حسن ناصر امر ہے

سامراجی اور ان کے آلہ کاروں نے سمجھا تھا کہ حسن ناصر کو قتل کرکے کمیونسٹ تحریک کو روکا جاسکتا ہے، یہ ان کی بھول تھی۔

zb0322-2284142@gmail.com

کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے رہنما سید حسن ناصر کو ایوبی آ مریت میں 13 نومبر1960ء میں لاہور کے شاہی قلعے میں شدید جسمانی اذیت دے کر قتل کردیا گیا، جب کہ حکمرانوں نے خودکشی کا ڈھونگ رچایا۔ جیل حکام کا کہنا تھا کہ انھوں نے ازار بند کھونٹی سے باندھ کر خودکشی کی ۔کھونٹی پانچ فٹ کی اونچائی پر واقع تھی جب کہ حسن ناصر دارز قد یعنی چھ فٹ کے تھے۔ ان کے مقد مے کی پیروی مزدورکسان پارٹی کے رہنما میجر اسحاق نے کی تھی۔

اس زمانے میں کمیونسٹوں کے خلاف فوجی آمروں نے اتنی دہشت پھیلا رکھی تھی کہ بہت کم لوگ جرات کر پاتے تھے، اس صورتحال میں میجر اسحاق کا بہادری اور جرات مندی سے مقدمہ لڑنا ایک بہت بڑی ہمت کی بات تھی۔ اس لیے بھی کہ کمیونسٹ پارٹی کے تمام لوگ زیر زمین چلے گئے تھے۔ آخرکار وہی ہوا کہ ڈھاک کے تین پات۔ قاتل پکڑے گئے اور نہ انھیں آج تک کوئی سزا ہوئی یہاں تک کہ یہ بھی پتہ نہیں چل سکا کہ کون قاتل تھا۔ یہ سب کو پتہ تھا اور حکومت نے بھی تسلیم کیا تھا کہ انھیں گرفتارکرکے لاہور کے قلعے میں منتقل کیا تھا۔ پہلی اطلاع مال روڈ پر ٹہلتے ہوئے فیض احمدٖ ٖفیضؔ کو ملی تھی۔ جنھوں نے خود بھی چند روز قبل قید سے رہائی پائی تھی اور ان کی رہائی کے بعد ایک اور قیدی جو لاہورکے شاہی قلعے میں قید تھا اپنی رہائی کے بعد فیض کو بتایا کہ قلعہ میں ایک قیدی فوت ہوگیا ہے۔ یہ خبر سنتے ہی فیض احمد فیض کو یہ یقین ہوگیا کہ وہ قیدی حسن ناصر ہی ہوگا۔ یہ بات انھوں نے میجر اسحاق کو بتائی۔

حسن ناصر 23 سال کی عمر میں آندھرا پردیش سے1948ء میں اپنے ماموں مہدی حسن کے ہمراہ کراچی آئے۔ وہ آندھرا پردیش میں ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس لیگ کے صدر ہوا کرتے تھے۔ان کے ماموں انھیں کیمبریج میں پڑھنے کے لیے لندن بھیج رہے تھے، مگر حسن ناصر نے یہ کہہ کر جانے سے منع کر دیا کہ وہ محنت کشوں کی یونیورسٹی میں پڑھنا چاہتے ہیں۔ آخر ایسا ہی ہوا وہ لا نڈھی کورنگی اور سائٹ کے علاقے میں ہی زیادہ پائے جاتے تھے، وہاں مزدوروں کے ساتھ جدوجہد میں مصروف عمل ہوتے تھے۔ لانڈھی کے ایک مزدورکارکن لالہ واجد خان کہتے ہیں کہ حسن ناصر مجھے نیپ کے لیٹریچر دے کر جایا کرتے تھے اور لٹریچر میں سرخ رنگ کی ایک دوکتابیں ہوا کرتی تھیں اور وہ کتابیں کمیونزم کے بارے میں ہوتی تھیں۔

حسن ناصرکا لانڈھی ہڈی مل، ماچس فیکٹری،گنیش کھوپرا مل لیاری اور ڈالمیہ سیمنٹ فیکٹری میں زیادہ آنا جانا ہوا کرتا تھا ۔ وہ آٹھ آنے کا کورٹ اور چار آنے کی لنڈے کی پینٹ پہنتے تھے جب کہ وہ برصغیر کے سب سے بڑے جاگیردار نواب محسن الملک کے نواسے تھے۔ انھوں نے اپنے جاگیردارانہ سماجی رشتے سے بغاوت کی اور مزدور طبقے سے ناتا جوڑ لیا اور ایسا جوڑا کہ انھیں کے ہولیے۔ مقدمے کے دوران عدالت کے حکم پر ان کی والدہ کو آندھرا پردیش سے بلا کر قبرکشائی کرکے حسن ناصر کی جعلی لاش دکھائی گئی، جسے دیکھ کر ان کی والدہ نے کہا کہ ''یہ میرا بیٹا نہیں ہے، میں اس کے بال اور انگوٹھے دیکھ کر سمجھ گئی'' حسن ناصرکی والدہ محترمہ زہرہ نے کہا تھا کہ ''میں کافی دنوں سے اپنے بیٹے کے لیے پریشان رہتی تھی، بڑی سختی سے برداشت بھی کرتی تھی۔


