عدم برداشت پر قابو پانا بھی ضروری ہے
اگر آج ہم نے عدم برداشت پر قابو نہ پایا تو ہم اپنے ہاتھوں سے خود کو تباہ کرلیں گے۔
بہترین ڈپلومیٹ، بہترین مصور، بہترین آرٹسٹ، معاشرے میں برداشت اور دیگر مضامین پر بین الاقوامی شہرت کے حامل لکھاری اور منفرد فوٹو گرافر 1924 کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ 1942 میں مہاتما گاندھی کی ''بھارت چھوڑدو'' (کوئٹ انڈیا) تحریک کے دوران جیل میں قید ہوئے، 1947 میں دہلی چلے گئے۔ 1953 میں انڈین فارن سروسز میں ملازمت اختیار کی۔ اٹلی، یوگوسلاویہ، یونان، لاؤس، سویڈن، ڈنمارک، اسپین، روس اور جنوبی ویتنام میں خدمات سر انجام دیں۔ 1982 میں یونیسکو کا حصہ بنے۔ مختلف رنگ نسل زبان اور روایات کے حامل معاشروں میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے حوالے سے کتابیں لکھیں۔ زمانہ طالب علمی میں ہی اپنی پہلی کتاب ''Indian Sculpture in Bronze And Stone'' کی وجہ سے دنیا میں شہرت حاصل کی۔
اس کتاب میں آرٹ اور معاشرے میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت پر روشنی ڈالی گئی تھی۔ اس کے علاوہ پوری دنیا میں عدم برداشت اور تشدد کے موضوعات پر لیکچرز دیئے، سیمیناروں کا انعقاد کیا۔ ساری زندگی عدم برداشت کے خاتمے اور امن کے قیام کےلیے وقف کردینے کی بے پناہ خدمات کے اعتراف میں یونیسکو کے ایگزیکٹیو بورڈ نے 1995 میں ان کے نام سے ایک نئے ایوارڈ کا اجراء کیا۔ ''یونیسکو مدنجیت سنگھ پرائز فار دی پروموشن آف ٹولیرینس اینڈ نان وائلینس'' کے نام سے ہر دو سال میں ایک بار دیا جانے والے اس ایوارڈ کی مالیت ایک لاکھ ڈالر ہے اور یہ عدم برداشت کے خاتمے کے لیے کام کرنے والوں کو ان کی گراں قدر خدمات کے اعتراف میں دیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں 2000 میں یونیسکو کے ''عالمی یومِ برداشت'' (International Day of Tolerance) کےلیے انہیں خیرسگالی سفیر (Goodwill Ambassador) مقرر کیا گیا اور یہ اعزاز 2013 میں ان کی وفات تک انہی کے پاس رہا۔
جی ہاں! آپ اب تک جان چکے ہوں گے کہ یہ عدم برداشت اور تشدد کے خاتمے کے بین الا قوامی سفیر اور ''پوسٹر بوائے'' جناب مدنجیت سنگھ کی زندگی کا مختصر خاکہ ہے۔ مدنجیت کے مطابق عدم برداشت کا مطلب صرف روایتی یا لسانی عدم برداشت نہیں بلکہ پوری دنیا میں وسائل کی تقسیم کے حوالے سے بھی جو عدم برداشت پائی جاتی ہے، اس کا خاتمہ بھی مدنجیت سنگھ کی زندگی کا مقصد تھا۔ اس مقصد کےلیے انھوں نے 2000 میں ''ساؤتھ ایشیا فاؤنڈیشن'' قائم کی جو آج آٹھ سارک ممالک تک پھیل چکی ہے؛ اور اقوام متحدہ کے اشتراک سے تعلیم، صحت، صاف پانی اور دیگر بنیادی وسائل کی فراہمی کو یقینی بنارہی ہے تاکہ وسائل کی فراہمی سے عدم برداشت اور تشدد جیسے واقعات پر قابو پایا جاسکے کیونکہ حقیقت یہی ہے کہ جن ممالک میں وسائل زیادہ ہیں وہاں عدم برداشت کے واقعات بھی کم ہیں جبکہ جن ممالک میں وسائل کی کمی ہے، وہاں غربت و افلاس نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں جبکہ عدم برداشت اور تشدد کے واقعات بھی وہاں زیادہ ہیں۔
