میکاولی کا پرنس
میں نے پہلی بار انھیں میکاولی کا پرنس کہنے کی غلطی کی تھی لیکن ہلال کے کمپوزیٹروں نے ان کا نام ہی یہی رکھ چھوڑا تھا
محمد موسیٰ سومرو مرحوم میرے بہت اچھے دوست تھے، پیشے کے لحاظ سے ہائی کورٹ کے وکیل تھے اورکراچی میں پریکٹس کرتے تھے۔ بندر روڈ کو بینک آف انڈیا بلڈنگ کے پاس سے فریئر روڈ کے ساتھ ملانے والی سڑک کیمبل اسٹریٹ پر صالح چیمبر کے نام سے پرانے طرزکی ایک عمارت کی دوسری منزل پر ان کا دفتر ہوا کرتا تھا، جو اصل میں تھا تو مسٹر غلام عباس سومرو کا جو پہلے انھی کی طرح وکالت کرتے تھے لیکن پھر سرکاری ملازمت اختیار کرلینے کی وجہ سے اب یہ محمد موسیٰ کے استعمال میں تھا۔
لسبیلہ پل کے قریب نئے گولیمار میں اکیلے رہتے تھے جب کہ ان کی فیملی حیدرآباد کی فوجی چھاؤنی سے ملحق گاؤں دو آبہ میں آباد تھی۔ غریب گھرانے سے تعلق تھا، ابھی اسکول میں زیر تعلیم تھے کہ انھیں کام سیکھنے کے لیے حیدرآباد کے سندھی روزنامے ''خادمِ وطن''کے دفتر میں چھوڑا گیا۔ اس زمانے میں کمپیوٹرکا تو خیرکسی نے نام بھی نہیں سنا تھا، آفسٹ پرنٹنگ تک شروع نہیں ہوئی تھی۔
سندھی اخبارات میں ہینڈ کمپوزنگ ہوتی تھی جب کہ اردو اخبارات میں کیلی گرافی (کتابت) رائج تھی ۔ کمپوزیٹرز، محمد موسیٰ کو کام کم سکھاتے اور ان سے چائے سگریٹ زیادہ منگواتے تھے، اس کے باوجود وہ اپنی لگن اور محنت سے کام سیکھ کر کمپوزیٹر بن گئے۔ پھر جب انھوں نے میٹرک بھی پاس کرلیا تو ادارتی عملے کے تعاون سے ترجمہ کرنا اور خبر بنانا سیکھ کر ڈیسک پر آگئے، جلد ہی ان کا شمار قابل صحافیوں میں ہونے لگا۔
اس اثناء میں حکومت سندھ کے محکمہ اطلاعات میں انفارمیشن افسران کی اسامیاں نکلیں، محمد موسیٰ گریجویشن کرچکے تھے، سلیکٹ ہوگئے اور صحافت چھوڑ کر سرکاری نوکری کرنے لگے۔ ذوالفقارعلی بھٹوکے دور اقتدار میں جب قطب صاحب ڈپوٹیشن پر سندھ کے سیکریٹری انفارمیشن بن کر آئے تو ہمارے یار کوگویا ہیروں کی قدر کرنے والا جوہری مل گیا۔ وہ ہلال پاکستان کے ایڈیٹر سراج الحق میمن کے دوست تھے اور اپنی امریکن بیگم کے ساتھ تقریباً ہر روز شام کو ان سے ملنے ہمارے دفتر آتے تھے، وہاں میں نے کئی بار ان کے منہ سے محمد موسیٰ کے کام کی تعریف سنی تھی۔ قطب صاحب ہی کے دور میں وہ ترقی کرکے اسسٹنٹ ڈائریکٹر بنے تھے۔
محکمے کے سربراہ سے ذہنی ہم آہنگی انھیں بہت آگے لے جاتی اور یہ بڑی تیزی سے ترقی کی منازل طے کرتے کہ 77ء کی فوجی بغاوت کے نتیجے میں مارشل لا لگ گیا۔ قطب صاحب کی بھٹو سے قربت انھیں مروا دیتی مگر امریکی خاتون سے کی ہوئی شادی کام آگئی اور وہ جان بچا کر امریکا نکل جانے میں کامیاب ہو گئے۔ محمد موسیٰ نے اس واقعے کا بہت گہرا اثر لیا، انھوں نے ملازمت سے استعفیٰ دے دیا اور اس دوران لی ہوئی ایل ایل بی کی ڈگری کو کام میں لاکر وکالت شروع کردی۔