اس لیے کہ میرا بیٹا ایک عظیم مقصد کے لیے جدوجہد کررہا ہے، آخرکار وہ سخت گھڑی آہی گئی'' حسن ناصرکی والدہ ترقی پسند خیالات کی مالک تھیں۔ حسن ناصر دنیا کے ان شہیدوں میں سے ہیں جو محنت کش عوام، پیداواری قوتیں اور شہریوں کے حقوق کے لیے تادم مرگ جدوجہد کرتے رہے اور اسی جدوجہد میں اپنی جان بھی قربان کردی۔ حسن ناصر شہید ہوکر اپنے آپ کو چی گویرا، ڈاکٹر آئیدیِ، بھگت سنگھ، راج گرو، آزاد، جیولیس فیوچک اور پاؤلو نرودا کی صف میں لا کھڑا کیا ہے۔ اب وہ ہم میں جسمانی طور پر نہیں ہیں لیکن ان کے افکار، خیالات، اور اعمال ہم سب کے لیے مشعل راہ ہیں۔ حسن ناصرکی شہادت کا ذکرکرتے ہو ئے نذیر عباسی، ڈاکٹر تاج اور مشال خان کو ہمیں ضرورخراج عقیدت پیش کرنا چاہیے۔ سامراجی اور ان کے آلہ کاروں نے سمجھا تھا کہ حسن ناصر کو قتل کرکے کمیونسٹ تحریک کو روکا جاسکتا ہے، یہ ان کی بھول تھی۔

آج دنیا بھر میں کمیونسٹ تحریک تیزی سے آ گے بڑھ رہی ہے۔امریکا کے حزب اختلاف کے رہنما برنی سینڈرز اور برطانیہ کے حزب اختلاف کے رہنما جیمری کوربون نے اپنے الگ الگ بیانات میں کرپشن کے الزام پر ملکہ برطانیہ کو عوام سے معافی مانگنے اور اس کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ نیپال،کیرالا اورتری پورہ میں کمیونسٹ پارٹیوں کی حکومتیں قائم ہوئی ہیں۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے کال پر 2016ء میں 17کروڑ عوام نے ہڑتال میں حصہ لیا۔ حال ہی میں سوچی، روس میں سامراج مخالف، انقلابیوں، کمیونسٹوں، فاشسٹ مخالفین اورمذہبی دہشتگرد مخالف نوجوانوں اورطلبہ کا عظیم الشان اجتماع ہوا جس میں 150ملکوں سے 20000 سے زائد نوجوانوں نے شرکت کی، جس میں ڈی ایس ایف کے وفد نے پاکستان کی نمایندگی کی۔ جنوبی امریکا کے بیشتر ملکوں میں سوشلسٹوں کی حکمرانی ہے۔

سوشلسٹ کوریا امریکی جارحیت کے خلاف ڈٹ گیا ہے اور جو ٹرمپ کل تک سوشلسٹ کوریا پر حملے کی دھمکی دے رہے تھے، آج مذاکرات پر آمادہ ہیں۔ حسن ناصر جس شہر میں رہتے تھے پا کستان،کراچی میں پاک کوریا سالیڈریٹی کمیٹی کی جانب سے زبردست احتجاجی مظاہرہ ہوا جسے سی این این، بی بی سی، جیو اور سماء نے دکھایا بھی۔ یورپی ممالک میں کمیونسٹ تحریک ہر جگہ جاری ہے، خاص کر اسپین، یو نان، پرتگال، اٹلی، فرانس اور جرمنی میں۔کردستان اورکیٹالونیہ میں کمیونسٹ سرگرم عمل ہیں۔ حسن ناصر جس صوبے کے ہندوستان میں طلبہ رہنما تھے وہاں کی تیسری بڑی پارٹی کمیونسٹ پارٹی ہے۔

حال ہی میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کی جانب سے حیدرآباد میں اکتوبر سوشلسٹ انقلاب کی صد سالہ تقریبات کے سلسلے میں ممتاز مرزا ہال میں زبردست جلسہ ہوا جس میں یونان کی کمیونسٹ پارٹی کے رہنما جارج میرینوس نے بھی خطاب کیا۔
Load Next Story