آپ پاکستان ہی کی مثال لے لیجیے۔ یہاں ڈپریشن، ذیابیطس، ہیپاٹائٹس، ہارٹ اٹیک سمیت بہت سی ایسی بیماریاں پائی جاتی ہیں جن کے علاج کےلیے اربوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں۔ ان میں سب سے بڑی بیماری عدم برداشت ہے، مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے نے آج تک اسے بیماری سمجھا ہی نہیں حالانکہ یہی بیماری تمام بیماریوں کی جڑ ہے۔
عدم برداشت بے چینی کی ایسی کیفیت ہے جو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو ختم کر دیتی ہے۔ خطرے کی بات یہ ہے کہ اس کا گراف کم ہونے کے بجائے روز بروز بڑھ رہا ہے۔ کامیاب ممالک میں بھی یہ بیماری موجود ہے لیکن یا تو اس کی شدت بہت کم ہے یا پھر اس حد تک ہے جو آسانی سے کنٹرول کی جاسکے۔
پاکستان میں ہم کس قسم کی عدم برداشت کا شکار ہیں؟ اسے سمجھنے کےلیے وسائل سے ہٹ کر تصویر کے دوسرے رخ کی جانب بھی دیکھنا ہوگا۔ عدم برداشت کے رویّے کا سامنا ہم آئے روز اپنی سڑکوں پر کرتے ہیں جہاں کوئی بھی شخص دوسرے شخص کو راستہ تک دینے کو تیار نظر نہیں آتا۔ جب کوئی حادثہ پیش آجائے تو مسئلے کے حل کی طرف جانے کے بجائے ہم ایک دوسرے کے گریبان پھاڑنے اور جانوروں کی طرح دھاڑنے لگ جاتے ہیں۔ ہم چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر نوکروں کو بری طرح پیٹنے لگتے ہیں۔ اپنی مرضی کا فیصلہ نہ آنے پر وکیل کمرہ عدالت میں جج تک کو پھینٹی لگا دیتا ہے۔
اپنے چھوٹے چھوٹے مطالبات منوانے کےلیے ڈاکٹر حضرات مریضوں کو بستر مرگ پر چھوڑ کر اسپتال بند کر دیتے ہیں اور خود غرضی کی وہ مثال قائم کرتے ہیں جس کی نظیر پوری دنیا میں نہیں ملتی۔ ٹیچرز ہوم ورک نہ کرنے اور اسکول وقت پر نہ آنے پر گونگے بہرے بچوں کو الٹا لٹکا دیتے ہیں۔ لوڈ شیڈنگ کے خلاف احتجاج کے دوران ہم املاک کو جلا کر اپنے ملک کی معیشت کو نقصان پہنچا دیتے ہیں۔ ایک گز زمین کےلیے بیٹا باپ کو قتل کر دیتا ہے۔ شادی کے کھانے میں نمک زیادہ ہونے پر دولہا بارات لے کر واپس چلا جاتا ہے۔ موروثی جائیداد میں بہنوں کے حق مانگنے پر برسوں کا تعلق ایک لمحے میں ختم کر دیا جاتا ہے۔ کسی بھی معاملے میں معمولی سا اختلافِ رائے چند ہی لمحوں میں گالم گلوچ اور مار پیٹ میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
عدم برداشت کی اس بیماری نے عوام کے ساتھ ساتھ حکمرانوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اپوزیشن جماعت حکومتی جماعت کو ایک لمحے کےلیے برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ حکومتی پارٹی کوئی بھی اچھا کام کرلے لیکن اپوزیشن پارٹی اسے اس کام کا کریڈٹ دینے کو تیار نہیں۔ اس رویّے کی بدولت ملک میں منفی سیاست پروان چڑھ رہی ہے اور اپوزیشن جماعتیں ملک کی بہتری کےلیے کوئی اقدام کرنے کے بجائے حکومت کی ٹانگیں کھینچنے میں مصروف رہی ہیں۔
