کے دریا میں روحیں ابل رہی تھیں اور دریا سے باہر نکل رہی تھیں لیکن دریا کے کنارے گھوڑوں پر سوارکچھ فرشتے دوڑ رہے تھے ۔ ان کا کام یہ تھا کہ وہ ان روحوں کو دوبارہ دریا میں پھینک دیں جو دریا سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے باہر نکل رہی تھیں۔
دانتے اس منظر سے لرز گیا۔ ورجل سے ان کے بارے میں پوچھا تو ورجل نے جواب دیا یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رشتے داروں کے ساتھ اچھا سلوک کیا نہ ہمسایہ اور پڑوسی کے آرام کا خیال رکھا نہ ہی خدا کے احکامات کو مانا بلکہ رشتے داروں اور پڑوسیوں کے حقوق پورے نہ کیے اور ان پرتشدد سے کام لیا۔ پھر ورجل کے اشارہ کرنے پر دانتے نے ایک طرف نظر دوڑائی وہاں گرم ریت پر آگ کے الاؤ جل رہے تھے ورجل نے کہا یہ سو د خوروں اور ناجائز منافع کمانے والوں کا گھر ہے جہاں وہ ہمیشہ کے لیے رہیں گے خدا نے انسان کو زمین پر ہل چلانے، فصلیں اگانے کا حکم دیا تھا مگر ان لوگوں نے رزق حلال کے بجائے حرام کوسینے سے لگایا۔
جنگل سے نکل کر وہ ایک ندی کے دہانے پر پہنچے جہاں ندی میں پانی کی بجائے گرم ریت ابل رہی تھی اور اس میں دھوکے بازا ور فریب کار دانوں کی طرح بھونے جا رہے تھے۔ اس ندی کی رکھوالی درندے کر رہے تھے ورجل نے ایک درندے کو اپنے پاس بلایا اور پھر دونوں اس پر سوار ہوکر ایک طرف چل دیے اور ایک ایسی جگہ پر آئے جہاں گوشت بھوننے کی بدبو آرہی تھی اور چاروں طرف دھواں پھیلا ہوا تھا۔ ورجل نے بتلایا یہاں وہ لوگ بھونے جارہے ہیں جنہوں نے خدا کی دی ہوئی عقل کا غلط استعمال کیا اور اسے تخریبی کاموں میں استعمال کیا۔''
ہم میں سے اکثریت اقتدار، طاقت، اختیار پا کر یکسر بدل جاتے ہیں اور ہر چیزکو بھلا بیٹھتے ہیں اور یہ بھی سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ اب انھیں کبھی بھی کہیں بھی نہیں جانا ہے اور ہمیشہ یہیں رہنا ہے اور یہ اقتدار، طاقت اور اختیار ہمیشہ ہمیشہ اسی طرح سے جاری وساری رہے گا اور اب ہم ہراحتساب، ریاست، معاشرے، قانون، انصاف اور آئین سے بالا تر ہو گئے ہیں آخر یہ لوگ یہ پا کر ایسے کیوں ہو جاتے ہیں؟ آئیں اس کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں انسان اپنی زندگی کی سب سے بڑی اور اہم ترین جنگ اپنے دل سے لڑتا ہے اگر وہ یہ جنگ جیت جاتا ہے تو وہ اپنے دل پر حکمرانی کرنے لگتا ہے اور اگر ہار جائے تو دل اس پر حکمرانی کرنے لگ جاتا ہے۔
پہلی صورت میں وہ اپنی خواہشات کو اپنے تابع کر لیتا ہے دوسری صورت میں خواہشات اس کو اپنے تابع کر لیتی ہیں جب انسان اپنی خواہشات کو اپنے تابع کر لیتا ہے تو پھر وہ عقل، سمجھ بوجھ، سوچ و فکر سے کام لیتا ہے اور اس کے فیصلے،اقدام، دانشمندانہ،نیک وصالح ہوتے ہیں دوسری صورت میں جب خواہشات اس کو دبوچ لیتی ہیں تو وہ اپنا پہلا حملہ اس کی عقل وسمجھ بوجھ پرکرتی ہیں اور انھیں تہس نہس کرکے رکھ دیتی ہیں پھر اس کے بعد انسان اپنی باقی زندگی عقل وسمجھ بوجھ کے بغیرگزارنا شروع کردیتا ہے اور ایک خوانخوار درندے میں تبدیل ہو جاتا ہے پھر اس انسان پر وہ درندہ حکمرانی کرنے لگتا ہے اور یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہتا ہے۔ سالوں بعد جب انسان کی عمر اس کا ساتھ چھوڑنے لگتی ہے تو پھر اس درندے کا انسان بننے کا سفر دوبارہ شروع ہونے لگتا ہے لیکن اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے اور فرشتے جہنم میں کشتیاں لیے اس کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں پھر اس نے کچھ نہیں کرنا ہوتا سب کچھ ان فرشتوں نے کرنا ہوتا ہے۔