کیس ملنے شروع ہوئے تو انھوں نے پوری تیاری کے ساتھ کیس لڑنے والے وکیل کی حیثیت سے اپنی شناخت کرائی۔ خوش قسمتی سے انھیں نوردین رمضان جیسے قابل اور سینئر وکیل کی رفاقت بھی نصیب ہوگئی جن کا دفتر اسی بلڈنگ کی پہلی منزل پر ان کے دفتر کے عین نیچے ہوا کرتا تھا، دونوں میں پیدا ہونے والی انڈراسٹینڈنگ کو گہری دوستی میں تبدیل ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔ نوردین کا شمار ہائی کورٹ کے مصروف ترین وکلاء میں ہوتا تھا، روز جاری ہونے والی کاز لسٹ میں ان کے کم از کم 8-7 کیس ضرور درج ہوتے تھے۔
نوردین رمضان کے منشی، غلام مصطفیٰ خواجہ، محمد موسیٰ کے کیس کے کاغذات بھی اوپر ان کے دفتر میں بیٹھ کر ٹائپ کیا کرتے تھے۔ نوردین رمضان اور محمد موسیٰ تو اب اس دنیا میں نہیں لیکن ان کے پرانے جاننے والے آج جب غلام مصطفیٰ خواجہ کو ہائی کورٹ کے وکیل کی حیثیت سے پریکٹس کرتے دیکھتے ہیں تو انھیں بے اختیار وہ دونوں دوست یاد آجاتے ہیں۔ محمد موسیٰ سومرو کو ادب سے بھی گہرا لگاؤ تھا اور وہ اپنی پیشہ ورانہ مصروفیت سے اس کے تھوڑا بہت وقت نکال لیا کرتے تھے۔
80ء میں ہلال پاکستان کا ایڈیٹر بننے کے بعد جب میں نے اخبار کے ساتھ ہفت روزہ ہلال میگزین بھی جاری کیا تو محمد موسیٰ نے اس کے لیے میکاولی کے ناول پرنس کا سندھی میں ترجمہ کیا تھا جو قارئین میں بہت پسند کیا گیا۔ وہ ہر ہفتے نئی قسط دینے آتے تو میرے کمرے میں بیٹھ کر اس کے کمپوز ہونے کا انتظار کرتے اور خود ہی اس کی پروف ریڈنگ بھی کرتے۔ میں نے پہلی بار انھیں میکاولی کا پرنس کہنے کی غلطی کی تھی لیکن ہلال کے کمپوزیٹروں نے ان کا نام ہی یہی رکھ چھوڑا تھا، دیکھتے ہی کہتے لو بھئی میکاولی کا پرنس آگیا۔
ہماری دوستی 81ء میں اور اس کے بعد تب پروان چڑھی جب میں نے جنرل ضیاء کے سیکریٹری انفارمیشن، جنرل مجیب الرحمٰن اور شیخ سلطان ٹرسٹ کے ڈپٹی ایڈمنسٹریٹر، علی احمد بروہی سے شدید اختلافات پیدا ہو جانے کے بعد استعفیٰ دے دیا۔ پھر ہمارا زیادہ تر وقت ان کے دفتر میں ساتھ گزرتا تھا، ہم بولٹن مارکیٹ کے فرنٹیئر ہوٹل میں پائے کھانے جاتے تو کبھی نیو چالی سے دال چاول منگواکر دفتر ہی میں لنچ کرتے، کبھی کبھی ہمارے درمیان نوک جھونک بھی ہوجایا کرتی اور نوردین رمضان کو آکر صلح کرانی پڑتی، ایک بار ہم کتابوں کی گمشدگی پر بھی لڑے تھے، مجھے اچھی طرح یاد تھا کہ محمد موسیٰ نے مجھ سے پِیلو مودی کی ''ذولفی مائی فرینڈ''اور یحییٰ بختیار کی ''اسپلینڈر ٹو وٹنیس'' پڑھنے کے لیے لی تھیں اور واپس نہیں کیں جب کہ ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے تو دونوں کتابیں پڑھ کر مجھے لوٹا دی تھیں، مگر میں نے ''ہسٹری آف اسلام ''نامی ان کی کتاب واپس نہیں کی، جب بھی ہماری لڑائی ہوتی نوردین رمضان شور سن کر اوپر آتے اور کہتے یہ کیا تم دونوں ہر وقت بچوں کی طرح لڑتے رہتے ہو، پھر وہ مجھے یہ کہہ کر نیچے اپنے دفتر میں لے جاتے کہ تم سے ایک ضروری بات کرنی ہے، ایک گھنٹہ بھی نہیں گزرتا تھا کہ محمد موسیٰ آکر پوچھتے کہ تم لوگوں کی ضروری بات ختم ہوئی کہ نہیں اور مجھے اپنے ساتھ اوپر لے آتے۔