آپ سقوط ڈھاکہ ہی کی مثال لے لیجیے۔ سقوط ڈھاکہ میں جتنا قصور بھارت کا ہے اس سے کہیں زیادہ قصور ہماری سیاسی جماعتوں میں عدم برداشت کا ہے کیونکہ الیکشن کے بعد اگر اکثریت شیخ مجیب کی تھی تو ذوالفقار علی بھٹو کو ان کی برتری کھلے دل سے تسلیم کرلینی چاہیے تھی اور حکومت ان کے حوالے کرنی چاہیے تھی۔ لیکن اس کے برعکس ذوالفقار علی بھٹو نے عدم برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ''اُدھر تم اِدھر ہم'' کا نعرہ بلند کر دیا جس کے نتیجے میں پاکستان دوٹکڑے ہوگیا۔
جب بے نظیر بھٹو کی حکومت بنی تو وہ نواز شریف کےلیے ناقابل برداشت تھیں، اور جب نواز شریف کی حکومت بنی تو وہ بے نظیر بھٹو کےلیے ناقابل برداشت رہے۔ جب آصف علی زرداری کی حکومت بنی تو میاں نواز شریف اسے گرانے کےلیے لانگ مارچ پر نکل پڑے، اور جب سے نواز شریف کی حکومت بنی ہے تو عمران خان کےلیے انہیں برداشت کرنا انتہائی مشکل نظر آرہا ہے۔
یہ سب کیا ہے؟ یہ سب دراصل مخالفت برائے مخالفت ہے اور مخالفت در مخالفت ہے۔ یہ وہ منفی رویّے ہیں جو عدم برداشت کی پیداوار ہیں۔ اس کے برعکس بھارتی سیاسی نظام میں عدم برداشت خاصی حد تک کم ہوچکی ہے۔ جو پارٹی ایک مرتبہ اقتدار میں آجائے، اپوزیشن پارٹی اسے کھلے دل سے پانچ سال تک برداشت کرتی ہے؛ اور اسی برداشت کی وجہ سے بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا بھرم قائم رکھے ہوئے ہے۔
لہذا اگر آگے بڑھنا ہے تو ہمیں ہر قسم کی عدم برداشت پر قابو پانا ہو گا۔ اگر آج ہم نے ایسا نہ کیا تو ہماری تباہی کےلیے دشمن کومحنت نہیں کرنا پڑے گی بلکہ ہم خود اپنے ہاتھوں سے خود کو تباہ کرلیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اس کتاب میں آرٹ اور معاشرے میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت پر روشنی ڈالی گئی تھی۔ اس کے علاوہ پوری دنیا میں عدم برداشت اور تشدد کے موضوعات پر لیکچرز دیئے، سیمیناروں کا انعقاد کیا۔ ساری زندگی عدم برداشت کے خاتمے اور امن کے قیام کےلیے وقف کردینے کی بے پناہ خدمات کے اعتراف میں یونیسکو کے ایگزیکٹیو بورڈ نے 1995 میں ان کے نام سے ایک نئے ایوارڈ کا اجراء کیا۔ ''یونیسکو مدنجیت سنگھ پرائز فار دی پروموشن آف ٹولیرینس اینڈ نان وائلینس'' کے نام سے ہر دو سال میں ایک بار دیا جانے والے اس ایوارڈ کی مالیت ایک لاکھ ڈالر ہے اور یہ عدم برداشت کے خاتمے کے لیے کام کرنے والوں کو ان کی گراں قدر خدمات کے اعتراف میں دیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں 2000 میں یونیسکو کے ''عالمی یومِ برداشت'' (International Day of Tolerance) کےلیے انہیں خیرسگالی سفیر (Goodwill Ambassador) مقرر کیا گیا اور یہ اعزاز 2013 میں ان کی وفات تک انہی کے پاس رہا۔