ہم یہاں صرف جہنم کا ذکر کریں گے کیونکہ ہمارے ملک کی اشرافیہ کی اکثریت یہاں ہی آیندہ قیام پذیر ہونے والی ہے، اس لیے اس کا ذکر بہت ضروری ہے کہ ہمیں اس بات کا اندازہ ہونے میں آسانی ہو جائے گی کہ وہ وہاں کن حالوں میں ہونگے ''دانتے ورجل کو ساتھ لے دوزخ کی یاترا کی طرف روانہ ہوتا ہے جہنم میں گناہ گار روحوں کا ہجوم تھا اور یہ 9 حصو ں میں تقسیم تھیں۔ پہلے حصے کے دروازے سے داخل ہونے لگا تو دانتے نے دیکھا دروازے پر لکھا تھا کہ اب تم آہوں اور آنسوؤں کے شہر میں داخل ہو رہے ہو، اس شہر میں جو چلا گیا وہ اپنے آپ کو فرامو ش کردیتا ہے یہ وہ شہر ہے جہاں گناہگار اپنے گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔ اس میں وہ فرشتے ہیں جنہوں نے حکم خداوندی سے انکارکیا وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے خدا کا اقرار کیا نہ انکارکیا بلکہ ساری زندگی شکوک میں مبتلا رہے۔
یہ سب لوگ ہاتھ باندھ کر ایک دوسرے کے آگے پیچھے چل رہے تھے اور ناقابل فہم الفاظ ان کے منہ سے نکل رہے تھے اور ان کے منہ سے نکلی ہوئی آوازیں ساری فضا کو داغدار کررہی تھیں۔ ورجل اور دانتے چلتے چلتے ایک ایسی جگہ پہنچے جہاں پانچ ندیاں بہہ رہی تھیں ان میں کشتیاں کھڑی تھیں جن پر روحیں سر جھکائے بیٹھی تھیں۔ دانتے نے ورجل سے پوچھا ''یہ کشتیاں کہاں جارہی ہیں'' ۔ ''یہ ملاح انھیں لے کر جہنم کے مختلف حصو ں میں جارہے ہیں'' ورجل یہ کہہ کر کشتی بان شارون کے پاس گیا اورکہا ''میں حکم الہی سے اس فانی انسان کو جہنم کی سیر کرا رہا ہوں ''جہنم کے ایک ڈھلوان راستے سے گزرکر وہ ایک ایسی جھیل کے پاس پہنچتے ہیں جہاں ایک شیطان ناف تک جھیل میں ڈوبا ہوا کھڑا ہے ارد گرد روحیں درد اورکرب میں مبتلا ہیں روحیں الٹی لٹکی ہوئی ہیں اور آہ و فغان اور درد کی شدت سے روحیں رو رہی ہیں۔
دانتے نے ورجل سے پوچھا ''میرے پیرو مرشد۔ یہ کون ہیں'' ورجل نے جواب دیا ''یہ زنا کے گناہ کے مرتکب ہیں ان کی سزا کا خاتمہ نہیں ہوگا'' کچھ لوگ انھیں ایسے بھی نظر آئے جن کے چہرے جلے ہوئے تھے بس جبڑے ہل رہے تھے دانتے کے پوچھنے پر ورجل نے جواب دیا یہ سب شرابی لوگ ہیں۔ دانتے نے دیکھا کہ ان پر پیپ اور غلاظت کی بارش ہورہی تھی اور وہ یہ پیپ پی رہے تھے ان میں وہ لوگ بھی شامل تھے جنہوں نے عیاشی اور فضول خرچی کو اپنا وتیرہ بنا رکھا تھا جہنم کے ایک حصے میں غلاظت، خون، پیپ اورکیچڑ میں لپٹی ہوئی روحیں دریا کے پانی پر بے چینی کی حالت میں دوڑی پھررہی ہیں۔
ایک دوسرے کو نوچ رہی ہیں لڑ رہی ہیں ورجل دانتے کو بتلاتا ہے کہ یہ مسلسل گناہوں میں مصروف رہنے والی روحیں ہیں، جنہوں نے دنیا کو صرف گناہوں کی آماج گاہ سمجھا تھا۔ ایک حصے میں خون کے دریا میں روحیں ابل رہی تھیں اور دریا سے باہر نکل رہی تھیں لیکن دریا کے کنارے گھوڑوں پر سوارکچھ فرشتے دوڑ رہے تھے ۔ ان کا کام یہ تھا کہ وہ ان روحوں کو دوبارہ دریا میں پھینک دیں جو دریا سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے باہر نکل رہی تھیں۔