پھر یوں ہوا کہ محمد موسیٰ اچانک بیمار پڑگئے، میں ہر دوسرے تیسرے دن مزاج پرسی کے لیے جاتا تھا، ایک دن پوچھا یہاں سب سے اچھا فزیشن کون ہے، میں اس سے اپنی بیماری کی تشخیص کروانا چاہتا ہوں، میں نے ڈاکٹر صالح میمن کا بتایا تو بولے مجھے ان کے پاس لے چلو۔ ڈاکٹر صاحب ان دنوں سندھی مسلم ہاؤسنگ سوسائٹی میں گلستان شاہ عبداللطیف اسکول کے قریب کلینک کرتے تھے۔ میں محمد موسیٰ کو وہاں لے گیا، وہ مجھے اس وقت سے جانتے تھے جب سول اسپتال کے ایم ایس ہوا کرتے تھے اور ہمارے اخبار (ہلال پاکستان) میں ''مرض اور علاج ''کے عنوان سے کالم لکھا کرتے تھے، محمد موسیٰ کا تفصیلی طبی معائنہ کرنے کے بعد فرمایا انھیں کوئی بیماری نہیں ہے، کام کی زیادتی کی وجہ سے تھک گئے ہیں،کچھ دن آرام کریں گے تو ٹھیک ہوجائیں گے۔
ہم آنے لگے تو انھوں نے مجھے اس وقت آواز دے کر واپس بلایا جب محمد موسیٰ کمرے سے باہر نکل چکے تھے اور کہا کہ ان کے پاس وقت بالکل نہیں ہے، جتنی جلدی ہوسکے انھیں ان کی فیملی کے پاس پہنچا دو۔ یہ میرے لیے بڑا مشکل مرحلہ تھا، ایک لڑکا جو ان کا بھانجا یا بھتیجا تھا اور رکشہ چلاتا تھا، ان کے ساتھ رہتا تھا، ہم واپس آئے تو وہ موجود تھا، محمد موسیٰ نے اسے مجھے گھر چھوڑ آنے کے لیے کہا، باہر آکر میں نے اس کو اعتماد میں لے کر ڈاکٹر کی کہی ہوئی بات بتائی۔ لڑکا ہوشیار تھا، فوراً معاملے کی سنگینی کو سمجھ گیا، اس نے کوئی کار کرائے پر لی اور بہانے سے محمد موسیٰ کو حیدرآباد لے گیا جہاں فرشتہ اجل پہلے سے ان کا منتظر تھا، اگلے روز ہمیں یہاں ان کے انتقال کی خبر ملی ۔
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا
لسبیلہ پل کے قریب نئے گولیمار میں اکیلے رہتے تھے جب کہ ان کی فیملی حیدرآباد کی فوجی چھاؤنی سے ملحق گاؤں دو آبہ میں آباد تھی۔ غریب گھرانے سے تعلق تھا، ابھی اسکول میں زیر تعلیم تھے کہ انھیں کام سیکھنے کے لیے حیدرآباد کے سندھی روزنامے ''خادمِ وطن''کے دفتر میں چھوڑا گیا۔ اس زمانے میں کمپیوٹرکا تو خیرکسی نے نام بھی نہیں سنا تھا، آفسٹ پرنٹنگ تک شروع نہیں ہوئی تھی۔
سندھی اخبارات میں ہینڈ کمپوزنگ ہوتی تھی جب کہ اردو اخبارات میں کیلی گرافی (کتابت) رائج تھی ۔ کمپوزیٹرز، محمد موسیٰ کو کام کم سکھاتے اور ان سے چائے سگریٹ زیادہ منگواتے تھے، اس کے باوجود وہ اپنی لگن اور محنت سے کام سیکھ کر کمپوزیٹر بن گئے۔ پھر جب انھوں نے میٹرک بھی پاس کرلیا تو ادارتی عملے کے تعاون سے ترجمہ کرنا اور خبر بنانا سیکھ کر ڈیسک پر آگئے، جلد ہی ان کا شمار قابل صحافیوں میں ہونے لگا۔