جی ہاں! آپ اب تک جان چکے ہوں گے کہ یہ عدم برداشت اور تشدد کے خاتمے کے بین الا قوامی سفیر اور ''پوسٹر بوائے'' جناب مدنجیت سنگھ کی زندگی کا مختصر خاکہ ہے۔ مدنجیت کے مطابق عدم برداشت کا مطلب صرف روایتی یا لسانی عدم برداشت نہیں بلکہ پوری دنیا میں وسائل کی تقسیم کے حوالے سے بھی جو عدم برداشت پائی جاتی ہے، اس کا خاتمہ بھی مدنجیت سنگھ کی زندگی کا مقصد تھا۔ اس مقصد کےلیے انھوں نے 2000 میں ''ساؤتھ ایشیا فاؤنڈیشن'' قائم کی جو آج آٹھ سارک ممالک تک پھیل چکی ہے؛ اور اقوام متحدہ کے اشتراک سے تعلیم، صحت، صاف پانی اور دیگر بنیادی وسائل کی فراہمی کو یقینی بنارہی ہے تاکہ وسائل کی فراہمی سے عدم برداشت اور تشدد جیسے واقعات پر قابو پایا جاسکے کیونکہ حقیقت یہی ہے کہ جن ممالک میں وسائل زیادہ ہیں وہاں عدم برداشت کے واقعات بھی کم ہیں جبکہ جن ممالک میں وسائل کی کمی ہے، وہاں غربت و افلاس نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں جبکہ عدم برداشت اور تشدد کے واقعات بھی وہاں زیادہ ہیں۔
آپ پاکستان ہی کی مثال لے لیجیے۔ یہاں ڈپریشن، ذیابیطس، ہیپاٹائٹس، ہارٹ اٹیک سمیت بہت سی ایسی بیماریاں پائی جاتی ہیں جن کے علاج کےلیے اربوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں۔ ان میں سب سے بڑی بیماری عدم برداشت ہے، مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے نے آج تک اسے بیماری سمجھا ہی نہیں حالانکہ یہی بیماری تمام بیماریوں کی جڑ ہے۔
عدم برداشت بے چینی کی ایسی کیفیت ہے جو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو ختم کر دیتی ہے۔ خطرے کی بات یہ ہے کہ اس کا گراف کم ہونے کے بجائے روز بروز بڑھ رہا ہے۔ کامیاب ممالک میں بھی یہ بیماری موجود ہے لیکن یا تو اس کی شدت بہت کم ہے یا پھر اس حد تک ہے جو آسانی سے کنٹرول کی جاسکے۔
پاکستان میں ہم کس قسم کی عدم برداشت کا شکار ہیں؟ اسے سمجھنے کےلیے وسائل سے ہٹ کر تصویر کے دوسرے رخ کی جانب بھی دیکھنا ہوگا۔ عدم برداشت کے رویّے کا سامنا ہم آئے روز اپنی سڑکوں پر کرتے ہیں جہاں کوئی بھی شخص دوسرے شخص کو راستہ تک دینے کو تیار نظر نہیں آتا۔ جب کوئی حادثہ پیش آجائے تو مسئلے کے حل کی طرف جانے کے بجائے ہم ایک دوسرے کے گریبان پھاڑنے اور جانوروں کی طرح دھاڑنے لگ جاتے ہیں۔ ہم چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر نوکروں کو بری طرح پیٹنے لگتے ہیں۔ اپنی مرضی کا فیصلہ نہ آنے پر وکیل کمرہ عدالت میں جج تک کو پھینٹی لگا دیتا ہے۔