دانتے اس منظر سے لرز گیا۔ ورجل سے ان کے بارے میں پوچھا تو ورجل نے جواب دیا یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رشتے داروں کے ساتھ اچھا سلوک کیا نہ ہمسایہ اور پڑوسی کے آرام کا خیال رکھا نہ ہی خدا کے احکامات کو مانا بلکہ رشتے داروں اور پڑوسیوں کے حقوق پورے نہ کیے اور ان پرتشدد سے کام لیا۔ پھر ورجل کے اشارہ کرنے پر دانتے نے ایک طرف نظر دوڑائی وہاں گرم ریت پر آگ کے الاؤ جل رہے تھے ورجل نے کہا یہ سو د خوروں اور ناجائز منافع کمانے والوں کا گھر ہے جہاں وہ ہمیشہ کے لیے رہیں گے خدا نے انسان کو زمین پر ہل چلانے، فصلیں اگانے کا حکم دیا تھا مگر ان لوگوں نے رزق حلال کے بجائے حرام کوسینے سے لگایا۔
جنگل سے نکل کر وہ ایک ندی کے دہانے پر پہنچے جہاں ندی میں پانی کی بجائے گرم ریت ابل رہی تھی اور اس میں دھوکے بازا ور فریب کار دانوں کی طرح بھونے جا رہے تھے۔ اس ندی کی رکھوالی درندے کر رہے تھے ورجل نے ایک درندے کو اپنے پاس بلایا اور پھر دونوں اس پر سوار ہوکر ایک طرف چل دیے اور ایک ایسی جگہ پر آئے جہاں گوشت بھوننے کی بدبو آرہی تھی اور چاروں طرف دھواں پھیلا ہوا تھا۔ ورجل نے بتلایا یہاں وہ لوگ بھونے جارہے ہیں جنہوں نے خدا کی دی ہوئی عقل کا غلط استعمال کیا اور اسے تخریبی کاموں میں استعمال کیا۔''
ہم میں سے اکثریت اقتدار، طاقت، اختیار پا کر یکسر بدل جاتے ہیں اور ہر چیزکو بھلا بیٹھتے ہیں اور یہ بھی سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ اب انھیں کبھی بھی کہیں بھی نہیں جانا ہے اور ہمیشہ یہیں رہنا ہے اور یہ اقتدار، طاقت اور اختیار ہمیشہ ہمیشہ اسی طرح سے جاری وساری رہے گا اور اب ہم ہراحتساب، ریاست، معاشرے، قانون، انصاف اور آئین سے بالا تر ہو گئے ہیں آخر یہ لوگ یہ پا کر ایسے کیوں ہو جاتے ہیں؟ آئیں اس کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں انسان اپنی زندگی کی سب سے بڑی اور اہم ترین جنگ اپنے دل سے لڑتا ہے اگر وہ یہ جنگ جیت جاتا ہے تو وہ اپنے دل پر حکمرانی کرنے لگتا ہے اور اگر ہار جائے تو دل اس پر حکمرانی کرنے لگ جاتا ہے۔
پہلی صورت میں وہ اپنی خواہشات کو اپنے تابع کر لیتا ہے دوسری صورت میں خواہشات اس کو اپنے تابع کر لیتی ہیں جب انسان اپنی خواہشات کو اپنے تابع کر لیتا ہے تو پھر وہ عقل، سمجھ بوجھ، سوچ و فکر سے کام لیتا ہے اور اس کے فیصلے،اقدام، دانشمندانہ،نیک وصالح ہوتے ہیں دوسری صورت میں جب خواہشات اس کو دبوچ لیتی ہیں تو وہ اپنا پہلا حملہ اس کی عقل وسمجھ بوجھ پرکرتی ہیں اور انھیں تہس نہس کرکے رکھ دیتی ہیں پھر اس کے بعد انسان اپنی باقی زندگی عقل وسمجھ بوجھ کے بغیرگزارنا شروع کردیتا ہے اور ایک خوانخوار درندے میں تبدیل ہو جاتا ہے پھر اس انسان پر وہ درندہ حکمرانی کرنے لگتا ہے اور یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہتا ہے۔ سالوں بعد جب انسان کی عمر اس کا ساتھ چھوڑنے لگتی ہے تو پھر اس درندے کا انسان بننے کا سفر دوبارہ شروع ہونے لگتا ہے لیکن اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے اور فرشتے جہنم میں کشتیاں لیے اس کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں پھر اس نے کچھ نہیں کرنا ہوتا سب کچھ ان فرشتوں نے کرنا ہوتا ہے۔