اس اثناء میں حکومت سندھ کے محکمہ اطلاعات میں انفارمیشن افسران کی اسامیاں نکلیں، محمد موسیٰ گریجویشن کرچکے تھے، سلیکٹ ہوگئے اور صحافت چھوڑ کر سرکاری نوکری کرنے لگے۔ ذوالفقارعلی بھٹوکے دور اقتدار میں جب قطب صاحب ڈپوٹیشن پر سندھ کے سیکریٹری انفارمیشن بن کر آئے تو ہمارے یار کوگویا ہیروں کی قدر کرنے والا جوہری مل گیا۔ وہ ہلال پاکستان کے ایڈیٹر سراج الحق میمن کے دوست تھے اور اپنی امریکن بیگم کے ساتھ تقریباً ہر روز شام کو ان سے ملنے ہمارے دفتر آتے تھے، وہاں میں نے کئی بار ان کے منہ سے محمد موسیٰ کے کام کی تعریف سنی تھی۔ قطب صاحب ہی کے دور میں وہ ترقی کرکے اسسٹنٹ ڈائریکٹر بنے تھے۔
محکمے کے سربراہ سے ذہنی ہم آہنگی انھیں بہت آگے لے جاتی اور یہ بڑی تیزی سے ترقی کی منازل طے کرتے کہ 77ء کی فوجی بغاوت کے نتیجے میں مارشل لا لگ گیا۔ قطب صاحب کی بھٹو سے قربت انھیں مروا دیتی مگر امریکی خاتون سے کی ہوئی شادی کام آگئی اور وہ جان بچا کر امریکا نکل جانے میں کامیاب ہو گئے۔ محمد موسیٰ نے اس واقعے کا بہت گہرا اثر لیا، انھوں نے ملازمت سے استعفیٰ دے دیا اور اس دوران لی ہوئی ایل ایل بی کی ڈگری کو کام میں لاکر وکالت شروع کردی۔
کیس ملنے شروع ہوئے تو انھوں نے پوری تیاری کے ساتھ کیس لڑنے والے وکیل کی حیثیت سے اپنی شناخت کرائی۔ خوش قسمتی سے انھیں نوردین رمضان جیسے قابل اور سینئر وکیل کی رفاقت بھی نصیب ہوگئی جن کا دفتر اسی بلڈنگ کی پہلی منزل پر ان کے دفتر کے عین نیچے ہوا کرتا تھا، دونوں میں پیدا ہونے والی انڈراسٹینڈنگ کو گہری دوستی میں تبدیل ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔ نوردین کا شمار ہائی کورٹ کے مصروف ترین وکلاء میں ہوتا تھا، روز جاری ہونے والی کاز لسٹ میں ان کے کم از کم 8-7 کیس ضرور درج ہوتے تھے۔
نوردین رمضان کے منشی، غلام مصطفیٰ خواجہ، محمد موسیٰ کے کیس کے کاغذات بھی اوپر ان کے دفتر میں بیٹھ کر ٹائپ کیا کرتے تھے۔ نوردین رمضان اور محمد موسیٰ تو اب اس دنیا میں نہیں لیکن ان کے پرانے جاننے والے آج جب غلام مصطفیٰ خواجہ کو ہائی کورٹ کے وکیل کی حیثیت سے پریکٹس کرتے دیکھتے ہیں تو انھیں بے اختیار وہ دونوں دوست یاد آجاتے ہیں۔ محمد موسیٰ سومرو کو ادب سے بھی گہرا لگاؤ تھا اور وہ اپنی پیشہ ورانہ مصروفیت سے اس کے تھوڑا بہت وقت نکال لیا کرتے تھے۔
80ء میں ہلال پاکستان کا ایڈیٹر بننے کے بعد جب میں نے اخبار کے ساتھ ہفت روزہ ہلال میگزین بھی جاری کیا تو محمد موسیٰ نے اس کے لیے میکاولی کے ناول پرنس کا سندھی میں ترجمہ کیا تھا جو قارئین میں بہت پسند کیا گیا۔ وہ ہر ہفتے نئی قسط دینے آتے تو میرے کمرے میں بیٹھ کر اس کے کمپوز ہونے کا انتظار کرتے اور خود ہی اس کی پروف ریڈنگ بھی کرتے۔ میں نے پہلی بار انھیں میکاولی کا پرنس کہنے کی غلطی کی تھی لیکن ہلال کے کمپوزیٹروں نے ان کا نام ہی یہی رکھ چھوڑا تھا، دیکھتے ہی کہتے لو بھئی میکاولی کا پرنس آگیا۔
