فنڈز نہ ملنے سے سندھ میں وفاقی ترقیاتی منصوبے سست روی کا شکار
لیاری ایکسپریس وے 500 ملین، سپارکو منصوبہ 200 ملین اور سی پیک سیکیورٹی کے لیے رہائشی منصوبہ 41 ملین روپے کا منتظر
ISLAMABAD:
صوبائی حکومت کے بعد وفاقی حکومت کے تحت سندھ میں چلنے والے سالانہ پبلک سیکٹرڈیولپمنٹ پروگرام کے منصوبوں پر بھی کوئی اہم پیشرفت نہ ہو سکی۔
اعداد و شمار کے مطابق بجٹ میں شامل وفاقی یونیورسٹی حیدرآباد کے لیے رواں مالی سال میں 200 ملین روپے مختص کیے گئے مگر پہلی سہ ماہی میں کوئی فنڈز جاری نہیں ہوئے اسی طرح بینظیربھٹو یونیورسٹی بینظیر آباد کے لیے 150 ملین روپے میں سے پہلی سہ ماہی میں کوئی رقم جاری نہیں ہوئی۔
زرعی یونیورسٹی ٹنڈوجام کے لیے 120 ملین روپے جاری ہوئے جبکہ سندھ یونیورسٹی جامشورو میں درس وتدریس کوموثر بنانے کے منصوبے کے 130 ملین روپے جاری ہی نہیں ہوئے۔ وفاقی وزارت داخلہ کا منصوبہ سی پیک سیکیورٹی کیلیے رہائشی منصوبہ 41 ملین روپے کا منتظرہے۔
وفاقی وزارت پیٹرولیم کے تحت جاری منصوبے کے تحت بدین میںکوئلے کی تلاش کے لیے 37 ملین جاری نہیں ہوئے۔ سندھ میں ریلوے کے اثاثوں ،ریلوے اسٹیشنزکی بحالی وبہتری کا پروجیکٹ 850 ملین روپے کا ہے تاہم اس کے لیے ایک روپیہ بھی پہلی سہ ماہی میں جاری نہیں ہوا۔ وفاقی ترقیاتی پروگرام میں شامل سپارکوکا منصوبہ پاکستان ملٹی مشن سیٹلائٹ کی فزیبلٹی کے لیے 200ملین روپے جاری نہیں کیے گئے۔
وفاقی حکومت کے گرین لائن میٹرو بس منصوبے کے لیے رواں مالی سال کے وفاقی بجٹ میں 13 ہزار ملین روپے مختص کیے گئے ہیں اور 3 ماہ کے دوران صرف 2600 ملین روپے جاری کیے جاسکے۔ رواں سال میں لیاری ایکسپریس وے کے لیے مختص 500 ملین میں سے تاحال کوئی رقم جاری نہیں ہوئی۔
اسی طرح 136 کلومیٹر طویل کراچی حیدرآباد موٹروے منصوبے کے لیے ایک ہزار ملین روپے مختص کیے گئے تاہم وفاقی وزارت خزانہ نے پہلی سہ ماہی میں کوئی رقم جاری نہیں کی۔ اعداد و شمار کے مطابق کراچی شپ یارڈ انجینئرنگ کی اپ گریڈیشن کے لیے150ملین روپے جاری نہیں ہوئے۔
کراچی میں نکاسی آب کے میگا منصوبے ایس تھری کے لیے رواں مالی سال کے وفاقی بجٹ میں مختص 1500ملین روپے میں سے بھی کوئی رقم جاری نہیں ہوئی۔کراچی میں پانی کی فراہمی کے منصوبے کے فورکے لیے وفاقی حکومت نے بجٹ میں 9555 ملین روپے مختص کیے مگرمالی سال کی پہلی سہ ماہی میں تاحال کوئی رقم جاری نہیں ہوئی۔سندھ کی جامعات میں ریسرچ کے شعبے کے لیے مختص فنڈز بھی جاری نہیں ہوئے۔
صوبائی حکومت کے بعد وفاقی حکومت کے تحت سندھ میں چلنے والے سالانہ پبلک سیکٹرڈیولپمنٹ پروگرام کے منصوبوں پر بھی کوئی اہم پیشرفت نہ ہو سکی۔
اعداد و شمار کے مطابق بجٹ میں شامل وفاقی یونیورسٹی حیدرآباد کے لیے رواں مالی سال میں 200 ملین روپے مختص کیے گئے مگر پہلی سہ ماہی میں کوئی فنڈز جاری نہیں ہوئے اسی طرح بینظیربھٹو یونیورسٹی بینظیر آباد کے لیے 150 ملین روپے میں سے پہلی سہ ماہی میں کوئی رقم جاری نہیں ہوئی۔
زرعی یونیورسٹی ٹنڈوجام کے لیے 120 ملین روپے جاری ہوئے جبکہ سندھ یونیورسٹی جامشورو میں درس وتدریس کوموثر بنانے کے منصوبے کے 130 ملین روپے جاری ہی نہیں ہوئے۔ وفاقی وزارت داخلہ کا منصوبہ سی پیک سیکیورٹی کیلیے رہائشی منصوبہ 41 ملین روپے کا منتظرہے۔
وفاقی وزارت پیٹرولیم کے تحت جاری منصوبے کے تحت بدین میںکوئلے کی تلاش کے لیے 37 ملین جاری نہیں ہوئے۔ سندھ میں ریلوے کے اثاثوں ،ریلوے اسٹیشنزکی بحالی وبہتری کا پروجیکٹ 850 ملین روپے کا ہے تاہم اس کے لیے ایک روپیہ بھی پہلی سہ ماہی میں جاری نہیں ہوا۔ وفاقی ترقیاتی پروگرام میں شامل سپارکوکا منصوبہ پاکستان ملٹی مشن سیٹلائٹ کی فزیبلٹی کے لیے 200ملین روپے جاری نہیں کیے گئے۔
وفاقی حکومت کے گرین لائن میٹرو بس منصوبے کے لیے رواں مالی سال کے وفاقی بجٹ میں 13 ہزار ملین روپے مختص کیے گئے ہیں اور 3 ماہ کے دوران صرف 2600 ملین روپے جاری کیے جاسکے۔ رواں سال میں لیاری ایکسپریس وے کے لیے مختص 500 ملین میں سے تاحال کوئی رقم جاری نہیں ہوئی۔
اسی طرح 136 کلومیٹر طویل کراچی حیدرآباد موٹروے منصوبے کے لیے ایک ہزار ملین روپے مختص کیے گئے تاہم وفاقی وزارت خزانہ نے پہلی سہ ماہی میں کوئی رقم جاری نہیں کی۔ اعداد و شمار کے مطابق کراچی شپ یارڈ انجینئرنگ کی اپ گریڈیشن کے لیے150ملین روپے جاری نہیں ہوئے۔
کراچی میں نکاسی آب کے میگا منصوبے ایس تھری کے لیے رواں مالی سال کے وفاقی بجٹ میں مختص 1500ملین روپے میں سے بھی کوئی رقم جاری نہیں ہوئی۔کراچی میں پانی کی فراہمی کے منصوبے کے فورکے لیے وفاقی حکومت نے بجٹ میں 9555 ملین روپے مختص کیے مگرمالی سال کی پہلی سہ ماہی میں تاحال کوئی رقم جاری نہیں ہوئی۔سندھ کی جامعات میں ریسرچ کے شعبے کے لیے مختص فنڈز بھی جاری نہیں ہوئے۔