اپنے چھوٹے چھوٹے مطالبات منوانے کےلیے ڈاکٹر حضرات مریضوں کو بستر مرگ پر چھوڑ کر اسپتال بند کر دیتے ہیں اور خود غرضی کی وہ مثال قائم کرتے ہیں جس کی نظیر پوری دنیا میں نہیں ملتی۔ ٹیچرز ہوم ورک نہ کرنے اور اسکول وقت پر نہ آنے پر گونگے بہرے بچوں کو الٹا لٹکا دیتے ہیں۔ لوڈ شیڈنگ کے خلاف احتجاج کے دوران ہم املاک کو جلا کر اپنے ملک کی معیشت کو نقصان پہنچا دیتے ہیں۔ ایک گز زمین کےلیے بیٹا باپ کو قتل کر دیتا ہے۔ شادی کے کھانے میں نمک زیادہ ہونے پر دولہا بارات لے کر واپس چلا جاتا ہے۔ موروثی جائیداد میں بہنوں کے حق مانگنے پر برسوں کا تعلق ایک لمحے میں ختم کر دیا جاتا ہے۔ کسی بھی معاملے میں معمولی سا اختلافِ رائے چند ہی لمحوں میں گالم گلوچ اور مار پیٹ میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
عدم برداشت کی اس بیماری نے عوام کے ساتھ ساتھ حکمرانوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اپوزیشن جماعت حکومتی جماعت کو ایک لمحے کےلیے برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ حکومتی پارٹی کوئی بھی اچھا کام کرلے لیکن اپوزیشن پارٹی اسے اس کام کا کریڈٹ دینے کو تیار نہیں۔ اس رویّے کی بدولت ملک میں منفی سیاست پروان چڑھ رہی ہے اور اپوزیشن جماعتیں ملک کی بہتری کےلیے کوئی اقدام کرنے کے بجائے حکومت کی ٹانگیں کھینچنے میں مصروف رہی ہیں۔
آپ سقوط ڈھاکہ ہی کی مثال لے لیجیے۔ سقوط ڈھاکہ میں جتنا قصور بھارت کا ہے اس سے کہیں زیادہ قصور ہماری سیاسی جماعتوں میں عدم برداشت کا ہے کیونکہ الیکشن کے بعد اگر اکثریت شیخ مجیب کی تھی تو ذوالفقار علی بھٹو کو ان کی برتری کھلے دل سے تسلیم کرلینی چاہیے تھی اور حکومت ان کے حوالے کرنی چاہیے تھی۔ لیکن اس کے برعکس ذوالفقار علی بھٹو نے عدم برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ''اُدھر تم اِدھر ہم'' کا نعرہ بلند کر دیا جس کے نتیجے میں پاکستان دوٹکڑے ہوگیا۔
جب بے نظیر بھٹو کی حکومت بنی تو وہ نواز شریف کےلیے ناقابل برداشت تھیں، اور جب نواز شریف کی حکومت بنی تو وہ بے نظیر بھٹو کےلیے ناقابل برداشت رہے۔ جب آصف علی زرداری کی حکومت بنی تو میاں نواز شریف اسے گرانے کےلیے لانگ مارچ پر نکل پڑے، اور جب سے نواز شریف کی حکومت بنی ہے تو عمران خان کےلیے انہیں برداشت کرنا انتہائی مشکل نظر آرہا ہے۔
یہ سب کیا ہے؟ یہ سب دراصل مخالفت برائے مخالفت ہے اور مخالفت در مخالفت ہے۔ یہ وہ منفی رویّے ہیں جو عدم برداشت کی پیداوار ہیں۔ اس کے برعکس بھارتی سیاسی نظام میں عدم برداشت خاصی حد تک کم ہوچکی ہے۔ جو پارٹی ایک مرتبہ اقتدار میں آجائے، اپوزیشن پارٹی اسے کھلے دل سے پانچ سال تک برداشت کرتی ہے؛ اور اسی برداشت کی وجہ سے بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا بھرم قائم رکھے ہوئے ہے۔
لہذا اگر آگے بڑھنا ہے تو ہمیں ہر قسم کی عدم برداشت پر قابو پانا ہو گا۔ اگر آج ہم نے ایسا نہ کیا تو ہماری تباہی کےلیے دشمن کومحنت نہیں کرنا پڑے گی بلکہ ہم خود اپنے ہاتھوں سے خود کو تباہ کرلیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