ہماری دوستی 81ء میں اور اس کے بعد تب پروان چڑھی جب میں نے جنرل ضیاء کے سیکریٹری انفارمیشن، جنرل مجیب الرحمٰن اور شیخ سلطان ٹرسٹ کے ڈپٹی ایڈمنسٹریٹر، علی احمد بروہی سے شدید اختلافات پیدا ہو جانے کے بعد استعفیٰ دے دیا۔ پھر ہمارا زیادہ تر وقت ان کے دفتر میں ساتھ گزرتا تھا، ہم بولٹن مارکیٹ کے فرنٹیئر ہوٹل میں پائے کھانے جاتے تو کبھی نیو چالی سے دال چاول منگواکر دفتر ہی میں لنچ کرتے، کبھی کبھی ہمارے درمیان نوک جھونک بھی ہوجایا کرتی اور نوردین رمضان کو آکر صلح کرانی پڑتی، ایک بار ہم کتابوں کی گمشدگی پر بھی لڑے تھے، مجھے اچھی طرح یاد تھا کہ محمد موسیٰ نے مجھ سے پِیلو مودی کی ''ذولفی مائی فرینڈ''اور یحییٰ بختیار کی ''اسپلینڈر ٹو وٹنیس'' پڑھنے کے لیے لی تھیں اور واپس نہیں کیں جب کہ ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے تو دونوں کتابیں پڑھ کر مجھے لوٹا دی تھیں، مگر میں نے ''ہسٹری آف اسلام ''نامی ان کی کتاب واپس نہیں کی، جب بھی ہماری لڑائی ہوتی نوردین رمضان شور سن کر اوپر آتے اور کہتے یہ کیا تم دونوں ہر وقت بچوں کی طرح لڑتے رہتے ہو، پھر وہ مجھے یہ کہہ کر نیچے اپنے دفتر میں لے جاتے کہ تم سے ایک ضروری بات کرنی ہے، ایک گھنٹہ بھی نہیں گزرتا تھا کہ محمد موسیٰ آکر پوچھتے کہ تم لوگوں کی ضروری بات ختم ہوئی کہ نہیں اور مجھے اپنے ساتھ اوپر لے آتے۔
پھر یوں ہوا کہ محمد موسیٰ اچانک بیمار پڑگئے، میں ہر دوسرے تیسرے دن مزاج پرسی کے لیے جاتا تھا، ایک دن پوچھا یہاں سب سے اچھا فزیشن کون ہے، میں اس سے اپنی بیماری کی تشخیص کروانا چاہتا ہوں، میں نے ڈاکٹر صالح میمن کا بتایا تو بولے مجھے ان کے پاس لے چلو۔ ڈاکٹر صاحب ان دنوں سندھی مسلم ہاؤسنگ سوسائٹی میں گلستان شاہ عبداللطیف اسکول کے قریب کلینک کرتے تھے۔ میں محمد موسیٰ کو وہاں لے گیا، وہ مجھے اس وقت سے جانتے تھے جب سول اسپتال کے ایم ایس ہوا کرتے تھے اور ہمارے اخبار (ہلال پاکستان) میں ''مرض اور علاج ''کے عنوان سے کالم لکھا کرتے تھے، محمد موسیٰ کا تفصیلی طبی معائنہ کرنے کے بعد فرمایا انھیں کوئی بیماری نہیں ہے، کام کی زیادتی کی وجہ سے تھک گئے ہیں،کچھ دن آرام کریں گے تو ٹھیک ہوجائیں گے۔
ہم آنے لگے تو انھوں نے مجھے اس وقت آواز دے کر واپس بلایا جب محمد موسیٰ کمرے سے باہر نکل چکے تھے اور کہا کہ ان کے پاس وقت بالکل نہیں ہے، جتنی جلدی ہوسکے انھیں ان کی فیملی کے پاس پہنچا دو۔ یہ میرے لیے بڑا مشکل مرحلہ تھا، ایک لڑکا جو ان کا بھانجا یا بھتیجا تھا اور رکشہ چلاتا تھا، ان کے ساتھ رہتا تھا، ہم واپس آئے تو وہ موجود تھا، محمد موسیٰ نے اسے مجھے گھر چھوڑ آنے کے لیے کہا، باہر آکر میں نے اس کو اعتماد میں لے کر ڈاکٹر کی کہی ہوئی بات بتائی۔ لڑکا ہوشیار تھا، فوراً معاملے کی سنگینی کو سمجھ گیا، اس نے کوئی کار کرائے پر لی اور بہانے سے محمد موسیٰ کو حیدرآباد لے گیا جہاں فرشتہ اجل پہلے سے ان کا منتظر تھا، اگلے روز ہمیں یہاں ان کے انتقال کی خبر ملی ۔
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا